ترجمہ و تفسیر — سورۃ التوبة (9) — آیت 17
مَا کَانَ لِلۡمُشۡرِکِیۡنَ اَنۡ یَّعۡمُرُوۡا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰہِدِیۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ بِالۡکُفۡرِ ؕ اُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ ۚۖ وَ فِی النَّارِ ہُمۡ خٰلِدُوۡنَ ﴿۱۷﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
مشرکوں کا کبھی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں، اس حال میں کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی شہادت دینے والے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے اعمال ضائع ہوگئے اور وہ آگ ہی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
مشرکوں کی زیبا نہیں کہ خدا کی مسجدوں کو آباد کریں جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہیں۔ ان لوگوں کے سب اعمال بےکار ہیں اور یہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ﻻئق نہیں کہ مشرک اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو آباد کریں۔ درآں حالیکہ وه خود اپنے کفر کے آپ ہی گواه ہیں، ان کے اعمال غارت واکارت ہیں، اور وه دائمی طور پر جہنمی ہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت17) ➊ { مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ …:} یہاں تک کفار کے عہد و پیمان سے براء ت کا اعلان، کفار سے جہاد، اس کے فوائد اور حکمتوں کا بیان تھا۔ اب یہ بیان شروع ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مساجد کی آباد کاری، ان کی نگرانی اور تولیت و خدمت مشرکین کا کسی صورت حق نہیں بنتا، کیونکہ مساجد تو خالص اللہ کے لیے ہیں: «وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا» [الجن: ۱۸] اور یہ کہ بلاشبہ مسجدیں اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔ سو ان کی نگرانی اور آباد کاری ان لوگوں کا حق کیسے ہو سکتا ہے جو خود اپنے آپ پر اس اکیلے مالک کے ساتھ کفر کے گواہ اور شاہد ہیں، جو حج اور عمرہ کے وقت بھی (جو صرف اللہ کے لیے ہیں) لبیک کہتے وقت غیروں کو علی الاعلان اس کا شریک بناتے ہیں۔ چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کہتے تھے: [لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ] حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: اسی پر بس کر دو، آگے مت کہنا۔ مگر وہ کہتے: [إِلاَّ شَرِيْكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ] مگر ایک شریک جو تیرا ہی ہے جس کا تو مالک ہے، وہ خود مالک نہیں۔ وہ لوگ یہ الفاظ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتے تھے۔ [مسلم، الحج، باب التلبیۃ وصفتھا و وقتھا: ۱۱۸۵] ان کی اپنے کفر پر شہادت وہ تین سو ساٹھ بت بھی تھے جو انھوں نے کعبہ کے اندر اور اس کے ارد گرد رکھے ہوئے تھے، کعبہ کی دیواروں پر بزرگوں اور دیوی دیوتاؤں کی تصویریں بنا رکھی تھیں۔ ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کی صورتیں بناکر ان کے ہاتھ میں فال کے تیر پکڑائے ہوئے تھے، ان کی عبادت غیر اللہ کو پکارنا تھا، ان کا بیت اللہ کا احترام انتہائی بے حیائی، یعنی ننگے ہو کر مردوں اور عورتوں کا طواف کرنا تھا اور ان کی نماز تالیاں پیٹ کر اور سیٹیاں بجا کر مشرکانہ قوالیاں کرنا تھا۔ ایسے لوگ اللہ کے سب سے پہلے اور افضل گھر کے تو کجا اس کی کسی مسجد کے متولی، مجاور یا خادم بننے کا بھی کوئی حق نہیں رکھتے، اس لیے ان سے کعبہ اور دوسری مساجد کو آزاد کروانا مسلمانوں پر فرض ہے۔ علامہ اقبال نے یہاں ایک نہایت نفیس نکتہ نکالا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے پوری زمین کو مسجد بنایا ہے، جیسا کہ فرمایا: [جُعِلَتْ لِيَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَّ طَهُوْرًا] [بخاری، التیمم، باب قول اللہ تعالٰی: «فلم تجدوا مآء…» ‏‏‏‏: ۳۳۵۔ مسلم: ۵۲۳] اس لیے مسلمانوں کے لیے غیرت اور ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ان کی مسجد پر غیر مسلموں کا قبضہ ہو، نہیں بلکہ یہ ساری مسجد یعنی ساری زمین مسلمانوں کے قبضے میں ہونی چاہیے اور کفار کو ان کے ماتحت ہونا چاہیے۔
➋ { اُولٰٓىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ:} یعنی انھوں نے اگر کچھ نیک کام کیے بھی ہیں، جیسے مسجد حرام اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ، تو ان کے شرک کی وجہ سے وہ سب اکارت گئے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

17۔ 1 مَسَا جِدَ اللّٰہِ سے مراد مسجد حرام ہے جمع کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا کہ یہ تمام مساجد کا قبلہ و مرکز ہے یا عربوں میں واحد کے لئے بھی جمع کا استعمال جائز ہے 17۔ 2 یعنی ان کے وہ عمل جو بظاہر نیک لگتے ہیں، جیسے طواف وعمرہ اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ۔ کیونکہ ایمان کے بغیر یہ اعمال ایسے درخت کی طرح ہیں جو بےثمر ہیں یا ان پھولوں کی طرح ہیں جن میں خو شبو نہیں ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

17۔ مشرکوں کا یہ کام نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں۔ وہ تو خود اپنے آپ پر کفر کی شہادت دے رہے [15] ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے سب اعمال ضائع [16] ہو گئے اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے
[15] مشرکین مکہ کن کن باتوں سے بیت اللہ کی توہین کرتے تھے؟
یعنی کعبہ یا کسی بھی مسجد کی تولیت، مجاوری اور آباد کاری مشرکوں کے لیے مناسب ہی نہیں۔ کعبہ خالصتاً اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا اور ایسے ہی دوسری مساجد بھی اسی غرض کے لیے بنائی جاتی ہیں لیکن یہ مشرک بیت اللہ میں بھی اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے تھے۔ چنانچہ مشرکوں نے اللہ کے اس گھر میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ دیواروں پر اپنے بزرگوں اور دیوی دیوتاؤں کی تصویریں بنا رکھی تھیں۔ اور ان ظالموں نے سیدنا ابراہیمؑ اور سیدنا اسماعیلؑ کے مجسمے بنا کر ان کے ہاتھوں میں فال گیری کے تیر پکڑا رکھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد بیت اللہ کو ان سب چیزوں سے پاک کیا۔ پھر بیت اللہ میں ایسی فحاشی روا رکھی جاتی کہ کیا مرد کیا عورت ننگے طواف کرتے تھے۔ پھر یہ ظالم طواف کے دوران یہ الفاظ کہہ کر اپنے شرک کی شہادت دیتے تھے۔ «لاشريك لك الآ شريك هولك تملكه» [مسلم۔ كتاب الحج]
ان کی نظروں میں سرے سے بیت اللہ کے احترام کا تصور ہی نہ تھا حتیٰ کہ انہوں نے اپنی عبادت کو سیٹیوں، تالیوں اور گانے بجانے کی محفلیں بنا رکھا تھا۔ پھر کیا ایسے لوگ مساجد کی آباد کاری اور سرپرستی کے مستحق ہو سکتے ہیں؟
[16] کیونکہ اعمال کی جزا کا انحصار اللہ اور روز آخرت پر ایمان ہے اور مشرک تو روز آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتے تھے اور اللہ پر ایمان کے معاملہ میں ان کا تصور ہی غلط تھا۔ انہوں نے سب خدائی اختیارات و تصرفات تو اپنے دیوی دیوتاؤں اور بزرگوں کو دے رکھے تھے لہٰذا ایمان نہ لانے کی وجہ سے ان کے اچھے اعمال ضائع ہوں گے اور شرک اور بد اعمالی کی وجہ سے ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہو گا۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

مشرکوں کو اللہ کے گھر سے کیا تعلق؟ ٭٭
یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کی آبادی کرنے والے بننا لائق ہی نہیں یہ مشرک ہیں بیت اللہ سے انہیں کیا تعلق؟ «مساجد» کو «مسجد» بھی پڑھا گیا ہے پس مراد مسجد الحرام ہے جو روئے زمین کی مسجدوں سے اشرف ہے جو اول دن سے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہے جس کی بنیادیں خلیل اللہ نے رکھیں تھیں۔
اور یہ لوگ مشرک ہیں حال و قال دونوں اعتبار سے۔ تم نصرانی سے پوچھو وہ صاف کہے گا میں تو نصرانی ہوں۔ یہود سے پوچھو وہ اپنی یہودیت کا اقرار کریں گے صابی سے پوچھو وہ بھی اپنا صابی ہونا اپنی زبان سے کہے گا مشرک بھی اپنے مشرک ہونے کے اقراری ہیں ان کے اس شرک کی وجہ سے ان کے اعمال اکارت ہو چکے ہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے ناری ہیں۔
یہ تو مسجد الحرام سے اوروں کو روکتے ہی ہیں یہ گو کہیں لیکن دراصل یہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء نہیں‏ اولیاء اللہ تو وہ ہیں جو متقی ہوں لیکن اکثر لوگ علم سے کورے اور خالی ہوتے ہیں۔ ہاں مسجدوں کی آبادی مومنوں کے ہاتھوں ہوتی ہے۔ پس جس کے ہاتھ سے مسجدوں کی آبادی ہو اس کے ایمان کا قرآن گواہ ہے۔
مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جب تم کسی کو مسجد میں آنے جانے کی عادت والا دیکھو تو اس کے ایمان کی شہات دو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۱؎ [سنن ترمذي:2617،قال الشيخ الألباني:ضعیف]‏‏‏‏ اور حدیث میں ہے مسجدوں کے آباد کرنے والے اللہ والے ہیں ۱؎ [میزان الاعتدال:3773:ضعیف]‏‏‏‏ اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مسجد والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب پوری قوم پر سے ہٹا لیتا ہے۔ ۱؎ [المیزان:5502:ضعیف]‏‏‏‏
اور حدیث میں ہے اللہ عزوجل فرماتا ہے مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم! کہ میں زمین والوں کو عذاب کرنا چاہتا ہوں لیکن اپنے گھروں کے آباد کرنے والوں اور اپنی راہ میں آپس میں محبت رکھنے والوں اور صبح سحری کے وقت استغفار کرنے والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب ہٹا لیتا ہوں۔ ۱؎ [بیهقی فی شعب الایمان:9051:ضعیف]‏‏‏‏
ابن عساکر میں ہے کہ شیطان انسان کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کا بھیڑیا ہوتا ہے کہ وہ الگ تھلگ پڑی ہوئی ادھر ادھر کی بکری کو پکڑ لے جاتا ہے پس تم پھوٹ اور اختلاف سے بچو جماعت کو اور امام کو اور مسجدوں کو لازم پکڑے رہو۔ ۱؎ [مسند احمد:232/5:ضعیف]‏‏‏‏
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہے کہ مسجدیں اس زمین پر اللہ کا گھر ہیں۔ جو یہاں آۓ اللہ تعالیٰ کا ان پر حق ہے کہ وہ ان کا احترام کریں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جو نماز کی اذان سن کر پھر بھی مسجد میں آ کر باجماعت نماز نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نافرمان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ مسجدوں کی آبادی کرنے والے اللہ تعالیٰ کے اور قیامت کے ماننے والے ہی ہوتے ہیں۔ ۱؎ [سنن ابن ماجہ:793،قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏
پھر فرمایا یہ نمازی ہوتے ہیں بدنی عبادت نماز کے پابند ہوتے ہیں اور مالی عبادت زکوٰۃ کے بھی ادا کرنے والے ہوتے ہیں ان کی بھلائی اپنے لیے بھی ہوتی ہے اور پھر عام مخلوق کے لیے بھی ہوتی ہے ان کے دل اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی سے ڈرتے نہیں یہی راہ یافتہ لوگ ہیں۔
موحد، ایماندار، قرآن و حدیث کے ماتحت پانچوں نمازوں کے پابند، صرف اللہ تعالیٰ کا خوف کھانے والے، اس کے سوا دوسرے کی بندگی نہ کرنے والے ہی راہ یافتہ اور کامیاب اور بامقصد ہیں۔
یہ یاد رہے کہ بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما قرآن کریم میں جہاں بھی لفظ «عَسَىٰ» وہاں یقین کے معنی میں ہے اُمید کے معنی میں نہیں مثلاً فرمان ہے «عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا» ‏‏‏‏ ۱؎ [17-الاسراء:79]‏‏‏‏ تو مقام محمود میں پہنچانا یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شافع محشر بننا یقینی چیز ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں «عَسَىٰ» کلام اللہ میں حق و یقین کے لیے آتا ہے۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل