اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ۙ اَعۡظَمُ دَرَجَۃً عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ ﴿۲۰﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا وہ اللہ کے ہاں درجے میں بہت بڑے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں مال اور جان سے جہاد کرتے رہے۔ خدا کے ہاں ان کے درجے بہت بڑے ہیں۔ اور وہی مراد کو پہنچنے والے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
جو لوگ ایمان ﻻئے، ہجرت کی، اللہ کی راه میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کیا وه اللہ کے ہاں بہت بڑے مرتبہ والے ہیں، اور یہی لوگ مراد پانے والے ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت20) ➊ {اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا: ” هَاجَرُوْا “} یعنی اپنا دین اور جان و مال بچانے کے لیے اپنا گھر بار اور رشتہ داروں کو چھوڑا۔
➋ { وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ:} اس آیت سے مہاجرین کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے جن میں ابو بکر، عمر، عثمان، علی، ابو عبیدہ بن جراح، طلحہ، زبیر اور بہت سے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب پر راضی ہو اور ہمیں ان کے ساتھ اٹھائے۔ قرآن خود ان کے آخرت میں فائز و سرخرو ہونے کی شہادت دے رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ انھیں برا بھلا کہتے اور ان پر لعنت بھیجتے ہیں وہ خود لعنتی ہیں۔
➋ { وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ:} اس آیت سے مہاجرین کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے جن میں ابو بکر، عمر، عثمان، علی، ابو عبیدہ بن جراح، طلحہ، زبیر اور بہت سے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب پر راضی ہو اور ہمیں ان کے ساتھ اٹھائے۔ قرآن خود ان کے آخرت میں فائز و سرخرو ہونے کی شہادت دے رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ انھیں برا بھلا کہتے اور ان پر لعنت بھیجتے ہیں وہ خود لعنتی ہیں۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
20۔ جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے اموال اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، اللہ کے ہاں ان کا بہت بڑا درجہ ہے [19] اور ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں [19] جہاد کے فضائل کتاب و سنت میں بہت سے مقامات پر مذکور ہیں یہاں ہم صرف دو احادیث پر اکتفا کرتے ہیں۔
1۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا ”مجھے ایسا عمل بتلائیے جو جہاد کے ہم پلہ ہو؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں ایسا کوئی عمل نہیں پاتا۔“ [بخاري۔ كتاب الجهاد۔ باب فضل الجهاد والسير]
2۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا ”مومن جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرتا ہو۔“ [بخاري۔ كتاب الجهاد۔ باب أفضل الناس مومن۔۔ مسلم۔ كتاب الجهاد۔ باب فضل الجهاد والرباط]
1۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا ”مجھے ایسا عمل بتلائیے جو جہاد کے ہم پلہ ہو؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں ایسا کوئی عمل نہیں پاتا۔“ [بخاري۔ كتاب الجهاد۔ باب فضل الجهاد والسير]
2۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا ”مومن جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرتا ہو۔“ [بخاري۔ كتاب الجهاد۔ باب أفضل الناس مومن۔۔ مسلم۔ كتاب الجهاد۔ باب فضل الجهاد والرباط]
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
سب سے بری عبادت اللہ کی راہ میں جہاد ہے ٭٭
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ”کافروں کا قول تھا کہ بیت اللہ کی خدمت اور حاجیوں کے پانی پلانے کی سعادت بہتر ہے ایمان و جہاد سے۔ ہم چونکہ یہ دونوں خدمتیں انجام دے رہے ہیں اس لیے ہم سے بہتر کوئی نہیں۔
اللہ نے ان کا فخر و غرور اور حق سے تکبر اور منہ پھیرنا فرمایا کہ میری آیتوں کی تمہارے سامنے تلاوت ہوتے ہوئے تم اس سے بےپرواہی سے منہ موڑ کر اپنی بات چیت میں مشغول رہتے ہو، پس تمہارا گمان بےجا، تمہارا غرور غلط، تمہارا فخر نا مناسب ہے۔ یوں بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کا ایمان اور اس کی راہ کا جہاد بڑی چیز ہے لیکن تمہارے مقابلے میں تو وہ اور بھی بڑی چیز ہے کیونکہ تمہاری تو کوئی نیکی ہو بھی تو اسے شرک کا گھن کھا جاتا ہے۔
پس فرماتا ہے کہ یہ دونوں گروہ برابر کے بھی نہیں یہ اپنے آپ کو آبادی کرنے والا کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کا نام ظالم رکھا اللہ تعالیٰ کے گھر کی خدمت بیکار کر دی۔
کہتے ہیں کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ ”تم اگر اسلام و جہاد میں تھے تو ہم بھی اللہ تعالیٰ کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے۔“ اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی بیکار ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان پر جب لے دے شروع کی تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ”ہم مسجد الحرام کے متولی تھے ہم غلاموں کو آزاد کرتے تھے ہم بیت اللہ کو غلاف چڑھاتے تھے ہم حاجیوں کو پانی پلاتے تھے اس پر یہ آیت اتری۔
مروی ہے کہ یہ گفتگو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ میں ہوئی ہو۔ مروی ہے کہ طلحہ بن شیبہ، عباس بن عبدالمطلب، علی بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان کرنے لگے، طلحہ نے کہا میں بیت اللہ کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں۔
اللہ نے ان کا فخر و غرور اور حق سے تکبر اور منہ پھیرنا فرمایا کہ میری آیتوں کی تمہارے سامنے تلاوت ہوتے ہوئے تم اس سے بےپرواہی سے منہ موڑ کر اپنی بات چیت میں مشغول رہتے ہو، پس تمہارا گمان بےجا، تمہارا غرور غلط، تمہارا فخر نا مناسب ہے۔ یوں بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کا ایمان اور اس کی راہ کا جہاد بڑی چیز ہے لیکن تمہارے مقابلے میں تو وہ اور بھی بڑی چیز ہے کیونکہ تمہاری تو کوئی نیکی ہو بھی تو اسے شرک کا گھن کھا جاتا ہے۔
پس فرماتا ہے کہ یہ دونوں گروہ برابر کے بھی نہیں یہ اپنے آپ کو آبادی کرنے والا کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کا نام ظالم رکھا اللہ تعالیٰ کے گھر کی خدمت بیکار کر دی۔
کہتے ہیں کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ ”تم اگر اسلام و جہاد میں تھے تو ہم بھی اللہ تعالیٰ کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے۔“ اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی بیکار ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان پر جب لے دے شروع کی تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ”ہم مسجد الحرام کے متولی تھے ہم غلاموں کو آزاد کرتے تھے ہم بیت اللہ کو غلاف چڑھاتے تھے ہم حاجیوں کو پانی پلاتے تھے اس پر یہ آیت اتری۔
مروی ہے کہ یہ گفتگو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ میں ہوئی ہو۔ مروی ہے کہ طلحہ بن شیبہ، عباس بن عبدالمطلب، علی بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان کرنے لگے، طلحہ نے کہا میں بیت اللہ کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں۔
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ”میں زمزم کا پانی پلانے والا ہوں اور اس کا نگہبان ہوں اگر چاہوں تو مسجد ساری رات رہ سکتا ہوں۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ”میں نہیں جانتا کہ تم دونوں صاحب کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے میں مجاہد ہوں۔“ اس پر یہ آیت اتری، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اپنا ڈر ظاہر کیا کہ کہیں میں چاہ زمزم کے پانی کے عہدے سے نہ ہٹا دیا جاؤں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں تم اپنے اس منصب پر قائم رہو تمہارے لیے اس میں بھلائی ہے۔“ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:16575:مرسل و ضعیف]
اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ”ایک شخص نے کہا اسلام کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاؤں۔ دوسرے نے اسی طرح مسجد الحرام کی آبادی کو کہا۔ تیسرے نے اسی طرح اللہ کی راہ کے جہاد کو کہا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا منبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آوازیں بلند نہ کرو۔ یہ واقعہ جمعہ کے دن کا ہے جمعہ کے بعد ہم سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔“ ۱؎ [عبد الرزاق فی تفسیر:1060]
اور روایت میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں خود جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات دریافت کر لوں گا۔ ۱؎ [صحیح مسلم:1879۔111]
اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ”ایک شخص نے کہا اسلام کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاؤں۔ دوسرے نے اسی طرح مسجد الحرام کی آبادی کو کہا۔ تیسرے نے اسی طرح اللہ کی راہ کے جہاد کو کہا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا منبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آوازیں بلند نہ کرو۔ یہ واقعہ جمعہ کے دن کا ہے جمعہ کے بعد ہم سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔“ ۱؎ [عبد الرزاق فی تفسیر:1060]
اور روایت میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں خود جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات دریافت کر لوں گا۔ ۱؎ [صحیح مسلم:1879۔111]