فَسِیۡحُوۡا فِی الۡاَرۡضِ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ غَیۡرُ مُعۡجِزِی اللّٰہِ ۙ وَ اَنَّ اللّٰہَ مُخۡزِی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
تو اس سرزمین میں چار ماہ چلو پھرو اور جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
تو (مشرکو تم) زمین میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہ کرسکو گے۔ اور یہ بھی کہ خدا کافروں کو رسوا کرنے والا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
پس (اے مشرکو!) تم ملک میں چار مہینے تک تو چل پھر لو، جان لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ (بھی یاد رہے) کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے واﻻ ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 2) ➊ { فَسِيْحُوْا فِي الْاَرْضِ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ:} یہ اللہ تعالیٰ کا مزید کرم تھا کہ مشرکین کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چار ماہ کی مہلت دی گئی، جس کی ابتدا ۱۰ ذوالحجہ یوم النحرسے ہوئی، کیونکہ اس دن یہ اعلان کیا گیا اور ۱۰ ربیع الثانی کو یہ مدت ختم ہو گئی۔ اس مہلت کا مقصد یہ تھا کہ وہ اتنی مدت میں اپنے بارے میں خوب سوچ سمجھ لیں، پھر یا تو مسلمان ہو جائیں یا سر زمین عرب سے باہر کسی ملک میں اپنا ٹھکانا بنا لیں۔ اگر وہ اس کے بعد بھی باقی رہیں تو انھیں پکڑ کر، گھیر کر، گھات لگا کر جیسے بھی ممکن ہو قتل کر دیا جائے۔ یہ چار ماہ کی مدت ان لوگوں کے لیے تھی جن سے معاہدے کی مدت چار ماہ سے کم باقی تھی، یا معاہدہ تو زیادہ مدت کا تھا مگر انھوں نے اس کی خلاف ورزی کی تھی، یا مدت کے تعین کے بغیر معاہدہ تھا، البتہ وہ قبائل جن سے کسی خاص مدت تک معاہدہ تھا اور انھوں نے معاہدے کی کسی قسم کی مخالفت بھی نہ کی تھی ان کا عہد ان کی مدت تک پورا کرنے کا حکم دیا گیا، فرمایا: «فَاَتِمُّوْۤا اِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ» [التوبۃ: ۴] ”تو ان کے ساتھ ان کا عہد ان کی مدت تک پورا کرو۔“
➋ { وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ …:} مشرکوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ مہلت مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے نہیں دی گئی بلکہ اس میں کئی حکمتیں ہیں، ورنہ تم لوگ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کو عاجز کرنے والے نہیں، اگر تم کفر پر قائم رہے تو خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو ذلیل و رسوا کرنے والا ہے۔ دیکھیے سورۂ انفال کی آیت (۵۹) کے حواشی۔ غرض صرف بیت اللہ ہی نہیں پورے جزیرۂ عرب کو مشرکین کے نجس وجود سے پاک کر دیا گیا۔
➋ { وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللّٰهِ …:} مشرکوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ مہلت مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے نہیں دی گئی بلکہ اس میں کئی حکمتیں ہیں، ورنہ تم لوگ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کو عاجز کرنے والے نہیں، اگر تم کفر پر قائم رہے تو خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو ذلیل و رسوا کرنے والا ہے۔ دیکھیے سورۂ انفال کی آیت (۵۹) کے حواشی۔ غرض صرف بیت اللہ ہی نہیں پورے جزیرۂ عرب کو مشرکین کے نجس وجود سے پاک کر دیا گیا۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
2۔ 1 یہ اعلان نجات ان مشرکین کے لئے تھا جن سے غیرموقت معاہدہ تھا یا چار مہینے سے کم تھا یا چار مہینوں سے زیادہ ایک خاص مدت تک تھا لیکن ان کی طرف سے عہد کی پاسداری کا اہتمام نہیں تھا۔ ان سب کو چار مہینے مکہ میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا اس مدت کے اندر اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو انہیں یہاں رہنے کی اجازت ہوگی۔ بصورت دیگر ان کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ چار مہینے کے بعد جزیرہ، عرب سے نکل جائیں، اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی اختیار نہیں کریں گے تو حربی کافر شمار ہونگے، جن سے لڑنا مسلمانوں کے لئے ضروری ہوگا تاکہ جزیرہ عرب کفر و شرک کی تاریکیوں سے صاف ہوجائے۔ 2۔ 2 یعنی یہ مہلت اس لئے نہیں دی جا رہی ہے کہ فی الحال تمہارے خلاف کاروائی ممکن نہیں ہے بلکہ اس سے مقصد صرف تمہاری بھلائی اور خیر خواہی ہے تاکہ جو توبہ کر کے مسلمان ہونا چاہے، وہ مسلمان ہوجائے، ورنہ یاد رکھو کہ تمہاری بابت اللہ کی جو تقدیر و مشیت ہے، اسے ٹال نہیں سکتے اور اللہ کی طرف سے مسلط ذلت و رسوائی سے تم بچ نہیں سکتے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
2۔ اور (اے مشرکو)! تم زمین میں چار ماہ چل پھر لو اور یہ جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور اللہ یقیناً کافروں کو رسوا کرنے والا ہے
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
باب
یہ سورت سب سے آخر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہے۔ بخاری شریف میں ہے سب سے آخر میں آیت «يَسْتَفْتُونَكَ» ۱؎ [4-النساء: 176] اتری۔ اور سب سے آخری سورت سورۃ براۃ اتری ہے۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4654]
اس کے شروع میں بسم اللہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اقتداء کر کے اسے قرآن میں نہیں لکھی تھی۔ ترمذی شریف میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ”آخر کیا وجہ ہے؟ جو آپ نے سورۃ الانفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورۃ براۃ کو جو مئین میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان «بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحيمِ» نہیں لکھی اور پہلے کی سات لمبی سورتوں میں انہیں رکھا؟“
تو آپ نے جواب دیا کہ ”بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ساتھ کئی سورتیں اترتی تھیں۔ جب آیت اترتی آپ وحی کے لکھنے والوں میں سے کسی کو بلا کر فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں لکھ دو جس میں یہ ذکر ہے سورۃ الانفال مدینہ منورہ میں سب سے پہلے نازل ہوئی تھی اور سورۃ براۃ سب سے آخر میں اتری تھی۔“
بیانات دونوں کے ملتے جلتے تھے مجھے خیال ہوا کہ کہیں یہ بھی اسی میں سے نہ ہو حضور اکرم صلی اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے نہیں فرمایا کہ یہ اس میں سے ہے اس لیے میں نے دونوں سورتوں کو متصل لکھا اور ان کے درمیان «بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحيمِ» نہیں لکھی اور سات پہلی لمبی سورتوں میں انہیں رکھا۔ ۱؎ [سنن ابوداود:786،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت اترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے۔ حج کا زمانہ تھا۔ مشرکین اپنی عادت کے مطابق حج میں آ کر بیت اللہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کیا کرتے تھے۔
اس کے شروع میں بسم اللہ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی اقتداء کر کے اسے قرآن میں نہیں لکھی تھی۔ ترمذی شریف میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ ”آخر کیا وجہ ہے؟ جو آپ نے سورۃ الانفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورۃ براۃ کو جو مئین میں سے ہے ملا دیا اور ان کے درمیان «بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحيمِ» نہیں لکھی اور پہلے کی سات لمبی سورتوں میں انہیں رکھا؟“
تو آپ نے جواب دیا کہ ”بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ساتھ کئی سورتیں اترتی تھیں۔ جب آیت اترتی آپ وحی کے لکھنے والوں میں سے کسی کو بلا کر فرما دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں لکھ دو جس میں یہ ذکر ہے سورۃ الانفال مدینہ منورہ میں سب سے پہلے نازل ہوئی تھی اور سورۃ براۃ سب سے آخر میں اتری تھی۔“
بیانات دونوں کے ملتے جلتے تھے مجھے خیال ہوا کہ کہیں یہ بھی اسی میں سے نہ ہو حضور اکرم صلی اللہ علیہ کا انتقال ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے نہیں فرمایا کہ یہ اس میں سے ہے اس لیے میں نے دونوں سورتوں کو متصل لکھا اور ان کے درمیان «بِسمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحيمِ» نہیں لکھی اور سات پہلی لمبی سورتوں میں انہیں رکھا۔ ۱؎ [سنن ابوداود:786،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
اس سورت کا ابتدائی حصہ اس وقت اترا جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے۔ حج کا زمانہ تھا۔ مشرکین اپنی عادت کے مطابق حج میں آ کر بیت اللہ شریف کا طواف ننگے ہو کر کیا کرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں خلا ملا ہونا ناپسند فرما کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حج کا امام بنا کر اس سال مکہ مکرمہ روانہ فرمایا کہ مسلمانوں کو احکام حج سکھائیں اور مشرکوں میں اعلان کر دیں کہ وہ آئندہ سال سے حج کو نہ آئیں اور سورۃ براۃ کا بھی عام لوگوں میں اعلان کر دیں۔
آپ کے پیچھے پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ آپ کا پیغام بحیثیت آپ کے نزدیکی قرابت داری کے آپ بھی پہنچا دیں، جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان آ رہا ہے، ان شاءاللہ۔
پس فرمان ہے کہ یہ بے تعلقی ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بعض تو کہتے ہیں: " یہ اعلان اس عہد و پیمان کے متعلق ہے جن سے کوئی وقت معین نہ تھا یا جن سے عہد چار ماہ سے کم کا تھا لیکن جن کا لمبا عہد تھا وہ بدستور باقی رہا "۔
جیسے فرمان ہے کہ «فَأَتِمّوا إِلَيهِم عَهدَهُم إِلىٰ مُدَّتِهِم» ۱؎ [9- التوبہ: 4] ان کی مدت پوری ہونے تک تم ان سے ان کا عہد نبھاؤ۔ حدیث میں بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ہم سے جن کا عہد و پیمان ہے ہم اس پر مقررہ وقت تک پابندی سے قائم ہیں۔ " ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:16384]
گو اس بارے میں اور اقوال بھی ہیں لیکن سب سے اچھا اور سب سے قوی قول یہی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ " جن لوگوں سے عہد ہو چکا تھا ان کے لیے چار ماہ کی حد بندی اللہ تعالیٰ نے مقرر کی اور جن سے عہد نہ تھا ان کے لیے حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کی عہد بندی مقرر کر دی یعنی دس ذی الحجہ سے محرم ختم تک پچاس دن "۔
اس مدت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جب تک وہ اسلام قبول نہ کر لیں۔ اور جن سے عہد ہے وہ دس ذی الحجہ کے اعلان کے دن سے لے کر بیس ربیع الآخر تک اپنی تیاری کر لیں پھر اگر چاہیں مقابلے پر آ جائیں۔
یہ واقعہ ٩ ھ کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا تھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو تیس یا چالیس آیتیں قرآن کی اس صورت کی دے کر بھیجا کہ آپ چار ماہ کی مدت کا اعلان کر دیں۔
آپ کے پیچھے پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ آپ کا پیغام بحیثیت آپ کے نزدیکی قرابت داری کے آپ بھی پہنچا دیں، جیسے کہ اس کا تفصیلی بیان آ رہا ہے، ان شاءاللہ۔
پس فرمان ہے کہ یہ بے تعلقی ہے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بعض تو کہتے ہیں: " یہ اعلان اس عہد و پیمان کے متعلق ہے جن سے کوئی وقت معین نہ تھا یا جن سے عہد چار ماہ سے کم کا تھا لیکن جن کا لمبا عہد تھا وہ بدستور باقی رہا "۔
جیسے فرمان ہے کہ «فَأَتِمّوا إِلَيهِم عَهدَهُم إِلىٰ مُدَّتِهِم» ۱؎ [9- التوبہ: 4] ان کی مدت پوری ہونے تک تم ان سے ان کا عہد نبھاؤ۔ حدیث میں بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ہم سے جن کا عہد و پیمان ہے ہم اس پر مقررہ وقت تک پابندی سے قائم ہیں۔ " ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:16384]
گو اس بارے میں اور اقوال بھی ہیں لیکن سب سے اچھا اور سب سے قوی قول یہی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ " جن لوگوں سے عہد ہو چکا تھا ان کے لیے چار ماہ کی حد بندی اللہ تعالیٰ نے مقرر کی اور جن سے عہد نہ تھا ان کے لیے حرمت والے مہینوں کے گزر جانے کی عہد بندی مقرر کر دی یعنی دس ذی الحجہ سے محرم ختم تک پچاس دن "۔
اس مدت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جب تک وہ اسلام قبول نہ کر لیں۔ اور جن سے عہد ہے وہ دس ذی الحجہ کے اعلان کے دن سے لے کر بیس ربیع الآخر تک اپنی تیاری کر لیں پھر اگر چاہیں مقابلے پر آ جائیں۔
یہ واقعہ ٩ ھ کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا تھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو تیس یا چالیس آیتیں قرآن کی اس صورت کی دے کر بھیجا کہ آپ چار ماہ کی مدت کا اعلان کر دیں۔
آپ نے ان کے ڈیروں میں، گھروں میں، منزلوں میں جا جا کر یہ آیتیں انہیں سنا دیں اور ساتھ ہی سرکار نبوت کا یہ حکم بھی سنا دیا کہ اس سال کے بعد حج کے لیے کوئی مشرک نہ آئے اور بیت اللہ کا طواف کوئی ننگا شخص نہ کرے۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:16376] قبیلہ خزاعہ قبیلہ مدلج اور دوسرے سب قبائل کے لیے بھی یہی اعلان تھا۔
تبوک سے آ کر آپ نے حج کا ارادہ کیا تھا لیکن مشرکوں کا وہاں آنا اور ان کا ننگے ہو کر وہاں کا طواف کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند تھا اس لیے حج نہ کیا اور اس سال سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا انہوں نے ذی المجاز کے بازاروں میں اور ہر گلی کوچے اور ہر ہر پڑاؤ اور میدان میں اعلان کیا کہ " چار مہینے تک کی تو شرک اور مشرک کو مہلت ہے اس کے بعد ہماری اسلامی تلواریں اپنا جوہر دکھائے گی " بیس دن ذی الحجہ کے، محرم پورا، صفر پورا، اور ربیع الاول پورا اور دس دن ربیع الآخر کے۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:16377]
زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں: " شوال محرم تک کی ڈھیل تھی " لیکن یہ قول غریب ہے۔ اور سمجھ سے بھی بالا تر ہے کہ حکم پہنچنے سے پہلے ہی مدت شماری کیسے ہو سکتی ہے؟
تبوک سے آ کر آپ نے حج کا ارادہ کیا تھا لیکن مشرکوں کا وہاں آنا اور ان کا ننگے ہو کر وہاں کا طواف کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناپسند تھا اس لیے حج نہ کیا اور اس سال سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا انہوں نے ذی المجاز کے بازاروں میں اور ہر گلی کوچے اور ہر ہر پڑاؤ اور میدان میں اعلان کیا کہ " چار مہینے تک کی تو شرک اور مشرک کو مہلت ہے اس کے بعد ہماری اسلامی تلواریں اپنا جوہر دکھائے گی " بیس دن ذی الحجہ کے، محرم پورا، صفر پورا، اور ربیع الاول پورا اور دس دن ربیع الآخر کے۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:16377]
زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں: " شوال محرم تک کی ڈھیل تھی " لیکن یہ قول غریب ہے۔ اور سمجھ سے بھی بالا تر ہے کہ حکم پہنچنے سے پہلے ہی مدت شماری کیسے ہو سکتی ہے؟