قَاتِلُوۡہُمۡ یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ بِاَیۡدِیۡکُمۡ وَ یُخۡزِہِمۡ وَ یَنۡصُرۡکُمۡ عَلَیۡہِمۡ وَ یَشۡفِ صُدُوۡرَ قَوۡمٍ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمھاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
ان سے (خوب) لڑو۔ خدا ان کو تمہارے ہاتھوں سے عذاب میں ڈالے گا اور رسوا کرے گا اور تم کو ان پر غلبہ دے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا بخشے گا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ان سے تم جنگ کرو اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا، انہیں ذلیل ورسوا کرے گا، تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے کرے گا
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت15،14) ➊ {قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ …:} ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے عہد توڑنے والے کفار سے لڑنے کی صورت میں مسلمانوں کے ساتھ پانچ وعدے کیے ہیں جو سب کے سب پورے فرمائے، پہلا یہ کہ {”يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ“} یعنی پہلی قوموں پر اللہ کی طرف سے قدرتی آفات کے ذریعے سے عذاب آتا تھا، اب تم ان سے لڑو، اللہ تعالیٰ تمھارے ہاتھوں انھیں عذاب دے گا، جو کفار کے قتل، زخمی، قید ہونے اور ان سے مال غنیمت کے حصول کی صورت میں ہو گا۔ دوسرا یہ کہ {” يُخْزِهِمْ “} انھیں رسوا کرے گا، ان کی فوجی قوتوں کا گھمنڈ توڑ کر ان کی حکومت کی عزت خاک میں ملا کر انھیں ذلیل و رسوا کرے گا۔ تیسرا یہ کہ {” وَ يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ “} ان کے خلاف تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں غلبہ عطا کرے گا۔ اسے الگ اس لیے ذکر فرمایا کہ ہو سکتا تھا کہ کفار تو ذلیل ہو جائیں مگر مسلمانوں کے ہاتھ بھی کچھ نہ آئے۔ چوتھا یہ کہ {”وَ يَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُؤْمِنِيْنَ“} تمھارے ان سے لڑنے اور غلبہ پانے سے ان مومنوں کے سینوں کو شفا ملے گی جو ان کفار موذیوں کے ہاتھوں ظلم و ستم سہتے رہے۔ ان سے مراد وہ مسلمان ہیں جو مکہ اور دوسری جگہوں میں کفار کی ایذا کا نشانہ بنے۔ بعض نے فرمایا کہ ان سے مراد بنو خزاعہ ہیں جنھیں بنو بکر اور قریش نے بد عہدی کرکے سخت نقصان پہنچایا اور واقعی یہ لوگ بھی کفار کے زخم خوردہ لوگوں میں شامل تھے اور پانچواں یہ کہ {” وَ يُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ “} ان کے دلوں کے غصے کو دور کرے گا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ شفائے صدور ہی کی تاکید ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک الگ نعمت ہے۔ شفائے صدور سے مراد ان ظالموں کا قتل اور ان کی رسوائی ہے اور دلوں کا غصہ دور کرنے سے مراد مسلمانوں کو محکومی کی بے بسی میں جو غصہ کفار پر آتا تھا مگر کچھ کر نہ سکتے تھے، اب فتح و غلبہ کی صورت میں اس غصے کو دور کرنا ہے اور ویسے بھی شفائے قلوب کے بعد بھی ظلم و ستم کے جو آثار غصے کی صورت میں باقی رہتے ہیں الگ حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے واقعات سن کر دل میں غصہ تو آتا ہی ہے، جیسے اب بھارت وکشمیر، فلسطین و فلپائن، برما، عیسائی اور کمیونسٹ ممالک میں مسلمانوں پر ظلم کی داستانیں سن کر دل کو غصہ آتا ہے، کفار پر فتح یاب ہونے سے اس غصے کا بھی مداوا ہوتا ہے۔
➋ {وَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ:} اس سے پہلے پانچ الفاظ {” يُعَذِّبْهُمْ “ ” يُخْزِهِمْ “ ” يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ “ ” يَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُؤْمِنِيْنَ“} اور {” يُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ “} فعل مضارع مجزوم تھے، کیونکہ وہ{ ” قَاتِلُوْهُمْ “} امر کا جواب تھے کہ لڑنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمھیں یہ پانچ انعام عطا فرمائے گا۔ اب {”يَتُوْبُ“} مجزوم نہیں بلکہ مرفوع ہے۔ معلوم ہوا یہاں سے نئی بات شروع ہو رہی ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے: ” اور اللہ توبہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔“ یہاں اس جملے کے لانے کا مقصد یہ ہے کہ تمھارے جہاد کی صورت میں جب بڑے بڑے سرکشوں کی گردنیں خم ہوں گی، تو وہ اسلام کی حقانیت پر غور کریں گے اور یہ عام مشاہدہ ہے کہ لوگ غالب قوم کے دین اور ان کی تہذیب کو قبول کرتے ہیں، لہٰذا اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو توبہ کی توفیق بھی دے گا، جیسا کہ فتح مکہ کے بعد عکرمہ بن ابی جہل، ابو سفیان، سہیل بن عمرو اور ان کے علاوہ فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ مگر اس کو {” قَاتِلُوْهُمْ “} کا جواب بنانے کے بجائے الگ اس لیے ذکر کیا ہے کہ توبہ کی توفیق صرف کفار سے لڑائی ہی پر موقوف نہیں بلکہ اسلام اتنا واضح، روشن، مدلل اور فطرت کے مطابق دین ہے کہ بعض لوگ لڑائی کے بغیر بھی اللہ کی توفیق سے اسے سینے سے لگا لیتے ہیں اور اس میں اتنی کشش اور اتنا حسن ہے کہ اسے مٹانے کی کوشش کرنے والے لوگ اور مسلمانوں پر فتح یاب ہو جانے والے کفار بھی اللہ کی توفیق سے اسے قبول کر لیتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہر جگہ مسلمان اگرچہ مغلوب ہیں، مگر اسلام تمام ادیان سے زیادہ یورپ، امریکہ اور دنیا بھر کے ممالک میں پھیل رہا ہے۔ تاتاریوں نے بھی بغداد فنا کرنے کے بعد آخر اسی اسلام کی آغوش میں پناہ لی اور اسلام کو مٹانے والے ہی صدیوں تک اس کے محافظ بنے رہے
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
➌ {وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ:} وہ گزشتہ، موجودہ اور آئندہ کی ہر بات جانتا ہے اور اپنی کمال حکمت کے مطابق جسے چاہتا ہے توبہ کی توفیق سے نوازتا ہے۔
➍ ان آیات سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ تعالیٰ کے علم میں پکے مومن تھے، تبھی یہ پیش گوئیاں انھی مومنین کے ہاتھوں پوری ہوئیں، انھوں نے ہی مکہ اور جزیرۂ عرب فتح کیا، روم، شام، یمن، ایران، عراق، افریقہ و ایشیا، مشرق سے مغرب تک اللہ تعالیٰ نے انھی کے ہاتھوں اسلام پھیلایا۔ ان کے ذکر سے مومنوں کے دل ٹھنڈے ہوتے ہیں اور کفار کے دل غصے سے بھر جاتے ہیں، دیکھیے سورۂ فتح کی آخری آیت۔
➋ {وَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ:} اس سے پہلے پانچ الفاظ {” يُعَذِّبْهُمْ “ ” يُخْزِهِمْ “ ” يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ “ ” يَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُؤْمِنِيْنَ“} اور {” يُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ “} فعل مضارع مجزوم تھے، کیونکہ وہ{ ” قَاتِلُوْهُمْ “} امر کا جواب تھے کہ لڑنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمھیں یہ پانچ انعام عطا فرمائے گا۔ اب {”يَتُوْبُ“} مجزوم نہیں بلکہ مرفوع ہے۔ معلوم ہوا یہاں سے نئی بات شروع ہو رہی ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے: ” اور اللہ توبہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔“ یہاں اس جملے کے لانے کا مقصد یہ ہے کہ تمھارے جہاد کی صورت میں جب بڑے بڑے سرکشوں کی گردنیں خم ہوں گی، تو وہ اسلام کی حقانیت پر غور کریں گے اور یہ عام مشاہدہ ہے کہ لوگ غالب قوم کے دین اور ان کی تہذیب کو قبول کرتے ہیں، لہٰذا اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو توبہ کی توفیق بھی دے گا، جیسا کہ فتح مکہ کے بعد عکرمہ بن ابی جہل، ابو سفیان، سہیل بن عمرو اور ان کے علاوہ فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ مگر اس کو {” قَاتِلُوْهُمْ “} کا جواب بنانے کے بجائے الگ اس لیے ذکر کیا ہے کہ توبہ کی توفیق صرف کفار سے لڑائی ہی پر موقوف نہیں بلکہ اسلام اتنا واضح، روشن، مدلل اور فطرت کے مطابق دین ہے کہ بعض لوگ لڑائی کے بغیر بھی اللہ کی توفیق سے اسے سینے سے لگا لیتے ہیں اور اس میں اتنی کشش اور اتنا حسن ہے کہ اسے مٹانے کی کوشش کرنے والے لوگ اور مسلمانوں پر فتح یاب ہو جانے والے کفار بھی اللہ کی توفیق سے اسے قبول کر لیتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہر جگہ مسلمان اگرچہ مغلوب ہیں، مگر اسلام تمام ادیان سے زیادہ یورپ، امریکہ اور دنیا بھر کے ممالک میں پھیل رہا ہے۔ تاتاریوں نے بھی بغداد فنا کرنے کے بعد آخر اسی اسلام کی آغوش میں پناہ لی اور اسلام کو مٹانے والے ہی صدیوں تک اس کے محافظ بنے رہے
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
➌ {وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ:} وہ گزشتہ، موجودہ اور آئندہ کی ہر بات جانتا ہے اور اپنی کمال حکمت کے مطابق جسے چاہتا ہے توبہ کی توفیق سے نوازتا ہے۔
➍ ان آیات سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ تعالیٰ کے علم میں پکے مومن تھے، تبھی یہ پیش گوئیاں انھی مومنین کے ہاتھوں پوری ہوئیں، انھوں نے ہی مکہ اور جزیرۂ عرب فتح کیا، روم، شام، یمن، ایران، عراق، افریقہ و ایشیا، مشرق سے مغرب تک اللہ تعالیٰ نے انھی کے ہاتھوں اسلام پھیلایا۔ ان کے ذکر سے مومنوں کے دل ٹھنڈے ہوتے ہیں اور کفار کے دل غصے سے بھر جاتے ہیں، دیکھیے سورۂ فتح کی آخری آیت۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
14۔ تم ان سے جنگ کرو۔ اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سزا دے گا، انہیں رسوا کرے گا، تمہیں ان پر مدد دے گا اور مسلمانوں کے سینوں [13] (سے جلن مٹا کر ان) کو ٹھنڈا کر دے گا
[13] اعلان برأت کے بعد مشرکوں کے وفود کی مدینہ میں آمد اور قبول اسلام:۔
مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ اس اعلان برأت کے بعد نامعلوم انہیں کیسے تلخ حالات سے دوچار ہونا پڑے گا اور ان کے یہ اندیشے بے جا بھی نہ تھے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے انہیں دو باتوں کی تلقین فرمائی ایک یہ کہ جہاد کے لیے پوری طرح مستعد رہیں، دوسرے لوگوں سے ڈرنے کے بجائے صرف اللہ سے ڈریں اور اسی پر بھروسہ کریں۔ چنانچہ اللہ نے مشرکوں کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور بجائے اس کے کہ انہیں مقابلہ کی سوجھتی وہ وفود کی شکل میں مدینہ آئے اور اسلام قبول کرنے لگے اور ایسے وفود کی تعداد (70) ستر کے قریب شمار کی گئی ہے جیسا کہ سورۃ نصر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِذَاجَاءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا ﴾ چنانچہ جو قبائل اسلام لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس علاقے کا انتظام انہی کے سپرد فرما دیتے تھے۔
جہاد کے نتیجہ میں مسلمانوں سے پانچ وعدے:۔
آیت نمبر 14 اور 15 میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کے متعلق پانچ وعدے فرمائے۔ بالفاظ دیگر جہاد کے فوائد سے تعلق رکھنے والی پانچ خوشخبریاں سنائیں جو سب کی سب پوری ہوئیں۔ پہلی یہ کہ تمہارے دشمنوں پر کوئی ارضی یا سماوی عذاب نہیں آئے گا بلکہ انہیں یہ عذاب تمہارے ہاتھوں سے دلوایا جائے گا اور اس عذاب کی ابتداء غزوہ بدر سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ دوسری یہ کہ مشرکوں کو رسوا کرے گا۔ اب اعلان برأت میں مشرکوں کی رسوائی کے جس قدر پہلو موجود ہیں اور جن کی تفصیل حاشیہ نمبر 3 میں دی گئی ہے اس سے بڑھ کر ان کی رسوائی کیا ہو سکتی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس رسوائی کو برداشت کرنے کے بغیر ان کے پاس کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ تیسری یہ کہ تمہیں ان پر مدد دے گا اور اس مدد کا آغاز بھی غزوہ بدر سے شروع ہو گیا تھا جس کی تفصیل پہلے دی جا چکی ہے۔ پھر اللہ کی یہ مدد ہر دم مسلمانوں کے شامل حال رہی، چوتھی یہ کہ مسلمانوں کے دل مشرکوں کے ظلم و ستم سہہ سہہ کر بہت زخمی ہو چکے تھے اور ابتداً انہیں ہاتھ تک اٹھانے کی بھی اجازت نہ تھی۔ صرف ان کے ظلم و ستم برداشت کرنے کی اور درگزر کرنے کی تاکید کی جاتی رہی۔ پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ انہیں ستم رسیدہ کمزور مسلمانوں کے ہاتھوں ان مغرور و سرکش مشرکوں کو پٹواتا رہا تو ان مسلمانوں کے دل ان کی طرف سے ٹھنڈے ہو گئے کہ دلوں میں جاگزیں رنجشیں اور غصے سب کافور ہو گئے اور پانچویں یہ کہ انہیں مغرور کافروں میں سے اللہ جسے چاہے گا توبہ کی توفیق دے کر تمہارا بھائی اور تمہارا غمگسار بھی بنا دے گا اور اس کی مثالیں بے شمار ہیں جو ابتدائے اسلام سے لے کر تا ہنوز جاری ہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
مسلمان بھی آزمائیں جائیں گے ٭٭
یہ نا ممکن ہے کہ امتحان بغیر مسلمان بھی چھوڑ دیئے جائیں سچے اور جھوٹے مسلمان کو ظاہر کر دینا ضروری ہے۔ «وَلِيجَةً» کے معنی بھیدی اور دخل دینے والے کے ہیں۔ پس سچے وہ ہیں جو جہاد میں آگے بڑھ کر حصہ لیں اور ظاہر باطن میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیر خواہی اور حمایت کریں۔
ایک قسم کا بیان دوسری قسم کو ظاہر کر دیتا تھا اس لیے دوسری قسم کے لوگوں پر بیان چھوڑ دیا ایسی عبارتیں شاعروں کے شعروں میں بھی ہیں۔
اور جگہ قرآن کریم ہے کہ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ صرف یہ کہنے سے چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش ہو گی ہی نہیں حالانکہ اگلے مومنوں کی بھی ہم نے آزمائش کی یاد رکھو اللہ تعالیٰ سچے اور جھوٹوں کو ضرور الگ کر دے گا۔ ۱؎ [29-العنكبوت:3،2]
اور آیت میں اسی مضمون کو «أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ» ۱؎ [3-آل عمران:142] کے لفظوں سے بیان فرمایا ہے۔
اور آیت میں ہے «مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ» ۱؎ [3-آل عمران:179] اللہ ایسا نہیں کہ تم مومنوں کو تمہاری حالت پر ہی چھوڑ دے اور امتحان کر کے یہ نہ معلوم کر لے کہ خبیث کون ہے اور طیب کون ہے؟
پس جہاد کے مشروع کرنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہو جاتی ہے۔ گو اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے جو ہو گا وہ بھی اسے معلوم ہے اور جو نہیں ہوا وہ جب ہو گا تب کس طرح ہو گا یہ بھی وہ جانتا ہے چیز کے ہونے سے پہلے ہی اسے اس کا علم حاصل ہے اور ہر چیز کی ہر حالت سے وہ واقف ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ دنیا پر بھی کھرا کھوٹا، سچا جھوٹا ظاہر کر دے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اس کے سوا کوئی پروردگار ہے نہ اس کی قضاء و قدر اور ارادے کو کوئی بدل سکتا ہے۔
ایک قسم کا بیان دوسری قسم کو ظاہر کر دیتا تھا اس لیے دوسری قسم کے لوگوں پر بیان چھوڑ دیا ایسی عبارتیں شاعروں کے شعروں میں بھی ہیں۔
اور جگہ قرآن کریم ہے کہ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ صرف یہ کہنے سے چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش ہو گی ہی نہیں حالانکہ اگلے مومنوں کی بھی ہم نے آزمائش کی یاد رکھو اللہ تعالیٰ سچے اور جھوٹوں کو ضرور الگ کر دے گا۔ ۱؎ [29-العنكبوت:3،2]
اور آیت میں اسی مضمون کو «أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُواْ الْجَنَّةَ» ۱؎ [3-آل عمران:142] کے لفظوں سے بیان فرمایا ہے۔
اور آیت میں ہے «مَّا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ» ۱؎ [3-آل عمران:179] اللہ ایسا نہیں کہ تم مومنوں کو تمہاری حالت پر ہی چھوڑ دے اور امتحان کر کے یہ نہ معلوم کر لے کہ خبیث کون ہے اور طیب کون ہے؟
پس جہاد کے مشروع کرنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہو جاتی ہے۔ گو اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے جو ہو گا وہ بھی اسے معلوم ہے اور جو نہیں ہوا وہ جب ہو گا تب کس طرح ہو گا یہ بھی وہ جانتا ہے چیز کے ہونے سے پہلے ہی اسے اس کا علم حاصل ہے اور ہر چیز کی ہر حالت سے وہ واقف ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ دنیا پر بھی کھرا کھوٹا، سچا جھوٹا ظاہر کر دے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اس کے سوا کوئی پروردگار ہے نہ اس کی قضاء و قدر اور ارادے کو کوئی بدل سکتا ہے۔