ترجمہ و تفسیر — سورۃ التوبة (9) — آیت 18
اِنَّمَا یَعۡمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ لَمۡ یَخۡشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰۤی اُولٰٓئِکَ اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اللہ کی مسجدیں تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرا۔ تو یہ لوگ امید ہے کہ ہدایت پانے والوں سے ہوں گے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
خدا کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے اور زکواة دیتے ہیں اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ یہی لوگ امید ہے کہ ہدایت یافتہ لوگوں میں (داخل) ہوں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اللہ کی مسجدوں کی رونق وآبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نمازوں کے پابند ہوں، زکوٰة دیتے ہوں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے کہ یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت18){ اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ …:} آباد کرنے میں مساجد کی تعمیر، ان میں نمازوں کے لیے آنا، صفائی، روشنی، مرمت اور نگرانی وغیرہ سب چیزیں شامل ہیں اور یہ صرف ان لوگوں کا کام ہے جن میں خصوصاً چار چیزیں پائی جائیں: (1) اللہ اور یوم آخرت پر ایمان (2) ظاہر میں اس ایمان کی شہادت کے لیے نماز کا قیام (3) زکوٰۃ کی ادائیگی (4) اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنا، جبکہ مشرکین ان چاروں صفات سے عاری ہیں۔ مساجد کی تعمیر، آباد کاری اور ان کا ادب و احترام نہایت اعلیٰ درجے کا عمل ہے۔ امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی مسجد بنائے جس کے ساتھ وہ اللہ کا چہرہ طلب کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس جیسا (گھر) جنت میں بنائے گا۔ [بخاری، الصلاۃ، باب من بنی مسجدًا: ۴۵۰] ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام بلاد (جگہوں) میں سب سے زیادہ محبوب ان کی مسجدیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں تمام بلاد (جگہوں) سے زیادہ نا پسند ان کے بازار ہیں۔ [مسلم، المساجد، باب فضل الجلوس فی مصلاہ…: ۶۷۱]

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

18۔ 1 جس طرح حدیث میں بھی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' جب تم دیکھو کہ ایک آدمی مسجد میں پابندی سے آتا ہے تو تم اس کے ایمان کی گواہی دو ' قرآن کریم میں یہاں بھی ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے بعد جن اعمال کا ذکر کیا گیا ہے، وہ نماز زکٰوۃ اور مشیت الٰہی ہے، جس سے نماز، زکٰوۃ اور تقویٰ کی اہمیت واضح ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

18۔ اللہ کی مساجد کو آباد کرنا تو اس کا کام ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے، نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے اور اللہ کے سوا کسی [17] سے نہ ڈرے، امید ہے کہ ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہوں گے
[17] مساجد کی آبادی کا مطلب آباد کرنے والوں کی صفات:۔
آباد کرنے سے مراد مساجد میں نمازوں کے لیے آنا جانا، مساجد کی صفائی، ان میں روشنی کا انتظام، مساجد کی تعمیر، ان کی مرمت اور تولیت وغیرہ سب کچھ شامل ہے اور یہ صرف ان لوگوں کا کام ہے جن میں بالخصوص چار باتیں پائی جائیں۔ اللہ اور روز آخرت پر ایمان، پھر اسی ایمان کی ظاہری شہادت کے طور پر نماز کا قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرنا۔ یعنی اللہ کے سوا دوسرے دیوی، دیوتا، بزرگ یا فرشتوں اور ستاروں کی ارواح کے متعلق یہ گمان رکھنا کہ اگر وہ ناراض ہو گئے تو اسے کوئی نقصان پہنچا سکتے یا کسی مصیبت سے دو چار کر سکتے ہیں پھر اسی بنا پر ان کی نذر و نیاز اور منتیں ماننا یا عبادت کی کوئی بھی رسم بجا لانا کسی ایماندار کا شیوہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ایسے لوگ کبھی ہدایت پا سکتے ہیں خواہ وہ نبی کی اولاد ہی کیوں نہ ہوں اور ایسی تولیت ان کے ورثہ میں چلی آ رہی ہو۔ مساجد کی آباد کاری اور ان کا ادب و احترام نہایت اعلیٰ درجہ کا عمل ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے:
1۔ سیدنا عثمانؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ”جس نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے مسجد بنائی اللہ ویسا ہی گھر اس کے لیے بہشت میں بنائے گا۔“ [بخاري۔ كتاب الصلوة۔ باب من بني مسجدا]
2۔ سیدنا ابو سعیدؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر تم کسی آدمی کو مسجد میں آنے جانے کا عادی دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی مسجدیں صرف وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔“ [ترمذي۔ ابواب التفسير]
3۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنے سائے میں رکھے گا جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔
➊ عادل بادشاہ۔ ➋ وہ جوان جو جوانی کی امنگ سے اللہ کی عبادت میں رہا۔ ➌ وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے۔ ➍ وہ دو مرد جنہوں نے اللہ کی خاطر محبت کی پھر اس پر قائم رہے۔ اور اسی پر جدا ہوئے، وہ شخص جسے کسی حسب و جمال والی عورت نے (بدی کے لیے) بلایا مگر اس نے کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ مرد جس نے داہنے ہاتھ سے ایسے چھپا کر صدقہ دیا کہ بائیں ہاتھ تک کو خبر نہ ہوئی۔ وہ مرد جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کے آنسو بہہ نکلے۔“ [بخاري۔ كتاب الزكوٰة۔ باب الصدقة باليمين]
4۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فرشتے اس شخص کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں جو نماز پڑھنے کے بعد مسجد میں اپنی نماز کی جگہ پر بیٹھا رہے جب تک اس کو حدث لاحق نہ ہو۔ فرشتے یوں کہتے رہتے ہیں۔ یا اللہ اس کو بخش دے یا اللہ اس پر رحم کر۔“ [بخاري۔ كتاب الصلوة۔ باب الحدث فى المسجد]
5۔ سائب بن یزید کہتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا اتنے میں ایک شخص نے مجھ پر کنکر پھینکا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ عمر بن خطاب ہیں۔ مجھے کہنے لگے ”جاؤ ان دو آدمیوں کو بلا لاؤ۔ “ میں بلا لایا۔ سیدنا عمر نے ان سے پوچھا ”کہاں سے آئے ہو؟“ وہ کہنے لگے ”طائف سے“ سیدنا عمر نے فرمایا ”اگر تم اس شہر کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں خوب سزا دیتا۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اپنی آوازیں بلند کرتے ہو؟“ [بخاري۔ كتاب الصلوٰة۔ باب رفع الصوت فى المسجد]

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

مشرکوں کو اللہ کے گھر سے کیا تعلق؟ ٭٭
یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کی آبادی کرنے والے بننا لائق ہی نہیں یہ مشرک ہیں بیت اللہ سے انہیں کیا تعلق؟ «مساجد» کو «مسجد» بھی پڑھا گیا ہے پس مراد مسجد الحرام ہے جو روئے زمین کی مسجدوں سے اشرف ہے جو اول دن سے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہے جس کی بنیادیں خلیل اللہ نے رکھیں تھیں۔
اور یہ لوگ مشرک ہیں حال و قال دونوں اعتبار سے۔ تم نصرانی سے پوچھو وہ صاف کہے گا میں تو نصرانی ہوں۔ یہود سے پوچھو وہ اپنی یہودیت کا اقرار کریں گے صابی سے پوچھو وہ بھی اپنا صابی ہونا اپنی زبان سے کہے گا مشرک بھی اپنے مشرک ہونے کے اقراری ہیں ان کے اس شرک کی وجہ سے ان کے اعمال اکارت ہو چکے ہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے ناری ہیں۔
یہ تو مسجد الحرام سے اوروں کو روکتے ہی ہیں یہ گو کہیں لیکن دراصل یہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء نہیں‏ اولیاء اللہ تو وہ ہیں جو متقی ہوں لیکن اکثر لوگ علم سے کورے اور خالی ہوتے ہیں۔ ہاں مسجدوں کی آبادی مومنوں کے ہاتھوں ہوتی ہے۔ پس جس کے ہاتھ سے مسجدوں کی آبادی ہو اس کے ایمان کا قرآن گواہ ہے۔
مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جب تم کسی کو مسجد میں آنے جانے کی عادت والا دیکھو تو اس کے ایمان کی شہات دو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۱؎ [سنن ترمذي:2617،قال الشيخ الألباني:ضعیف]‏‏‏‏ اور حدیث میں ہے مسجدوں کے آباد کرنے والے اللہ والے ہیں ۱؎ [میزان الاعتدال:3773:ضعیف]‏‏‏‏ اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مسجد والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب پوری قوم پر سے ہٹا لیتا ہے۔ ۱؎ [المیزان:5502:ضعیف]‏‏‏‏
اور حدیث میں ہے اللہ عزوجل فرماتا ہے مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم! کہ میں زمین والوں کو عذاب کرنا چاہتا ہوں لیکن اپنے گھروں کے آباد کرنے والوں اور اپنی راہ میں آپس میں محبت رکھنے والوں اور صبح سحری کے وقت استغفار کرنے والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب ہٹا لیتا ہوں۔ ۱؎ [بیهقی فی شعب الایمان:9051:ضعیف]‏‏‏‏
ابن عساکر میں ہے کہ شیطان انسان کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کا بھیڑیا ہوتا ہے کہ وہ الگ تھلگ پڑی ہوئی ادھر ادھر کی بکری کو پکڑ لے جاتا ہے پس تم پھوٹ اور اختلاف سے بچو جماعت کو اور امام کو اور مسجدوں کو لازم پکڑے رہو۔ ۱؎ [مسند احمد:232/5:ضعیف]‏‏‏‏
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہے کہ مسجدیں اس زمین پر اللہ کا گھر ہیں۔ جو یہاں آۓ اللہ تعالیٰ کا ان پر حق ہے کہ وہ ان کا احترام کریں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جو نماز کی اذان سن کر پھر بھی مسجد میں آ کر باجماعت نماز نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ مسجدوں کی آبادی کرنے والے اللہ تعالیٰ کے اور قیامت کے ماننے والے ہی ہوتے ہیں۔ ۱؎ [سنن ابن ماجہ:793،قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏
پھر فرمایا یہ نمازی ہوتے ہیں بدنی عبادت نماز کے پابند ہوتے ہیں اور مالی عبادت زکوٰۃ کے بھی ادا کرنے والے ہوتے ہیں ان کی بھلائی اپنے لیے بھی ہوتی ہے اور پھر عام مخلوق کے لیے بھی ہوتی ہے ان کے دل اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے ڈرتے نہیں یہی راہ یافتہ لوگ ہیں۔
موحد، ایماندار، قرآن و حدیث کے ماتحت پانچوں نمازوں کے پابند، صرف اللہ تعالیٰ کا خوف کھانے والے، اس کے سوا دوسرے کی بندگی نہ کرنے والے ہی راہ یافتہ اور کامیاب اور بامقصد ہیں۔
یہ یاد رہے کہ بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما قرآن کریم میں جہاں بھی لفظ «عَسَىٰ» وہاں یقین کے معنی میں ہے اُمید کے معنی میں نہیں مثلاً فرمان ہے «عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا» ‏‏‏‏ ۱؎ [17-الاسراء:79]‏‏‏‏ تو مقام محمود میں پہنچانا یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شافع محشر بننا یقینی چیز ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں «عَسَىٰ» کلام اللہ میں حق و یقین کے لیے آتا ہے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل