ترجمہ و تفسیر احسن البیان (صلاح الدین یوسف) — سورۃ التوبة (9) — آیت 6
وَ اِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ اسۡتَجَارَکَ فَاَجِرۡہُ حَتّٰی یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبۡلِغۡہُ مَاۡمَنَہٗ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَوۡمٌ لَّا یَعۡلَمُوۡنَ ٪﴿۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دے، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے، پھر اسے اس کی امن کی جگہ پر پہنچا دے۔ یہ اس لیے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو علم نہیں رکھتے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ کلام خدا سننے لگے پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچادو۔ اس لیے کہ یہ بےخبر لوگ ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناه طلب کرے تو تو اسے پناه دے دے یہاں تک کہ وه کلام اللہ سن لے پھر اسے اپنی جائے امن تک پہنچا دے۔ یہ اس لئے کہ یہ لوگ بے علم ہیں

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

6۔ 1 اس آیت میں مذکورہ حربی کافروں کے بارے میں ایک رخصت دی گئی ہے کہ اگر کوئی کافر پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو، یعنی اسے اپنی حفظ وامان میں رکھو تاکہ کوئی مسلمان اسے قتل نہ کرسکے اور تاکہ اسے اللہ کی باتیں سننے اور اسلام کے سمجھنے کا موقعہ ملے، ممکن ہے اس طرح اسے توبہ اور قبول اسلام کی توفیق مل جائے۔ لیکن اگر وہ کلام اللہ سننے کے باوجود مسلمان نہیں ہوتا تو اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دو، مطلب یہ ہے کہ اپنی امان کی پاسداری آخر تک کرنی ہے، جب تک وہ اپنے مستقر تک بخیریت واپس نہیں پہنچ جاتا، اس کی جان کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے۔ 6۔ 2 یعنی پناہ کے طلبگاروں کو پناہ کی رخصت اس لئے دی گئی ہے کہ یہ بےعلم لوگ ہیں، ممکن ہے اللہ اور رسول کی باتیں ان کے علم میں آئیں اور مسلمانوں کا اخلاق و کردار وہ دیکھیں تو اسلام کی حقانیت و صداقت کے وہ قائل ہوجائیں۔ اور اسلام قبول کر کے آخرت کے عذاب سے بچ جائیں۔ جس طرح صلح حدیبیہ کے بعد بہت سے کافر امان طلب کر کے مدینہ آتے جاتے رہے تو انہیں مسلمانوں کے اخلاق و کردار کے مشاہدے سے اسلام کے سمجھنے میں بڑی مدد ملی اور بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل