ترجمہ و تفسیر — سورۃ المطففين (83) — آیت 1
وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِیۡنَ ۙ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بڑی ہلاکت ہے ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے ۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لیے خرابی ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 1){ وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِيْنَ: اَلتَّطْفِيْفُ} ماپ یا تول میں کمی کرنا۔ ماپ تول کے علاوہ لین دین کے جتنے بھی دیگر پیمانے ہیں ان میں کمی بھی {اَلتَّطْفِيْفُ} ہے۔ {اَلطَّفِيْفُ} بالکل تھوڑی سی چیز کو کہتے ہیں۔ صاع بھرا ہوا ہو، مگر پورا بھرنے سے کم ہو تو اس کمی کو {طَفَّ الصَّاعُ} کہتے ہیں۔ چونکہ ماپ تول میں کمی کرنے والا کوئی بڑا مال نہیں چراتا بلکہ تھوڑی سی چیز چراتا ہے، اس لیے اسے {اَلْمُطَفِّفُ} کہتے ہیں۔ یہ فعل کمینگی کی انتہا ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ اتنی تھوڑی تھوڑی چیز کی چوری کرنے والا شخص بڑا مال اڑانے سے بھی پرہیز کرنے والا نہیں، صرف اپنی کم ہمتی یا پکڑے جانے کے خوف سے اتنی چوری پر صبر کیے بیٹھا ہے، ورنہ اس کی طبیعت کے فاسد ہو جانے اور امانت سے خالی ہو جانے میں کوئی کمی باقی نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ نے اس فعل شنیع کا ارتکاب کرنے والوں کو { وَيْلٌ } کی وعید سنائی ہے، جس کا معنی ہلاکت ہے۔ آخرت میں ہونے والی ہلاکت کا تو کچھ شمار ہی نہیں، اس کی کچھ تفصیل اسی سورت میں آرہی ہے، اگرچہ وہ مکذبین (جھٹلانے والوں) کے لیے ہے، مگر یہ فعل بھی آخرت کی تکذیب ہی سے سرزد ہوتا ہے، جبکہ دنیا میں اس سے ہونے والی ہلاکت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی، حدیث لمبی ہے، اس کا ایک فقرہ یہ ہے: [وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيْزَانَ، إِلاَّ أُخِذُوْا بِالسِّنِيْنَ، وَشِدَّةِ الْمَؤُوْنَةِ، وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ] [ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات: ۴۰۱۹] جو قوم بھی ماپ تول میں کمی کرتی ہے اسے قحط سالیوں، سخت مشقت اور حکمرانوں کے ظلم کے ساتھ پکڑ لیا جاتا ہے۔شیخ البانی رحمہ اللہ نے مستدرک حاکم کی سند کی وجہ سے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ [دیکھیے سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: ۱۰۶] شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب کا ایک سبب یہ بھی تھا۔
تنبیہ: ترمذی کی روایت کہویل جہنم کی ایک وادی ہے … صحیح نہیں۔ [دیکھیے ضعیف ترمذي، سورۃ الأنبیاء: ۳۳۸۹]

