اور ان میں سے بعض وہ ہے جو کہتا ہے مجھے اجازت دے دے اور مجھے فتنے میں نہ ڈال۔ سن لو! وہ فتنے ہی میں تو پڑے ہوئے ہیں اور بے شک جہنم کافروں کو ضرور گھیرنے والی ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے تو اجازت ہی دیجئے اور آفت میں نہ ڈالئے۔ دیکھو یہ آفت میں پڑگئے ہیں اور دوزخ سب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ان میں سے کوئی تو کہتا ہے مجھے اجازت دیجئے مجھے فتنے میں نہ ڈالیئے، آگاه رہو وه تو فتنے میں پڑ چکے ہیں اور یقیناً دوزخ کافروں کو گھیر لینے والی ہے
(آیت49) ➊ {وَمِنْهُمْمَّنْيَّقُوْلُائْذَنْلِّيْوَلَاتَفْتِنِّيْ:} فتنے کا معنی یہاں گناہ میں مبتلا ہونا کیا گیا ہے اور ہلاکت بھی۔ اس کی دو تفسیریں کی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ ان میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ آپ مجھے اتنی شدید گرمی میں اتنے طویل و پر مشقت سفر اور جنگ کا حکم دے کر گناہ میں نہ ڈالیں، کیونکہ اگر میں آپ کے حکم کے بعد نہ گیا تو گناہ گار ہوں گا اور گیا تو ہلاکت کا خطرہ ہے، ادھر گھر اکیلے رہ جائیں گے اور اہل و عیال ہلاک ہو جائیں گے، اس لیے آپ خود ہی مجھے مدینہ میں رہ جانے کی اجازت دے کر اس فتنے سے بچا لیں۔ یہ تفسیر الفاظ کے قریب ہے، جنگ خندق میں بھی منافقین کے بہانوں میں سے ایک بہانہ گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا تھا۔ دیکھیے سورۂ احزاب (۱۳) دوسری تفسیر یہ ہے کہ ایک منافق جد بن قیس نے یہ بہانہ بنایا کہ یا رسول اللہ! رومی عورتیں بہت خوبصورت ہیں، اگر میں وہاں چلا گیا تو اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکوں گا، اس لیے آپ مجھے معذور سمجھ کر یہاں رہنے کی اجازت دے دیجیے۔ (ہاں، میں مال خرچ کرکے مدد کروں گا)۔ [المعجم الکبیر: 275/2، ح: ۲۱۵۴۔ أبونعیم فی المعرفۃ] اسے {”هداية المستنير“} والے نے ضعیف کہا ہے اور {” الاستيعاب في بيان الأسباب“} والوں نے حسن کہا ہے۔ (واللہ اعلم) ➋ {اَلَافِيالْفِتْنَةِسَقَطُوْا:} یعنی بہانے تو یہ کرتے ہیں کہ ہم فتنے میں نہ پڑ جائیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ فتنے ہی میں تو پڑے ہوئے ہیں کہ جہاد پر جانے سے گریز کر رہے ہیں۔ {”فِيالْفِتْنَةِ“} پہلے لانے سے حصر کا معنی حاصل ہوتا ہے۔ آخر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر سے بڑھ کر بھی دنیا میں کوئی فتنہ ہو گا اور پھر جہاد میں شریک نہ ہونا خود ایک فتنہ ہے، اب تو حیلے بہانے تراش کر یہ نکل جائیں گے، مگر جہنم کے گھیرے سے کیسے نکل پائیں گے؟
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
49۔ 1 ' مجھے فتنے میں نہ ڈالیے ' کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے اجازت نہیں دیں گے تو مجھے بغیر اجازت رکنے پر سخت گناہ ہوگا، اس اعتبار سے فتنہ، گناہ کے معنی میں ہوگا۔ یعنی مجھے گناہ میں نہ ڈالیے، دوسرا مطلب فتنے کا، ہلاکت ہے یعنی مجھے ساتھ لیجاکر ہلاکت میں نہ ڈالیں کہا جاتا ہے کہ جد ابن قیس نے عرض کیا مجھے ساتھ نہ لے جائیں، روم کی عورتوں کو دیکھ کر میں صبر نہ کرسکوں گا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رخ پھیرلیا اور اجازت دے دی۔ بعد میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' فتنے میں جو گزر چکے ہیں ' یعنی جہاد سے پیچھے رہنا اور اس سے گریز کرنا، بجائے خود ایک فتنہ اور سخت گناہ کا کام ہے جس میں یہ ملوث ہی ہیں۔ اور مرنے کے بعد جہنم ان کو گھیر لینے والی ہے، جس سے فرار کا کوئی راستہ ان کے لئے نہیں ہوگا۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
49۔ ان میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے ”مجھے رخصت دیجئے اور فتنہ [53] میں نہ ڈالئے“ سن رکھو! فتنہ میں تو یہ لوگ پہلے ہی پڑے ہوئے ہیں اور جہنم ایسے کافروں کو گھیرے ہوئے ہے
[53] جد بن قیس منافق کا عذر لنگ:۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جد بن قیس منافق کو رومی کافروں سے جہاد کے لیے کہا تو کہنے لگا ”اگرچہ میری کئی بیویاں ہیں مگر میں ایک حسن پرست آدمی ہوں اور روم کی عورتیں خوبصورت ہوتی ہیں۔ میں ڈرتا ہوں کہ کسی فتنہ میں نہ پڑ جاؤں اور میری اس عادت کو میری قوم جانتی ہے لہٰذا آپ مجھے اپنے ساتھ لے جانے سے معاف فرمائیے۔“ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ یہ بدبخت فتنہ میں تو پہلے پڑ چکا ہے اب اگر اپنی باطنی خباثت کو چھپا کر اس پر ظاہری تقدس اور تقویٰ کا پردہ ڈال رہا ہے تو یہ فتنہ نہیں تو کیا ہے۔ اور دوسرا فتنہ وہ ہے جس میں یہ سارے ہی منافق پڑ گئے ہیں۔ مسلمان تو جہاد کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور یہ منافق اس فتنہ میں مبتلا ہیں کہ اب کریں تو کیا کریں، ان کے لیے اس سے بڑا فتنہ کیا ہو گا کہ صاف انکار بھی نہیں کر سکتے اور جانے کو جی بھی نہیں چاہتا۔ ان کے لیے تو نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ بن گیا ہے۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
جد بن قیس جیسے بدتمیزوں کا حشر ٭٭
جد بن قیس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سال نصرانیوں کے جلا وطن کرنے میں تو ہمارا ساتھ دے گا۔“ تو اس نے کہا: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے تو معاف رکھئے میری ساری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کا بےطرح شیدا ہوں عیسائی عورتوں کو دیکھ کر مجھ سے تو اپنا نفس روکا نہ جائے گا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ موڑ لیا۔ اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ اس منافق نے یہ بہانہ بنایا حالانکہ وہ فتنے میں تو پڑا ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑنا جہاد سے منہ موڑنا یہ کیا کم فتنہ ہے؟ یہ منافق بنو سلمہ قبیلے کا رئیس اعظم تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس قبیلے کے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ ”تمہارا سردار کون ہے“؟ تو انہوں نے کہا ”جد بن قیس جو بڑا ہی شوم اور بخیل ہے۔“ آپ نے فرمایا: ”بخل سے بڑھ کر اور کیا بری بیماری ہے“؟ سنو اب سے تمہارا سردار نوجوان سفید اور خوبصورت بشر بن برابن معرور ہے۔ ۱؎[طبرانی کبیر:163،164/19:صحیح] جہنم کافروں کو گھیر لینے والی ہے نہ اس سے وہ بچ سکیں نہ بھاگ سکیں نہ نجات پا سکیں۔