قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کہہ دے اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے اور تمھارے بھائی اور تمھاری بیویاں اور تمھارا خاندان اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور رہنے کے مکانات، جنھیں تم پسند کرتے ہو، تمھیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو خدا اور اس کے رسول سے اور خدا کی راہ میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ عزیز ہوں تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ خدا اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے۔ اور خدا نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکےاور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وه تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وه حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راه میں جہاد سے بھی زیاده عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت24) ➊ {قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ …:} یہ اور اس سے پہلی آیت دونوں مسلمانوں کے کسی خاص گروہ یا واقعہ سے متعلق نہیں بلکہ عام اور ہر زمانے کے لیے ہیں، ان میں تمام مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت انھیں دنیا کی ہر چیز سے زیادہ ہونی چاہیے، یہ تمام چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے شمار فرمائی ہیں ہر انسان کو طبعی طور پر محبوب ہوتی ہیں، فرمایا: «زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِيْنَ وَ الْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ» [آل عمران: ۱۴] ”لوگوں کے لیے نفسانی خواہشوں کی محبت مزین کی گئی ہے جو عورتیں اور بیٹے اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان لگائے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور کھیتی ہیں، یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور اللہ ہی ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔“ ان چیزوں سے محبت کوئی گناہ بھی نہیں، بلکہ ان سے محبت اور ان کے حقوق کی ادائیگی آدمی کی ذمہ داری ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے تقاضا صرف یہ ہے کہ ان میں سے کسی چیز کی محبت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کے راستے میں جہاد سے بڑھ کر نہیں ہونی چاہیے۔ پیمانہ اس کا یہ ہے کہ اگر کبھی ایسا ہو کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہو اور اسلام کی خاطر جہاد کرتے ہوئے سب کچھ قربان کر دینے کی ضرورت ہو اور دوسری طرف ماں باپ اور خویش و اقارب کی محبت ہو اور دنیا کے دوسرے تعلقات یا مفادات و خطرات اس کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہوں تو مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ہر شخص اور ہر مصلحت سے بے پروا ہو کر اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پیروی کرے اور کوئی دنیوی مفاد یا خطرہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جو اسے اللہ کا حکم ماننے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے باز رکھ سکے، ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بھی وقت عذاب آ سکتا ہے۔ یہی مضمون ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار واضح فرمایا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔“ [بخاری، الإیمان، باب حب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من الإیمان: ۱۵، عن أنس رضی اللہ عنہ] عبد اللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”آپ مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے اپنی جان کے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب تک کہ میں تجھے تیری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔“ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ”اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔“ فرمایا: ”اب اے عمر! (تیرے ایمان کا معاملہ درست ہوا)۔“ [بخاری، الأیمان والنذور، باب کیف کانت یمین النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ۶۶۳۲]
➋ { حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ:} ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم ” عینہ “ (حیلے کے ساتھ سود کی ایک قسم) کے ساتھ بیع کرو گے اور بیلوں کی دمیں پکڑ لو گے اور کھیتی باڑی پر راضی ہو جاؤ گے اور جہاد ترک کر دو گے، تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کرے گا جسے ختم نہیں کرے گا، جب تک تم اپنے دین کی طرف لوٹ نہیں آؤ گے۔“ [أبوداوٗد، البیوع، باب فی النہی عن العینۃ: ۳۴۶۲، و صححہ الألبانی] زمخشری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ آیت بہت سخت ہے، اس سے سخت آپ کوئی آیت نہیں دیکھیں گے۔ یہ انسان کی دینی کمزوری اور یقین کی کمی کی نشان دہی کرتی ہے۔ اپنے دل میں بہت پرہیز گار اور متقی شخص انصاف سے سوچے کہ کیا واقعی اس میں اتنی دینی پختگی ہے کہ اس آیت میں مذکور تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہونے کی بنا پر کسی معاملے میں چھوڑ سکتا ہے، یا کسی کی تھوڑی سی ناراضگی یا دنیا کے معمولی سے مفاد کی بنا پر وہ کش مکش میں پڑ جاتا ہے کہ کسے رکھوں اور کسے چھوڑوں؟ پھر اکثر یہی ہوتا ہے کہ اس کی بیوی، اولاد، دوستوں، معاشرے اور تجارتی مفاد کے تقاضے ہی اللہ کے دین کے تقاضوں پر غالب آتے ہیں۔ (الا ما شاء اللہ)
➋ { حَتّٰى يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ:} ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم ” عینہ “ (حیلے کے ساتھ سود کی ایک قسم) کے ساتھ بیع کرو گے اور بیلوں کی دمیں پکڑ لو گے اور کھیتی باڑی پر راضی ہو جاؤ گے اور جہاد ترک کر دو گے، تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کرے گا جسے ختم نہیں کرے گا، جب تک تم اپنے دین کی طرف لوٹ نہیں آؤ گے۔“ [أبوداوٗد، البیوع، باب فی النہی عن العینۃ: ۳۴۶۲، و صححہ الألبانی] زمخشری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ آیت بہت سخت ہے، اس سے سخت آپ کوئی آیت نہیں دیکھیں گے۔ یہ انسان کی دینی کمزوری اور یقین کی کمی کی نشان دہی کرتی ہے۔ اپنے دل میں بہت پرہیز گار اور متقی شخص انصاف سے سوچے کہ کیا واقعی اس میں اتنی دینی پختگی ہے کہ اس آیت میں مذکور تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہونے کی بنا پر کسی معاملے میں چھوڑ سکتا ہے، یا کسی کی تھوڑی سی ناراضگی یا دنیا کے معمولی سے مفاد کی بنا پر وہ کش مکش میں پڑ جاتا ہے کہ کسے رکھوں اور کسے چھوڑوں؟ پھر اکثر یہی ہوتا ہے کہ اس کی بیوی، اولاد، دوستوں، معاشرے اور تجارتی مفاد کے تقاضے ہی اللہ کے دین کے تقاضوں پر غالب آتے ہیں۔ (الا ما شاء اللہ)
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
24۔ 1 اس آیت میں بھی اس مضمون کو بڑے مؤکد انداز میں بیان کیا گیا ہے عشیرۃ اسم جمع ہے، وہ قریب ترین رشتہ دار جن کے ساتھ آدمی زندگی کے شب و روز گزارتا ہے، یعنی کنبہ قبیلہ، اقتراف، کسب (کمائی) کے معنی کے لئے آتا ہے، تجارت، سودے کی خریدو فروخت کو کہتے ہیں جس کا مقصد نفع کا حصول ہو، کساد، مندے کو کہتے ہیں یعنی سامان فروخت موجود ہو لیکن خریدار نہ ہو یا اس چیز کا وقت گز رچکا ہو، جس کی وجہ سے لوگوں کو ضرورت نہ رہے۔ دونوں صورتیں مندے کی ہیں۔ مساکن سے مراد وہ گھر ہیں جنہیں انسان موسم کے شدائد و حوادث سے بچنے آبرومندانہ طریقے سے رہنے سہنے اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لئے تعمیر کرتا ہے، یہ ساری چیزیں اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں اور ان کی اہمیت و افادیت بھی ناگزیر اور قلوب انسانی میں ان سب کی محبت بھی طبعی ہے (جو مذموم نہیں) لیکن اگر ان کی محبت اللہ اور رسول کی محبت سے زیادہ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے میں مانع ہوجائے، تو یہ بات اللہ کو سخت ناپسندیدہ اور اس کی ناراضگی کا باعث ہے اور یہ وہ فسق (نافرمانی) ہے جس سے انسان اللہ کی ہدایت سے محروم ہوسکتا ہے۔ جس طرح کہ آخری الفاظ تہدید سے واضح ہے۔ احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس مضمون کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے مثلا ایک موقع پر حضرت عمر ؓ نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے آُ اپنے نفس کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک میں اس کے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں اس وقت تک وہ مومن نہیں حضرت عمر ؓ نے کہا پس واللہ! اب آپ مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا " اے عمر! اب تم مومن ہو (صحیح بخاری) ایک دوسری روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں جب تک میں اس کو اس کے والد سے اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ جاؤں (صحیح بخاری کتاب ایمان) ایک اور حدیث میں جہاد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا جب تم بیع عینۃ (کسی کو مدت معینہ کے لییے چیز ادھاردے کر پھر اس سے کم قیمت پر خرید لینا) اختیار کرلو گے اور گایوں کی دمیں پکڑ کر کھیتی باڑی پر راضی وقانع ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑ بیٹھو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط فرمادے گا جس سے تمام وقت تک نہ نکل سکو گے جب تک اپنے دین کی طرف نہیں لوٹو گے (ابو داؤد)
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
24۔ (اے نبی! آپ مسلمانوں سے) کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں اپنے باپ، اپنے بیٹے، اپنے بھائی، اپنی بیویاں، اپنے کنبہ والے اور وہ اموال جو تم نے کمائے ہیں اور تجارت جس کے مندا پڑنے سے تم ڈرتے ہو اور تمہارے مکان جو تمہیں [22] پسند ہیں، اللہ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے۔ اور اللہ نافرمان لوگوں کو راہ نہیں دکھاتا
[22] دنیوی مرغوبات میں پھنس کر جہاد چھوڑنے کی سزا:۔
اس آیت میں جن رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے انسان کو فطری لگاؤ ہوتا ہے اور بعض مسلمانوں کے باپ یا بیٹے یا بیویاں کافر تھیں جنہیں چھوڑ کر ہجرت کرنا مشکل سی بات تھی۔ اسی طرح انسان کو اپنے کمائے ہوئے مال و دولت، اپنے کاروبار سے اور جائیداد سے بھی بہت محبت ہوتی ہے کیونکہ یہ چیزیں اس کے گاڑھے خون پسینے کی کمائی کے نتیجہ میں اسے حاصل ہوتی ہے لہٰذا انہی چیزوں سے مومنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا ہے کہ آیا وہ ان چیزوں کو چھوڑ کر دین کی خاطر ہجرت اور جہاد کرتے ہیں یا نہیں؟ چنانچہ صحابہ کرامؓ کی اکثریت اس معیار پر بھی پوری اتری۔ تھوڑے ہی مسلمان ایسے تھے جو انہی فطری کمزوریوں کی وجہ سے مکہ میں یا اطراف و جوانب میں رہ گئے تھے اس آیت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم نے ان کمزوریوں کو دور نہ کیا اور اپنی جانوں اور اموال سے جہاد کرنے میں کوتاہی کی اور رشتہ داروں کی محبت، تن آسانی اور دنیا طلبی کی راہ اختیار کی اور خواہشات نفس میں پھنس کر اللہ کے احکام کی تعمیل نہ کی تو تمہیں حقیقی کامیابی نصیب نہ ہو گی۔ اور حدیث میں ہے کہ جب تم جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا جس سے تم کبھی نکل نہ سکو گے۔ [ابن ماجه۔ كتاب الجهاد، باب التغليظ فى الجهاد]
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
ترک موالات و مودت کا حکم ٭٭
اللہ تعالیٰ کافروں سے ترک موالات کا حکم دیتا ہے ان کی دوستیوں سے روکتا ہے گوہ وہ ماں باپ ہوں، بہن بھائی ہوں بشرطیکہ وہ کفر کو اسلام پر پسند کریں۔
اور آیت میں ہے «لاَّ تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ» ۱؎ [58المجادلة:22] اللہ پر اور قیامت پر ایمان لانے والوں کو تو ہرگز اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دوستیاں کرنے والا نہیں پائے گا گو وہ ان کے باپ ہوں بیٹے ہوں یا بھائی ہوں یا رشتے دار ہوں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان لکھ دیا گیا ہے اور اپنی خاص روح سے ان کی تائید فرمائی ہے۔ انہیں نہروں والی جنت میں پہنچائے گا۔
بیہقی میں ہے سیدنا ابوعبیدبن جراح رضی اللہ عنہ کے باپ نے بدر والے دن ان کے سامنے اپنے بتوں کی تعریفیں شروع کیں آپ نے اسے ہر چند روکنا چاہا لیکن وہ بڑھتا ہی چلا گیا باپ بیٹوں میں جنگ شروع ہو گئی آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا۔ اس پر آیت «لاَّ تَجِدُ» الخ، نازل ہوئی۔ ۱؎ [بیهقی فی شعب الایمان:27/9:منقطع]
پھر ایسا کرنے والوں کو ڈراتا ہے اور فرماتا ہے کہ ”اگر یہ رشتے دار اور اپنے حاصل کئے ہوئے مال اور مندے ہو جانے کی دہشت کی تجارتیں اور پسندیدہ مکانات اگر تمہیں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور جہاد سے بھی زیادہ مرغوب ہیں تو تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذابوں کے برداشت کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔
اور آیت میں ہے «لاَّ تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ» ۱؎ [58المجادلة:22] اللہ پر اور قیامت پر ایمان لانے والوں کو تو ہرگز اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دوستیاں کرنے والا نہیں پائے گا گو وہ ان کے باپ ہوں بیٹے ہوں یا بھائی ہوں یا رشتے دار ہوں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان لکھ دیا گیا ہے اور اپنی خاص روح سے ان کی تائید فرمائی ہے۔ انہیں نہروں والی جنت میں پہنچائے گا۔
بیہقی میں ہے سیدنا ابوعبیدبن جراح رضی اللہ عنہ کے باپ نے بدر والے دن ان کے سامنے اپنے بتوں کی تعریفیں شروع کیں آپ نے اسے ہر چند روکنا چاہا لیکن وہ بڑھتا ہی چلا گیا باپ بیٹوں میں جنگ شروع ہو گئی آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا۔ اس پر آیت «لاَّ تَجِدُ» الخ، نازل ہوئی۔ ۱؎ [بیهقی فی شعب الایمان:27/9:منقطع]
پھر ایسا کرنے والوں کو ڈراتا ہے اور فرماتا ہے کہ ”اگر یہ رشتے دار اور اپنے حاصل کئے ہوئے مال اور مندے ہو جانے کی دہشت کی تجارتیں اور پسندیدہ مکانات اگر تمہیں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور جہاد سے بھی زیادہ مرغوب ہیں تو تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذابوں کے برداشت کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔
ایسے بدکاروں کو اللہ تعالیٰ بھی راستہ نہیں دکھاتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ جا رہے تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ مجھے ہرچیز سے زیادہ عزیز ہیں بجز میری اپنی جان کے۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی قسم جس کے ہاتھ میرا نفس ہے تم میں سے کوئی مومن نہ ہو گا جب تک کہ وہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ رکھے۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! اب آپ کی محبت مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب اے عمر رضی اللہ عنہ! [تو مومن ہو گیا] صحیح بخاری۔ ۱؎ [صحیح بخاری:6632]
صحیح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ثابت ہے کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ سے اولاد سے اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔ ۱؎ [صحیح بخاری:15]
مسند امام احمد اور ابوداؤد میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”جب تم عین کی خرید و فروخت کرنے لگو گے اور گائے بیل کی دمیں تھام لو گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت ڈال دے گا وہ اس وقت تک دور نہ ہو گی جب تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔ ۱؎ [سنن ابوداود:3462،قال الشيخ الألباني:صحیح]
صحیح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ثابت ہے کہ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ سے اولاد سے اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔ ۱؎ [صحیح بخاری:15]
مسند امام احمد اور ابوداؤد میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”جب تم عین کی خرید و فروخت کرنے لگو گے اور گائے بیل کی دمیں تھام لو گے اور جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت ڈال دے گا وہ اس وقت تک دور نہ ہو گی جب تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔ ۱؎ [سنن ابوداود:3462،قال الشيخ الألباني:صحیح]