اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَہُمۡ وَ رُہۡبَانَہُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ الۡمَسِیۡحَ ابۡنَ مَرۡیَمَ ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡۤا اِلٰـہًا وَّاحِدًا ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ سُبۡحٰنَہٗ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۳۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
انھوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا تھا کہ ایک معبود کی عبادت کریں، کوئی معبود نہیں مگر وہی ، وہ اس سے پاک ہے جو وہ شریک بناتے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو الله کے سوا خدا بنا لیا حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ خدائے واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حاﻻنکہ انہیں صرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی معبود نہیں وه پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت31) ➊ {اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ …: ”حَِبْرٌ“} حاء کی زبر اور زیر دونوں کے ساتھ آتا ہے اور باء ساکن ہے، وہ عالم جو بہت خوب صورت اور پختہ بات کہے۔ یہ {”تَحْبِيْرٌ“} سے ہے جس کا معنی مزین کرنا ہے۔ رہبان، راہب کی جمع ہے، ڈرنے والا، یعنی جو اللہ کے خوف سے دنیا ترک کر کے لوگوں سے الگ کسی کٹیا میں جا ڈیرہ لگائے۔ ان کے مسیح ابن مریم علیھما السلام کو رب بنانے کا ذکر تو اوپر بھی آ چکا ہے، کیونکہ بیٹا باپ کے اختیارات میں اس کا شریک اور جانشین ہوتا ہے، اس لیے مسیح علیہ السلام کو بیٹا ماننے پر ان کو رب بنانے میں کیا کسر رہ گئی۔ رہے ان کے عالم اور درویش تو انھیں رب بنانے والے کچھ لوگ تو وہ تھے جو واقعی کائنات میں ان کا حکم چلنے کا عقیدہ رکھتے تھے، جس طرح آج کل بعض مسلمان پیروں، فقیروں کو سجدہ کرتے، ان سے اولاد، حاجتیں اور مرادیں مانگتے ہیں اور یہ باطل عقیدہ رکھتے ہیں کہ کائنات کو قطب، ابدال اور اوتاد چلارہے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ان پہلوں ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، مگر بعض اہل کتاب نے انھیں ایک اور طریقے سے رب بنا رکھا تھا۔ چنانچہ عدی بن حاتم طائی، جو مسلمان ہو چکے تھے، فرماتے ہیں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میری گردن میں سونے کی صلیب تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بت اپنے آپ سے اتار کر پھینک دو۔“ اور میں نے آپ سے سنا کہ آپ سورۂ براء ت میں یہ آیت پڑھ رہے تھے: «اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ» میں نے کہا: ”احبار و رہبان کو رب تو کوئی نہیں مانتا۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کیا کرتے تھے، لیکن وہ جب ان کے لیے کوئی چیز حلال کر دیتے اسے حلال سمجھ لیتے اور جب ان پر کوئی چیز حرام کرتے تو اسے حرام سمجھ لیتے۔“ [ترمذی، التفسیر، باب و من سورۃ التوبۃ: ۳۰۹۵ و حسنہ الألبانی]
گویا یہ ان کا دوسرا شرک تھا کہ انھوں نے حلال و حرام قرار دینے کا اختیار اپنے مشائخ و علماء کو دے دیا، حالانکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور ان پر لازم تھا کہ اپنے نبی کے بتائے ہوئے طریقے اور فرامین پر قائم رہتے۔ بالکل یہی طرز عمل ہمارے زمانے کے مقلدین کا ہے کہ ان کے امام کا قول صاف قرآن یا صحیح حدیث کے خلاف آ جائے تب بھی وہ قرآن اور صحیح حدیث ماننے کے بجائے اپنے امام کے حلال کردہ کو حلال اور اس کے حرام کردہ کو حرام کہیں گے، پھر اس پر اصرار کریں گے، مثلاً قرآن مجید کا صاف حکم ہے کہ رضاعت کی مکمل مدت دو سال ہے، مگر کچھ لوگوں نے اسے ماننے کے بجائے اپنے امام کے کہنے پر اسے اڑھائی سال قرار دے لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور صریح فرمان: ”ہر نشہ آور حرام ہے“ کے باوجود کھجور اور انگور کے سوا کسی بھی چیز سے بنی ہوئی نشہ آور چیز کو حلال قرار دے لیا، زنا کو حلالہ کہہ کر حلال کر لیا، اجرت پر لائی عورت سے زنا پر حد معاف کر دی، تیز دھار آلے اور آگ کے سوا جان بوجھ کر کسی بھی طریقے سے قتل کر دینے پر قصاص ختم کر دیا، بادشاہِ وقت سے اللہ تعالیٰ کی کئی حدود بالکل ہی معاف کر دیں، چور کے چوری کے مال پر ملکیت کے خالی دعوے سے، جس پر وہ کوئی دلیل بھی نہ دے، چوری کی حد ختم کر دی، گانے بجانے اور رقص کو مشائخ کے کہنے پر معرفت اور روح کی غذا قرار دے لیا اور بعض مشائخ و علماء نے عوام سے یہ بیعت لینا شروع کر دی کہ ہمارا ہر حکم، خواہ وہ قرآن و حدیث کے موافق ہو یا مخالف، تم مانو گے۔ بتائیے! ان مسلمانوں کے احبار و رہبان کو رب بنانے میں کیا کسر رہ گئی!؟ خلاصہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان بالکل پورا ہوا کہ تم ہو بہو پہلے لوگوں کے نشان قدم پر چل پڑو گے، پھر ہر گروہ کے اپنے پیشوا کی غلط باتوں پر ڈٹ جانے سے مسلمانوں میں ایسا شگاف پڑا جو قرآن و حدیث کی طرف واپس آنے کے بغیر کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ {”اِتَّسَعَ الْخَرْقُ عَلَي الرَّاقِعِ“} کی صورت پیدا ہو گئی ہے کہ شگاف پیوند لگانے والے کی بساط سے بھی زیادہ کھلا ہو گیا۔ پہلے (۷۲) گروہ بنے تھے یہ (۷۳) بن گئے۔ [فَإِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ]
➋ یہودو نصاریٰ کا اپنے احبار و رہبان کو حلال و حرام کا اختیار دینا انھیں رب بنانا تھا، اب جب یہود و نصاریٰ نے احبار و رہبان کے کرتوتوں کو دیکھ کر ان سے بغاوت کر دی تو عوام کی اکثریت کو حلال و حرام کا اختیار دے کر انھیں رب بنا لیا اور اس نئے دین کا نام جمہوریت رکھا، جس میں حلال و حرام کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بجائے پارلیمنٹ کی اکثریت کرتی ہے، جو صریح شرک ہے۔ افسوس کہ مسلمان اس شرک میں ان کے قدم بہ قدم چل رہے ہیں، بلکہ اسلام سے اس بغاوت پر فخر کرتے اور دن رات اس کی تعریف کرتے ہیں اور یہ کہنے میں کوئی حیا محسوس نہیں کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جمہوریت نافذ کرنے کے لیے آئے تھے۔ ان بے چاروں کو معلوم نہیں کہ جمہوریت صرف ان امور میں مشورے کا نام نہیں جہاں اللہ اور اس کے رسول کا حکم موجود نہ ہو بلکہ یہ ایک الگ دین ہے جس کا رب بھی عوام یا ان کے نمائندے ہیں اور رسول بھی۔ انھی کو حلال و حرام اور جائز و ناجائز قرار دینے کا حق حاصل ہے۔ اس دین میں اللہ تعالیٰ، اس کے رسول یا اس کی کتاب کا کچھ دخل نہیں، ہاں دھوکا دینے کے لیے ان کا نام استعمال ہوتا ہے۔
➌ { وَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ:} مسیح ابن مریم علیھما السلام کو دوبارہ لا کر ان کا رب بنانا اس لیے ذکر فرمایا کہ یہودیوں نے عزیر علیہ السلام یا علماء و رہبان کی پرستش اس طرح نہیں کی تھی جس طرح نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کی کی اور نہ وہ اس معنی میں عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا ماننے کا اقرار کرتے ہیں جن معنوں میں نصاریٰ مسیح علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔رہے احبار و رہبان تو ان کو یہود ونصاریٰ دونوں نے ایک ہی معنی میں رب بنایا تھا۔ پیچھے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کا ذکر کرکے ان کی اس دلیل کو بھی بے معنی قرار دیا تھا کہ وہ تو باپ اور ماں دونوں کے بغیر پیدا ہوئے تھے، اگر وہ رب نہیں تو ماں سے پیدا ہونے والا کیسے رب ہو گیا؟
➍ {وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا:} یعنی یہ تمام بے ہودگی یہودو نصاریٰ نے تورات میں موجود واضح احکام کے باوجود اختیار کی کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا، جو اب بھی تورات کی تحریف کے باوجود مختلف الفاظ کے ساتھ اس میں جا بجا موجود ہیں۔
گویا یہ ان کا دوسرا شرک تھا کہ انھوں نے حلال و حرام قرار دینے کا اختیار اپنے مشائخ و علماء کو دے دیا، حالانکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور ان پر لازم تھا کہ اپنے نبی کے بتائے ہوئے طریقے اور فرامین پر قائم رہتے۔ بالکل یہی طرز عمل ہمارے زمانے کے مقلدین کا ہے کہ ان کے امام کا قول صاف قرآن یا صحیح حدیث کے خلاف آ جائے تب بھی وہ قرآن اور صحیح حدیث ماننے کے بجائے اپنے امام کے حلال کردہ کو حلال اور اس کے حرام کردہ کو حرام کہیں گے، پھر اس پر اصرار کریں گے، مثلاً قرآن مجید کا صاف حکم ہے کہ رضاعت کی مکمل مدت دو سال ہے، مگر کچھ لوگوں نے اسے ماننے کے بجائے اپنے امام کے کہنے پر اسے اڑھائی سال قرار دے لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور صریح فرمان: ”ہر نشہ آور حرام ہے“ کے باوجود کھجور اور انگور کے سوا کسی بھی چیز سے بنی ہوئی نشہ آور چیز کو حلال قرار دے لیا، زنا کو حلالہ کہہ کر حلال کر لیا، اجرت پر لائی عورت سے زنا پر حد معاف کر دی، تیز دھار آلے اور آگ کے سوا جان بوجھ کر کسی بھی طریقے سے قتل کر دینے پر قصاص ختم کر دیا، بادشاہِ وقت سے اللہ تعالیٰ کی کئی حدود بالکل ہی معاف کر دیں، چور کے چوری کے مال پر ملکیت کے خالی دعوے سے، جس پر وہ کوئی دلیل بھی نہ دے، چوری کی حد ختم کر دی، گانے بجانے اور رقص کو مشائخ کے کہنے پر معرفت اور روح کی غذا قرار دے لیا اور بعض مشائخ و علماء نے عوام سے یہ بیعت لینا شروع کر دی کہ ہمارا ہر حکم، خواہ وہ قرآن و حدیث کے موافق ہو یا مخالف، تم مانو گے۔ بتائیے! ان مسلمانوں کے احبار و رہبان کو رب بنانے میں کیا کسر رہ گئی!؟ خلاصہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان بالکل پورا ہوا کہ تم ہو بہو پہلے لوگوں کے نشان قدم پر چل پڑو گے، پھر ہر گروہ کے اپنے پیشوا کی غلط باتوں پر ڈٹ جانے سے مسلمانوں میں ایسا شگاف پڑا جو قرآن و حدیث کی طرف واپس آنے کے بغیر کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ {”اِتَّسَعَ الْخَرْقُ عَلَي الرَّاقِعِ“} کی صورت پیدا ہو گئی ہے کہ شگاف پیوند لگانے والے کی بساط سے بھی زیادہ کھلا ہو گیا۔ پہلے (۷۲) گروہ بنے تھے یہ (۷۳) بن گئے۔ [فَإِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ]
➋ یہودو نصاریٰ کا اپنے احبار و رہبان کو حلال و حرام کا اختیار دینا انھیں رب بنانا تھا، اب جب یہود و نصاریٰ نے احبار و رہبان کے کرتوتوں کو دیکھ کر ان سے بغاوت کر دی تو عوام کی اکثریت کو حلال و حرام کا اختیار دے کر انھیں رب بنا لیا اور اس نئے دین کا نام جمہوریت رکھا، جس میں حلال و حرام کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بجائے پارلیمنٹ کی اکثریت کرتی ہے، جو صریح شرک ہے۔ افسوس کہ مسلمان اس شرک میں ان کے قدم بہ قدم چل رہے ہیں، بلکہ اسلام سے اس بغاوت پر فخر کرتے اور دن رات اس کی تعریف کرتے ہیں اور یہ کہنے میں کوئی حیا محسوس نہیں کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جمہوریت نافذ کرنے کے لیے آئے تھے۔ ان بے چاروں کو معلوم نہیں کہ جمہوریت صرف ان امور میں مشورے کا نام نہیں جہاں اللہ اور اس کے رسول کا حکم موجود نہ ہو بلکہ یہ ایک الگ دین ہے جس کا رب بھی عوام یا ان کے نمائندے ہیں اور رسول بھی۔ انھی کو حلال و حرام اور جائز و ناجائز قرار دینے کا حق حاصل ہے۔ اس دین میں اللہ تعالیٰ، اس کے رسول یا اس کی کتاب کا کچھ دخل نہیں، ہاں دھوکا دینے کے لیے ان کا نام استعمال ہوتا ہے۔
➌ { وَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ:} مسیح ابن مریم علیھما السلام کو دوبارہ لا کر ان کا رب بنانا اس لیے ذکر فرمایا کہ یہودیوں نے عزیر علیہ السلام یا علماء و رہبان کی پرستش اس طرح نہیں کی تھی جس طرح نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کی کی اور نہ وہ اس معنی میں عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا ماننے کا اقرار کرتے ہیں جن معنوں میں نصاریٰ مسیح علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا ہونے کی وجہ سے اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔رہے احبار و رہبان تو ان کو یہود ونصاریٰ دونوں نے ایک ہی معنی میں رب بنایا تھا۔ پیچھے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کا ذکر کرکے ان کی اس دلیل کو بھی بے معنی قرار دیا تھا کہ وہ تو باپ اور ماں دونوں کے بغیر پیدا ہوئے تھے، اگر وہ رب نہیں تو ماں سے پیدا ہونے والا کیسے رب ہو گیا؟
➍ {وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا:} یعنی یہ تمام بے ہودگی یہودو نصاریٰ نے تورات میں موجود واضح احکام کے باوجود اختیار کی کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا، جو اب بھی تورات کی تحریف کے باوجود مختلف الفاظ کے ساتھ اس میں جا بجا موجود ہیں۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
31۔ 1 اس کی تفسیر حضرت عدی بن حاتم کی بیان کردہ حدیث سے بخوبی ہوجاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ آیت سن کر عرض کیا کہ یہود و نصاریٰ نے تو اپنے علماء کی کبھی عبادت نہیں کی، پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انہوں نے ان کو رب بنا لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی لیکن یہ بات تو ہے نا، کہ ان کے علماء نے جس کو حلال قرار دے دیا، اس کو انہوں نے حلال اور جس چیز کو حرام کردیا اس کو حرام ہی سمجھا۔ یہی ان کی عبادت کرنا ہے ' (صحیح ترمذی) کیونکہ حرام وحلال کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے یہی حق اگر کوئی شخص کسی اور کے اندر تسلیم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس کو اپنا رب بنا لیا ہے اس آیت میں ان لوگوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے جنہوں نے اپنے اپنے پیشواؤں کو تحلیل وتحریم کا منصب دے رکھا ہے اور ان کے اقوال کے مقابلے میں وہ نصوص قرآن و حدیث کو بھی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
31۔ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب [31] بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی۔ حالانکہ انہیں حکم یہ دیا گیا تھا کہ ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے پاک ہے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں
[31] اہل کتاب کا اپنے علماء و مشائخ کو رب بنانا:۔
ان اہل کتاب کا دوسرا شرک یہ تھا کہ حلت و حرمت کے اختیارات انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو سونپ رکھے تھے۔ حالانکہ یہ اختیار صرف اللہ کو ہے۔ وہ کتاب اللہ کو دیکھتے تک نہ تھے بس جو کچھ ان کے علماء و مشائخ کہہ دیتے اسے اللہ کا حکم سمجھ لیتے تھے جبکہ ان کے علماء و مشائخ کا یہ حال تھا کہ تھوڑی سی رقم لے کر بھی فتوے ان کی مرضی کے مطابق دے دیا کرتے تھے۔ اس طرح انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو رب کا درجہ دے رکھا تھا جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے: سیدنا عدی بن حاتم کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا میری گردن میں سونے کی صلیب تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”عدی! اس بت کو پرے پھینک دو۔ “ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ برأت کی یہ آیت پڑھتے سنا: ﴿اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَالْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ ۚ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوْٓا اِلٰهًا وَّاحِدًا ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭسُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ﴾ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ لوگ ان مولویوں اور درویشوں کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن جب یہ مولوی اور درویش کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تو وہ حلال جان لیتے اور جب حرام کہہ دیتے تو حرام سمجھ لیتے تھے۔ [ترمذي۔ ابواب التفسير]
یہ دونوں آیات در اصل ان سے پہلی آیت کی تشریح کے طور پر آئی ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ اہل کتاب اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ یعنی ایسے طرح طرح کے شرک کی موجودگی میں اللہ پر ایمان لانے کا دعویٰ کوئی معنی نہیں رکھتا۔
یہ دونوں آیات در اصل ان سے پہلی آیت کی تشریح کے طور پر آئی ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ اہل کتاب اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ یعنی ایسے طرح طرح کے شرک کی موجودگی میں اللہ پر ایمان لانے کا دعویٰ کوئی معنی نہیں رکھتا۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
بزرگ بڑے نہیں اللہ جل شانہ سب سے بڑا ہے ٭٭
ان آیتوں میں بھی جناب باری عزوجل مومنوں کو مشرکوں، کافروں سے یہودیوں، نصرانیوں سے جہاد کرنے کی رغبت دلاتا ہے۔ فرماتا ہے دیکھو وہ اللہ کی شان میں کیسی گستاخیاں کرتے ہیں؟ یہود عزیر کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا بتلاتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پاک اور برتر و بلند ہے کہ اس کی اولاد ہو۔
ان لوگوں کو سیدنا عزیر علیہ السلام کی نسبت جو یہ وہم ہوا اس کا قصہ یہ ہے کہ جب عمالقہ بنی اسرائیل پر غالب آ گئے ان کے علماء کو قتل کر دیا ان کے رئیسوں کو قید کر لیا۔ عزیر علیہ السلام کا علم اٹھ جانے اور علماء کے قتل ہو جانے سے اور بنی اسرائیل کی تباہی سے سخت رنجیدہ ہوئے اب جو رونا شروع کیا تو آنکھوں سے آنسو ہی نہ تھمتے تھے روتے روتے پلکیں بھی جھڑ گئیں۔
ایک دن اسی طرح روتے ہوئے ایک میدان سے گزر ہوا تو دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے ہائے اب میرے کھانے کا کیا ہو گا؟ میرے کپڑوں کا کیا ہو گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس ٹھہر گئے اور اس سے فرمایا: ”اس شخص سے پہلے تجھے کون کھلاتا تھا اور کون پہناتا تھا“؟ اس نے کہا: ”اللہ تعالیٰ۔“ آپ نے فرمایا: ”پھر اللہ تعالیٰ تو اب بھی زندہ، باقی ہے اس پر تو کبھی نہیں موت آئے گی ہی نہیں۔“
ان لوگوں کو سیدنا عزیر علیہ السلام کی نسبت جو یہ وہم ہوا اس کا قصہ یہ ہے کہ جب عمالقہ بنی اسرائیل پر غالب آ گئے ان کے علماء کو قتل کر دیا ان کے رئیسوں کو قید کر لیا۔ عزیر علیہ السلام کا علم اٹھ جانے اور علماء کے قتل ہو جانے سے اور بنی اسرائیل کی تباہی سے سخت رنجیدہ ہوئے اب جو رونا شروع کیا تو آنکھوں سے آنسو ہی نہ تھمتے تھے روتے روتے پلکیں بھی جھڑ گئیں۔
ایک دن اسی طرح روتے ہوئے ایک میدان سے گزر ہوا تو دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے ہائے اب میرے کھانے کا کیا ہو گا؟ میرے کپڑوں کا کیا ہو گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس ٹھہر گئے اور اس سے فرمایا: ”اس شخص سے پہلے تجھے کون کھلاتا تھا اور کون پہناتا تھا“؟ اس نے کہا: ”اللہ تعالیٰ۔“ آپ نے فرمایا: ”پھر اللہ تعالیٰ تو اب بھی زندہ، باقی ہے اس پر تو کبھی نہیں موت آئے گی ہی نہیں۔“
یہ سن کر اس عورت نے کہا: ”اے عزیر! پھر تم یہ تو بتلاؤ کہ بنی اسرائیل سے پہلے علماء کو کون علم سکھاتا تھا“؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ۔“ اس نے کہا: ”آپ علیہ السلام یہ رونا دھونا لے کر کیوں بیٹھے ہیں“؟
آپ علیہ السلام کو سمجھ میں آ گیا کہ یہ جناب باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہہ ہے پھر آپ علیہ السلام سے فرمایا گیا کہ فلاں نہر پر جا کر غسل کرو وہیں دو رکعت نماز ادا کرو وہاں تمہیں ایک شخص ملیں گے وہ جو کچھ کھلائیں گے وہ کھا لو۔
چنانچہ آپ علیہ السلام وہیں تشریف لے گئے نہا کر نماز ادا کی، دیکھا کہ ایک شخص ہیں کہہ رہے ہیں منہ کھولو آپ علیہ السلام نے منہ کھول دیا انہوں نے تین مرتبہ کوئی چیز آپ علیہ السلام کے منہ میں بڑی ساری ڈالی اسی وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کا سینہ کھول دیا، اور آپ علیہ السلام توراۃ کے سب سے بڑے عالم بن گئے بنی اسرائیل میں گئے ان سے فرمایا کہ ”میں تمہارے پاس تورات لایا ہوں۔“ انہوں نے کہا: ”آپ علیہ السلام ہم سب کے نزدیک سچے ہیں۔“
آپ علیہ السلام نے اپنی انگلی کے ساتھ قلم کو لپیٹ لیا اور اسی انگلی سے بیک وقت پوری تورات لکھ ڈالی۔ ادھر لوگ لڑائی سے لوٹے ان میں ان کے علماء بھی واپس آئے تو انہیں سیدنا عزیر علیہ السلام کی اس بات کا علم ہوا یہ گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں تورات شریف کے جو نسخے چھپا آئے تھے وہ نکال لائے اور ان نسخوں سے سیدنا عزیر علیہ السلام کے لکھے ہوئے نسخے کا مقابلہ کیا تو بالکل صحیح پایا۔
اس پر بعض جاہلوں کے دل میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈال دیا کہ آپ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کو نصرانی اللہ کا بیٹا کہتے تھے ان کا واقعہ تو ظاہر ہے۔
پس ان دونوں گروہ کی غلط بیانی قرآن بیان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ ان کی صرف زبانی باتیں ہیں جو محض بےدلیل ہیں جس طرح ان سے پہلے کے لوگ کفر و ضلالت میں تھے یہ بھی انہی کے مرید و مقلد ہیں اللہ تعالیٰ انہیں لعنت کرے حق سے کیسے بھٹک گئے۔
آپ علیہ السلام کو سمجھ میں آ گیا کہ یہ جناب باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہہ ہے پھر آپ علیہ السلام سے فرمایا گیا کہ فلاں نہر پر جا کر غسل کرو وہیں دو رکعت نماز ادا کرو وہاں تمہیں ایک شخص ملیں گے وہ جو کچھ کھلائیں گے وہ کھا لو۔
چنانچہ آپ علیہ السلام وہیں تشریف لے گئے نہا کر نماز ادا کی، دیکھا کہ ایک شخص ہیں کہہ رہے ہیں منہ کھولو آپ علیہ السلام نے منہ کھول دیا انہوں نے تین مرتبہ کوئی چیز آپ علیہ السلام کے منہ میں بڑی ساری ڈالی اسی وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کا سینہ کھول دیا، اور آپ علیہ السلام توراۃ کے سب سے بڑے عالم بن گئے بنی اسرائیل میں گئے ان سے فرمایا کہ ”میں تمہارے پاس تورات لایا ہوں۔“ انہوں نے کہا: ”آپ علیہ السلام ہم سب کے نزدیک سچے ہیں۔“
آپ علیہ السلام نے اپنی انگلی کے ساتھ قلم کو لپیٹ لیا اور اسی انگلی سے بیک وقت پوری تورات لکھ ڈالی۔ ادھر لوگ لڑائی سے لوٹے ان میں ان کے علماء بھی واپس آئے تو انہیں سیدنا عزیر علیہ السلام کی اس بات کا علم ہوا یہ گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں تورات شریف کے جو نسخے چھپا آئے تھے وہ نکال لائے اور ان نسخوں سے سیدنا عزیر علیہ السلام کے لکھے ہوئے نسخے کا مقابلہ کیا تو بالکل صحیح پایا۔
اس پر بعض جاہلوں کے دل میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈال دیا کہ آپ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کو نصرانی اللہ کا بیٹا کہتے تھے ان کا واقعہ تو ظاہر ہے۔
پس ان دونوں گروہ کی غلط بیانی قرآن بیان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ ان کی صرف زبانی باتیں ہیں جو محض بےدلیل ہیں جس طرح ان سے پہلے کے لوگ کفر و ضلالت میں تھے یہ بھی انہی کے مرید و مقلد ہیں اللہ تعالیٰ انہیں لعنت کرے حق سے کیسے بھٹک گئے۔
مسند احمد و ترمذی اور ابن جریر میں ہے کہ جب عدی بن حاتم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین پہنچا تو شام کی طرف بھاگ نکلا۔ جاہلیت میں ہی یہ نصرانی بن گیا تھا یہاں اس کی بہن اور اس کی جماعت قید ہو گئی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور احسان اس کی بہن کو آزاد کر دیا اور رقم بھی دی۔ یہ سیدھی اپنے بھائی کے پاس گئیں اور انہیں اسلام کی رغبت دلائی اور سمجھایا کہ تم رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس چلے جاؤ۔
چنانچہ یہ مدینہ منورہ آ گئے تھے اپنی قوم طے کے سردار تھے ان کے باپ کی سخاوت دنیا بھر میں مشہور تھی۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے پاس آئے۔ اس وقت عدی کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اسی آیت «اتَّخَذُوا» کی تلاوت ہو رہی تھی۔
تو انہوں نے کہا کہ ”یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں سنو ان کے کئے ہوئے حرام کو حرام سمجھنے لگے اور جسے ان کے علماء اور درویش حلال بتا دیں اسے حلال سمجھنے لگے یہی ان کی عبادت تھی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عدی کیا تم اس سے منکر ہو کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، کیا تمہارے خیال میں اللہ تعالیٰ سے بڑا اور کوئی ہے کیا تم اس سے انکار کرتے ہو کہ معبود برحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں؟ کیا تمہارے نزدیک اس کے سوا اور کوئی بھی عبادت کے لائق ہے“؟
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی، انہوں نے مان لی اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا: ”یہود پر غضب اللہ اترا ہے اور نصرانی گمراہ ہو گئے ہیں۔“ ۱؎ [سنن ترمذي:3095،قال الشيخ الألباني:حسن]
چنانچہ یہ مدینہ منورہ آ گئے تھے اپنی قوم طے کے سردار تھے ان کے باپ کی سخاوت دنیا بھر میں مشہور تھی۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے پاس آئے۔ اس وقت عدی کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اسی آیت «اتَّخَذُوا» کی تلاوت ہو رہی تھی۔
تو انہوں نے کہا کہ ”یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کی۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں سنو ان کے کئے ہوئے حرام کو حرام سمجھنے لگے اور جسے ان کے علماء اور درویش حلال بتا دیں اسے حلال سمجھنے لگے یہی ان کی عبادت تھی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عدی کیا تم اس سے منکر ہو کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، کیا تمہارے خیال میں اللہ تعالیٰ سے بڑا اور کوئی ہے کیا تم اس سے انکار کرتے ہو کہ معبود برحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں؟ کیا تمہارے نزدیک اس کے سوا اور کوئی بھی عبادت کے لائق ہے“؟
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی، انہوں نے مان لی اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا: ”یہود پر غضب اللہ اترا ہے اور نصرانی گمراہ ہو گئے ہیں۔“ ۱؎ [سنن ترمذي:3095،قال الشيخ الألباني:حسن]
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح مروی ہے کہ اس سے مراد حلال و حرام کے مسائل میں علماء اور ائمہ کی محض باتوں کی تقلید ہے۔
سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں انہوں نے بزرگوں کی ماننی شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ کی کتاب ایک طرف ہٹا دی، اسی لیے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں حکم تو صرف یہ تھا کہ اللہ تعاللیٰ کے سوا اور کی عبادت نہ کریں وہی جسے حرام کر دے حرام ہے اور وہ جسے حلال فرما دے حلال ہے اسی کے فرمان شریعت ہیں، اسی کے احکام بجا لانے کے لائق ہیں اسی کی ذات عبادت کی مستحق ہے۔ وہ مشرک سے اور شرک سے پاک ہے اس جیسا، اس کا شریک، اس کا نظیر، اس کا مددگار، اس کی ضد کا کوئی نہیں، وہ اولاد سے پاک ہے نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار۔
سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں انہوں نے بزرگوں کی ماننی شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ کی کتاب ایک طرف ہٹا دی، اسی لیے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں حکم تو صرف یہ تھا کہ اللہ تعاللیٰ کے سوا اور کی عبادت نہ کریں وہی جسے حرام کر دے حرام ہے اور وہ جسے حلال فرما دے حلال ہے اسی کے فرمان شریعت ہیں، اسی کے احکام بجا لانے کے لائق ہیں اسی کی ذات عبادت کی مستحق ہے۔ وہ مشرک سے اور شرک سے پاک ہے اس جیسا، اس کا شریک، اس کا نظیر، اس کا مددگار، اس کی ضد کا کوئی نہیں، وہ اولاد سے پاک ہے نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار۔