وَ لَئِنۡ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَۃً ثُمَّ نَزَعۡنٰہَا مِنۡہُ ۚ اِنَّہٗ لَیَـُٔوۡسٌ کَفُوۡرٌ ﴿۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور یقینا اگر ہم انسان کو اپنی طرف سے کوئی رحمت چکھائیں، پھر اسے اس سے چھین لیں تو بے شک وہ یقینا نہایت نا امید، بے حد ناشکرا ہوتا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اگر ہم انسان کو اپنے پاس سے نعمت بخشیں پھر اس سے اس کو چھین لیں تو ناامید (اور) ناشکرا (ہوجاتا) ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور اگر ہم انسان کو اپنی کسی نعمت کا ذائقہ چکھا کر پھر اسے اس سے لے لیں تو وه بہت ہی ناامید اور بڑا ہی ناشکرا بن جاتا ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 9) {وَ لَىِٕنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً …:} یعنی انسان میں یہ کمزوری ہے کہ کوئی رحمت صرف چکھنے کے بعد، یعنی تھوڑی سی نعمت صرف کچھ دیر کے لیے ملنے کے بعد چھن جائے تو اللہ تعالیٰ کی ساری نعمتیں اس طرح بھولتا ہے کہ آئندہ کے لیے اس کی تمام نعمتوں سے نہایت ناامید ہو جاتا ہے اور گزشتہ اور موجودہ کوئی نعمت اسے یاد ہی نہیں رہتی۔ یہی اس کی ناشکری اور نعمت کا انکار ہے۔ شوکانی نے فرمایا کہ {” اَذَقْنَا “} کے لفظ سے ادنیٰ سے ادنیٰ نعمت تھوڑی سی مدت کے لیے ملنا واضح ہو رہا ہے۔