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

ناپ تول میں کمی کے نتائج ٭٭
نسائی اور ابن ماجہ میں ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اس وقت اہل مدینہ ناپ تول کے اعتبار سے بہت برے تھے۔ جب یہ آیت اتری پھر انہوں نے ناپ تول بہت درست کر لیا۔ ۱؎ [سنن ابن ماجہ:2223،قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏
ابن ابی حاتم میں ہے کہ ہلال بن طلق نے ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ مکے مدینے والے بہت ہی عمدہ ناپ تول رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ کیوں نہ رکھتے جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ» ۱؎ [83-المطففين:1]‏‏‏‏ ہے۔
پس «تَّطْفِيفِ» سے مراد ناپ تول کی کمی ہے خواہ اس صورت میں کہ اوروں سے لیتے وقت زیادہ لے لیا اور دیتے وقت کم دیا۔ اسی لیے انہیں دھمکایا کہ ’ یہ نقصان اٹھانے والے ہیں کہ جب اپنا حق لیں تو پورا لیں بلکہ زیادہ لے لیں اور دوسروں کو دینے بیٹھیں تو کم دیں۔ ‘ ٹھیک یہ ہے کہ «کَالُوْا» اور «وَزَنُوْا» کو متعدی مانیں اور «ھُمْ» کو محلاً منصوب کہیں گو بعض نے اسے ضمیر موکد مانا ہے۔ جو «كَالُوْا» اور «وَّزَنُوْا» کی پوشیدہ ضمیر کی تاکید کے لیے ہے اور مفعول محذوف مانا ہے جس پر دلالت کلام موجود ہے دونوں طرح مطلب قریب قریب ایک ہی ہے۔
قرآن کریم نے ناپ تول درست کرنے کا حکم اس آیت میں بھی دیا ہے «وَاَوْفُوا الْكَيْلَ اِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوْا بالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَــقِيْمِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا» ۱؎ [17-الإسراء:35]‏‏‏‏ یعنی ’ جب ناپو تو ناپ پورا کرو اور وزن سیدھے ترازو سے تول کر دیا کرو۔ ‘
اور جگہ حکم ہے «اَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيْزَان بالْقِسْطِ ۚ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا» ۱؎ [6-الأنعام:152]‏‏‏‏ ’ ناپ تول انصاف کے ساتھ برابر کر دیا کرو، ہم کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ ‘
اور جگہ فرمایا «وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيْزَانَ» ۱؎ [55-الرحمن:9]‏‏‏‏ یعنی ’ تول کو قائم رکھو اور میزان کو گھٹاؤ نہیں۔ ‘
شعیب علیہ السلام کی قوم کو اسی بد عادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غارت و برباد کر دیا یہاں بھی اللہ تعالیٰ ڈرا رہا ہے کہ ’ لوگوں کے حق مارنے والے کیا قیامت کے دن سے نہیں ڈرتے جس دن یہ اس ذات پاک کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے۔ جس پر نہ کوئی پوشیدہ بات پوشیدہ ہے نہ ظاہر، وہ دن بھی نہایت ہولناک و خطرناک ہو گا۔ بڑی گھبراہٹ اور پریشانی والا دن ہو گا، اس دن یہ نقصان رساں لوگ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے وہ جگہ بھی نہایت تنگ و تاریک ہو گی اور میدان آفات و بلیات سے پر ہو گا اور وہ مصائب نازل ہو رہے ہوں گے کہ دل پریشان ہوں گے حواس بگڑے ہوئے ہوں گے ہوش جاتا رہے گا ‘۔ صحیح حدیث میں ہے کہ { آدھے آدھے کانوں تک پسینہ پہنچ گیا ہوگا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:6531]‏‏‏‏
مسند احمد کی حدیث میں ہے اس دن رحمان عزوجل کی عظمت کے سامنے سب کھڑے کپکپا رہے ہوں گے۔ ۱؎ [مسند احمد:31/2:صحیح]‏‏‏‏
اور حدیث میں ہے کہ { قیامت کے دن بندوں سے سورج اس قدر قریب ہو جائے گا کہ ایک یا دو نیزے کے برابر اونچا ہو گا اور سخت تیز ہو گا ہر شخص اپنے اپنے اعمال کے مطابق اپنے پسینے میں غرق ہو گا بعض کی ایڑیوں تک پسینہ ہو گا بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک بعض کو تو ان کا پسینہ لگام بنا ہوا ہو گا۔ } ۱؎ [صحیح مسلم:2864]‏‏‏‏
اور حدیث میں ہے { دھوپ اس قدر تیز ہو گی کہ کھوپڑی بھنا اٹھے گی اور اس طرح اس میں جوش اٹھنے لگے گا جس طرح ہنڈیا میں ابال آتا ہے۔} ۱؎ [مسند احمد:254/5:صحیح]‏‏‏‏
اور روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ پر اپنی انگلیاں رکھ کر بتایا کہ اس طرح پسینہ کی لگام چڑھی ہوئی ہو گی پھر آپ نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ بعض بالکل ڈوبے ہوئے ہوں گے۔ } ۱؎ [مسند احمد:157/4:صحیح]‏‏‏‏
اور حدیث میں ہے ستر سال تک بغیر بولے چالے کھڑے رہیں گے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین سو سال تک کھڑے رہیں گے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چالیس ہزار سال تک کھڑے رہیں گے اور دس ہزار سال میں فیصلہ کیا جائے گا۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی۔ ۱؎ [صحیح مسلم:987]‏‏‏‏
ابن ابی حاتم کی حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشیر غفاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تو کیا کرے گا جس دن لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے تین سو سال تک کھڑے رہیں گے نہ تو کوئی خبر آسمان سے آئیگی نہ کوئی حکم کیا جائے گا۔ بشیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے، اللہ ہی مددگار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو جب بستر پر جاؤ تو اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کی تکلیفوں اور حساب کی برائی سے پناہ مانگ لیا کرو۔ } ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:34290:ضعیف]‏‏‏‏
سنن ابوداؤد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن کے کھڑے ہونے کی جگہ کی تنگی سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ } ۱؎ [سنن ابوداود:766،قال الشيخ الألباني:حسن]‏‏‏‏
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چالیس سال تک لوگ اونچا سر کیے کھڑے رہیں گے کوئی بولے گا نہیں نیک و بد کو پسینے کی لگامیں چڑھی ہوئی ہوں گی۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سو سال تک کھڑے رہیں گے۔ [ابن جریر]‏‏‏‏
ابوداؤد، نسائی ابن ماجہ میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز شروع کرتے تو دس مرتبہ «اﷲُ اَکْبَرُ» ، دس مرتبہ «الْحَمْدُ لِلَّـهِ» کہتے، دس مرتبہ «سُبْحَانَ اﷲِ» کہتے، دس مرتبہ «اَسْتَغْفِرُ اﷲَ» ، پھر کہتے دعا «اللَّهُمَّ اِغْفِرْ لِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي وَعَافِنِي» اے اللہ مجھے بخش، مجھے ہدایت دے، مجھے روزیاں دے اور عافیت عنایت فرما پھر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن کے مقام کی تنگی سے پناہ مانگتے۔} ۱؎ [سنن ابن ماجہ:1356،قال الشيخ الألباني:حسن]‏‏‏‏

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل