لَقَدِ ابۡتَغَوُا الۡفِتۡنَۃَ مِنۡ قَبۡلُ وَ قَلَّبُوۡا لَکَ الۡاُمُوۡرَ حَتّٰی جَآءَ الۡحَقُّ وَ ظَہَرَ اَمۡرُ اللّٰہِ وَ ہُمۡ کٰرِہُوۡنَ ﴿۴۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بلاشبہ یقینا انھوں نے اس سے پہلے فتنہ ڈالنا چاہا اور تیرے لیے کئی معاملات الٹ پلٹ کیے، یہاں تک کہ حق آگیا اور اللہ کا حکم غالب ہوگیا، حالانکہ وہ ناپسند کرنے والے تھے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
یہ پہلے بھی طالب فساد رہے ہیں اور بہت سی باتوں میں تمہارے لیے الٹ پھیر کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ حق آپہنچا اور خدا کا حکم غالب ہوا اور وہ برا مانتے ہی رہ گئے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
یہ تو اس سے پہلے بھی فتنے کی تلاش کرتے رہے ہیں اور تیرے لئے کاموں کو الٹ پلٹ کرتے رہے ہیں، یہاں تک کہ حق آپہنچا اور اللہ کا حکم غالب آگیا باوجودیکہ وه ناخوشی میں ہی رہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت48) { لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ …:} اس آیت میں ان کے خبث باطن اور مزید مکاریوں کا پردہ چاک کیا گیا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مکر و فریب کرنا ان کی پرانی عادت ہے۔ پہلے بھی مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی تدبیریں کرتے رہے، مگر جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو ان کے نہ چاہتے ہوئے غلبہ عطا فرمایا تو یہ بظاہر اسلام میں داخل ہوگئے، پھر بھی شرارتوں سے باز نہ آئے، جیسا کہ عبد اللہ بن ابی منافق نے غزوۂ احد کے دن کیا کہ عین میدان جنگ سے اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر لوٹ آیا۔ ہر موقع پر ان کی ہمدردیاں یہودیوں کے ساتھ رہیں، بنو نضیر اور دوسرے کئی یہودیوں کو قتل سے بچایا، بنو قریظہ کو ابھارتے رہے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگایا، مسجد ضرار بنا کر مسلمانوں کے خلاف مورچہ تعمیر کیا، تبوک میں جانے پر بددلی پھیلاتے رہے۔ واپسی پر جب موقع ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر چھپ کر حملہ آور ہونے سے بھی دریغ نہ کیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی خاص مدد سے مکہ فتح ہونے اور تبوک کی فتح کے بعد سارا عرب اسلام میں داخل ہو گیا اور یہ بے بسی سے ہاتھ ملتے رہ گئے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

48۔ 1 اس لئے اس نے گزشتہ اور آئندہ امور کی تمہیں اطلاع دے دی ہے اور یہ بھی بتلا دیا ہے کہ یہ منافقین جو ساتھ نہیں گئے، تو تمہارے حق میں اچھا ہوا، اگر یہ جاتے تو یہ یہ خرابیاں ان کی وجہ سے پیدا ہوتیں۔ 48۔ 2 یعنی یہ منافقین تو، جب سے آپ مدینہ میں آئے ہیں، آپ کے خلاف فتنے تلاش کرنے اور معاملات کو بگاڑنے میں سرگرم رہے ہیں۔ حتیٰ کے بدر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح و غلبہ عطا فرما دیا، جو ان کے لئے بہت ہی ناگوار تھا، اسی طرح جنگ احد کے موقعے پر بھی ان منافقین نے راستے سے ہی واپس ہو کر مشکلات پیدا کرنے کی اور اس کے بعد بھی ہر موقعے پر بگاڑ کی کوشش کرتے رہے۔ حتیٰ کہ مکہ فتح ہوگیا اور اکثر عرب مسلمان ہوگئے جس پر کف حسرت و افسوس مل رہے ہیں۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

48۔ یہ لوگ اس سے پہلے بھی فتنہ انگیزی [52] کر چکے ہیں اور آپ کے امور کو درہم برہم کرنے کے لئے الٹ پھیر کرتے رہے ہیں تا آنکہ اللہ کا سچا وعدہ (اسلام کے غلبہ کا) آ گیا اور اللہ کا حکم غالب ہوا جبکہ یہ ناک بھوں چڑھا رہے تھے
[52] عبد اللہ بن ابی کا فتنہ:۔
منافقوں کی فتنہ انگیزیوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ عبد اللہ بن ابی کو در اصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پیشتر عبد اللہ بن ابی کے سر پر اوس و خزرج دونوں کی سرداری کا تاج رکھا جانے والا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اس کی سرداری کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ یہی وہ حسد اور کینہ تھا جس نے اسے اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی پر عمر بھر اکسائے رکھا۔ غزوہ بدر سے پہلے اس کی قریش مکہ سے مراسلت رہی۔ پھر جب بدر میں قریش مکہ کو شکست فاش اور مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب ہوئی تو یہ جل بھن گیا مگر اپنے مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ظاہری طور پر تو اسلام قبول کر لیا مگر دل میں اسلام دشمنی بدستور موجود رہی۔ جنگ احد میں اس نے مسلمانوں سے غداری کی اور نہایت نازک موقع پر اپنے تین سو ساتھیوں کو لشکر سے کاٹ لایا تاکہ مسلمان شکست سے دو چار ہوں۔ زندگی بھر اس کی ہمدردیاں یہودیوں سے رہیں۔ انہیں اکسا کر مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنا اس کا پسندیدہ شغل تھا۔ وہ بھی اس کی مہربانی سے مسلمانوں کے ہاتھوں پٹتے ہی رہے اور ہر موقعہ پر اللہ کی تائید مسلمانوں کے شامل حال رہی۔ غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر اس نے سیدۃ عائشہؓ پر تہمت لگا دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو ذہنی کوفت میں مبتلا کیے رکھا تا آنکہ اللہ تعالیٰ نے سیدۃ عائشہؓ کی بریت نازل فرمائی۔ اسی غزوہ میں اس نے انصار کو اکسایا کہ اس نبی کو مدینہ سے نکال دو۔ پھر مسجد ضرار تعمیر کر کے انہی ناپاک سازشوں کے لیے ایک نیا اڈا بنا لیا۔ اور قیصر روم سے ساز باز شروع کر دی۔ غرض ہر موقع پر اس کی انتہائی کوشش یہ ہوتی تھی کہ اسلام مغلوب ہو اور مدینہ کا رئیس اعظم میں بن جاؤں۔ آخر یہی حسرت دل میں لیے ہوئے اس نے اس جہان سے کوچ کیا۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

فتنہ و فساد کی آگ منافق ٭٭
اللہ تعالیٰ منافقین سے نفرت دلانے کے لیے فرما رہا ہے کہ کیا بھول گئے مدتوں تو یہ فتنہ و فساد کی آگ سلگاتے رہے ہیں اور تیرے کام کے الٹ دینے کی بیسیوں تدبیریں کر چکے ہیں مدینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم آتے ہی تمام عرب نے ایک ہو کرمصیبتوں کی بارش آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر برسا دی۔
باہر سے وہ چڑھ دوڑے اندر سے یہود مدینہ اور منافقین مدینہ نے بغاوت کر دی لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک ہی دن میں سب کی کمانیں اتار دیں ان کے جوڑ ڈھیلے کر دیئے ان کے جوش ٹھنڈے کر دیئے بدر کے معرکے نے ان کے ہوش حواس بھلا دیئے اور ان کے ارمان ذبح کر دیئے۔
رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے صاف کہ دیا کہ بس اب یہ لوگ ہمارے بس کے نہیں رہے اب تو سوا اس کے کوئی چارہ نہیں کہ ظاہر میں اسلام کی موافقت کی جائے دل میں جو ہے سو ہے وقت آنے دو دیکھی جائے گی اور دکھا دی جائے گی۔ پھر جوں جوں حق کی بلندی اور توحید کی اونچائ ہوتی گئ یہ جلتے جھلستے گئے۔ آخر حق نے قدم جمائے اور کلمہ ربانی غالب آ گیا اور یہ یونہی پیٹ پیٹتے اور ڈنڈے بجاتے رہے۔