ترجمہ و تفسیر — سورۃ التوبة (9) — آیت 25
لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ ۙ وَّ یَوۡمَ حُنَیۡنٍ ۙ اِذۡ اَعۡجَبَتۡکُمۡ کَثۡرَتُکُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ ضَاقَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ثُمَّ وَلَّیۡتُمۡ مُّدۡبِرِیۡنَ ﴿ۚ۲۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بلاشبہ یقیناً اللہ نے بہت سی جگہوں میں تمھاری مدد فرمائی اور حنین کے دن بھی، جب تمھاری کثرت نے تمھیں خود پسند بنا دیا، پھر وہ تمھارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین تنگ ہو گئی، باوجود اس کے کہ وہ فراخ تھی، پھر تم پیٹھ پھیرتے ہوئے لوٹ گئے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
خدا نے بہت سے موقعوں پر تم کو مدد دی ہے اور (جنگ) حنین کے دن۔ جب تم کو اپنی (جماعت کی) کثرت پر غرّہ تھا تو وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی۔ اور زمین باوجود (اتنی بڑی) فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر پھر گئے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
یقیناً اللہ تعالیٰ نے بہت سے میدانوں میں تمہیں فتح دی ہے اور حنین کی لڑائی والے دن بھی جب کہ تمہیں اپنی کثرت پر ناز ہو گیا تھا، لیکن اس نے تمہیں کوئی فائده نہ دیا بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گئے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت26،25) ➊ {لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ:} بدر میں اپنے انعامات کے تذکرے، جہاد کی ترغیب، کفار سے دوستی ترک کرنے کی تلقین اور دنیا کی ہر چیز پر اللہ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ کی ترجیح کے حکم کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے اپنے کچھ مزید انعامات ذکر فرمائے، جن میں حنین کا خاص ذکر فرمایا، مگر حنین کا ذکر کرنے سے پہلے بہت سے گزشتہ مواقع میں «فِيْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ» ‏‏‏‏ اپنی مدد کا ذکر فرمایا، ان میں ہجرت «فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا» [التوبۃ: ۴۰] بدر «وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ» [آل عمران: ۱۲۳] احد «وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗۤ اِذْ تَحُسُّوْنَهُمْ بِاِذْنِهٖ» ‏‏‏‏ [آل عمران: ۱۵۲] خندق «يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ» ‏‏‏‏ [الأحزاب: ۹] حدیبیہ «اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا» ‏‏‏‏ [الفتح: ۱] فتح مکہ «اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ» [النصر: ۱] یہودی قبائل «هُوَ الَّذِيْۤ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ» ‏‏‏‏ [الحشر: ۲] اور منافقین سے معاملات وغیرہ سب شامل ہیں اور سب کا ذکر قرآن و حدیث میں مختلف مقامات پر موجود ہے، مگر ان کو یہاں بطور تمہید ذکر فرما کر اصل تذکرہ حنین کے دن کیے جانے والے انعام کا فرمایا اور اس کی وجہ بھی بیان فرمائی۔ حنین مکہ معظمہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے، وہاں فتح مکہ (رمضان ۸ھ) کے ایک ماہ بعد شوال ۸ھ میں مسلمانوں کی ہوازن، ثقیف، بنو جشم، بنو سعد اور بعض دوسرے قبائل سے جنگ ہوئی تھی۔
➋ { وَ يَوْمَ حُنَيْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ …:} نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تو ان مہاجرین و انصار کا تھا جو فتح مکہ کے لیے آپ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے اور دو ہزار آدمی آپ کے ساتھ اہل مکہ (طلقاء) میں سے شامل ہو گئے تھے۔ اس طرح مسلمانوں کا کل لشکر بارہ ہزار لڑنے والوں پر مشتمل تھا، جبکہ اس کے مقابلے میں دشمنوں کی تعداد صرف چار ہزار کے قریب تھی، اس پر بہت سے مسلمانوں میں عجب (خود پسندی) اور ایک قسم کا غرور پیدا ہو گیا، حتیٰ کہ بعض نے کہا آج ہم قلت تعداد کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوں گے۔ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آیا۔ (ابن کثیر) جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم وادی حنین کی طرف چلے تو ہم تہامہ کی وادیوں میں سے ایک وادی میں اترے، وادی بڑی وسیع و عریض تھی، اس میں اوپر نیچے ٹیلے اور چھوٹی چھوٹی ڈھلوانی پہاڑیاں تھیں، ہم اوپر چڑھتے اور نیچے اترتے ہوئے آگے کی جانب بڑھتے اور لڑھکتے جا رہے تھے، ابھی صبح کا اندھیرا تھا، دشمن ہمارے لیے مختلف گھاٹیوں، کناروں اور تنگ گزر گاہوں میں پورے اتفاق اور مقابلے کی تیاری کے ساتھ چھپے بیٹھے تھے۔ اللہ کی قسم! ہمیں اترتے اترتے پتا ہی نہ چلا کہ دشمن نے مل کر اس طرح حملہ کیا جیسے ایک آدمی کرتا ہے۔ (دوسری روایات میں ہے کہ وہ زبردست نشانہ باز تھے، انھوں نے تیروں کی بوچھاڑ کر دی) لوگ شکست کھا کر واپس پلٹے، وہ بھاگے جاتے تھے اور کوئی کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں طرف ایک جگہ ہو گئے، پھر فرمایا: لوگو! میری طرف توجہ کرو، میری طرف آؤ، میں رسول اللہ ہوں، میں محمد بن عبد اللہ ہوں۔ کہیں سے جواب نہیں آ رہا تھا، اونٹ ایک دوسرے پر گرتے پڑتے بھاگ رہے تھے، لوگ ادھر ادھر نکل گئے، سوائے مہاجرین و انصار کے ایک گروہ اور آپ کے خاندان کے لوگوں کے جو زیادہ نہ تھے۔ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما آپ کے ساتھ ڈٹے رہے، آپ کے خاندان والوں میں سے علی بن ابو طالب، عباس بن عبدالمطلب، ان کے بیٹے فضل، ابو سفیان بن حارث اور ایمن بن عبید جو ام ایمن کے بیٹے تھے اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم۔ [أحمد: 376/3، ح: ۱۵۰۲۷، وحسنہ شعیب الأرنؤوط۔ ابن حبان: ۴۷۷۴]
عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری آواز بڑی بلند تھی، اس وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا: اے عباس! کیکر (کے درخت) والوں کو آواز دو۔ چنانچہ میں نے بلند آواز سے پکارا کہ کیکر (تلے بیعت رضوان کرنے) والے کہاں ہیں؟ اللہ کی قسم! ان لوگوں نے جب میری آواز سنی تو وہ ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں کہتے ہوئے اس طرح دوڑے جس طرح گائے اپنے بچے کی طرف دوڑتی ہے۔ عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکر پکڑے اور دشمنوں کی طرف پھینکے، اس کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: محمد کے رب کی قسم! وہ شکست کھا گئے۔ [مسلم، الجہاد، باب غزوۃ حنین: ۱۷۷۵] یہ وہ وقت ہے جب مسلمان جم گئے اور فرشتے نازل ہوئے: «وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا» ‏‏‏‏ اور اس نے ایسے لشکر اتارے جنھیں تم نے نہیں دیکھا۔
➌ { وَ عَذَّبَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا…:} اللہ تعالیٰ نے کفار کو یہ سزا دی کہ انھیں شکست فاش ہوئی، ان کے بچے اور عورتیں لونڈی و غلام اور ان کے اموال مسلمانوں کی غنیمت بنے، بہت سے بڑے بھی اسیر ہوئے اور دنیا میں کفار کی یہی جزا ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

25۔ اللہ (اس سے پہلے) بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کر چکا ہے اور حنین [23] کے دن (بھی تمہاری مدد کی تھی) جبکہ تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا مگر وہ کثرت تمہارے کسی کام نہ آئی اور زمین اپنی فراخی کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ دیکھا کر بھاگ کھڑے ہوئے
[23] غزوہ حنین اور اس کے اسباب:۔
حنین مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے جہاں فتح مکہ کے بعد شوال 8 ھ میں حق و باطل کا ایک بہت بڑا معرکہ پیش آیا تھا۔ عرب کے اکثر بدوی قبائل اس انتظار میں تھے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم قریش پر غالب آ گئے اور مکہ فتح ہو گیا تو بلا شبہ وہ پیغمبر ہیں اور ان کی دعوت کو قبول کر لینا چاہیے۔ چنانچہ مکہ کی فتح کے بعد بہت سے قبائل خود بخود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لے آئے لیکن ہوازن اور ثقیف کا معاملہ دوسرے قبائل کے بالکل برعکس تھا۔ یہ قبائل نہایت جنگجو اور فنون حرب و ضرب کے خوب ماہر تھے اور جوں جوں اسلام کو غلبہ حاصل ہوتا تھا یہ قبائل اس غلبہ کو اپنی ریاست و اقتدار کے لیے خطرہ سمجھ کر اور بھی زیادہ سیخ پا ہو جاتے تھے۔ مکہ کی فتح کے بعد ان دونوں قبائل نے باہمی اتفاق سے یہ پروگرام بنایا کہ اس وقت مسلمان مکہ میں جمع ہیں۔ اسی مقام پر ان پر ایک بھرپور حملہ کر کے ان کا زور توڑ دیا جائے۔ ان لوگوں کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنی عورتیں اور بچے بھی ساتھ لے آئے تھے تاکہ کسی کو پسپائی کا خیال ہی پیدا نہ ہو۔ ایک تیس سالہ نوجوان مالک بن عوف ان کا سپہ سالار تھا۔
مسلمانوں کی پسپائی:۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ہی مقیم تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان حالات کا علم ہوا۔ فتح مکہ سے تو کچھ مال غنیمت وصول ہی نہ ہوا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ اس نئی جنگ کے لیے اخراجات کہاں سے آئیں؟ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن ربیعہ سے تیس ہزار درہم قرض لیے اور اسلحہ جنگ کے طور پر سو زر ہیں اور اس کے لوازمات صفوان بن امیہ سے مستعار لیے اور ان قبائل سے مقابلہ کے لیے مکہ سے نکل کر ان کی طرف بڑھے اور حنین کے مقام پر دونوں لشکر آمنے سامنے آ گئے۔ اس وقت اسلامی لشکر کی تعداد بارہ ہزار تھی جن میں نو مسلم بھی شامل تھے اور دشمن کی تعداد صرف چار ہزار تھی۔ مقابلہ ہوا تو ہوازن کے تیر اندازوں نے کمین گاہوں سے اس طرح تیروں کی بوچھاڑ کی اور اس قدر بے جگری سے لڑے کہ اسلامی لشکر کے جو آج اپنی کثرت تعداد پر نازاں ہونے کی وجہ سے کچھ بے خوف اور لاپروا سے ہو رہے تھے، چھکے چھوٹ گئے اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور راہ فرار اختیار کی۔ حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آیا جب آپ اکیلے دشمن کے سامنے کھڑے رہ گئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قدر جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ اس کا اندازہ درج ذیل احادیث سے ہوتا ہے۔ نیز جنگ کے حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
آپ کی مثالی جرأت:۔
1۔ سیدنا براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ ہم مال غنیمت پر ٹوٹ پڑے اور دشمن نے ہم پر تیر برسانے شروع کر دیئے۔ [بخاري۔ كتاب المغازي۔ باب و يوم حنين۔ مسلم كتاب الجهاد۔ باب فى غزوة حنين]
2۔ سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ حنین کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار مجاہدین کے علاوہ طلقاء (جنہیں فتح مکہ کے بعد معافی دی گئی تھی) بھی تھے۔ وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ گئے تھے اور آپ اکیلے رہ گئے تھے۔ [غزوه طائف۔ بخاري كتاب المغازي۔ مسلم كتاب الجهاوالسير باب اعطاء المؤلفة قلوبهم]
اصحاب شجرہ کا پکارنے پر آپﷺ کے پاس پہنچنا:۔
سیدنا عباسؓ فرماتے ہیں کہ حنین کی جنگ میں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ میں اور ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں چھوڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فروہ بن نغاثہ جذامی نے ہدیہ کیا تھا۔ جب کفار اور مسلمانوں کا مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر کفار کی طرف جانے کے لیے ایڑ لگانے لگے۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھا کہ کہیں وہ تیزی سے دشمن کی طرف نہ چلا جائے اور ابو سفیانؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا ”عباس! اصحاب شجرہ کو آواز دو (کیونکہ میں بلند بانگ تھا) میں نے بلند آواز سے پکارا: اصحاب شجرۃ کہاں ہیں؟ آواز سنتے ہی وہ اس طرح لوٹ آئے جیسے گائے اپنے بچوں کے پاس آتی ہے۔ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم حاضر ہیں۔ ہم حاضر ہیں۔ انصار کو یوں بلایا گیا۔ یا معشر الانصار! یا معشر الانصار! پھر بنو الحارث بن خزرج پر بلانا ختم ہوا۔ انہیں یوں بلایا گیا۔ اے بنو الحارث بن خزرج۔ اے بنو الحارث بن خزرج! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے اور اونچے ہو ہو کر لڑائی دیکھ رہے تھے۔ [مسلم۔ كتاب الجهادوالسير۔ باب فى غزوة حنين]
آپﷺ کا اشعار پڑھنا:۔
سیدنا براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ ”جب لوگوں کو ندا دی گئی اس وقت آپ یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ «انا النبى لاكذب ... انا ابن عبد المطلب» اور فرما رہے تھے اے اللہ اپنی نصرت نازل فرما۔ اللہ کی قسم! جب جنگ شدت اختیار کر جاتی تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنا بچاؤ کرتے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہو جاتے تھے اور ہم میں بہادر وہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر کھڑا ہوتا۔“ [مسلم۔ كتاب الجهاد والسيه۔ باب غزوه حنين]
پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر مہاجرین و انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے تو اس وقت تک اپنی کثرت پر نازاں ہونے کی بو دماغوں سے نکل چکی تھی۔ پھر جم کر لڑے۔ اللہ کی مدد شامل حال ہوئی تو اللہ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو بہت سا مال غنیمت بھی حاصل ہوا اور بہت سے لونڈی غلام بھی بنائے گئے کیونکہ یہ لوگ اپنے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے۔ گویا جس چیز کو وہ حوصلہ افزائی کے لیے لائے تھے وہی چیز اللہ نے ان کے لیے وبال جان بنا دی۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

اس آیت کی تفسیر اگلی آیات کیساتھ ملاحظہ کریں۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل