اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ مِنۡہَاۤ اَرۡبَعَۃٌ حُرُمٌ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ۬ۙ فَلَا تَظۡلِمُوۡا فِیۡہِنَّ اَنۡفُسَکُمۡ وَ قَاتِلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ کَآفَّۃً ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۳۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بے شک مہینوں کی گنتی، اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے، جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ یہی سیدھا دین ہے۔ سو ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو، جیسے وہ ہر حال میں تم سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
خدا کے نزدیک مہینے گنتی میں (بارہ ہیں یعنی) اس روز (سے) کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ کتاب خدا میں (برس کے) بارہ مہینے (لکھے ہوئے) ہیں۔ ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا راستہ ہے۔ تو ان (مہینوں) میں (قتال ناحق سے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا۔ اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں۔ اور جان رکھو کہ خدا پرہیز گاروں کے ساتھ ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں باره کی ہے، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے اس میں سے چار حرمت وادب کے ہیں۔ یہی درست دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ﻇلم نہ کرو اور تم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وه تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت36) ➊ {اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا …:} سورۂ توبہ میں مشرکین سے براء ت اور ان سے جہاد کے درمیان «قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ» آیت (۲۹) سے لے کر «فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ» آیت (۳۵) تک سات آیات میں اہل کتاب سے قتال اور ان کے تینوں سربرآور دہ طبقات احبار، رہبان اور مال دار لوگوں کے بگاڑ کا ذکر اور مذمت کرنے کے بعد آگے ان دو آیات میں مشرکین کی کچھ مزید خرابیوں کا ذکر فرمایا۔
➋ یہود و نصاریٰ کی طرح مشرکین عرب بھی اللہ کے احکام بدلنے کے لیے حیلہ سازی سے کام لیتے تھے، مثلاً آسمان و زمین کی پیدائش کے دن سے تمام ادیان میں یہ طریقہ چلا آ رہا تھا کہ مہینے اور سال شمسی حساب یعنی سورج کے بجائے قمری حساب یعنی چاند کے لحاظ سے معتبر سمجھے جاتے تھے اور تمام عبادات میں یہی تاریخیں ملحوظ رکھی جاتی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی طریقہ قائم رکھا، کیونکہ چاند کی حالت کا روزانہ بدلنا تاریخ کے تعین میں اتنا واضح اور آسان ہے کہ آبادیوں کے علاوہ جنگلوں، پہاڑوں، صحراؤں اور سمندروں میں رہنے والے لوگ کسی کیلنڈر کی محتاجی کے بغیر مہینوں اور سالوں کا حساب آسانی سے معلوم کر سکتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: «هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَ الْحِسَابَ» [یونس: ۵] ”وہی ہے جس نے سورج کو تیز روشنی اور چاند کو نور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں، تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب معلوم کرو۔“ اللہ تعالیٰ نے تمام شرعی احکام قمری حساب کے مطابق رکھے، جس میں دوسری بے شمار حکمتوں کے ساتھ یہ حکمت بھی ہے کہ یہ عبادات ہر سال ایک ہی موسم میں نہ آئیں بلکہ بدل بدل کر آتی رہیں، ورنہ کسی علاقے میں روزے ہمیشہ گرمی میں آتے، کہیں ہمیشہ سردی میں۔ قمری حساب کی وجہ سے حج بھی مختلف موسموں میں آتا ہے، تاکہ مسلمان سختی اور نرمی دونوں حالتوں میں روزہ و حج اور اللہ کے دوسرے احکام ادا کرنے کی عادت ڈال سکیں۔ قمری مہینا ۲۹ یا ۳۰ دن کا ہوتا ہے، نہ اس سے ایک دن کم نہ زیادہ اور سال بارہ ماہ میں ۳۵۴یا ۳۵۵ دنوں کا ہوتا ہے، جبکہ شمسی سال ۳۶۵ دن اور ایک دن کے چوتھائی حصے کے برابر ہوتا ہے اور اس کے بارہ ماہ میں سے کوئی تیس، کوئی اکتیس دن کا اور فروری ۲۸ دن کا ہوتا ہے جو چوتھے سال ۲۹ دن کا شمار کیا جاتا ہے، شمسی سال کا ہر ماہ اور دن اپنے مقرر موسم ہی میں آتا ہے۔
➌ قمری مہینوں میں سے چار ماہ کو دین ابراہیمی میں حرمت والے مہینے قرار دیا گیا تھا، جن میں ہر قسم کی لڑائی حرام تھی، حتیٰ کہ اگر کوئی ان دنوں میں اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لیتا تو قتل نہ کرتا، جن میں سے تین مسلسل تھے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم، تاکہ حج کے ایام اور ان سے ایک ماہ پہلے اور ایک ماہ بعد پورے عرب میں لوگ حج کے لیے بے خوف اور پرامن ہو کر حج کر سکیں اور رجب کا مہینا الگ رکھا، تاکہ لوگ امن کے ساتھ عمرہ کے لیے آنے جانے کا سفر کر سکیں۔
➍ اللہ تعالیٰ نے یہاں مہینوں کی گنتی بارہ ماہ ہونے کی صراحت اس لیے فرمائی ہے کہ مشرکین عرب حج کو شمسی سال کی طرح ہر سال ایک ہی دن خوشگوار موسم میں ادا کرنے کے لیے قمری مہینوں کے سال کو شمسی سال کے برابر کرنے کے لیے کبھی قمری سال میں اضافہ کر کے اسے تیرہ یا چودہ ماہ کا کر لیتے تھے اور اسے ”کبیسہ“ کہتے تھے۔ یہ بھی ”نسئی“ کی ایک صورت تھی، یعنی حرمت والے مہینے اپنے اصل مقام سے مؤخر ہو جاتے تھے اور حلال مہینوں کو وہ حرمت والا قرار دے لیتے تھے۔ جس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا اس سال اتفاق سے حج اپنے اصلی دن، یعنی قمری لحاظ سے ۱۰ ذوالحجہ کو ادا ہوا تھا، اس کے بعد سے لے کر اللہ کے حکم کے مطابق حج اور اسلام کی دوسری تمام عبادات قمری تاریخ کے مطابق اصل وقت ہی پر ادا ہو رہی ہیں۔ یہی مطلب ہے اس حدیث کا جو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع کے خطبہ میں) فرمایا: ”زمانہ گھوم پھر کر اپنی اس اصل پر آگیا ہے جو اس دن تھی جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہے، جن میں سے چار حرمت والے ہیں، تین پے در پے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور مضر قبیلے کا رجب جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہے۔“ [بخاری، المغازی، باب حجۃ الوداع: ۴۴۰۶]آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مضر کا رجب اس لیے فرمایا کہ بنو ربیعہ رمضان کو حرمت کا مہینا قرار دیتے تھے اور بنو مضر اصل رجب کو، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہونے کی تصریح فرمائی۔
➎ { فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ:} اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے مہینوں میں بے شک اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہو، بلکہ کچھ مقامات اور اوقات جو زیادہ فضیلت رکھتے ہیں، مثلاً مکہ، مدینہ، بیت المقدس، اللہ تعالیٰ کی مساجد، ماہ رمضان، لیلۃ القدر، حرمت والے ماہ وغیرہ، ان میں نیکی کی تاکید زیادہ ہے، جیسا کہ فرمایا: «حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى» [البقرۃ: ۲۳۸] ”سب نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی۔“ اسی طرح ان میں ظلم سے باز رہنے کی تاکید بھی زیادہ ہے، حتیٰ کہ حرم مکہ میں ظلم کے ساتھ الحاد (کج روی) کے ارادے پر بھی عذاب الیم کی وعید ہے۔ دیکھیے سورۂ حج (۲۵) جب کہ دوسری جگہوں میں ارادے پر یہ مؤاخذہ نہیں۔ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مہینوں کو آگے پیچھے کر کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرکے اپنے آپ پر ظلم مت کرو۔
➏ {وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَآفَّةً …: ” كَآفَّةً “} مصدر ہے اور فاعل اور مفعول دونوں سے حال بن سکتا ہے۔ یہ لفظ اسی طرح آتا ہے، اس کا تثنیہ یا جمع نہیں آتا، نہ اس پر ”الف لام“ آتا ہے اور یہ لازماً مؤنث ہی آتا ہے، جیسا کہ {” عَامَةٌ “} یا {”خَاصَةٌ “} ہے۔ {” كَآفَّةً “} کا معنی {”جَمِيْعًا “} ہے۔ اس کی دو تفسیریں بیان کی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ جس طرح مشرکین تم سے سب کے سب اکٹھے ہو کر لڑتے ہیں تم بھی سب مل کر ان سے اکٹھے ہو کر لڑو۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ بے شک یہ چار مہینے حرمت والے ہیں، مگر مشرکین چونکہ اس کی پروا نہیں کرتے اور عین حرمت والے مہینوں میں بھی وہ تم سے لڑنے سے دریغ نہیں کرتے، جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ذوالقعدہ میں وہ لڑنے پر تیار ہو گئے تھے، اس سے پہلے انھوں نے حرم کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے مسلمانوں کو وہاں سے نکال دیا تھا اور پھر وہاں داخلے سے روک دیا تھا، مسلمانوں پر ظلم کرنے میں نہ حرم کا خیال رکھا نہ حرمت والے مہینوں کا، اس لیے تم بھی ان سے تمام مہینوں میں اور ہر حال میں ہر جگہ لڑو، جس طرح وہ تم سے ہر حال میں ہر جگہ اور تمام مہینوں میں لڑتے ہیں۔ تفصیل ”التحریر والتنویر“ میں دیکھیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ کیا ہے: ”اور لڑو مشرکوں سے ہر حال، جیسے وہ لڑتے ہیں تم سے ہر حال۔“ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ صراحت فرمائی ہے: «اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَ الْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ» [البقرۃ: ۱۹۴] ”حرمت والا مہینا حرمت والے مہینے کے بدلے ہے اور سب حرمتیں ایک دوسری کا بدلہ ہیں۔“ اس سے معلوم ہوا کہ اگر مشرکین حرمت والے مہینوں کی حرمت اور حرم مکہ کی حرمت کا پوری طرح پاس کریں اور ان میں کوئی جنگی کارروائی نہ کریں تو مسلمانوں کو بھی اس کا پاس رکھنا چاہیے، ورنہ ہر وقت اور ہر جگہ ان کے خلاف جنگ کی جائے گی، فرمایا: «وَ لَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ» [البقرۃ: ۱۹۱] ”اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو، یہاں تک کہ وہ اس میں تم سے لڑیں۔“
➋ یہود و نصاریٰ کی طرح مشرکین عرب بھی اللہ کے احکام بدلنے کے لیے حیلہ سازی سے کام لیتے تھے، مثلاً آسمان و زمین کی پیدائش کے دن سے تمام ادیان میں یہ طریقہ چلا آ رہا تھا کہ مہینے اور سال شمسی حساب یعنی سورج کے بجائے قمری حساب یعنی چاند کے لحاظ سے معتبر سمجھے جاتے تھے اور تمام عبادات میں یہی تاریخیں ملحوظ رکھی جاتی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی طریقہ قائم رکھا، کیونکہ چاند کی حالت کا روزانہ بدلنا تاریخ کے تعین میں اتنا واضح اور آسان ہے کہ آبادیوں کے علاوہ جنگلوں، پہاڑوں، صحراؤں اور سمندروں میں رہنے والے لوگ کسی کیلنڈر کی محتاجی کے بغیر مہینوں اور سالوں کا حساب آسانی سے معلوم کر سکتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: «هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً وَّ الْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِيْنَ وَ الْحِسَابَ» [یونس: ۵] ”وہی ہے جس نے سورج کو تیز روشنی اور چاند کو نور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں، تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب معلوم کرو۔“ اللہ تعالیٰ نے تمام شرعی احکام قمری حساب کے مطابق رکھے، جس میں دوسری بے شمار حکمتوں کے ساتھ یہ حکمت بھی ہے کہ یہ عبادات ہر سال ایک ہی موسم میں نہ آئیں بلکہ بدل بدل کر آتی رہیں، ورنہ کسی علاقے میں روزے ہمیشہ گرمی میں آتے، کہیں ہمیشہ سردی میں۔ قمری حساب کی وجہ سے حج بھی مختلف موسموں میں آتا ہے، تاکہ مسلمان سختی اور نرمی دونوں حالتوں میں روزہ و حج اور اللہ کے دوسرے احکام ادا کرنے کی عادت ڈال سکیں۔ قمری مہینا ۲۹ یا ۳۰ دن کا ہوتا ہے، نہ اس سے ایک دن کم نہ زیادہ اور سال بارہ ماہ میں ۳۵۴یا ۳۵۵ دنوں کا ہوتا ہے، جبکہ شمسی سال ۳۶۵ دن اور ایک دن کے چوتھائی حصے کے برابر ہوتا ہے اور اس کے بارہ ماہ میں سے کوئی تیس، کوئی اکتیس دن کا اور فروری ۲۸ دن کا ہوتا ہے جو چوتھے سال ۲۹ دن کا شمار کیا جاتا ہے، شمسی سال کا ہر ماہ اور دن اپنے مقرر موسم ہی میں آتا ہے۔
➌ قمری مہینوں میں سے چار ماہ کو دین ابراہیمی میں حرمت والے مہینے قرار دیا گیا تھا، جن میں ہر قسم کی لڑائی حرام تھی، حتیٰ کہ اگر کوئی ان دنوں میں اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لیتا تو قتل نہ کرتا، جن میں سے تین مسلسل تھے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم، تاکہ حج کے ایام اور ان سے ایک ماہ پہلے اور ایک ماہ بعد پورے عرب میں لوگ حج کے لیے بے خوف اور پرامن ہو کر حج کر سکیں اور رجب کا مہینا الگ رکھا، تاکہ لوگ امن کے ساتھ عمرہ کے لیے آنے جانے کا سفر کر سکیں۔
➍ اللہ تعالیٰ نے یہاں مہینوں کی گنتی بارہ ماہ ہونے کی صراحت اس لیے فرمائی ہے کہ مشرکین عرب حج کو شمسی سال کی طرح ہر سال ایک ہی دن خوشگوار موسم میں ادا کرنے کے لیے قمری مہینوں کے سال کو شمسی سال کے برابر کرنے کے لیے کبھی قمری سال میں اضافہ کر کے اسے تیرہ یا چودہ ماہ کا کر لیتے تھے اور اسے ”کبیسہ“ کہتے تھے۔ یہ بھی ”نسئی“ کی ایک صورت تھی، یعنی حرمت والے مہینے اپنے اصل مقام سے مؤخر ہو جاتے تھے اور حلال مہینوں کو وہ حرمت والا قرار دے لیتے تھے۔ جس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا اس سال اتفاق سے حج اپنے اصلی دن، یعنی قمری لحاظ سے ۱۰ ذوالحجہ کو ادا ہوا تھا، اس کے بعد سے لے کر اللہ کے حکم کے مطابق حج اور اسلام کی دوسری تمام عبادات قمری تاریخ کے مطابق اصل وقت ہی پر ادا ہو رہی ہیں۔ یہی مطلب ہے اس حدیث کا جو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع کے خطبہ میں) فرمایا: ”زمانہ گھوم پھر کر اپنی اس اصل پر آگیا ہے جو اس دن تھی جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ ماہ کا ہے، جن میں سے چار حرمت والے ہیں، تین پے در پے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور مضر قبیلے کا رجب جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہے۔“ [بخاری، المغازی، باب حجۃ الوداع: ۴۴۰۶]آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مضر کا رجب اس لیے فرمایا کہ بنو ربیعہ رمضان کو حرمت کا مہینا قرار دیتے تھے اور بنو مضر اصل رجب کو، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہونے کی تصریح فرمائی۔
➎ { فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ:} اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسرے مہینوں میں بے شک اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہو، بلکہ کچھ مقامات اور اوقات جو زیادہ فضیلت رکھتے ہیں، مثلاً مکہ، مدینہ، بیت المقدس، اللہ تعالیٰ کی مساجد، ماہ رمضان، لیلۃ القدر، حرمت والے ماہ وغیرہ، ان میں نیکی کی تاکید زیادہ ہے، جیسا کہ فرمایا: «حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى» [البقرۃ: ۲۳۸] ”سب نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی۔“ اسی طرح ان میں ظلم سے باز رہنے کی تاکید بھی زیادہ ہے، حتیٰ کہ حرم مکہ میں ظلم کے ساتھ الحاد (کج روی) کے ارادے پر بھی عذاب الیم کی وعید ہے۔ دیکھیے سورۂ حج (۲۵) جب کہ دوسری جگہوں میں ارادے پر یہ مؤاخذہ نہیں۔ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مہینوں کو آگے پیچھے کر کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرکے اپنے آپ پر ظلم مت کرو۔
➏ {وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَآفَّةً …: ” كَآفَّةً “} مصدر ہے اور فاعل اور مفعول دونوں سے حال بن سکتا ہے۔ یہ لفظ اسی طرح آتا ہے، اس کا تثنیہ یا جمع نہیں آتا، نہ اس پر ”الف لام“ آتا ہے اور یہ لازماً مؤنث ہی آتا ہے، جیسا کہ {” عَامَةٌ “} یا {”خَاصَةٌ “} ہے۔ {” كَآفَّةً “} کا معنی {”جَمِيْعًا “} ہے۔ اس کی دو تفسیریں بیان کی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ جس طرح مشرکین تم سے سب کے سب اکٹھے ہو کر لڑتے ہیں تم بھی سب مل کر ان سے اکٹھے ہو کر لڑو۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ بے شک یہ چار مہینے حرمت والے ہیں، مگر مشرکین چونکہ اس کی پروا نہیں کرتے اور عین حرمت والے مہینوں میں بھی وہ تم سے لڑنے سے دریغ نہیں کرتے، جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ذوالقعدہ میں وہ لڑنے پر تیار ہو گئے تھے، اس سے پہلے انھوں نے حرم کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے مسلمانوں کو وہاں سے نکال دیا تھا اور پھر وہاں داخلے سے روک دیا تھا، مسلمانوں پر ظلم کرنے میں نہ حرم کا خیال رکھا نہ حرمت والے مہینوں کا، اس لیے تم بھی ان سے تمام مہینوں میں اور ہر حال میں ہر جگہ لڑو، جس طرح وہ تم سے ہر حال میں ہر جگہ اور تمام مہینوں میں لڑتے ہیں۔ تفصیل ”التحریر والتنویر“ میں دیکھیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ کیا ہے: ”اور لڑو مشرکوں سے ہر حال، جیسے وہ لڑتے ہیں تم سے ہر حال۔“ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ صراحت فرمائی ہے: «اَلشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَ الْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ» [البقرۃ: ۱۹۴] ”حرمت والا مہینا حرمت والے مہینے کے بدلے ہے اور سب حرمتیں ایک دوسری کا بدلہ ہیں۔“ اس سے معلوم ہوا کہ اگر مشرکین حرمت والے مہینوں کی حرمت اور حرم مکہ کی حرمت کا پوری طرح پاس کریں اور ان میں کوئی جنگی کارروائی نہ کریں تو مسلمانوں کو بھی اس کا پاس رکھنا چاہیے، ورنہ ہر وقت اور ہر جگہ ان کے خلاف جنگ کی جائے گی، فرمایا: «وَ لَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ» [البقرۃ: ۱۹۱] ”اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو، یہاں تک کہ وہ اس میں تم سے لڑیں۔“
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
36۔ 1 فی کتاب اللہ سے مراد لوح محفوظ یعنی تقدیر الٰہی ہے۔ یعنی ابتداء آفرینش سے ہی اللہ تعالیٰ نے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں، جن میں چار حرمت والے ہیں جن میں قتال وجدال کی بالخصوص ممانعت ہے۔ اسی بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے بیان فرمایا ہے کہ ' زمانہ گھوم گھما کر پھر اسی حالت پر آگیا ہے جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی۔ سال بارہ مہینوں کا ہے، جن میں چار حرمت والے ہیں، تین پے درپے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔ (صحیح بخاری) زمانہ اسی حالت پر آگیا ہے کا مطلب، مشرکین عرب مہینوں میں جو تاخیر و تقدیم کرتے تھے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے اس کا خاتمہ ہے۔ 36۔ 2 یعنی ان مہینوں کا اسی ترتیب سے ہونا جو اللہ نے رکھی ہے اور جن میں چار حرمت والے ہیں۔ اور یہی حساب صحیح اور عدد مکمل ہے۔ 36۔ 3 یعنی حرمت والے مہینوں میں قتال کر کے ان کی حرمت پامال کر کے اور اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کر کے۔ 36۔ 4 لیکن حرمت والے مہینے گزرنے کے بعد الا یہ کہ وہ لڑنے پر مجبور کردیں، پھر حرمت والے مہینوں میں بھی تمہارے لئے لڑنا جائز ہوگا۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
36۔ جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس دن سے اللہ کے نوشتہ کے مطابق اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہی ہے، جن میں چار مہینے حرمت والے ہیں۔ یہی مستقل ضابطہ [37] ہے۔ لہذا ان مہینوں میں (قتال ناحق سے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرو۔ [38] اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو، جیسے وہ تم سے مل کر لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے
[37] حرمت کے مہینوں میں تقدیم و تاخیر، حرمت کے مہینے عرب کا رواج ہے جسے اسلام نے بحال رکھا:۔
جس طرح اہل کتاب اپنی اغراض اور دینی مفاد کی خاطر احکام الٰہی میں ہیرا پھیری کر لیتے تھے اسی طرح عرب کے مشرکین بھی کر لیا کرتے تھے اور اسی مناسبت سے یہاں ان کا ذکر آ رہا ہے۔ مشرکین عرب کے نزدیک چار ماہ حرمت والے تھے۔ ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم حج کے لیے اور رجب عمرہ کے لیے۔ ان مہینوں میں لوٹ مار اور جدال و قتال حرام تھا اور اس دوران لوگ آزادی کے ساتھ سفر اور تجارت وغیرہ کر سکتے تھے۔ اگرچہ لوٹ مار اور لڑائی جھگڑا ہر وقت ہی ایک گناہ کا کام تھا تاہم ان مہینوں میں اسے شدید تر گناہ سمجھا جاتا تھا لیکن مشرک اپنی اغراض کی خاطر ان مہینوں میں ادل بدل کر کے سال میں چار حرمت والے مہینوں کی تعداد پوری کر لیتے تھے۔ مثلاً کوئی زور آور قبیلہ جب محرم میں اپنے کسی کمزور دشمن قبیلے سے انتقام لینا یا جنگ چھیڑنا چاہتا تو وہ یہ اعلان کر دیتا کہ اس سال محرم کے بجائے صفر حرمت والا مہینہ قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس طرح وہ اپنی من مانی اغراض پوری کر لیتا اور اگلے سال پھر اعلان کر دیتا کہ اس سال محرم کا مہینہ ہی حرمت والا مہینہ شمار ہو گا۔ اور اس غرض کے لیے رد و بدل عموماً محرم اور صفر کے متعلق ہی ہوا کرتا تھا۔ اور ایسا اعلان کرنے والا شخص بنو کنانہ کا ایک سردار تلمس تھا۔ اس طرح یہ لوگ مہینوں کی حلت و حرمت کے خود بخود ہی مختار بن بیٹھے تھے۔
قمری تقویم ہی حقیقی تقویم ہے:۔
دوسری بات جو اس آیت میں بتلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وقت کی پیمائش کا قدرتی طریقہ قمری تقویم ہے شمسی نہیں۔ ایک ماہ کی مدت ایک ہلال کی رؤیت سے لے کر اگلے ہلال کی رؤیت تک ہے اور یہ مدت کبھی تیس دن ہوتی ہے اور کبھی انتیس۔ نہ 29 دن سے کم ہو سکتی ہے اور نہ 30 دن سے زیادہ۔ ایسے جب بارہ ماہ گزر جائیں تو یہ ایک سال کی مدت ہے جو کبھی 354 دن کا ہوتا ہے کبھی 355 دن کا۔ نہ اس سے کم نہ زیادہ۔ کیونکہ بارہ مہینے گزرنے پر تقریباً ویسا ہی موسم آ جاتا ہے جیسا کہ ایک سال پہلے تھا۔
قمری تقویم کی حکمت:۔
جن شرعی احکام میں ایک ماہ یا اس سے زائد مدت کا تعلق ہو تو اس میں قمری ماہ ہی شمار ہوں گے جیسے عدت و رضاعت کے احکام۔ نیز روزہ اور حج و عمرہ کا تعلق بھی قمری مہینوں سے ہے اور عیدین کا بھی۔ قمری سال شمسی سال سے تقریباً دس دن چھوٹا ہوتا ہے۔ اور موسموں اور فصلوں کے پکنے کا تعلق سورج اور موسم سے ہوتا ہے چاند سے نہیں ہوتا۔ شرعی احکام کی بجا آوری کے لیے قمری تقویم کو بنیاد بنانے کی حکمت یہ ہے کہ مثلاً حج کے سفر کے لیے مسلمان ہر موسم کی صعوبتیں برداشت کرنے کے خوگر ہو جائیں۔ نیز رمضان کا مہینہ کسی خاص ملک میں ایک ہی موسم میں نہ آیا کرے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک ملک میں تو روزے ہمیشہ سرد موسم میں اور چھوٹے دنوں کے آیا کریں اور دوسرے ملک میں گرم موسم اور بڑے دنوں کے آیا کریں۔
[38] جہاد قیامت تک جاری رہے گی:۔
آیت کے اس جملہ میں مسلمانوں کو دو قسم کی ہدایات دی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتداء تمہاری طرف سے ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ ہاں اگر مشرک لڑائی چھیڑ ہی دیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔ دوسری یہ کہ جس طرح مشرکوں کے سب قبائل اپنی باہمی رنجشیں چھوڑ کر تمہارے مقابلہ میں متحد ہو جاتے ہیں اسی طرح تمہیں بھی ان کے مقابلہ میں اکٹھے ہو کر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے نیز کَآفَۃً کے مفہوم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تمہیں ہر حال میں مشرکوں کا مقابلہ کرنا چاہیے جس سے ضمناً یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفر اور مشرکین سے جہاد قیامت تک کے لیے فرض ہے۔ اس آیت اور اس مضمون کی دوسری آیات جن میں جہاد کی ترغیب دی گئی ہے مخالفین اسلام نے یہ پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور اس اعتراض کے کئی بار کافی و شافی جواب بھی دیئے جا چکے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ اعتراض نہ نقلی اعتبار سے درست ہے نہ عقلی اعتبار سے اور نہ تاریخی اعتبار سے ذیل میں ہم انہی باتوں کا مختصر سا جائزہ پیش کر رہے ہیں: نقلی اعتبار سے یہ اعتراض درج ذیل آیات کی رو سے غلط ہے۔
1۔ ﴿لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ﴾ [2: 256] دین میں کوئی جبر یا زبردستی نہیں۔
2۔ ﴿اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّيٰ يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ﴾ [10: 99] کیا آپ لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیوں ایمان نہیں لاتے؟
3۔ ﴿فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ﴾ جو شخص چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔
ایسی واضح آیات کی موجودگی میں کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرامؓ نے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہو گی اور کسی شخص کو تلوار دکھا کر یا کسی دباؤ کے ذریعہ اسلام لانے پر مجبور کیا ہو گا؟ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ”اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اسے پناہ دو تا آنکہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کی امن کی جگہ تک پہنچا دو۔“ غور فرمائیے کہ دباؤ کا اس سے بہتر بھی کوئی موقع ہو سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اسے مجبور کرو کہ وہ اسلام لائے یا پھر اسے موت کے گھاٹ اتار دو بلکہ یوں فرمایا کہ اسے اللہ کا کلام سنانے کے بعد اسے اس کی مرضی پر چھوڑ دو۔ پھر اگر وہ اسلام لانے پر آمادہ نہ ہو تو اسے اس کے محفوظ علاقہ تک پہچانا بھی پناہ دینے والے کے ذمہ ڈال دیا گیا۔ کیا اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے؟ سیدنا عمرؓ جس شان و شوکت اور رعب و دبدبہ والے خلیفہ تھے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ کا ایک غلام اسبق نامی عیسائی تھا۔ وہ چونکہ سمجھدار اور ہوشیار آدمی تھا لہٰذا سیدنا عمر نے اسے کہا کہ اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو ہم مسلمانوں کے کام میں تم سے مدد لیں گے۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ آپ اسے کوئی اچھا منصب دینا چاہتے تھے۔ لیکن جب اس پر اسلام پیش فرماتے تو وہ انکار کر دیتا اور آپ «لااكراه فى الدين» کہہ کر چپ ہو جاتے [الجهاد فى الاسلام ص 163] گویا تلوار یا دباؤ کے ذریعہ تو سیدنا عمر اپنے غلام کو بھی مسلمان نہ بنا سکے پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ وسیع و عریض مفتوحہ علاقہ میں انہوں نے مفتوحین کو تلوار کے ذریعہ مسلمان بنا لیا ہو گا؟ اور عقلی اعتبار سے یہ مفروضہ اس لیے غلط ہے کہ تلوار کے ذریعہ کسی سے کوئی بات منوائی نہیں جا سکتی اور کوئی شخص وقتی طور پر دباؤ کے تحت کوئی بات مان بھی جائے تو اس بات پر قائم و دائم نہیں رکھا جا سکتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ مسلمان ہوئے وہ دل و جان سے اسلام کے اس طرح فدائی و شیدائی بن گئے کہ کفار کے ظلم اور مصائب برداشت کرتے رہنے کے باوجود اس دین سے باز نہیں آتے تھے اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تلوار یا دباؤ سے بات منوائی نہیں جا سکتی۔ کیونکہ اس وقت تلوار یا دباؤ کفار مکہ کے ہاتھ میں تھا اور آج بھی اگر کوئی شخص یا کوئی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ دین کو تلوار کے ذریعے پھیلانا ممکن ہے تو اپنا دین پھیلا کر دکھا دے۔ اور تاریخی لحاظ سے یہ اس لیے غلط ہے کہ اگر اس نظریہ کو تسلیم کر لیا جائے تو مندرجہ ذیل سوالات ذہن میں ابھر آتے ہیں۔
1۔ ابتداً جو لوگ مسلمان ہوئے اور 13 سال تک مکہ میں ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہے، انہیں کونسی تلوار نے مسلمان بنایا تھا؟
2۔ مکہ میں مسلمانوں کے دشمن صرف قریش مکہ تھے لیکن مدینہ میں دشمنوں کی تعداد ایک سے چار ہو گئی تھی۔ قریش مکہ۔ یہود مدینہ۔ منافقین اور عرب بھر کے مشرک قبائل اور مسلمان ان کے مقابلہ میں انتہائی کمزور تھے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ غزوہ بدر میں شامل ہونے والوں کی تعداد صرف تین سو تیرہ تھی جبکہ ایک سال بعد جنگ احد میں خالص مسلمانوں کی تعداد سات سو تھی یعنی دگنی سے بھی زیادہ۔ اس عرصہ میں مسلمانوں کے پاس کونسی تلوار تھی کہ اسلام اس تیزی سے بڑھنے لگا تھا؟
3۔ مزید دو سال بعد جنگ خندق میں لڑنے والے مسلمانوں کی تعداد تین ہزار یعنی چار گنا سے زیادہ ہو گئی تھی۔ اس وقت مسلمانوں کے پاس کونسی تلوار یا قوت تھی جو لوگوں کو مسلمان بنائے جا رہی تھی؟
4۔ صلح حدیبیہ میں کونسی تلوار چلائی گئی تھی جس کے نتیجہ میں لوگ دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہونے لگے تھے؟
5۔ فتح مکہ میں تلوار تو چلائی ہی نہیں گئی تاہم فتح کے بعد جب لوگوں کو عام معافی مل گئی تھی تو انہیں اسلام لانے پر کونسی تلوار نے مجبور کیا تھا؟
6۔ یہود سے جو جنگیں ہوئیں تو ان کے نتیجہ میں کوئی یہودی مسلمان بنا تھا؟
7۔ محاصرہ طائف میں محاصرہ اٹھا لینے کے بعد اہل طائف کو کونسی مجبوری پیش آگئی تھی کہ وہ از خود اسلام لے آئے تھے؟
1۔ ﴿لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ﴾ [2: 256] دین میں کوئی جبر یا زبردستی نہیں۔
2۔ ﴿اَفَاَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتّيٰ يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ﴾ [10: 99] کیا آپ لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیوں ایمان نہیں لاتے؟
3۔ ﴿فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ﴾ جو شخص چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے۔
ایسی واضح آیات کی موجودگی میں کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرامؓ نے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہو گی اور کسی شخص کو تلوار دکھا کر یا کسی دباؤ کے ذریعہ اسلام لانے پر مجبور کیا ہو گا؟ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ”اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اسے پناہ دو تا آنکہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اسے اس کی امن کی جگہ تک پہنچا دو۔“ غور فرمائیے کہ دباؤ کا اس سے بہتر بھی کوئی موقع ہو سکتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اسے مجبور کرو کہ وہ اسلام لائے یا پھر اسے موت کے گھاٹ اتار دو بلکہ یوں فرمایا کہ اسے اللہ کا کلام سنانے کے بعد اسے اس کی مرضی پر چھوڑ دو۔ پھر اگر وہ اسلام لانے پر آمادہ نہ ہو تو اسے اس کے محفوظ علاقہ تک پہچانا بھی پناہ دینے والے کے ذمہ ڈال دیا گیا۔ کیا اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے؟ سیدنا عمرؓ جس شان و شوکت اور رعب و دبدبہ والے خلیفہ تھے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ کا ایک غلام اسبق نامی عیسائی تھا۔ وہ چونکہ سمجھدار اور ہوشیار آدمی تھا لہٰذا سیدنا عمر نے اسے کہا کہ اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو ہم مسلمانوں کے کام میں تم سے مدد لیں گے۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ آپ اسے کوئی اچھا منصب دینا چاہتے تھے۔ لیکن جب اس پر اسلام پیش فرماتے تو وہ انکار کر دیتا اور آپ «لااكراه فى الدين» کہہ کر چپ ہو جاتے [الجهاد فى الاسلام ص 163] گویا تلوار یا دباؤ کے ذریعہ تو سیدنا عمر اپنے غلام کو بھی مسلمان نہ بنا سکے پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ وسیع و عریض مفتوحہ علاقہ میں انہوں نے مفتوحین کو تلوار کے ذریعہ مسلمان بنا لیا ہو گا؟ اور عقلی اعتبار سے یہ مفروضہ اس لیے غلط ہے کہ تلوار کے ذریعہ کسی سے کوئی بات منوائی نہیں جا سکتی اور کوئی شخص وقتی طور پر دباؤ کے تحت کوئی بات مان بھی جائے تو اس بات پر قائم و دائم نہیں رکھا جا سکتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ مسلمان ہوئے وہ دل و جان سے اسلام کے اس طرح فدائی و شیدائی بن گئے کہ کفار کے ظلم اور مصائب برداشت کرتے رہنے کے باوجود اس دین سے باز نہیں آتے تھے اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ تلوار یا دباؤ سے بات منوائی نہیں جا سکتی۔ کیونکہ اس وقت تلوار یا دباؤ کفار مکہ کے ہاتھ میں تھا اور آج بھی اگر کوئی شخص یا کوئی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ دین کو تلوار کے ذریعے پھیلانا ممکن ہے تو اپنا دین پھیلا کر دکھا دے۔ اور تاریخی لحاظ سے یہ اس لیے غلط ہے کہ اگر اس نظریہ کو تسلیم کر لیا جائے تو مندرجہ ذیل سوالات ذہن میں ابھر آتے ہیں۔
1۔ ابتداً جو لوگ مسلمان ہوئے اور 13 سال تک مکہ میں ظلم و ستم کی چکی میں پستے رہے، انہیں کونسی تلوار نے مسلمان بنایا تھا؟
2۔ مکہ میں مسلمانوں کے دشمن صرف قریش مکہ تھے لیکن مدینہ میں دشمنوں کی تعداد ایک سے چار ہو گئی تھی۔ قریش مکہ۔ یہود مدینہ۔ منافقین اور عرب بھر کے مشرک قبائل اور مسلمان ان کے مقابلہ میں انتہائی کمزور تھے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ غزوہ بدر میں شامل ہونے والوں کی تعداد صرف تین سو تیرہ تھی جبکہ ایک سال بعد جنگ احد میں خالص مسلمانوں کی تعداد سات سو تھی یعنی دگنی سے بھی زیادہ۔ اس عرصہ میں مسلمانوں کے پاس کونسی تلوار تھی کہ اسلام اس تیزی سے بڑھنے لگا تھا؟
3۔ مزید دو سال بعد جنگ خندق میں لڑنے والے مسلمانوں کی تعداد تین ہزار یعنی چار گنا سے زیادہ ہو گئی تھی۔ اس وقت مسلمانوں کے پاس کونسی تلوار یا قوت تھی جو لوگوں کو مسلمان بنائے جا رہی تھی؟
4۔ صلح حدیبیہ میں کونسی تلوار چلائی گئی تھی جس کے نتیجہ میں لوگ دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہونے لگے تھے؟
5۔ فتح مکہ میں تلوار تو چلائی ہی نہیں گئی تاہم فتح کے بعد جب لوگوں کو عام معافی مل گئی تھی تو انہیں اسلام لانے پر کونسی تلوار نے مجبور کیا تھا؟
6۔ یہود سے جو جنگیں ہوئیں تو ان کے نتیجہ میں کوئی یہودی مسلمان بنا تھا؟
7۔ محاصرہ طائف میں محاصرہ اٹھا لینے کے بعد اہل طائف کو کونسی مجبوری پیش آگئی تھی کہ وہ از خود اسلام لے آئے تھے؟
اشاعت اسلام کے اصل اسباب:۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ تلوار کے ذریعہ اسلام پھیلنے کا نظریہ غلط ہے لیکن اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ ”اسلام واقعی نہایت کثرت سے پھیلا تھا۔“ لہٰذا ہمیں وہ اسباب تلاش کرنے چاہئیں جو اس کثرت اشاعت کا سبب بنے۔ ہمارے خیال میں یہ اسلام کی ذاتی خصوصیات ہیں جن میں سے چند ایک کا ہم یہاں ذکر کریں گے۔
1۔ کثرت اشاعت اسلام کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب معاشرتی مساوات ہے یعنی جب کوئی شخص یا قوم اسلام لاتی ہے تو اسے سابقہ مسلمانوں جیسا معاشرتی درجہ حاصل ہو جاتا ہے اور وہ آپس میں بھائی بھائی بن جاتے اور سمجھے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس کی مثالیں قرون اولیٰ میں بے شمار ہیں مگر ہم طوالت سے بچنے کی خاطر اپنے ہی ملک کی ایک دو مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں: 1۔ 4 جولائی 1981 ء کے نوائے وقت میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ”جنوبی بھارت میں اونچی ذات کے ہندوؤں کے مظالم سے تنگ آ کر 1300 ہریجنوں نے اسلام قبول کر لیا۔“ غور فرمائیے کہ اونچی ذات کے ہندو یعنی برہمن بھی ہندو ہیں اور نیچی ذات کے ہریجن بھی ہندو ہی ہیں لیکن محض معاشرتی تفاوت کی بنا پر اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ آخر انہیں کونسی تلوار نے اسلام لانے پر مجبور کیا تھا؟ پھر دوسرے دن یعنی 5 جولائی کو اسی نوائے وقت میں ہندوستان کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کی طرف سے یہ خبر شائع ہوئی کہ ”مجھے تکلیف ان لوگوں کی اسلام لانے پر نہیں بلکہ اسباب پر ہے۔“ اور یہ ’اسباب‘ جن پر وزیر اعظم صاحبہ کو تکلیف ہوئی وہ ان کے مذہب کا جزو لاینفک ہیں۔ ہندومت، برہمن کو تو بالا تر مخلوق سمجھتا ہے اور شودر کو انسان بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ شودر برہم کا پیدائشی غلام ہے اور غلامی کا یہ پھندا کسی صورت اس کی گردن سے اتر نہیں سکتا۔ انہی ’اسباب‘ کو اسلام نے ختم کیا اور انہی اسباب کے خاتمہ کی وجہ سے اسلام ہر دور میں پھیلتا رہا اور ہندوستان میں بھی پھیلا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ان برہمنوں نے ہندو مذہب کی اس انسانیت کش ذات پات کی تقسیم سے تنگ آ کر آخر اسلام ہی کیوں قبول کیا کوئی دوسرا مذہب کیوں نہ قبول کر لیا اس بات کا جواب آپ کو درج ذیل واقعہ سے مل جائے گا۔ ب۔ 31 جولائی 1981ء نوائے وقت میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ”پانڈی چری میں ڈیڑھ ہزار ہریجن مسلمان ہو گئے“ اور 30 جولائی یعنی ایک دن پہلے یہ خبر شائع ہوئی کہ ہریجنوں کے لیڈر مسٹر سی کرشنا مورتی نے اسلام لانے کے بعد اخباری نمائندوں کو بتایا کہ عیسائی مذہب قبول کرنے سے ان کی سماجی حیثیت بلند نہیں ہوتی لیکن اسلام لانے سے ہمارا سماجی مرتبہ بڑھ جاتا ہے۔ ہمارا یہ فیصلہ حتمی ہے اور اس میں کوئی سیاسی مصلحت نہیں واضح رہے کہ اس سے قبل تامل ناڈو کے موضع منباکشی پورم میں ہریجنوں نے اجتماعی طور پر مذہب اسلام قبول کر لیا ہے۔ [نوائے وقت حواله مذكوره صفحه 5]
1۔ کثرت اشاعت اسلام کا سب سے بڑا اور بنیادی سبب معاشرتی مساوات ہے یعنی جب کوئی شخص یا قوم اسلام لاتی ہے تو اسے سابقہ مسلمانوں جیسا معاشرتی درجہ حاصل ہو جاتا ہے اور وہ آپس میں بھائی بھائی بن جاتے اور سمجھے جاتے ہیں۔ اگرچہ اس کی مثالیں قرون اولیٰ میں بے شمار ہیں مگر ہم طوالت سے بچنے کی خاطر اپنے ہی ملک کی ایک دو مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں: 1۔ 4 جولائی 1981 ء کے نوائے وقت میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ”جنوبی بھارت میں اونچی ذات کے ہندوؤں کے مظالم سے تنگ آ کر 1300 ہریجنوں نے اسلام قبول کر لیا۔“ غور فرمائیے کہ اونچی ذات کے ہندو یعنی برہمن بھی ہندو ہیں اور نیچی ذات کے ہریجن بھی ہندو ہی ہیں لیکن محض معاشرتی تفاوت کی بنا پر اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ آخر انہیں کونسی تلوار نے اسلام لانے پر مجبور کیا تھا؟ پھر دوسرے دن یعنی 5 جولائی کو اسی نوائے وقت میں ہندوستان کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کی طرف سے یہ خبر شائع ہوئی کہ ”مجھے تکلیف ان لوگوں کی اسلام لانے پر نہیں بلکہ اسباب پر ہے۔“ اور یہ ’اسباب‘ جن پر وزیر اعظم صاحبہ کو تکلیف ہوئی وہ ان کے مذہب کا جزو لاینفک ہیں۔ ہندومت، برہمن کو تو بالا تر مخلوق سمجھتا ہے اور شودر کو انسان بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ شودر برہم کا پیدائشی غلام ہے اور غلامی کا یہ پھندا کسی صورت اس کی گردن سے اتر نہیں سکتا۔ انہی ’اسباب‘ کو اسلام نے ختم کیا اور انہی اسباب کے خاتمہ کی وجہ سے اسلام ہر دور میں پھیلتا رہا اور ہندوستان میں بھی پھیلا۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ان برہمنوں نے ہندو مذہب کی اس انسانیت کش ذات پات کی تقسیم سے تنگ آ کر آخر اسلام ہی کیوں قبول کیا کوئی دوسرا مذہب کیوں نہ قبول کر لیا اس بات کا جواب آپ کو درج ذیل واقعہ سے مل جائے گا۔ ب۔ 31 جولائی 1981ء نوائے وقت میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ”پانڈی چری میں ڈیڑھ ہزار ہریجن مسلمان ہو گئے“ اور 30 جولائی یعنی ایک دن پہلے یہ خبر شائع ہوئی کہ ہریجنوں کے لیڈر مسٹر سی کرشنا مورتی نے اسلام لانے کے بعد اخباری نمائندوں کو بتایا کہ عیسائی مذہب قبول کرنے سے ان کی سماجی حیثیت بلند نہیں ہوتی لیکن اسلام لانے سے ہمارا سماجی مرتبہ بڑھ جاتا ہے۔ ہمارا یہ فیصلہ حتمی ہے اور اس میں کوئی سیاسی مصلحت نہیں واضح رہے کہ اس سے قبل تامل ناڈو کے موضع منباکشی پورم میں ہریجنوں نے اجتماعی طور پر مذہب اسلام قبول کر لیا ہے۔ [نوائے وقت حواله مذكوره صفحه 5]
تہذیب و معاشرت کی مساوات:۔
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آج کے جمہوری اور مہذب ترین ممالک میں گورے اور کالے کے جھگڑے اور امیر اور غریب کے مسائل بدستور موجود ہیں۔ عیسائیوں کے ہاں امراء کے گرجے ہی الگ ہوتے ہیں اور بعض گرجوں میں امراء کے لیے کرسیاں اور غریبوں کو فرش پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ لیکن اسلام ہر طرح کے امتیازات کو ختم کر کے سب کو ایک صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ یہاں بلالؓ حبشی جیسے پست قد، کالے رنگ اور موٹے ہونٹوں والے آزاد شدہ غلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے کہ اَرِحْنا یا بلال اور سیدنا عمرؓ جیسے رعب و دبدبہ والے خلیفہ آپ کو سیدنا بلال کہہ کر پکارا کرتے تھے اور یہ خوبی غالباً اسلام کے علاوہ دوسرے کسی دین میں نہیں پائی جاتی۔
دوسرا سبب قانونی مساوات:۔
اشاعت اسلام کا دوسرا سبب قانونی مساوات ہے۔ قانونی مساوات کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ کا کوئی ممتاز سے ممتاز فرد حتیٰ کہ امیر یا صدر یا بادشاہ بھی قانون کی دسترس سے بالاتر نہیں ہوتا اور یہ ایک ایسا امتیاز ہے جو اسلامی ریاست کے علاوہ کہیں پایا جانا ممکن نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایسی ریاست کا اقتدار اعلیٰ خود اللہ کی ذات ہوتی ہے۔ کوئی ایک فرد یا ادارہ یا پارلیمنٹ نہیں ہوتی۔ باقی سب لوگ اللہ کے ایک جیسے محکوم اور اطاعت گزار بندے ہوتے ہیں۔ اور جمہوریت کا دعوی کرنے والے ممالک حتیٰ کہ پاکستان کا یہ حال ہے کہ صدر مملکت، وزیر اعظم، گورنر اور وزرائے اعلیٰ پر نہ تو کوئی فوجداری مقدمہ دائر ہو سکتا ہے اور نہ انہیں عدالت کسی فوجداری مقدمہ میں ملوث قرار دے سکتی ہے اور ملک کی کوئی بڑی سے بڑی عدالت بھی انہیں طلب نہیں کر سکتی۔ جب کہ اسلامی ریاست کا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو پیش کر کے یہ اعلان کر دیا کہ ”جس کسی نے مجھ سے کوئی بدلہ یا قصاص لینا ہو وہ آج لے سکتا ہے“ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلہ قریش کی ایک عورت فاطمہ مخزومی نے چوری کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حد موقوف کرنے کی سفارش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ہی یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دیتے اور اگر شریف وہی جرم کرتا تو اس کی سزا موقوف کر دی جاتی۔ یہ تو فاطمہ مخزومی کی بات ہے اللہ کی قسم! اگر میری اپنی بیٹی فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔“ [بخاري۔ كتاب الحدود۔ باب اقامه الحدود]
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء نے ایسا نظام عدالت رائج کیا جہاں مفت اور بلا تاخیر انصاف حاصل ہوتا تھا۔ خلافت راشدہ کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ خلیفہ وقت کو مدعی یا مدعا علیہ کی صورت میں عدالت میں پیش ہونا پڑا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر مقدمہ کا فیصلہ ان کے خلاف صادر ہوا۔ دور فاروقی میں شام کے گورنر سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح نے سیدنا معاذ بن جبل کو رومیوں کے پاس سفیر بنا کر بھیجا۔ شہنشاہ کا دربار اور اس کی شان و شوکت دیکھ کر آپ نے فرمایا: ”تم لوگوں کو اس پر ناز ہے کہ تم ایسے شہنشاہ کی رعایا ہو جس کو تمہاری جان و مال کا اختیار ہے لیکن ہم نے جسے اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ اگر وہ زنا کرے تو اسے درے لگائے جائیں۔ چوری کرے تو ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں۔ وہ پردے میں نہیں بیٹھتا، اپنے آپ کو ہم سے بڑا نہیں سمجھتا اور مال و دولت میں اس کو ہم پر ترجیح نہیں۔“ [الفاروق ص 125]
سیدنا علیؓ کے اپنے دور خلافت میں ان کی اپنی زرہ چوری ہو گئی جو آپ نے ایک یہودی کے پاس دیکھ لی تو سیدنا علی رضی اللہ نے یہ نہیں کیا کہ اس یہودی سے اپنی زرہ چھین کر اسے کیفر کردار تک پہنچا دیتے بلکہ قاضی شریح کی عدالت میں اس پر دعویٰ دائر کر دیا اور اپنے بیٹے حسن اور غلام کو گواہ کے طور پر پیش کیا۔ قاضی شریح نے آپ کا مقدمہ صرف اس بنا پر خارج کر دیا کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی آقا کے حق میں قبول نہیں اور عدل کے تقاضے پورے نہیں ہوتے حالانکہ عدالت کو خوب معلوم تھا کہ مدعی اور گواہ سب عادل اور ثقہ ہیں۔ عدل کی یہ صورت دیکھ کر اس یہودی نے زرہ بھی واپس کر دی اور خود بھی مسلمان ہو گیا۔ غور فرمائیے کہ اس یہودی کو اسلام لانے پر کس نے مجبور کیا تھا اور کیا وہ اکیلا ہی مسلمان ہوا ہو گا یا اس کا خاندان اور قبیلہ بھی۔ ایسے واقعات در اصل انفرادی نتائج کے حامل نہیں ہوتے بلکہ ایک جہان کے افکار و نظریات میں تلاطم بپا کر دیتے ہیں۔ اشاعت اسلام کی تیسری وجہ مسلمانوں کے اپنے کردار کی پاکیزگی ہے۔ صدر اول کے مسلمانوں کا سب سے بڑا ذریعہ تبلیغ ان کا اپنا عمل اور کردار تھا۔ ان کی زندگی سادہ اور تکلفات سے پاک تھی حتیٰ کہ دشمن بھی ان کے کردار کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ چنانچہ حمص اور دمشق میں شکست کھانے کے بعد شکست خوردہ عیسائی انطاکیہ پہنچے اور ہر قل شہنشاہ روم سے فریاد کی کہ اہل عرب نے تو تمام شام کو پامال کر دیا۔ ہر قل نے ان میں سے چند تجربہ کار اور معزز آدمیوں کو دربار میں بلا کر پوچھا کہ عرب تم سے نہ جمعیت میں زیادہ ہیں نہ سر و سامان اور قوت میں۔ پھر تم ان کے مقابلہ میں کیوں نہیں ٹھہر سکتے؟ اس سوال پر سب نے ندامت سے سر جھکا لیا البتہ ایک تجربہ کار بڈھے نے عرض کی کہ:
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء نے ایسا نظام عدالت رائج کیا جہاں مفت اور بلا تاخیر انصاف حاصل ہوتا تھا۔ خلافت راشدہ کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ خلیفہ وقت کو مدعی یا مدعا علیہ کی صورت میں عدالت میں پیش ہونا پڑا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اکثر مقدمہ کا فیصلہ ان کے خلاف صادر ہوا۔ دور فاروقی میں شام کے گورنر سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح نے سیدنا معاذ بن جبل کو رومیوں کے پاس سفیر بنا کر بھیجا۔ شہنشاہ کا دربار اور اس کی شان و شوکت دیکھ کر آپ نے فرمایا: ”تم لوگوں کو اس پر ناز ہے کہ تم ایسے شہنشاہ کی رعایا ہو جس کو تمہاری جان و مال کا اختیار ہے لیکن ہم نے جسے اپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ اگر وہ زنا کرے تو اسے درے لگائے جائیں۔ چوری کرے تو ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں۔ وہ پردے میں نہیں بیٹھتا، اپنے آپ کو ہم سے بڑا نہیں سمجھتا اور مال و دولت میں اس کو ہم پر ترجیح نہیں۔“ [الفاروق ص 125]
سیدنا علیؓ کے اپنے دور خلافت میں ان کی اپنی زرہ چوری ہو گئی جو آپ نے ایک یہودی کے پاس دیکھ لی تو سیدنا علی رضی اللہ نے یہ نہیں کیا کہ اس یہودی سے اپنی زرہ چھین کر اسے کیفر کردار تک پہنچا دیتے بلکہ قاضی شریح کی عدالت میں اس پر دعویٰ دائر کر دیا اور اپنے بیٹے حسن اور غلام کو گواہ کے طور پر پیش کیا۔ قاضی شریح نے آپ کا مقدمہ صرف اس بنا پر خارج کر دیا کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں اور غلام کی گواہی آقا کے حق میں قبول نہیں اور عدل کے تقاضے پورے نہیں ہوتے حالانکہ عدالت کو خوب معلوم تھا کہ مدعی اور گواہ سب عادل اور ثقہ ہیں۔ عدل کی یہ صورت دیکھ کر اس یہودی نے زرہ بھی واپس کر دی اور خود بھی مسلمان ہو گیا۔ غور فرمائیے کہ اس یہودی کو اسلام لانے پر کس نے مجبور کیا تھا اور کیا وہ اکیلا ہی مسلمان ہوا ہو گا یا اس کا خاندان اور قبیلہ بھی۔ ایسے واقعات در اصل انفرادی نتائج کے حامل نہیں ہوتے بلکہ ایک جہان کے افکار و نظریات میں تلاطم بپا کر دیتے ہیں۔ اشاعت اسلام کی تیسری وجہ مسلمانوں کے اپنے کردار کی پاکیزگی ہے۔ صدر اول کے مسلمانوں کا سب سے بڑا ذریعہ تبلیغ ان کا اپنا عمل اور کردار تھا۔ ان کی زندگی سادہ اور تکلفات سے پاک تھی حتیٰ کہ دشمن بھی ان کے کردار کی عظمت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ چنانچہ حمص اور دمشق میں شکست کھانے کے بعد شکست خوردہ عیسائی انطاکیہ پہنچے اور ہر قل شہنشاہ روم سے فریاد کی کہ اہل عرب نے تو تمام شام کو پامال کر دیا۔ ہر قل نے ان میں سے چند تجربہ کار اور معزز آدمیوں کو دربار میں بلا کر پوچھا کہ عرب تم سے نہ جمعیت میں زیادہ ہیں نہ سر و سامان اور قوت میں۔ پھر تم ان کے مقابلہ میں کیوں نہیں ٹھہر سکتے؟ اس سوال پر سب نے ندامت سے سر جھکا لیا البتہ ایک تجربہ کار بڈھے نے عرض کی کہ:
تیسرا سبب کردار کی پاکیزگی:۔
”بات یہ ہے کہ اہل عرب کے اخلاق ہم سے اچھے ہیں وہ رات کو عبادت کرتے اور دن کو روزے رکھتے ہیں۔ کسی پر ظلم نہیں کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ برابری سے ملتے ہیں اور ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں، بد کاریاں کرتے ہیں۔ عہد کی پابندی نہیں اور دوسرے پر ظلم کرتے ہیں اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے کام میں جوش اور استقلال پایا جاتا ہے اور ہمارا جو بھی کام ہوتا ہے ہمت اور استقلال سے خالی ہوتا ہے۔“ [الفاروق ص 189]
محمد بن قاسم سندھ اور ملتان کے علاقہ میں تھوڑی ہی مدت رہا۔ وہ عظیم جرنیل ہونے کے علاوہ صفات جہاں بانی سے بھی مالا مال تھا، رعایا، حکومت اور سندھی بت پرستوں سے مذہبی رواداری نے سندھیوں کے دلوں کو کچھ اس طرح موہ لیا تھا کہ جب محمد بن قاسم سندھ سے واپس گیا تو سندھی اس کی تصویریں بنا کر اپنے پاس رکھتے تھے وہ اسے رحمت کا فرشتہ سمجھتے تھے۔ پھر جب انہیں محمد بن قاسم کی دردناک موت کا حال معلوم ہوا تو سارے ملک نے سوگ منایا۔ [تاريخ اسلام۔ حميد الدين ص 308]
یہ سندھی لوگ مسلمان نہیں تھے۔ پھر آخر وہ کیا چیز تھی جس نے انہیں محمد بن قاسم کا اتنا گرویدہ بنا دیا تھا۔ محمد بن قاسم نے بھی انہیں مسلمان بنانے کی ہرگز کوشش نہیں کی تھی لیکن ان باتوں کے باوجود وہ از خود اسلام کے قریب تر آرہے تھے اور تھوڑے ہی عرصہ بعد مسلمان بھی ہو گئے تھے۔ کیا یہ بھی تلوار کا کرشمہ تھا؟
محمد بن قاسم سندھ اور ملتان کے علاقہ میں تھوڑی ہی مدت رہا۔ وہ عظیم جرنیل ہونے کے علاوہ صفات جہاں بانی سے بھی مالا مال تھا، رعایا، حکومت اور سندھی بت پرستوں سے مذہبی رواداری نے سندھیوں کے دلوں کو کچھ اس طرح موہ لیا تھا کہ جب محمد بن قاسم سندھ سے واپس گیا تو سندھی اس کی تصویریں بنا کر اپنے پاس رکھتے تھے وہ اسے رحمت کا فرشتہ سمجھتے تھے۔ پھر جب انہیں محمد بن قاسم کی دردناک موت کا حال معلوم ہوا تو سارے ملک نے سوگ منایا۔ [تاريخ اسلام۔ حميد الدين ص 308]
یہ سندھی لوگ مسلمان نہیں تھے۔ پھر آخر وہ کیا چیز تھی جس نے انہیں محمد بن قاسم کا اتنا گرویدہ بنا دیا تھا۔ محمد بن قاسم نے بھی انہیں مسلمان بنانے کی ہرگز کوشش نہیں کی تھی لیکن ان باتوں کے باوجود وہ از خود اسلام کے قریب تر آرہے تھے اور تھوڑے ہی عرصہ بعد مسلمان بھی ہو گئے تھے۔ کیا یہ بھی تلوار کا کرشمہ تھا؟
چوتھا سبب معاملات کی صفائی:۔
اشاعت اسلام کا چوتھا سبب مسلمانوں کے معاملات کی صفائی ہے۔ اسلام میں اکل حلال کو بہت اہمیت حاصل ہے وہ جائز و ناجائز مال کی بڑی تفصیل سے وضاحت کرتا اور ناجائز ذرائع سے کمائے ہوئے مال کو حرام قرار دیتا ہے۔ لین دین اور معاملات کی صفائی ایسے حالات میں ایک امتحان بن جاتی ہے جب کسی محنت یا حق کا معاوضہ تو پیشگی لیا جا چکا ہو اور اس حق یا محنت کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کا اختیار بھی کلیتاً معاوضہ وصول کرنے والے کے ہاتھ میں ہو۔ ایسی صورت میں اگر کوئی شخص یا ادارہ جائز و ناجائز یا حلال و حرام میں تمیز کرتا ہے تو وہ فی الواقع قابل تعریف ہے اور دوسرے لوگ اس کے کردار کی عظمت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ شام کی فتوحات کے سلسلہ میں کچھ جنگی مصلحتوں کے پیش نظر مسلمانوں کو حمص سے واپس دمشق جانا پڑا۔ مسلمانوں کے سپہ سالار سیدنا ابو عبیدہ بن جراح اہالیان حمص سے جزیہ وصول کر چکے تھے اور ان کی دفاعی حفاظت کی ذمہ داری قبول کر چکے تھے۔ آپ نے ان لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہا۔ ”ہمیں جو تعلق تمہارے ساتھ تھا وہ اب بھی ہے مگر چونکہ اس وقت ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہو سکتے لہٰذا تمہارا جزیہ جو اس خدمت کا معاوضہ تھا تمہیں واپس کیا جاتا ہے۔“ چنانچہ آپ نے کئی لاکھ وصول شدہ رقم و اپس کر دی۔ عیسائیوں پر اس واقعہ کا اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جاتے تھے خدا تمہیں واپس لائے اور یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا۔ انہوں نے کہا، تورات کی قسم! جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کر سکتا، یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازے بند کر دیئے گئے اور ہر جگہ چوکی پہرہ بٹھا دیا۔ [الفاروق ص 191]
پانچواں سبب عفو و درگزر:۔
اشاعت اسلام کا پانچواں سبب عفو و درگزر ہے۔ جب کسی جانی دشمن پر پوری طرح قابو پا لیا جائے اس وقت اس کے جرائم سے چشم پوشی کر کے اسے معاف کر دینا بڑے دل گردہ کا کام ہے۔ فتح مکہ ہی ایسی جنگ ہے جس میں دشمن پر پوری طرح تسلط حاصل ہوا۔ اگر اس وقت آپ ان سے بھرپور بدلہ لے لیتے تب بھی ان کی طرف سے کسی انتظامی کاروائی کا اسلام کو خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا تھا اور یہی لوگ اسلام کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے جانی دشمن تھے۔ اس کے باوجود آپ نے عام معافی کا اعلان فرما دیا جس کا اثر یہ ہوا کہ اسلام اس تیزی اور کثرت سے پھیلا کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ صلح حدیبیہ کے دوران ابتداً 200 نوجوان مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے مگر شکست کھا کر گرفتار ہو گئے آپ نے ان سب کو خیر سگالی کے طور پر چھوڑ دیا اور چونکہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کی نیت سے آئے تھے لہٰذا بیعت رضوان مکمل ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توہین آمیز شرائط پر صلح کر کے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان فطرتاً جنگجو نہیں بلکہ صلح پسند ہیں۔ اس صلح کے بعد بھی اسلام کی خوب اشاعت ہوئی اور اس میں تلوار یا جبر کو کچھ عمل دخل نہ تھا بلکہ بظاہر مسلمانوں کی خفت تھی۔ لیکن نتیجہ اشاعت اسلام کی صورت میں سامنے آیا۔
قول فیصل:۔
یہ اور اس کے علاوہ اور بھی کئی باتیں ہیں جو اشاعت اسلام کا سبب بنیں۔ لیکن بایں ہمہ حقیقت یہی ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کو بھی ایک گونہ تعلق ضرور ہے خواہ یہ دسواں حصہ ہی کیوں نہ ہو۔ معاندین اسلام اپنا سارا زور اس بات پر صرف کر دیتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ یہ لوگ بھی انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔ دوسرا گروہ یعنی مسلمان اپنا سارا زور اس الزام کی مدافعت میں صرف کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت محض اس کی خوبیوں کی بنا پر ہوئی۔ ہمارے خیال میں یہ گروہ بھی دوسری انتہا کو پہنچ گیا ہے۔ مانا کہ اسلام میں یہ خوبیاں موجود ہیں لیکن ان خوبیوں کو آشکار کرنے اور ”حق“ کو بروئے کار لانے کے لیے بھی قوت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ قوت اسلام کو تلوار کے ذریعہ مہیا ہوئی۔ اگر اشاعت اسلام میں تلوار کا کچھ بھی حصہ نہ تھا تو جہاد کی ترغیب کیوں دی گئی؟ اور کیا مکہ میں رہ کر اسلام بار آور نہ ہو سکتا تھا؟
اشاعت اسلام میں تلوار کا حصہ:۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے دو حصے ہیں۔ (1) امر بالمعروف (2) نہی عن المنکر امر بالمعروف کو ماننا یا نہ ماننا مخاطب کی اپنی مرضی پر منحصر ہے ایک شخص اگر کسی دوسرے کو عقیدہ توحید یا آخرت یا اسلام لانے کی دعوت دیتا ہے اور وہ قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے تو اس پر نہ جبر کیا جا سکتا ہے اور نہ تلوار سے ڈرایا یا دھمکایا جا سکتا ہے اور جہاں تک نہی عن المنکر کا تعلق ہے تو یہ فریضہ قوت یا تلوار کے بغیر پورا ہو ہی نہیں سکتا۔ اسلام محض عقائد و نظریات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک زندہ جاوید قانون ہے جو مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے اور اس قانون کے نفاذ کے لیے قوت چاہتا ہے۔ اگر کسی جگہ ظلم ہو رہا ہو۔ زنا، چوری، ڈاکہ، قتل و غارت کی وارداتیں ہو رہی ہو۔ لوگوں کا امن و چین غارت ہو رہا ہو تو اسلام کا قانون حرکت میں آئے گا اور تلوار ہاتھ میں لے کر اس کی اصلاح کرے گا۔ خواہ یہ علاقہ مشرکین کا یا اہل کتاب کا اور خواہ اس میں مسلمان بھی رہتے ہوں۔ مکی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قوت نہیں تھی لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دونوں طرح کے کام زبانی تبلیغ سے سر انجام دیئے جاتے رہے۔ قرآن جیسا معجزانہ کلام، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سا بلند کردار، آپ کے جانثاروں کی قربانیاں، آپ کا تبلیغ میں اپنی جان تک کھپا دینا اور بہترین طریق تبلیغ، ان سب طرح کی کوششوں کے باوجود یہ تو نہ ہو سکا کہ قریش مکہ ایمان لاتے۔ بے شک وہ اسلام کی حقانیت کے دل سے معترف ہو چکے تھے لیکن اسلام اپنا ضابطہ اور پابندیاں بھی عائد کرتا تھا جو انہیں گوارا نہ تھیں نیز انہیں عرب بھر میں سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے جو مقام حاصل تھا۔ اسلام لا کر وہ اس سے دستبردار ہونے کو قطعاً تیار نہ تھے۔ ایسے بگڑے ہوئے لوگ ڈنڈے کے بغیر کبھی سیدھے نہیں ہو سکتے۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے کبھی نہیں مانتے۔ تلوار کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی بگڑی ہوئی طبیعتوں کو راہ راست کی طرف لاتی اور راستہ کی ایسی رکاوٹوں کو دور کر دیتی ہے۔ کیونکہ جب تک تعصب اور ہٹ دھرمی کا علاج نہ کیا جائے۔ تبلیغ خواہ کتنی ہی دلنشین انداز میں ہو غیر موثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ اگر تلوار کا اشاعت اسلام میں کچھ حصہ نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے ہجرت کرنے کی بھی ضرورت پیش نہ آتی۔ تلوار کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ تبلیغ کے بیج کے لیے زمین کو نرم کر دیتی ہے۔ اسلام کی تلوار نے حق کی دشمن، معاند اور ہٹ دھرم قوتوں کا قلع قمع کر کے اسلام کے بیج کے لیے زمین کو ہموار اور نرم بنا دیا۔ اسلام کے بیج میں اتنی اہلیت اور قوت ہے کہ اگر اسے فضا سازگار میسر آ جائے تو پھل پھول کر تناور اور سدا بہار درخت بن سکتا ہے۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
احترام آدمیت کا منشور ٭٭
مسند احمد میں ہے کہ رسول مقبول , صادق و مصدوق سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج کے خطبے میں ارشاد فرمایا کہ زمانہ گھوم گھام کر اپنی اصلیت پر آ گیا ہے سال کے بارہ مہینے ہوا کرتے ہیں جن میں سے چار حرمت و ادب والے ہیں۔ تین تو پے در پے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب جو مضر کے ہاں ہے جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں ہے۔ پھر پوچھا یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے کہا: ”اللہ تعالیٰ کو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی پورا علم ہے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا۔ ہم سمجھے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا کوئی اور ہی نام رکھیں گے پھر پوچھا ”کیا یہ یوم النحر یعنی قربانی کی عید کا دن نہیں“؟ ہم نے کہا: ”ہاں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کون سا مہینہ ہے“؟ ہم نے کہا: ”اللہ تعالیٰ جانے اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سکوت فرمایا یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ اس مہینے کا نام اور ہی رکھیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے“؟ ہم نے کہا: ”ہاں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کون سا شہر ہے“؟ ہم نے کہا: ”اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جاننے والے ہیں“؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش ہو رہے اور ہمیں پھر خیال آنے لگا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور ہی نام رکھیں گے۔ پھر فرمایا: ”کیا یہ بلدہ [مکہ] نہیں ہے“ ہم نے کہا: ”بیشک۔“
آپ نے فرمایا: ”یاد رکھو تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم میں آپس میں ایسی ہی حرمت والی ہیں جیسی حرمت و عزت تمہارے اس دن کی تمہارے اس مہینہ میں تمہارے اس شہر میں، تم ابھی ابھی اپنے رب سے ملاقات کرو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کا حساب لے گا سنو! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن زدنی کرنے لگو بتلاؤ کیا میں نے تبلیغ کر دی؟ سنو تم میں سے جو موجود ہیں انہیں چاہیئے کہ جو موجود نہیں ان تک پہنچا دیں۔ بہت ممکن ہے کہ جسے وہ پہنچائے وہ ان بعض سے بھی زیادہ نگہداشت رکھنے والا ہو۔“ ۱؎ [صحیح بخاری:4406]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا۔ ہم سمجھے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا کوئی اور ہی نام رکھیں گے پھر پوچھا ”کیا یہ یوم النحر یعنی قربانی کی عید کا دن نہیں“؟ ہم نے کہا: ”ہاں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کون سا مہینہ ہے“؟ ہم نے کہا: ”اللہ تعالیٰ جانے اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سکوت فرمایا یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ شاید آپ اس مہینے کا نام اور ہی رکھیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے“؟ ہم نے کہا: ”ہاں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ کون سا شہر ہے“؟ ہم نے کہا: ”اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جاننے والے ہیں“؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش ہو رہے اور ہمیں پھر خیال آنے لگا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور ہی نام رکھیں گے۔ پھر فرمایا: ”کیا یہ بلدہ [مکہ] نہیں ہے“ ہم نے کہا: ”بیشک۔“
آپ نے فرمایا: ”یاد رکھو تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم میں آپس میں ایسی ہی حرمت والی ہیں جیسی حرمت و عزت تمہارے اس دن کی تمہارے اس مہینہ میں تمہارے اس شہر میں، تم ابھی ابھی اپنے رب سے ملاقات کرو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کا حساب لے گا سنو! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن زدنی کرنے لگو بتلاؤ کیا میں نے تبلیغ کر دی؟ سنو تم میں سے جو موجود ہیں انہیں چاہیئے کہ جو موجود نہیں ان تک پہنچا دیں۔ بہت ممکن ہے کہ جسے وہ پہنچائے وہ ان بعض سے بھی زیادہ نگہداشت رکھنے والا ہو۔“ ۱؎ [صحیح بخاری:4406]
اور روایت میں ہے کہ وسط ایام تشریق میں، منیٰ میں حجتہ الوداع کے خطبے کے موقعہ کا یہ ذکر ہے، ابوحرہ رقاشی رحمہ اللہ کے چچا جو صحابی ہیں کہتے ہیں کہ اس خطبے کے وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناقہ کی نکیل تھامے ہوئے تھا اور لوگوں کی بھیڑ کو روکے ہوئے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے جملے کا یہ مطلب ہے کہ جو کمی بیشی، تقدیم تاخیر مہینوں کی جاہلیت کے زمانے کے مشرک کیا کرتے تھے وہ الٹ پلٹ کر اس وقت ٹھیک ہو گئی ہے جو مہینہ آج ہے وہی درحقیقت بھی ہے۔ جیسے کہ فتح مکہ کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”یہ شہر ابتداء مخلوق سے باحرمت و باعزت ہے وہ آج بھی حرمت والا ہے اور قیامت تک حرمت والا ہی رہے گا۔“ ۱؎ [صحیح بخاری:1834]
پس عربوں میں جو یہ رواج پڑ گیا تھا کہ ان کے اکثر حج ذی الحجہ کے مہینے میں نہیں ہوتے تھے اب کی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے موقعہ پر یہ بات نہ تھی بلکہ حج اپنے ٹھیک مہینے پر تھا۔ بعض لوگ اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا حج ذوالقعدہ میں ہوا لیکن یہ غور طلب قول ہے۔
جیسے کہ ہم مع ثبوت بیان کریں گے۔ آیت «اِنَّمَا النَّسِيْ» ۱؎ [9-التوبہ:37] کی تقسیر میں ہے۔ اس قول سے بھی زیادہ غرابت والا ایک قول بعض سلف کا یہ بھی ہے کہ اس سال یہود و نصاریٰ مسلمان سب کے حج کا دن اتفاق سے ایک ہی تھا یعنی عید الاضحیٰ کا دن۔
پس عربوں میں جو یہ رواج پڑ گیا تھا کہ ان کے اکثر حج ذی الحجہ کے مہینے میں نہیں ہوتے تھے اب کی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے موقعہ پر یہ بات نہ تھی بلکہ حج اپنے ٹھیک مہینے پر تھا۔ بعض لوگ اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا حج ذوالقعدہ میں ہوا لیکن یہ غور طلب قول ہے۔
جیسے کہ ہم مع ثبوت بیان کریں گے۔ آیت «اِنَّمَا النَّسِيْ» ۱؎ [9-التوبہ:37] کی تقسیر میں ہے۔ اس قول سے بھی زیادہ غرابت والا ایک قول بعض سلف کا یہ بھی ہے کہ اس سال یہود و نصاریٰ مسلمان سب کے حج کا دن اتفاق سے ایک ہی تھا یعنی عید الاضحیٰ کا دن۔
فصل ٭٭
”فصل“ شیخ علم الدین سخاوی نے اپنی کتاب ”المشہور فی اسماء الایام و المشہور“ میں لکھا ہے کہ محرم کے مہینے کو محرم اس کی تعظیم کی وجہ سے کہتے ہیں لیکن میرے نزدیک تو اس نام کی وجہ سے اس کی حرمت کی تاکید ہے اس لیے کہ عرب جاہلیت میں اسے بدل ڈالتے تھے کبھی حلال کر ڈالتے کبھی حرام کر ڈالتے، اس کی جمع محرمات، محارم، محاریم ہے،
صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں عموماً ان کے گھر خالی رہتے تھے کیونکہ یہ لڑائی بھڑائی اور سفر میں چل دیتے تھے جب مکان خالی ہو جائے تو عرب کہتے ہیں [صفر المکان] اس کی جمع اصفار ہے جیسے جمل کی جمع اجمال ہے۔
ربیع الاول کے نام کا سبب یہ ہے کہ اس مہینہ میں ان کی اقامت ہو جاتی ہے۔ «ارتباع» کہتے ہیں اقامت کو اس کی جمع «اربعاء» ہے جیسے نصیب کی جمع «انصباء» ۔ اور اس کی جمع «اربعہ» ہے جیسے «رغیف» کی جمع «ارغفہ» ہے۔
ربیع الاخر کے مہینے کا نام رکھنا بھی اسی وجہ سے ہے۔ گویا یہ اقامت کا دوسرا مہینہ ہے۔
جمادی الاولیٰ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں پانی جمع جاتا تھا ان کے حساب میں مہینے گردش نہیں کرتے تھے۔ یعنی ٹھیک ہر موسم پر ہی ہر مہینہ آتا تھا لیکن یہ بات کچھ حجت نہیں اس لئے کہ جب ان مہینوں کا حساب چاند پر ہے تو ظاہر ہے کہ موسمی حالت ہر ماہ میں ہر سال یکساں نہیں رہے گی ہاں یہ ممکن ہے کہ اس مہینہ کا نام جس سال رکھا گیا ہو اس سال یہ مہینہ کڑکڑاتے ہوئے جاڑے میں آیا ہو اور پانی میں جمود ہو گیا ہو۔
چنانچہ ایک شاعر نے یہی کہا ہے جمادی کی سخت اندھیری راتیں جن میں کتا بھی بمشکل ایک آدھ مرتبہ ہی بھونک لیتا ہے۔ اس کی جمع «جمادیات» جیسے «حباری» اور «حباریات» ۔ یہ مذکر مونث دونوں طرح مستعمل ہے، جمادی الاولیٰ اور جمادی الاخریٰ کہا جاتا ہے۔
صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں عموماً ان کے گھر خالی رہتے تھے کیونکہ یہ لڑائی بھڑائی اور سفر میں چل دیتے تھے جب مکان خالی ہو جائے تو عرب کہتے ہیں [صفر المکان] اس کی جمع اصفار ہے جیسے جمل کی جمع اجمال ہے۔
ربیع الاول کے نام کا سبب یہ ہے کہ اس مہینہ میں ان کی اقامت ہو جاتی ہے۔ «ارتباع» کہتے ہیں اقامت کو اس کی جمع «اربعاء» ہے جیسے نصیب کی جمع «انصباء» ۔ اور اس کی جمع «اربعہ» ہے جیسے «رغیف» کی جمع «ارغفہ» ہے۔
ربیع الاخر کے مہینے کا نام رکھنا بھی اسی وجہ سے ہے۔ گویا یہ اقامت کا دوسرا مہینہ ہے۔
جمادی الاولیٰ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں پانی جمع جاتا تھا ان کے حساب میں مہینے گردش نہیں کرتے تھے۔ یعنی ٹھیک ہر موسم پر ہی ہر مہینہ آتا تھا لیکن یہ بات کچھ حجت نہیں اس لئے کہ جب ان مہینوں کا حساب چاند پر ہے تو ظاہر ہے کہ موسمی حالت ہر ماہ میں ہر سال یکساں نہیں رہے گی ہاں یہ ممکن ہے کہ اس مہینہ کا نام جس سال رکھا گیا ہو اس سال یہ مہینہ کڑکڑاتے ہوئے جاڑے میں آیا ہو اور پانی میں جمود ہو گیا ہو۔
چنانچہ ایک شاعر نے یہی کہا ہے جمادی کی سخت اندھیری راتیں جن میں کتا بھی بمشکل ایک آدھ مرتبہ ہی بھونک لیتا ہے۔ اس کی جمع «جمادیات» جیسے «حباری» اور «حباریات» ۔ یہ مذکر مونث دونوں طرح مستعمل ہے، جمادی الاولیٰ اور جمادی الاخریٰ کہا جاتا ہے۔
جمادی الاخری کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے گویا یہ پانی کے جم جانے کا دوسرا مہینہ ہے۔ رجب یہ ماخوذ ہے ترجیب سے، ترجیب کہتے ہیں تعظیم کو چونکہ یہ مہینہ عظمت و عزت والا ہے اس لیے اسے رجب کہتے ہیں۔ اس کی جمع ارجاب رجاب اور رجبات ہے۔
شعبان کا نام شعبان اس لیے ہے کہ اس میں عرب لوگ لوٹ مار کے لیے ادھر ادھر متفرق ہو جاتے تھے۔ تشعب کے معنی ہیں جدا جدا ہونا پس اس مہینے کا بھی یہی نام رکھ دیا گیا۔ اس کی جمع شعابین، شعبانات آتی ہے۔
رمضان کو رمضان اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں اونٹینوں کے پاؤں بوجہ شدت گرما کے جلنے لگتے ہیں۔ [رمضت الفصال] اس وقت کہتے ہیں جب اونٹنیوں کے بچے سخت پیاسے ہوں۔ اس کی جمع رمضانات اور رماضین اور ارمضہ آتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے یہ محض غلط اور ناقابل التفات قول ہے۔ میں کہتا ہوں اس بارے میں ایک حدیث بھی وارد ہوئی ہے۔ لیکن ہے وہ ضعیف میں نے کتاب الصیام کے شروع میں اس کا بیان کر دیا ہے۔
شوال ماخوذ ہے [شالت الابل] سے یہ مہینہ اونٹوں کے مستیوں کا مہینہ تھا یہ دمیں اٹھا دیا کرتے تھے اس لیے اس مہینہ کا یہی نام ہو گیا۔ اس کی جمع شواویل، شواول، شوالات آتی ہے۔
ذوالقعدہ یا ذوی القعدہ کا نام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ میں عرب لوگ بیٹھ جایا کرتے تھے نہ لڑائی کے لیے نکلتے نہ کسی اور سفر کے لیے۔ اس کی جمع ذوات القعدہ ہے۔
ذوالحجہ کو ذوالحجہ بھی کہہ سکتے ہیں چونکہ اسی ماہ میں حج ہوتا تھا اس لیے اس کا یہ نام مقرر ہو گیا، اس کی جمع ذوات الحجہ آتی ہے۔ یہ تو تھی ان مہینوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ۔
اب ہفتے کے سات دنوں کے نام اور ان ناموں کی جمع سنئے۔ اتوار کے دن کو یوم الاحد کہتے ہیں اس کی جمع اَحاد اُحاد اور وحود آتی ہے۔ پیر کے دن کو اثنین کہتے ہیں اس کی جمع اثانین آتی ہے۔
شعبان کا نام شعبان اس لیے ہے کہ اس میں عرب لوگ لوٹ مار کے لیے ادھر ادھر متفرق ہو جاتے تھے۔ تشعب کے معنی ہیں جدا جدا ہونا پس اس مہینے کا بھی یہی نام رکھ دیا گیا۔ اس کی جمع شعابین، شعبانات آتی ہے۔
رمضان کو رمضان اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں اونٹینوں کے پاؤں بوجہ شدت گرما کے جلنے لگتے ہیں۔ [رمضت الفصال] اس وقت کہتے ہیں جب اونٹنیوں کے بچے سخت پیاسے ہوں۔ اس کی جمع رمضانات اور رماضین اور ارمضہ آتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے یہ محض غلط اور ناقابل التفات قول ہے۔ میں کہتا ہوں اس بارے میں ایک حدیث بھی وارد ہوئی ہے۔ لیکن ہے وہ ضعیف میں نے کتاب الصیام کے شروع میں اس کا بیان کر دیا ہے۔
شوال ماخوذ ہے [شالت الابل] سے یہ مہینہ اونٹوں کے مستیوں کا مہینہ تھا یہ دمیں اٹھا دیا کرتے تھے اس لیے اس مہینہ کا یہی نام ہو گیا۔ اس کی جمع شواویل، شواول، شوالات آتی ہے۔
ذوالقعدہ یا ذوی القعدہ کا نام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس ماہ میں عرب لوگ بیٹھ جایا کرتے تھے نہ لڑائی کے لیے نکلتے نہ کسی اور سفر کے لیے۔ اس کی جمع ذوات القعدہ ہے۔
ذوالحجہ کو ذوالحجہ بھی کہہ سکتے ہیں چونکہ اسی ماہ میں حج ہوتا تھا اس لیے اس کا یہ نام مقرر ہو گیا، اس کی جمع ذوات الحجہ آتی ہے۔ یہ تو تھی ان مہینوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ۔
اب ہفتے کے سات دنوں کے نام اور ان ناموں کی جمع سنئے۔ اتوار کے دن کو یوم الاحد کہتے ہیں اس کی جمع اَحاد اُحاد اور وحود آتی ہے۔ پیر کے دن کو اثنین کہتے ہیں اس کی جمع اثانین آتی ہے۔
منگل کو ثلاثا کہتے ہیں یہ مذکر بھی بولا جاتا ہے اور مونث بھی اس کی جمع ثلاثاوات اور اثالث آتی ہے۔ بدھ کے دن کو اربعاء کہتے ہیں۔ جمع اربعاوات اور ارابیع آتی ہے۔ جمعرات کو خمیس کہتے ہیں جمع اس کی اخمسہ، اخامس آتی ہے۔ جمعہ کو جمعہ اور جمعہ کہتے ہیں اس کی جمع: جُمُعٌ اور جَمَاعَاتٌ آتی ہے۔ سنیچر یعنی ہفتے کے دن کو سبت کہتے ہیں سبت کے معنی ہیں قطع کے چونکہ گنتی ہفتے کی دنوں کی یہیں پر ختم ہو جاتی ہے اس لیے اسے سبت کہتے یں۔
قدیم عربوں میں ہفتے کے دن کے نام یہ تھے اول، اھون، جبار، دبار، مونس، عروبہ، شیار۔ قدیم خالص عربوں کے اشعار میں بھی دنوں کے نام پائے جاتے ہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان بارہ ماہ میں چار حرمت والے ہیں۔ جاہلیت کے عرب بھی انہیں حرمت والے مانتے تھے لیکن بسل نامی ایک گروہ اپنے تشدد کی بنا پر آٹھ مہینوں کو حرمت والا خیال کرتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں رجب کو قبیلہ مضر کی طرف اضافت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس مہینے کو وہ رجب مہینہ شمار کرتے تھے۔ دراصل وہی رجب کا مہینہ عند اللہ بھی تھا جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں ہے۔ قبیلہ ربیعہ کے نزدیک رجب، شعبان، اور شوال کے درمیان کے مہینے کا یعنی رمضان کا نام تھا پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول دیا کہ حرمت والا رجب مضر کا ہے نہ کہ ربیعہ کا۔
قدیم عربوں میں ہفتے کے دن کے نام یہ تھے اول، اھون، جبار، دبار، مونس، عروبہ، شیار۔ قدیم خالص عربوں کے اشعار میں بھی دنوں کے نام پائے جاتے ہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان بارہ ماہ میں چار حرمت والے ہیں۔ جاہلیت کے عرب بھی انہیں حرمت والے مانتے تھے لیکن بسل نامی ایک گروہ اپنے تشدد کی بنا پر آٹھ مہینوں کو حرمت والا خیال کرتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں رجب کو قبیلہ مضر کی طرف اضافت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس مہینے کو وہ رجب مہینہ شمار کرتے تھے۔ دراصل وہی رجب کا مہینہ عند اللہ بھی تھا جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں ہے۔ قبیلہ ربیعہ کے نزدیک رجب، شعبان، اور شوال کے درمیان کے مہینے کا یعنی رمضان کا نام تھا پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھول دیا کہ حرمت والا رجب مضر کا ہے نہ کہ ربیعہ کا۔
ان چار ذی حرمت مہینوں میں سے تین پے در پے اس مصلحت سے ہیں کہ حاجی ذوالقعدہ کے مہینے میں نکلے تو اس وقت تک لڑائیاں مار پیٹ جنگ و جدال قتل و قتال بند ہو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہوں پھر ذی الحجہ میں احکام کی ادائیگی امن و امان عمدگی اور شان سے ہو جائے پھر ماہ محرم کی حرمت میں واپس گھر پہنچ جائے۔ درمیان سال میں رجب کو حرمت والا بنانے کی غرض یہ ہے کہ زائرین اپنے طواف بیت اللہ کے شوق کو عمرے کی صورت میں ادا کر لیں گو دور دراز علاقوں والے ہوں وہ بھی مہینہ بھر میں آمد و رفت کرلیں۔ یہی اللہ کا سیدھا اور سچا دین ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق تم ان پاک مہینوں کی حرمت کرو، ان میں خصوصیت کے ساتھ گناہوں سے بچو اس لیے کہ اس میں گناہوں کی برائی اور بڑھ جاتی ہے، جیسے کہ حرم شریف کا گناہ اور جگہ کے گناہ سے بڑھ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو حرم میں الحاد کا ارادہ ظلم سے کرے ہم اسے درد ناک عذاب کریں گے۔ ۱؎ [22-الحج:25]
اسی طرح سے ان محترم مہینوں کا گناہ اور دنوں کے گناہوں سے بڑھ جاتا ہے اس لیے امام شافعی رحمہ اللہ اور علماء کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک ان مہینوں کے قتل کی دیت بھی سخت ہے۔ اس طرح حرم کے اندر قتل کی اور ذی محرم رشتے دار کے قتل کی بھی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں [فیھن] سے مراد سال بھر کے کل مہینے ہیں۔ پس ان کل مہینوں میں گناہوں سے بچو خصوصاً ان چار مہینوں میں کہ یہ حرمت والے ہیں۔ ان کی بڑی عزت ہے ان میں گناہ سزا کے اعتبار سے اور نیکیاں اجر و ثواب کے اعتبار سے بڑھ جاتی ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق تم ان پاک مہینوں کی حرمت کرو، ان میں خصوصیت کے ساتھ گناہوں سے بچو اس لیے کہ اس میں گناہوں کی برائی اور بڑھ جاتی ہے، جیسے کہ حرم شریف کا گناہ اور جگہ کے گناہ سے بڑھ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو حرم میں الحاد کا ارادہ ظلم سے کرے ہم اسے درد ناک عذاب کریں گے۔ ۱؎ [22-الحج:25]
اسی طرح سے ان محترم مہینوں کا گناہ اور دنوں کے گناہوں سے بڑھ جاتا ہے اس لیے امام شافعی رحمہ اللہ اور علماء کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک ان مہینوں کے قتل کی دیت بھی سخت ہے۔ اس طرح حرم کے اندر قتل کی اور ذی محرم رشتے دار کے قتل کی بھی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں [فیھن] سے مراد سال بھر کے کل مہینے ہیں۔ پس ان کل مہینوں میں گناہوں سے بچو خصوصاً ان چار مہینوں میں کہ یہ حرمت والے ہیں۔ ان کی بڑی عزت ہے ان میں گناہ سزا کے اعتبار سے اور نیکیاں اجر و ثواب کے اعتبار سے بڑھ جاتی ہیں۔
سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ان حرمت والے مہینوں میں گناہ کی سزا اور بوجھ بڑھ جاتا ہے گو ظلم ہر حال میں بری چیز ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے جس امر کو چاہے بڑھا دے۔ دیکھئیے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بھی پسند فرما لیا فرشتوں میں انسانوں میں اپنے رسول چن لیے اسی طرح کلام میں سے اپنے ذکر کو پسند فرما لیا اور زمین میں سے مسجدوں کو پسند فرما لیا اور مہینوں میں سے رمضان المبارک کو اور ان چاروں مہینوں کو پسند فرما لیا اور دنوں میں سے جمعہ کے دن اور راتوں میں لیلتہ القدر کو پس تمہیں ان چیزوں کی عظمت کا لحاظ رکھنا چاہیئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عظمت دی ہے۔
امور کی تعظیم اتنی کرنی عقلمند اور فہیم لوگوں کے نزدیک اتنی ضروری ہے جتنی تعظیم ان کی اللہ تعالیٰ سبحانہ نے بتلائی ہو۔ ان کی حرمت کا ادب نہ کرنا حرام ہے ان میں جو کام حرام ہیں انہیں حلال نہ کر لو جو حلال ہیں انہیں حرام نہ بنا لو جیسے کہ اہل شرک کرتے تھے یہ ان کے کفر میں زیادتی کی بات تھی۔
پھر فرمایا کہ تم سب کے سب کافروں سے جہاد کرتے رہو جیسے کہ وہ سب کے سب تم میں سے برسر جنگ ہیں، حرمت والے ان چار مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنی منسوخ یا محکم ہونے کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں پہلا تو یہ کہ یہ منسوخ ہے یہ قول زیادہ مشہور ہے۔ اس آیت کے الفاظ پر غور کیجئے کہ پہلے تو فرمان ہوا کہ ان مہینوں میں ظلم نہ کرو پھر مشرکوں سے جنگ کرنے کو فرمایا۔
امور کی تعظیم اتنی کرنی عقلمند اور فہیم لوگوں کے نزدیک اتنی ضروری ہے جتنی تعظیم ان کی اللہ تعالیٰ سبحانہ نے بتلائی ہو۔ ان کی حرمت کا ادب نہ کرنا حرام ہے ان میں جو کام حرام ہیں انہیں حلال نہ کر لو جو حلال ہیں انہیں حرام نہ بنا لو جیسے کہ اہل شرک کرتے تھے یہ ان کے کفر میں زیادتی کی بات تھی۔
پھر فرمایا کہ تم سب کے سب کافروں سے جہاد کرتے رہو جیسے کہ وہ سب کے سب تم میں سے برسر جنگ ہیں، حرمت والے ان چار مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنی منسوخ یا محکم ہونے کے بارے میں علماء کے دو قول ہیں پہلا تو یہ کہ یہ منسوخ ہے یہ قول زیادہ مشہور ہے۔ اس آیت کے الفاظ پر غور کیجئے کہ پہلے تو فرمان ہوا کہ ان مہینوں میں ظلم نہ کرو پھر مشرکوں سے جنگ کرنے کو فرمایا۔
ظاہری الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم عام ہے حرمت کے مہینے بھی اس میں آ گئے اگر یہ مہینے اس سے الگ ہوتے تو ان کے گزر جانے کی قید ساتھ ہی بیان ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ ماہ ذوالقعدہ میں کیا تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔
جیسے کہ بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوازن قبیلے کی طرف ماہِ شوال میں چلے جب ان کو ہزیمت ہوئی اور ان میں سے بچے ہوئے بھاگ کر طائف میں پناہ گزین ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں گئے اور چالیس دن تک محاصرہ رکھا پھر بغیر فتح کئے ہوئے وہاں سے واپس لوٹ آئے۔ ۱؎ [صحیح مسلم:1059] پس ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرمت والے مہینے میں محاصرہ کیا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنی حرام ہے اور ان مہینوں کی حرمت کا حکم منسوخ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ شعائر الہی کو اور حرمت والے مہینوں کو حلال نہ کیا کرو اور فرمان ہے حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں قصاص ہیں پس جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی ان سے ویسی ہی زیادتی کا بدلہ لو اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ» ۱؎ [9-التوبہ:5] حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کے بعد مشرکوں سے جہاد کرو۔
یہ پہلے گزر چکا ہے کہ یہ چار مہینے ہیں ہر سال میں۔ نہ کہ تسییر کے مہینے جو کہ دو قولوں میں سے ایک قول ہے۔
جیسے کہ بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوازن قبیلے کی طرف ماہِ شوال میں چلے جب ان کو ہزیمت ہوئی اور ان میں سے بچے ہوئے بھاگ کر طائف میں پناہ گزین ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں گئے اور چالیس دن تک محاصرہ رکھا پھر بغیر فتح کئے ہوئے وہاں سے واپس لوٹ آئے۔ ۱؎ [صحیح مسلم:1059] پس ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرمت والے مہینے میں محاصرہ کیا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ حرمت والے مہینوں میں جنگ کی ابتداء کرنی حرام ہے اور ان مہینوں کی حرمت کا حکم منسوخ نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ شعائر الہی کو اور حرمت والے مہینوں کو حلال نہ کیا کرو اور فرمان ہے حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں قصاص ہیں پس جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی ان سے ویسی ہی زیادتی کا بدلہ لو اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ» ۱؎ [9-التوبہ:5] حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کے بعد مشرکوں سے جہاد کرو۔
یہ پہلے گزر چکا ہے کہ یہ چار مہینے ہیں ہر سال میں۔ نہ کہ تسییر کے مہینے جو کہ دو قولوں میں سے ایک قول ہے۔
پھر فرمایا کہ تم سب مسلمان ان سے اسی طرح لڑو جیسے وہ تم سے سب کے سب لڑتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اپنے پہلے سے جداگانہ ہوں اور ہو سکتا ہے کہ یہ حکم بالکل نیا اور الگ ہو مسلمانوں کو رغبت دلانے اور انہیں جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے۔
تو فرماتا ہے کہ جیسے تم سے جنگ کرنے کے لیے وہ بھڑبھڑا کر جمع ہو کر چاروں طرف سے ابل پڑتے ہیں تم بھی اپنے سب کلمہ گو اشخاص کو لے کر ان سے مقابلہ کرو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس حملے میں مسلمانوں کو حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کی رخصت دی ہو۔ جبکہ حملہ ان کی طرف سے ہو،
جیسے آیت «اَلشَّهْرُ الْحَرَام» ۱؎ [2-البقرة:194] میں ہے اور جیسے آیت میں ہے «وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ» ۱؎ [2-البقرة:191] میں بیان ہے کہ ان سے مسجد الحرام کے پاس نہ لڑو جب تک کہ وہ وہاں لڑائی نہ کریں ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم بھی ان سے لڑو۔
یہی جواب حرمت والے مہینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف کے محاصرے کا ہے کہ دراصل ہوازن اور ثقیف کے ساتھ جنگ کا یہ لڑائی تتمہ تھی ہوازن کی اور ان کے ثقفی حلیفوں کی لڑائ کا۔ انہوں نے ہی لڑائ کی ابتداء کی تھی۔ ادھر ادھر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کو جمع کر کے لڑائی کی دعوت دی تھی۔
پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف پیش قدمی کی یہ پیش قدمی بھی حرمت والے مہینے میں نہ تھی۔ یہاں شکست کھا کر یہ لوگ طائف میں بھاگے اور وہاں قلعہ بند ہو گئے۔ آپ اس مرکز کو خالی کرانے کے لیے اور آگے بڑھے، انہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا مسلمانوں کی ایک جماعت کو قتل کر ڈالا۔ ادھر محاصرہ جاری رہا منجنیق وغیرہ سے چالیس دن تک ان کو گھیرے رہے۔
الغرض اس جنگ کی ابتداء حرمت والے مہینے میں نہیں تھی لیکن جنگ نے طول کھینچا حرمت والا مہینہ بھی آ گیا۔ جب چند دن گزر گئے آپ نے محاصرہ ہٹا لیا۔ پس جنگ کا جاری رکھنا اور چیز ہے اور جنگ کی ابتدء اور چیز ہے اس کی بہت سی نظیریں ہیں، واللہ اعلم۔ اب اس میں جو حدیثیں ہیں ہم انہیں سیرت میں بھی بیان کر چکے ہیں۔ واللہ اعلم۔
تو فرماتا ہے کہ جیسے تم سے جنگ کرنے کے لیے وہ بھڑبھڑا کر جمع ہو کر چاروں طرف سے ابل پڑتے ہیں تم بھی اپنے سب کلمہ گو اشخاص کو لے کر ان سے مقابلہ کرو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس حملے میں مسلمانوں کو حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کی رخصت دی ہو۔ جبکہ حملہ ان کی طرف سے ہو،
جیسے آیت «اَلشَّهْرُ الْحَرَام» ۱؎ [2-البقرة:194] میں ہے اور جیسے آیت میں ہے «وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰى يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِ» ۱؎ [2-البقرة:191] میں بیان ہے کہ ان سے مسجد الحرام کے پاس نہ لڑو جب تک کہ وہ وہاں لڑائی نہ کریں ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم بھی ان سے لڑو۔
یہی جواب حرمت والے مہینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طائف کے محاصرے کا ہے کہ دراصل ہوازن اور ثقیف کے ساتھ جنگ کا یہ لڑائی تتمہ تھی ہوازن کی اور ان کے ثقفی حلیفوں کی لڑائ کا۔ انہوں نے ہی لڑائ کی ابتداء کی تھی۔ ادھر ادھر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کو جمع کر کے لڑائی کی دعوت دی تھی۔
پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف پیش قدمی کی یہ پیش قدمی بھی حرمت والے مہینے میں نہ تھی۔ یہاں شکست کھا کر یہ لوگ طائف میں بھاگے اور وہاں قلعہ بند ہو گئے۔ آپ اس مرکز کو خالی کرانے کے لیے اور آگے بڑھے، انہوں نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا مسلمانوں کی ایک جماعت کو قتل کر ڈالا۔ ادھر محاصرہ جاری رہا منجنیق وغیرہ سے چالیس دن تک ان کو گھیرے رہے۔
الغرض اس جنگ کی ابتداء حرمت والے مہینے میں نہیں تھی لیکن جنگ نے طول کھینچا حرمت والا مہینہ بھی آ گیا۔ جب چند دن گزر گئے آپ نے محاصرہ ہٹا لیا۔ پس جنگ کا جاری رکھنا اور چیز ہے اور جنگ کی ابتدء اور چیز ہے اس کی بہت سی نظیریں ہیں، واللہ اعلم۔ اب اس میں جو حدیثیں ہیں ہم انہیں سیرت میں بھی بیان کر چکے ہیں۔ واللہ اعلم۔