اَجَعَلۡتُمۡ سِقَایَۃَ الۡحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ کَمَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ جٰہَدَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ لَا یَسۡتَوٗنَ عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۘ۱۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجدِ حرام کو آباد کرنا اس جیسا بنا دیا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔ یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد محترم یعنی (خانہٴ کعبہ) کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال کیا ہے جو خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ یہ لوگ خدا کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلا دینا اور مسجد حرام کی خدمت کرنا اس کے برابر کر دیا ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان ﻻئے اور اللہ کی راه میں جہاد کیا، یہ اللہ کے نزدیک برابر کے نہیں اور اللہ تعالیٰ ﻇالموں کو ہدایت نہیں دیتا
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت19){ اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَآجِّ …:} اس آیت کے مخاطب مشرکین اور مسلمان دونوں ہیں، کیونکہ مشرکین کعبہ کی خدمت، تولیت اور حاجیوں کو شربت اور پانی پلانے پر بہت فخر کرتے تھے اور بعض مسلمان بھی اس کو سب سے اعلیٰ عمل سمجھتے تھے۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس آپ کے اصحاب کی ایک جماعت میں بیٹھا ہوا تھا، تو ایک آدمی نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد حاجیوں کو پانی پلانے کے علاوہ میں کوئی کام نہ کروں تو مجھے کچھ پروا نہیں۔ دوسرے نے کہا، بلکہ مسجد حرام کی آباد کاری (افضل ہے)۔ ایک اور نے کہا، بلکہ جہاد فی سبیل اللہ اس سے بہتر ہے جو تم کہہ رہے ہو۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں ڈانٹا اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس آوازیں مت بلند کرو، یہ جمعہ کے دن کی بات ہے، لیکن جب تم جمعہ پڑھ چکو گے تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور تمھارے اس جھگڑے کا فیصلہ کروا لوں گا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: «اَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ» [مسلم، الإمارۃ، باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللّٰہ تعالٰی: ۱۸۷۹] یعنی یہ کام گو فضیلت کے ہیں مگر اللہ اور یوم آخرت پر ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتے اور پھر یہ ایمان کے بغیر مقبول بھی نہیں۔ «وَ اللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ» شرک سب سے بڑا ظلم ہے، پھر جو اس پر اصرار کرے اس ظالم کو سیدھی راہ کیسے نصیب ہو؟
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
19۔ 1 مشرکین حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی دیکھ بھال کا کام جو کرتے تھے، اس پر انہیں بڑا فخر تھا اور اس کے مقابلے میں وہ ایمان و جہاد کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے جس کا اہتمام مسلمانوں کے اندر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم سقایت حاج اور عمارت مسجد حرام کو ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر سمجھتے ہو؟ یاد رکھو اللہ کے نزدیک یہ برابر نہیں، بلکہ مشرک کا کوئی عمل بھی قبول نہیں، چاہے وہ صورۃً خیر ہی ہو۔ جیسا کہ پہلی آیت کے جملے (حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ) 2۔ البقرۃ:217) میں واضح کیا جا چکا ہے۔ بعض روایت میں اس کا سبب نزول مسلمانوں کی آپس میں ایک گفتگو کو بتلایا گیا ہے کہ ایک روز منبر نبوی کے قریب کچھ مسلمان جمع تھے اس میں سے ایک نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد میرے نزدیک سب سے بڑا عمل حاجیوں کو پانی پلانا ہے دوسرے نے کہا مسجد حرام کو آباد کرنا ہے تیسرے نے کہا بلکہ جہادفی سبیل اللہ ان تمام عملوں سے بہتر ہے جو تم نے بیان کیے ہیں حضرت عمر ؓ نے جب انہیں اس طرح باہم تکرار کرتے ہوئے سنا تو انہیں ڈانٹا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آوازیں اونچی مت کرو یہ جمعہ کا دن تھا راوی حدیث حضرت نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں کہ جمعہ کے بعد نبی صلی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی آپس کی اس گفتگو کی بابت استفسار کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحیح مسلم) جس میں گو یا یہ واضح کردیا گیا کہ ایمان باللہ ایمان بالآخرت اور جہاد فی سبیل اللہ سب سے زیادہ اہمیت و فضیلت والے عمل ہیں گفتگو کے حوالے سے اصل اہمیت و فضیلت تو جہاد کی بیان کرنی تھی لیکن ایمان باللہ کے بغیر چونکہ کوئی بھی عمل مقبول نہیں اس لیے پہلے اسے بیان کیا گیا بہرحال اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں۔ دوسرا یہ معلوم ہوا کہ اس کا سبب نزول مشرکین کے مزعومات فاسدہ کے علاوہ خود مسلمانوں کا بھی اپنے اپنے طور پر بعض عملوں کو بعض پر زیادہ اہمیت دینا تھا جب کہ یہ کام شارع کا ہے نہ کہ مومنوں کا مومنوں کا کام تو ہر اس بات پر عمل کرنا ہے جو اللہ اور رسول کی طرف سے انہیں بتلائی جائے۔ 19۔ 2 یعنی یہ لوگ چاہے کیسے بھی دعوے کریں۔ حقیقت میں ظالم ہیں یعنی مشرک ہیں، اس لئے کہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ اس ظلم کی وجہ سے یہ ہدایت الٰہی سے محروم ہیں۔ اس لئے ان کا اور مسلمانوں کا، جو ہدایت الٰہی سے بہرہ ور ہیں، آپس میں کوئی مقابلہ نہیں ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
19۔ کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کو آباد کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر بنا دیا جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرے؟[18] اللہ کے نزدیک یہ برابر نہیں ہو سکتے اور اللہ ظالموں کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا
[18] جہاد کے مسائل:۔
اس آیت کے شان نزول سے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے: سیدنا نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص کہنے لگا ”مجھے کوئی پروا نہیں اگر میں اسلام لانے کے بعد کوئی عمل نہ کروں سوائے حاجیوں کو پانی پلانے کے۔“ دوسرے نے کہا ”مجھے کوئی پروا نہیں اگر میں اسلام لانے کے بعد کوئی عمل نہ کروں سوائے مسجد حرام کی تعمیر و آبادی کے۔“ تیسرے نے کہا ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ان کاموں سے افضل ہے جن کا تم ذکر کر رہے ہو۔ “ سیدنا عمرؓ نے ڈانٹا کہ منبر کے پاس اپنی آوازیں بلند نہ کرو۔ نعمان کہتے ہیں کہ وہ جمعہ کا دن تھا۔ پھر سیدنا عمرؓ نے کہا کہ ”میں جمعہ کی نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا اور جس بات میں تم اختلاف کر رہے ہو اس بارے میں ضرور سوال کروں گا۔“ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ [مسلم۔ كتاب الامارة باب فضل الشهادة فى سبيل الله] اس آیت میں روئے سخن مسلمانوں اور مشرکوں سب کے لیے عام ہے۔ مشرکوں کے لیے اس لحاظ سے کہ وہ بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ ہم حاجیوں کی خدمت کرتے، انہیں پانی پلاتے اور انہیں کھانا کپڑا مہیا کرتے ہیں نیز ہم مسجد حرام کی مرمت یا غلاف کعبہ یا روشنی وغیرہ کا بھی انتظام کرتے ہیں اگر مسلمان اپنے جہاد و ہجرت کو افضل اعمال سمجھتے ہیں تو ہمارے پاس بھی عبادات کا یہ ذخیرہ موجود ہے۔ انہیں تو یہ جواب دیا گیا کہ جب تمہارا آخرت اور اللہ پر ایمان ہی نہیں تو تمہارے یہ سب اعمال رائے گاں جائیں گے اور اگر اس آیت کا روئے سخن مسلمانوں کی طرف سمجھا جائے تو اس سے مراد ان کے اعمال کا باہمی موازنہ ہو گا۔ یعنی صرف اللہ اور آخرت پر ایمان لانے والے مسلمان اللہ کے نزدیک ان مسلمانوں کے برابر نہیں ہو سکتے جو ایمان بھی لائے اور جہاد بھی کیا۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
سب سے بری عبادت اللہ کی راہ میں جہاد ہے ٭٭
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ”کافروں کا قول تھا کہ بیت اللہ کی خدمت اور حاجیوں کے پانی پلانے کی سعادت بہتر ہے ایمان و جہاد سے۔ ہم چونکہ یہ دونوں خدمتیں انجام دے رہے ہیں اس لیے ہم سے بہتر کوئی نہیں۔
اللہ نے ان کا فخر و غرور اور حق سے تکبر اور منہ پھیرنا فرمایا کہ میری آیتوں کی تمہارے سامنے تلاوت ہوتے ہوئے تم اس سے بےپرواہی سے منہ موڑ کر اپنی بات چیت میں مشغول رہتے ہو، پس تمہارا گمان بےجا، تمہارا غرور غلط، تمہارا فخر نا مناسب ہے۔ یوں بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کا ایمان اور اس کی راہ کا جہاد بڑی چیز ہے لیکن تمہارے مقابلے میں تو وہ اور بھی بڑی چیز ہے کیونکہ تمہاری تو کوئی نیکی ہو بھی تو اسے شرک کا گھن کھا جاتا ہے۔
پس فرماتا ہے کہ یہ دونوں گروہ برابر کے بھی نہیں یہ اپنے آپ کو آبادی کرنے والا کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کا نام ظالم رکھا اللہ تعالیٰ کے گھر کی خدمت بیکار کر دی۔
کہتے ہیں کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ ”تم اگر اسلام و جہاد میں تھے تو ہم بھی اللہ تعالیٰ کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے۔“ اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی بیکار ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان پر جب لے دے شروع کی تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ”ہم مسجد الحرام کے متولی تھے ہم غلاموں کو آزاد کرتے تھے ہم بیت اللہ کو غلاف چڑھاتے تھے ہم حاجیوں کو پانی پلاتے تھے اس پر یہ آیت اتری۔
مروی ہے کہ یہ گفتگو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ میں ہوئی ہو۔ مروی ہے کہ طلحہ بن شیبہ، عباس بن عبدالمطلب، علی بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان کرنے لگے، طلحہ نے کہا میں بیت اللہ کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں۔
اللہ نے ان کا فخر و غرور اور حق سے تکبر اور منہ پھیرنا فرمایا کہ میری آیتوں کی تمہارے سامنے تلاوت ہوتے ہوئے تم اس سے بےپرواہی سے منہ موڑ کر اپنی بات چیت میں مشغول رہتے ہو، پس تمہارا گمان بےجا، تمہارا غرور غلط، تمہارا فخر نا مناسب ہے۔ یوں بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کا ایمان اور اس کی راہ کا جہاد بڑی چیز ہے لیکن تمہارے مقابلے میں تو وہ اور بھی بڑی چیز ہے کیونکہ تمہاری تو کوئی نیکی ہو بھی تو اسے شرک کا گھن کھا جاتا ہے۔
پس فرماتا ہے کہ یہ دونوں گروہ برابر کے بھی نہیں یہ اپنے آپ کو آبادی کرنے والا کہتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کا نام ظالم رکھا اللہ تعالیٰ کے گھر کی خدمت بیکار کر دی۔
کہتے ہیں کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ ”تم اگر اسلام و جہاد میں تھے تو ہم بھی اللہ تعالیٰ کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے۔“ اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی بیکار ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان پر جب لے دے شروع کی تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ”ہم مسجد الحرام کے متولی تھے ہم غلاموں کو آزاد کرتے تھے ہم بیت اللہ کو غلاف چڑھاتے تھے ہم حاجیوں کو پانی پلاتے تھے اس پر یہ آیت اتری۔
مروی ہے کہ یہ گفتگو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ میں ہوئی ہو۔ مروی ہے کہ طلحہ بن شیبہ، عباس بن عبدالمطلب، علی بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان کرنے لگے، طلحہ نے کہا میں بیت اللہ کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں۔
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ”میں زمزم کا پانی پلانے والا ہوں اور اس کا نگہبان ہوں اگر چاہوں تو مسجد ساری رات رہ سکتا ہوں۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ”میں نہیں جانتا کہ تم دونوں صاحب کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے میں مجاہد ہوں۔“ اس پر یہ آیت اتری، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اپنا ڈر ظاہر کیا کہ کہیں میں چاہ زمزم کے پانی کے عہدے سے نہ ہٹا دیا جاؤں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں تم اپنے اس منصب پر قائم رہو تمہارے لیے اس میں بھلائی ہے۔“ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:16575:مرسل و ضعیف]
اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ”ایک شخص نے کہا اسلام کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاؤں۔ دوسرے نے اسی طرح مسجد الحرام کی آبادی کو کہا۔ تیسرے نے اسی طرح اللہ کی راہ کے جہاد کو کہا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا منبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آوازیں بلند نہ کرو۔ یہ واقعہ جمعہ کے دن کا ہے جمعہ کے بعد ہم سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔“ ۱؎ [عبد الرزاق فی تفسیر:1060]
اور روایت میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں خود جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات دریافت کر لوں گا۔ ۱؎ [صحیح مسلم:1879۔111]
اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ”ایک شخص نے کہا اسلام کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاؤں۔ دوسرے نے اسی طرح مسجد الحرام کی آبادی کو کہا۔ تیسرے نے اسی طرح اللہ کی راہ کے جہاد کو کہا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا منبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آوازیں بلند نہ کرو۔ یہ واقعہ جمعہ کے دن کا ہے جمعہ کے بعد ہم سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔“ ۱؎ [عبد الرزاق فی تفسیر:1060]
اور روایت میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں خود جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات دریافت کر لوں گا۔ ۱؎ [صحیح مسلم:1879۔111]