کَیۡفَ یَکُوۡنُ لِلۡمُشۡرِکِیۡنَ عَہۡدٌ عِنۡدَ اللّٰہِ وَ عِنۡدَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَّا الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ عِنۡدَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ۚ فَمَا اسۡتَقَامُوۡا لَکُمۡ فَاسۡتَقِیۡمُوۡا لَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۷﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
ان مشرکوں کا اللہ کے نزدیک اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی عہد کیسے ممکن ہے، سوائے ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس معاہدہ کیا۔ سو جب تک وہ تمھارے لیے پوری طرح قائم رہیں تو تم ان کے لیے پوری طرح قائم رہو۔ بے شک اللہ متقی لوگوں سے محبت کرتا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
بھلا مشرکوں کے لیے (جنہوں نے عہد توڑ ڈالا) خدا اور اس کے رسول کے نزدیک عہد کیونکر (قائم) رہ سکتا ہے ہاں جن لوگوں کے ساتھ تم نے مسجد محترم (یعنی خانہ کعبہ) کے نزدیک عہد کیا ہے اگر وہ (اپنے عہد پر) قائم رہیں تو تم بھی اپنے قول وقرار (پر) قائم رہو۔ بےشک خدا پرہیز گاروں کو دوست رکھتا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
مشرکوں کے لئے عہد اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کیسے ره سکتا ہے سوائے ان کے جن سے تم نے عہد وپیمان مسجد حرام کے پاس کیا ہے، جب تک وه لوگ تم سے معاہده نبھائیں تم بھی ان سے وفاداری کرو، اللہ تعالیٰ متقیوں سے محبت رکھتا ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 7) ➊ { كَيْفَ يَكُوْنُ لِلْمُشْرِكِيْنَ۠ عَهْدٌ …:} یعنی وہ لوگ جو ہیں ہی مشرک، جنھوں نے اپنے خالق کی توحید کا عہد ہی پورا نہیں کیا، ان کی طرف سے کوئی عہد پورا ہونا کیسے ممکن ہے، وہ تو جو عہد کرتے ہیں توڑ ڈالتے ہیں۔
➋ { اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ:} ان سے مراد وہی لوگ ہیں جن کا ذکر پہلے «اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْـًٔا وَّ لَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْۤا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ» [التوبۃ: ۴] میں گزر چکا ہے۔ صلح حدیبیہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش کے درمیان دس سال کے لیے قرار پائی، یہ صلح نامہ چونکہ حدیبیہ کے مقام پر قرار پایا تھا جو حدود حرم کے قریب ہے، اس لیے اسے {” عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ “} فرما دیا۔ (ابن کثیر) مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس عہد پر قائم رہے ان سے قتال مت کرو۔ اس معاہدے میں شرط یہ تھی کہ ایک دوسرے پر حملہ آور نہیں ہوں گے اور نہ دوسرے کے خلاف کسی کی مدد کریں گے۔ اس معاہدے میں بنو خزاعہ مسلمانوں کے ساتھ شامل تھے اور بنو بکر قریش کے حلیف تھے، مگر کچھ عرصہ بعد بنو بکر اور بنو خزاعہ کے درمیان لڑائی چھڑ گئی اور مشرکین نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان ۸ھ کو مکہ پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا۔ (ابن کثیر) ابن جریر طبری نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اس سے مراد بنو بکر کے وہ قبائل ہیں جو صلح حدیبیہ والے اپنے عہد پر قائم رہے اور انھوں نے بنو خزاعہ پر نہ حملہ کیا، نہ اس میں مدد کی، کیونکہ ان آیات کے نزول کے وقت فتح مکہ کو ایک سال گزر چکا تھا، قریش کو ان کی بد عہدی کی سزا بھی مل چکی تھی۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”صلح والے تین قسم فرمائے، ایک جن سے مدت نہیں ٹھہری، ان کو جواب دیا (کہ تم کو چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے) مگر جو مکے کی صلح میں شامل تھے (تو) جب تک وہ دغا نہ کرے، یہ ادب ہے مکہ کا اور تیسرے جن سے مدت ٹھہری وہ صلح قائم رہی، لیکن آخر سب مشرک عرب کے ایمان لائے۔“ (موضح) {”اسْتَقَامُوْا “} میں حروف ”سین“ اور ”تا“ کی زیادتی کی وجہ سے ترجمہ ”پوری طرح قائم رہیں“ کیا گیا ہے۔
➌ {اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ:} اور عہد کا پورا کرنا بھی متقی ہونے کے لیے ضروری شرط ہے۔
➋ { اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ:} ان سے مراد وہی لوگ ہیں جن کا ذکر پہلے «اِلَّا الَّذِيْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ شَيْـًٔا وَّ لَمْ يُظَاهِرُوْا عَلَيْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْۤا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ» [التوبۃ: ۴] میں گزر چکا ہے۔ صلح حدیبیہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار قریش کے درمیان دس سال کے لیے قرار پائی، یہ صلح نامہ چونکہ حدیبیہ کے مقام پر قرار پایا تھا جو حدود حرم کے قریب ہے، اس لیے اسے {” عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ “} فرما دیا۔ (ابن کثیر) مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اس عہد پر قائم رہے ان سے قتال مت کرو۔ اس معاہدے میں شرط یہ تھی کہ ایک دوسرے پر حملہ آور نہیں ہوں گے اور نہ دوسرے کے خلاف کسی کی مدد کریں گے۔ اس معاہدے میں بنو خزاعہ مسلمانوں کے ساتھ شامل تھے اور بنو بکر قریش کے حلیف تھے، مگر کچھ عرصہ بعد بنو بکر اور بنو خزاعہ کے درمیان لڑائی چھڑ گئی اور مشرکین نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی مدد کی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان ۸ھ کو مکہ پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا۔ (ابن کثیر) ابن جریر طبری نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اس سے مراد بنو بکر کے وہ قبائل ہیں جو صلح حدیبیہ والے اپنے عہد پر قائم رہے اور انھوں نے بنو خزاعہ پر نہ حملہ کیا، نہ اس میں مدد کی، کیونکہ ان آیات کے نزول کے وقت فتح مکہ کو ایک سال گزر چکا تھا، قریش کو ان کی بد عہدی کی سزا بھی مل چکی تھی۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”صلح والے تین قسم فرمائے، ایک جن سے مدت نہیں ٹھہری، ان کو جواب دیا (کہ تم کو چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے) مگر جو مکے کی صلح میں شامل تھے (تو) جب تک وہ دغا نہ کرے، یہ ادب ہے مکہ کا اور تیسرے جن سے مدت ٹھہری وہ صلح قائم رہی، لیکن آخر سب مشرک عرب کے ایمان لائے۔“ (موضح) {”اسْتَقَامُوْا “} میں حروف ”سین“ اور ”تا“ کی زیادتی کی وجہ سے ترجمہ ”پوری طرح قائم رہیں“ کیا گیا ہے۔
➌ {اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ:} اور عہد کا پورا کرنا بھی متقی ہونے کے لیے ضروری شرط ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
7۔ 1 یہ استہفام نفی کے لئے ہے، یعنی جن مشرکین سے تمہارا معاہدہ ہے، ان کے علاوہ اب کسی سے معاہدہ باقی نہیں رہا ہے۔ 7۔ 2 یعنی عہد کی پاسداری، اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ امر ہے۔ اس لئے معاملے میں احتیاط ضروری ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
7۔ اللہ اور اس کے رسول کے ہاں مشرکوں کا عہد کیسے (معتبر) ہو سکتا ہے۔ بجز ان لوگوں کے جنہوں نے مسجد حرام کے پاس تم سے عہد کیا تھا۔ تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے [7] رہو۔ اللہ تعالیٰ یقیناً پرہیزگاروں کو پسند کرتا ہے
[7] صلح حدیبیہ اور حلیف قبائل:۔
ان سے مراد وہ تین مشرک قبائل ہیں بنو خزاعہ، بنو کنانہ اور بنو ضمرہ۔ جو صلح حدیبیہ کے وقت مسلمانوں کے حلیف بنے تھے۔ اور جب اعلان برأت ہوا تو ان سے معاہدہ کی میعاد میں ابھی نو مہینے باقی تھے۔ اس سورۃ کی آیت نمبر 4 کے مطابق اس مدت میں ان سے تعرض نہیں کیا گیا۔ نیز اس آیت کی رو سے اس بات کی بھی اجازت دے دی گئی کہ کوئی مشرک جب تک اپنے معاہدہ پر قائم رہتا ہے اس وقت تو تمہیں بہرحال قائم رہنا چاہیے اور اگر وہ اپنا عہد توڑتا ہے تو اس وقت تمہیں بھی مخالفانہ کار روائی کرنے کی اجازت ہے۔ بالفاظ دیگر معاہدہ کی خلاف ورزی کی ابتداء تمہاری طرف سے بہرصورت نہیں ہونی چاہیے اور اس کی مثال معاہدہ یا صلح حدیبیہ ہے جس کی رو سے طے پایا تھا کہ آئندہ مسلمان اور قریش مکہ آپس میں دس سال تک جنگ نہیں کریں گے اور جو قبائل مسلمانوں کے حلیف ہیں قریش ان پر بھی کوئی زیادتی نہ کریں گے اور جو قریش کے حلیف ہیں ان پر مسلمان کوئی زیادتی نہ کریں گے۔ اسی معاہدہ کی رو سے بنو خزاعہ تو مسلمانوں کے حلیف بنے اور بنو بکر قریش کے۔ اور بنو خزاعہ اور بنو بکر کی آپس میں لگتی تھی۔ صلح حدیبیہ کو ابھی سال کا عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ بنو خزاعہ اور بنو بکر کی آپس میں لڑائی ہو گئی اور قریش نے معاہدہ حدیبیہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو بکر کو ہتھیار بھی مہیا کیے اور کھل کر ان کا ساتھ بھی دیا۔ اور بنو خزاعہ کی خوب پٹائی کی۔ بنو خزاعہ کا ایک وفد عمرو بن سالم کی سر کردگی میں مدینہ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کی اور کہا کہ قریش نے عہد توڑ ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا میں اب تمہاری مدد کرنے میں حق بجانب ہوں گا۔ قریش کی عہد شکنی در اصل مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ تھا۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے سامنے تین شرطیں پیش کیں کہ ان میں سے کوئی ایک قبول کر لی جائے۔
1۔ بنو خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے۔
2۔ قریش بنو بکر کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں۔
3۔ اعلان کیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہو گیا۔ قاصد نے جب یہ شرائط قریش کے سامنے پیش کیں تو ان کا نوجوان طبقہ فوراً بھڑک اٹھا اور ان میں سے ایک شخص فرط بن عامر نے قریش کی طرف سے اعلان کر دیا کہ صرف تیسری شرط منظور ہے۔ جب قاصد واپس چلا گیا تو ان لوگوں کے ہوش ٹھکانے آگئے اور ابو سفیان کو تجدید معاہدہ کے لیے مدینہ بھیجا گیا۔ ابو سفیان نے مدینہ پہنچ کر تجدید معاہدہ کی درخواست کی جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر علی الترتیب سیدنا ابو بکر صدیقؓ سیدنا عمرؓ حتیٰ کہ سیدہ فاطمہؓ تک سفارش کے لیے التجا کی۔ لیکن جب سب نے جواب دے دیا تو مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر اس نے یک طرفہ ہی اعلان کر دیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کر دی۔ لیکن اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کردہ شرائط میں سے کسی کا جواب نہیں دیا تھا۔ لہٰذا اب اصلاح کی کوئی گنجائش نہ رہی تھی اور قریش کی یہی بد عہدی بالآخر مکہ پر چڑھائی کا سبب بن گئی۔
1۔ بنو خزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے۔
2۔ قریش بنو بکر کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں۔
3۔ اعلان کیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہو گیا۔ قاصد نے جب یہ شرائط قریش کے سامنے پیش کیں تو ان کا نوجوان طبقہ فوراً بھڑک اٹھا اور ان میں سے ایک شخص فرط بن عامر نے قریش کی طرف سے اعلان کر دیا کہ صرف تیسری شرط منظور ہے۔ جب قاصد واپس چلا گیا تو ان لوگوں کے ہوش ٹھکانے آگئے اور ابو سفیان کو تجدید معاہدہ کے لیے مدینہ بھیجا گیا۔ ابو سفیان نے مدینہ پہنچ کر تجدید معاہدہ کی درخواست کی جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر علی الترتیب سیدنا ابو بکر صدیقؓ سیدنا عمرؓ حتیٰ کہ سیدہ فاطمہؓ تک سفارش کے لیے التجا کی۔ لیکن جب سب نے جواب دے دیا تو مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر اس نے یک طرفہ ہی اعلان کر دیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کر دی۔ لیکن اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کردہ شرائط میں سے کسی کا جواب نہیں دیا تھا۔ لہٰذا اب اصلاح کی کوئی گنجائش نہ رہی تھی اور قریش کی یہی بد عہدی بالآخر مکہ پر چڑھائی کا سبب بن گئی۔
قریش اور بنو بکر کی بد عہدی مکہ پر مسلمانوں کی چڑھائی:۔
ایفائے عہد اسلام کی بنیادی تعلیمات سے ہے اور بد عہدی ایک کبیرہ گناہ ہے جسے احادیث میں منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ یہ عہد خواہ اللہ سے ہو یا کسی بندے سے، لین دین سے تعلق رکھتا ہو یا نکاح و طلاق سے یا صلح و جنگ سے۔ ایک شخص کا دوسرے سے ہو یا کسی قوم سے ہو یا کسی قوم کا دوسری قوم سے ہو بہرحال اسے پورا کرنا واجب ہے خواہ اس سے کتنا ہی نقصان پہنچ جانے کا خطرہ ہو۔ اس سورۃ میں چونکہ صلح و جنگ سے متعلق ہی قوانین بیان کیے جا رہے ہیں لہٰذا ہم یہی پہلو سامنے رکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمن زندگی بھر بد عہدی اور غداری کرتے رہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابی کار روائی کے طور پر کبھی بھی نقض عہد کو برداشت نہیں کیا۔ یہود کی بد عہدی تو زبان زد ہے انہوں نے میثاق مدینہ کی ہر ہر بار خلاف ورزی کی اور ان کی غداریوں اور بد عہدیوں کا کئی مقام پر ذکر ہو چکا ہے۔ دوسرے قبائل نے بھی بد عہدی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ صلح حدیبیہ کے بعد قریش مکہ نے بنو بکر کی حمایت کر کے معاہدہ حدیبیہ کی صریح خلاف ورزی کی۔ بنو ثعلبہ نے تبلیغ اسلام کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آدمی طلب کیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوٹی کے دس عالمان دین ان کے ساتھ روانہ کر دیئے اور انہوں نے غداری سے انہیں شہید کر دیا۔ یہی کام بنو عکل و قارہ نے کیا انہوں نے تبلیغ اسلام کے نام پر دس عالمان دین کو غداری سے شہید کر دیا اور بئر معونہ کا واقعہ تو بڑا ہی دردناک ہے جس میں ستر ممتاز قاری اور عالمان دین کے مقابلہ میں قبیلہ رعل و ذکوان کی جمعیت لا کر انہیں شہید کر دیا۔ جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی صدمہ ہوا۔ علاوہ ازیں اس واقعہ کے بعد دشمن قبائل کے مسلمانوں کے خلاف حوصلے اور بھی بڑھ گئے اور تھوڑی مدت تک اسلام دشمن قومیں اور قبائل جنگ احزاب کی شکل میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو گئے۔ اب ان کے مقابلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایفائے عہد کے واقعات بھی سن لیجئے کہ کیسے نازک موقعوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض ایفائے عہد کی خاطر اپنے ہر طرح کے مفادات کو قربان کر دیا:
1۔ سیدنا حذیفہ بن یمان اور ان کے والد یمان، جن کی کنیت ابو حُسَیْل تھی۔ غزوہ بدر میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے مگر راستہ میں کفار قریش کے ہتھے چڑھ گئے انہوں نے ان کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ جنگ میں عدم شرکت کا وعدہ نہ لے لیا۔ پھر یہ دونوں غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ ”مدینے چلے جاؤ اور جنگ کی اجازت نہیں دی اور فرمایا ہم ہر حال میں وعدہ وفا کریں گے۔ ہم کو اللہ کی مدد درکار ہے۔“ [مسلم۔ كتاب الجهاد۔ والسير۔ باب الوفاء بالعهد] حالانکہ اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایک آدمی کی شدید ضرورت تھی۔
2۔ بئر معونہ کے حادثہ میں 70 میں سے ایک شخص عمرو بن امیہ بچ نکلے لیکن بعد میں گرفتار ہو گئے۔ عامر بن طفیل جس نے ان قاریوں کو شہید کروایا تھا۔ نے عمرو بن امیہ کو دیکھ کر کہا ”میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی لہٰذا میں یہ منت پوری کرنے کی خاطر عمرو بن امیہ کو آزاد کرتا ہوں۔“ عمرو بن امیہ وہاں سے چلے تو راستہ میں اسی قاتل قبیلہ کے دو افراد مل گئے جنہیں آپ نے قتل کر دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دو آدمیوں کو امان دے چکے تھے جس کا عمرو بن امیہ کو علم نہ تھا۔ اب حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ بنو عامر کی غداری کی بنا پر ان سے جتنی بھی سختی برتی جا سکے برتی جائے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کا خون بہا ادا کر دیا [البدايه والنهايه ج 4 ص 73]
3۔ صلح حدیبیہ کی شرائط لکھی جا چکی تھیں مگر ابھی اس تحریری معاہدہ پر دستخط ہونا باقی تھے کہ قریش کے نمائندہ صلح سہیل بن عمرو کے بیٹے ابو جندل، جو اسلام لانے کی وجہ سے قید میں ڈال دیئے گئے تھے، قید سے فرار ہو کر پابہ زنجیر مسلمانوں کے پاس پہنچے اور اپنے زخم دکھا دکھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا کر رہے تھے کہ اب مجھے واپس نہ کیجئے۔ سب صحابہ کرامؓ کے دل بھر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی رحمۃ للعالمین تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض ایفائے عہد کی خاطر اسے واپس کر دیا اور کہا: ابو جندل صبر کرو۔ اللہ تمہارے لیے کوئی راہ پیدا کر دے گا۔ اب صلح کی شرط ہو چکی اور ہم بد عہدی نہیں کر سکتے۔ [بخاري۔ كتاب الشروط۔ باب الشروط على الجهاد و المصالحة]
4۔ ایسے ہی مظلوم مسلمانوں میں سے ایک عتبہ بن اسید (ابو بصیر) تھے جو قریش کے مظالم سے تنگ آ کر مکہ سے فرار ہو کر مدینہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ شرائط صلح حدیبیہ کے مطابق قریش کے دو آدمی بھی ابو بصیر کو لینے مدینہ پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایفائے عہد کی خاطر ابو بصیر کو کافروں کے حوالہ کر دیا اسے بھی آپ نے صبر کی تلقین فرمائی اور فرمایا جلد ہی اللہ تعالیٰ کوئی راہ نکال دے گا (اس واقعہ کی تفصیل سورۃ فتح کے ابتدائی حاشیہ میں ملاحظہ فرمائیے۔)
5۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایفائے عہد کے واقعات اس کثرت سے ہیں کہ دشمن بھی آپ کی اس خوبی کا برملا اعتراف کرتے تھے۔ جنگ احزاب کے موقعہ پر جب یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب نے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسداس کو عہد شکنی پر مجبور کیا تو کعب نے اسے کہا:
«اني لم ارمن محمد الا صدقا و وفآء» (میں نے ہمیشہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو سچا اور عہد کو پورا کرنے والا دیکھا ہے) [طبري ج 1۔ غزوه خندق]
پھر یہ خوبی آپ کی ذات تک ہی محدود نہ تھی بلکہ آپ کے جانشینوں نے بھی عہد کی پوری پوری پابندی کر کے مثال قائم کر دی۔
6۔ دور فاروقی میں شام کی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا۔ سیدنا ابو عبیدہ نے دمشق کا محاصرہ کر رکھا تھا سیدنا خالد بن ولید نے چند جانبازوں کے ہمراہ فصیل پر کمند لگائی اور اوپر چڑھ کر قلعہ کے دروازے کھول دیئے۔ سیدنا خالد کی فوج فاتحانہ انداز میں قلعہ میں داخل ہو گئی۔ اہل دمشق نے دوسری جانب سیدنا ابو عبیدہ سے مصالحت کی درخواست کر دی۔ جو انہوں نے نئی صورت حال سے لاعلمی کی بنا پر قبول کر لی۔ جب انہیں اصل صورت حال کا علم ہوا تو انہیں بہت محسوس ہوا مگر ایفائے عہد کی خاطر ابو عبیدہ نے مفتوحہ علاقہ اہل دمشق کو واپس دے دیا۔ [تاريخ اسلام حميد الدين ص 138]
7۔ شام کی فتوحات کے دوران عیسائیوں نے صلح کے لیے اپنے قاصد جارج کو سیدنا ابو عبیدہ کے پاس بھیجا۔ وہ شام کے وقت پہنچا اور نماز با جماعت کا پر کیف منظر دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ بعد میں سیدنا عیسیٰؑ کے متعلق چند سوال کیے جن کا سیدنا ابو عبیدہ نے شافی جواب دیا نتیجتاً جارج مسلمان ہو گیا اور چاہا کہ اب وہ عیسائیوں کے پاس واپس نہ جائے۔ لیکن ابو عبیدہؓ نے محض اس خیال سے کہ رومیوں کو مسلمانوں کی طرف سے بد عہدی کا گمان پیدا نہ ہو۔ جارج کو مجبور کیا اور کہا کہ کل یہاں سے جو سفیر جائے گا ایک دفعہ ضرور اس کے ہمراہ وہاں جاؤ اور اصل صورت حال سے انہیں خود مطلع کرنے کے بعد واپس آجانا۔ [الفاروق ص 196]
اب ذرا موجودہ دور کی مہذب اور متمدن اقوام اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے معاہدات پر بھی نظر ڈال لیجئے۔ جو ظاہری معاہدات کے علاوہ زیر زمین خفیہ معاہدات کا بھی ایک جال بچھا رکھتے ہیں اور ایسی منافقت اور بد عہدی کا ایک خوبصورت نام ڈپلومیسی (DIPLOMACY) تجویز کر رکھا ہے اس منافقت کا جو منظر جنگ عظیم اول میں سامنے آیا وہ کچھ اس طرح ہے: اس جنگ میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا اور ہنگری تھے جنہیں جارح یا ظالم کا لقب دیا گیا۔ دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس اور اٹلی تھے جو اپنے آپ کو حق پرست، انسانی حقوق کے علمبردار اور مظلوموں کے مددگار کہتے تھے۔ ان حق پرستوں نے عربوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں یقین دلایا کہ وہ عربوں کو ترکی کے تسلط سے آزاد کرائیں گے اور جنگ کے بعد انہیں آزاد اور خود مختار حکومت بنانے کا موقع دیں گے تاکہ وہ اپنے شعائر اسلام آزادی سے بجا لا سکیں۔ اس طرح یہ حق پرست در اصل ملت اسلامیہ کے مرکز ترکی کی خلافت کا گلا گھونٹنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں 1917 ء میں جنرل ماؤ نے برسر عام اعلان کر کے عربوں سے کیے ہوئے معاہدہ کی تصدیق بھی کر دی کہ وہ اس ملک میں فاتحانہ حیثیت سے نہیں بلکہ آزادی دینے کے لیے آئے ہیں۔ لیکن اصل حقیقت اس کے علاوہ کچھ اور تھی۔ فرانس اور برطانیہ نے 1915 ء اور 1916 ء میں آپس میں خفیہ معاہدات کیے 1916 ء کے خفیہ معاہدہ، جو سائیکس پیکو کے نام سے مشہور ہے، کی رو سے یہ طے ہوا تھا کہ جنگ کے بعد:
1۔ عراق کلیتہً برطانیہ کے قبضہ میں رہے گا۔
2۔ شام پورے کا پورا فرانسیسی سلطنت کے دائرہ میں رکھا جائے گا۔
3۔ فلسطین ایک بین الملی علاقہ ہو گا اور حیفہ اپنی بندرگاہ سمیت برطانیہ کے زیر اثر ہو گا۔
4۔ باقی رہے وہ ممالک جو عراق اور سواحل شام کے درمیان واقع ہیں تو انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ایک حصہ برطانیہ کے زیر اثر رہے گا اور دوسرا فرانس کے۔ برطانیہ اور فرانس چونکہ اپنے دوسرے حق پرست ساتھیوں سے بھی زیادہ حق پرست تھے۔ اس لیے انہوں نے اس معاہدہ کو اپنے ساتھیوں سے بھی چھپائے رکھا اور ظاہری طور پر یہی اعلان کرتے رہے کہ ہم عربوں کو پوری آزادی دلانے آئے ہیں۔ پھر جب عربوں نے دیکھا کہ شام کے سواحل پر فرانسیسی فوجیں مسلط ہیں اور عراق اور فلسطین میں انگریزی فوجیں پہنچ گئی ہیں تب جا کر انہیں معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے اور یہ چال محض ترکوں اور عربوں میں نفاق ڈال کر ملک چھیننے کے لیے چلی گئی تھی۔ عربوں کو جب ہوش آیا تو انہوں نے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے اور فیصل بن حسین کے تحت ایک وطنی حکومت بھی قائم کر لی مگر اب پانی سر سے اوپر ہو چکا تھا۔ برطانیہ نے نہایت عیاری سے عربوں میں سے ہی اپنی مرضی کے چند آدمی منتخب کر کے ان کی حکومت بنا دی جو کلیتہً برطانیہ کے زیر اثر تھی۔ اس طرح انگریز بہادر نے اپنے سب مفادات بھی حاصل کر لیے اور یہ کہنے کے قابل بھی ہو گیا کہ اس نے عربوں سے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ پھر ان خفیہ معاہدات کا حلقہ صرف عربوں تک ہی محدود نہ تھا۔ اتحادی آپس میں بھی ہوا کا رخ دیکھ کر ایسے معاہدات کر لیتے تھے جنہیں دوسرے حق پرستوں سے بھی صیغہ راز میں رکھا جاتا تھا۔ بین الاقوامی ڈاکہ زنی کی یہ سکیم صیغہ راز میں ہی رہ جاتی۔ اگر دوران جنگ روس انقلاب کا شکار نہ ہو جاتا۔ اپریل 1917 ء میں جب ان کی حکومت کا تختہ الٹا اور بالشویکوں کی حکومت قائم ہو گئی تو انہوں نے سرمایہ دار حکومتوں کے گھناؤنے کردار کو بے نقاب کرنے کے لیے وہ تمام خفیہ معاہدات شائع کر دیئے جو انہیں زار کی حکومت کے نہاں خانوں سے دستیاب ہوئے تھے۔ ان معاہدات کی کوئی دفعہ ایسی نہیں تھی جس میں مخالف سلطنتوں کے کسی نہ کسی علاقہ یا ان کی اقتصادی ثروت کے کسی نہ کسی وسیلے کو ان حق پرستوں نے آپس میں بانٹنے کا فیصلہ نہ کر رکھا ہو۔
1۔ سیدنا حذیفہ بن یمان اور ان کے والد یمان، جن کی کنیت ابو حُسَیْل تھی۔ غزوہ بدر میں شرکت کے لیے روانہ ہوئے مگر راستہ میں کفار قریش کے ہتھے چڑھ گئے انہوں نے ان کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ جنگ میں عدم شرکت کا وعدہ نہ لے لیا۔ پھر یہ دونوں غزوہ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ ”مدینے چلے جاؤ اور جنگ کی اجازت نہیں دی اور فرمایا ہم ہر حال میں وعدہ وفا کریں گے۔ ہم کو اللہ کی مدد درکار ہے۔“ [مسلم۔ كتاب الجهاد۔ والسير۔ باب الوفاء بالعهد] حالانکہ اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایک آدمی کی شدید ضرورت تھی۔
2۔ بئر معونہ کے حادثہ میں 70 میں سے ایک شخص عمرو بن امیہ بچ نکلے لیکن بعد میں گرفتار ہو گئے۔ عامر بن طفیل جس نے ان قاریوں کو شہید کروایا تھا۔ نے عمرو بن امیہ کو دیکھ کر کہا ”میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی لہٰذا میں یہ منت پوری کرنے کی خاطر عمرو بن امیہ کو آزاد کرتا ہوں۔“ عمرو بن امیہ وہاں سے چلے تو راستہ میں اسی قاتل قبیلہ کے دو افراد مل گئے جنہیں آپ نے قتل کر دیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دو آدمیوں کو امان دے چکے تھے جس کا عمرو بن امیہ کو علم نہ تھا۔ اب حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ بنو عامر کی غداری کی بنا پر ان سے جتنی بھی سختی برتی جا سکے برتی جائے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کا خون بہا ادا کر دیا [البدايه والنهايه ج 4 ص 73]
3۔ صلح حدیبیہ کی شرائط لکھی جا چکی تھیں مگر ابھی اس تحریری معاہدہ پر دستخط ہونا باقی تھے کہ قریش کے نمائندہ صلح سہیل بن عمرو کے بیٹے ابو جندل، جو اسلام لانے کی وجہ سے قید میں ڈال دیئے گئے تھے، قید سے فرار ہو کر پابہ زنجیر مسلمانوں کے پاس پہنچے اور اپنے زخم دکھا دکھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا کر رہے تھے کہ اب مجھے واپس نہ کیجئے۔ سب صحابہ کرامؓ کے دل بھر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی رحمۃ للعالمین تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض ایفائے عہد کی خاطر اسے واپس کر دیا اور کہا: ابو جندل صبر کرو۔ اللہ تمہارے لیے کوئی راہ پیدا کر دے گا۔ اب صلح کی شرط ہو چکی اور ہم بد عہدی نہیں کر سکتے۔ [بخاري۔ كتاب الشروط۔ باب الشروط على الجهاد و المصالحة]
4۔ ایسے ہی مظلوم مسلمانوں میں سے ایک عتبہ بن اسید (ابو بصیر) تھے جو قریش کے مظالم سے تنگ آ کر مکہ سے فرار ہو کر مدینہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ شرائط صلح حدیبیہ کے مطابق قریش کے دو آدمی بھی ابو بصیر کو لینے مدینہ پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایفائے عہد کی خاطر ابو بصیر کو کافروں کے حوالہ کر دیا اسے بھی آپ نے صبر کی تلقین فرمائی اور فرمایا جلد ہی اللہ تعالیٰ کوئی راہ نکال دے گا (اس واقعہ کی تفصیل سورۃ فتح کے ابتدائی حاشیہ میں ملاحظہ فرمائیے۔)
5۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایفائے عہد کے واقعات اس کثرت سے ہیں کہ دشمن بھی آپ کی اس خوبی کا برملا اعتراف کرتے تھے۔ جنگ احزاب کے موقعہ پر جب یہود کے قبیلہ بنو نضیر کے سردار حیی بن اخطب نے بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسداس کو عہد شکنی پر مجبور کیا تو کعب نے اسے کہا:
«اني لم ارمن محمد الا صدقا و وفآء» (میں نے ہمیشہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو سچا اور عہد کو پورا کرنے والا دیکھا ہے) [طبري ج 1۔ غزوه خندق]
پھر یہ خوبی آپ کی ذات تک ہی محدود نہ تھی بلکہ آپ کے جانشینوں نے بھی عہد کی پوری پوری پابندی کر کے مثال قائم کر دی۔
6۔ دور فاروقی میں شام کی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا۔ سیدنا ابو عبیدہ نے دمشق کا محاصرہ کر رکھا تھا سیدنا خالد بن ولید نے چند جانبازوں کے ہمراہ فصیل پر کمند لگائی اور اوپر چڑھ کر قلعہ کے دروازے کھول دیئے۔ سیدنا خالد کی فوج فاتحانہ انداز میں قلعہ میں داخل ہو گئی۔ اہل دمشق نے دوسری جانب سیدنا ابو عبیدہ سے مصالحت کی درخواست کر دی۔ جو انہوں نے نئی صورت حال سے لاعلمی کی بنا پر قبول کر لی۔ جب انہیں اصل صورت حال کا علم ہوا تو انہیں بہت محسوس ہوا مگر ایفائے عہد کی خاطر ابو عبیدہ نے مفتوحہ علاقہ اہل دمشق کو واپس دے دیا۔ [تاريخ اسلام حميد الدين ص 138]
7۔ شام کی فتوحات کے دوران عیسائیوں نے صلح کے لیے اپنے قاصد جارج کو سیدنا ابو عبیدہ کے پاس بھیجا۔ وہ شام کے وقت پہنچا اور نماز با جماعت کا پر کیف منظر دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ بعد میں سیدنا عیسیٰؑ کے متعلق چند سوال کیے جن کا سیدنا ابو عبیدہ نے شافی جواب دیا نتیجتاً جارج مسلمان ہو گیا اور چاہا کہ اب وہ عیسائیوں کے پاس واپس نہ جائے۔ لیکن ابو عبیدہؓ نے محض اس خیال سے کہ رومیوں کو مسلمانوں کی طرف سے بد عہدی کا گمان پیدا نہ ہو۔ جارج کو مجبور کیا اور کہا کہ کل یہاں سے جو سفیر جائے گا ایک دفعہ ضرور اس کے ہمراہ وہاں جاؤ اور اصل صورت حال سے انہیں خود مطلع کرنے کے بعد واپس آجانا۔ [الفاروق ص 196]
اب ذرا موجودہ دور کی مہذب اور متمدن اقوام اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے معاہدات پر بھی نظر ڈال لیجئے۔ جو ظاہری معاہدات کے علاوہ زیر زمین خفیہ معاہدات کا بھی ایک جال بچھا رکھتے ہیں اور ایسی منافقت اور بد عہدی کا ایک خوبصورت نام ڈپلومیسی (DIPLOMACY) تجویز کر رکھا ہے اس منافقت کا جو منظر جنگ عظیم اول میں سامنے آیا وہ کچھ اس طرح ہے: اس جنگ میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا اور ہنگری تھے جنہیں جارح یا ظالم کا لقب دیا گیا۔ دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس اور اٹلی تھے جو اپنے آپ کو حق پرست، انسانی حقوق کے علمبردار اور مظلوموں کے مددگار کہتے تھے۔ ان حق پرستوں نے عربوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں یقین دلایا کہ وہ عربوں کو ترکی کے تسلط سے آزاد کرائیں گے اور جنگ کے بعد انہیں آزاد اور خود مختار حکومت بنانے کا موقع دیں گے تاکہ وہ اپنے شعائر اسلام آزادی سے بجا لا سکیں۔ اس طرح یہ حق پرست در اصل ملت اسلامیہ کے مرکز ترکی کی خلافت کا گلا گھونٹنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں 1917 ء میں جنرل ماؤ نے برسر عام اعلان کر کے عربوں سے کیے ہوئے معاہدہ کی تصدیق بھی کر دی کہ وہ اس ملک میں فاتحانہ حیثیت سے نہیں بلکہ آزادی دینے کے لیے آئے ہیں۔ لیکن اصل حقیقت اس کے علاوہ کچھ اور تھی۔ فرانس اور برطانیہ نے 1915 ء اور 1916 ء میں آپس میں خفیہ معاہدات کیے 1916 ء کے خفیہ معاہدہ، جو سائیکس پیکو کے نام سے مشہور ہے، کی رو سے یہ طے ہوا تھا کہ جنگ کے بعد:
1۔ عراق کلیتہً برطانیہ کے قبضہ میں رہے گا۔
2۔ شام پورے کا پورا فرانسیسی سلطنت کے دائرہ میں رکھا جائے گا۔
3۔ فلسطین ایک بین الملی علاقہ ہو گا اور حیفہ اپنی بندرگاہ سمیت برطانیہ کے زیر اثر ہو گا۔
4۔ باقی رہے وہ ممالک جو عراق اور سواحل شام کے درمیان واقع ہیں تو انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ایک حصہ برطانیہ کے زیر اثر رہے گا اور دوسرا فرانس کے۔ برطانیہ اور فرانس چونکہ اپنے دوسرے حق پرست ساتھیوں سے بھی زیادہ حق پرست تھے۔ اس لیے انہوں نے اس معاہدہ کو اپنے ساتھیوں سے بھی چھپائے رکھا اور ظاہری طور پر یہی اعلان کرتے رہے کہ ہم عربوں کو پوری آزادی دلانے آئے ہیں۔ پھر جب عربوں نے دیکھا کہ شام کے سواحل پر فرانسیسی فوجیں مسلط ہیں اور عراق اور فلسطین میں انگریزی فوجیں پہنچ گئی ہیں تب جا کر انہیں معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے اور یہ چال محض ترکوں اور عربوں میں نفاق ڈال کر ملک چھیننے کے لیے چلی گئی تھی۔ عربوں کو جب ہوش آیا تو انہوں نے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے اور فیصل بن حسین کے تحت ایک وطنی حکومت بھی قائم کر لی مگر اب پانی سر سے اوپر ہو چکا تھا۔ برطانیہ نے نہایت عیاری سے عربوں میں سے ہی اپنی مرضی کے چند آدمی منتخب کر کے ان کی حکومت بنا دی جو کلیتہً برطانیہ کے زیر اثر تھی۔ اس طرح انگریز بہادر نے اپنے سب مفادات بھی حاصل کر لیے اور یہ کہنے کے قابل بھی ہو گیا کہ اس نے عربوں سے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ پھر ان خفیہ معاہدات کا حلقہ صرف عربوں تک ہی محدود نہ تھا۔ اتحادی آپس میں بھی ہوا کا رخ دیکھ کر ایسے معاہدات کر لیتے تھے جنہیں دوسرے حق پرستوں سے بھی صیغہ راز میں رکھا جاتا تھا۔ بین الاقوامی ڈاکہ زنی کی یہ سکیم صیغہ راز میں ہی رہ جاتی۔ اگر دوران جنگ روس انقلاب کا شکار نہ ہو جاتا۔ اپریل 1917 ء میں جب ان کی حکومت کا تختہ الٹا اور بالشویکوں کی حکومت قائم ہو گئی تو انہوں نے سرمایہ دار حکومتوں کے گھناؤنے کردار کو بے نقاب کرنے کے لیے وہ تمام خفیہ معاہدات شائع کر دیئے جو انہیں زار کی حکومت کے نہاں خانوں سے دستیاب ہوئے تھے۔ ان معاہدات کی کوئی دفعہ ایسی نہیں تھی جس میں مخالف سلطنتوں کے کسی نہ کسی علاقہ یا ان کی اقتصادی ثروت کے کسی نہ کسی وسیلے کو ان حق پرستوں نے آپس میں بانٹنے کا فیصلہ نہ کر رکھا ہو۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
پابندی عہد کی شرائط ٭٭
اوپر والے حکم کی حکمت بیان ہو رہی ہے کہ چارہ ماہ کی مہلت دینے پر لڑائی کی اجازت دینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے شرک و کفر کو چھوڑنے والے اور اپنے عہد و پیمان پر قائم رہنے والے ہی نہیں ہاں صلح حدیبیہ جب تک ان کی طرف سے نہ ٹوٹے تم بھی نہ توڑنا۔
یہ صلح دس سال کے لیے ہوئی تھی، ماہ ذی القعدہ سنہ ٦ ہجری سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاہدہ کو نبھایا یہاں تک کہ قریشیوں کی طرف سے معاہدہ توڑا گیا ان کے حلیف بنو بکر نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے حلیف خزاعہ پر چڑھائی کی بلکہ حرم میں بھی انہیں قتل کیا اس بنا پر رمضان شریف ٨ ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کی۔
رب العالمین نے مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں فتح کرایا اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بس میں کر دیا۔ [وللّٰہ الحمد والمنہ] لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود غلبہ اور قدرت کے ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول نہ کیا سب کو آزاد کر دیا۔ انہی لوگوں کو طلقاء کہتے ہیں یہ تقریباً دو ہزار تھے جو کفر پر پھر بھی باقی رہے اور ادھر ادھر ہو گئے۔
رحمتہ اللعالمین نے سب کو عام پناہ دے دی اور انہیں مکہ شریف میں آنے اور یہاں اپنے مکانوں میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی کہ چارماہ تک وہ جہاں چاہیں آ جا سکتے ہیں۔ انہی میں صفوان بن اُمیہ اور عکرمہ بن ابی جہل وغیرہ تھے پھر اللہ نے ان کی رہبری کی اور انہیں اسلام نصیب فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر اندازے کے کرنے میں اور ہر کام کے کرنے میں تعریفوں والا ہی ہے۔
یہ صلح دس سال کے لیے ہوئی تھی، ماہ ذی القعدہ سنہ ٦ ہجری سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاہدہ کو نبھایا یہاں تک کہ قریشیوں کی طرف سے معاہدہ توڑا گیا ان کے حلیف بنو بکر نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے حلیف خزاعہ پر چڑھائی کی بلکہ حرم میں بھی انہیں قتل کیا اس بنا پر رمضان شریف ٨ ہجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کی۔
رب العالمین نے مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں فتح کرایا اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بس میں کر دیا۔ [وللّٰہ الحمد والمنہ] لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود غلبہ اور قدرت کے ان میں سے جنہوں نے اسلام قبول نہ کیا سب کو آزاد کر دیا۔ انہی لوگوں کو طلقاء کہتے ہیں یہ تقریباً دو ہزار تھے جو کفر پر پھر بھی باقی رہے اور ادھر ادھر ہو گئے۔
رحمتہ اللعالمین نے سب کو عام پناہ دے دی اور انہیں مکہ شریف میں آنے اور یہاں اپنے مکانوں میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی کہ چارماہ تک وہ جہاں چاہیں آ جا سکتے ہیں۔ انہی میں صفوان بن اُمیہ اور عکرمہ بن ابی جہل وغیرہ تھے پھر اللہ نے ان کی رہبری کی اور انہیں اسلام نصیب فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر اندازے کے کرنے میں اور ہر کام کے کرنے میں تعریفوں والا ہی ہے۔