ترجمہ و تفسیر — سورۃ الأنفال (8) — آیت 1
یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ ؕ قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَصۡلِحُوۡا ذَاتَ بَیۡنِکُمۡ ۪ وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
وہ تجھ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے غنیمتیں اللہ اور اس کے رسول کی ہیں، سو اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو، اگر تم مومن ہو۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
(اے محمد! مجاہد لوگ) تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ (کیا حکم ہے) کہہ دو کہ غنیمت خدا اور اس کے رسول کا مال ہے۔ تو خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو خدا اور اس کے رسول کے حکم پر چلو
ترجمہ محمد جوناگڑھی
یہ لوگ آپ سے غنیمتو ں کا حکم دریافت کرتے ہیں، آپ فرما دیجئے! کہ یہ غنیمتیں اللہ کی ہیں اور رسول کی ہیں، سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

{سورة الانفال}
(آیت 1) ➊ {يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ: الْاَنْفَالِ } یہ { نَفَلٌ } (نون اور فاء کے فتح کے ساتھ) کی جمع ہے، جیسا کہ {فَرَسٌ} کی جمع { اَفْرَاسٌ} ہے۔ جس کا معنی زائد چیز ہے، جیسا کہ فرمایا: «{ وَ مِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ [بنی إسرائیل: ۷۹] اور رات کے کچھ حصے میں پھر اس کے ساتھ بیدار رہ، اس حال میں کہ تیرے لیے زائد ہے۔ یعنی رات کا قیام فرض نمازوں سے زائد ہے۔ یہ لفظ کئی معنوں میں آتا ہے: (1) مال غنیمت، کیونکہ جہاد کا اصل مقصد تو ثواب اور حصولِ جنت ہے، غنیمت تو ایک زائد چیز ہے۔ شاید اسی لیے پہلی امتوں کے لیے غنیمت حلال نہیں تھی، اس امت کو ثواب پر مزید غنیمت بھی حلال کر دی گئی۔ (2) امیر کسی خاص کارنامے پر غنیمت کے حصے سے زائد کسی انعام کا اعلان کر دے، یا دینا چاہے تو یہ بھی نفل ہے۔ (3) مقتول کے پاس جو بھی سامان اسلحہ یا سواری وغیرہ ہو وہ قاتل کو دیا جائے، اسے سلب کہتے ہیں، یہ بھی نفل ہے۔ (4) عام جنگ کے علاوہ کچھ دستے جنگ کے لیے جاتے ہوئے یا واپسی پر کسی بستی پر حملے کے لیے بھیجے جائیں اور وہ غنیمت لے کر آئیں تو وہ پورے لشکر کے لیے ہوگی، مگر اس دستے کو مجموعی غنیمت میں سے الگ زائد حصہ بھی دیا جائے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاتے وقت چوتھا حصہ اور واپسی پر تیسرا حصہ عطا فرماتے تھے۔ (5) امیر غنیمت کی تقسیم سے پہلے کوئی ایک چیز اپنے لیے چن لے، مثلاً کوئی اسلحہ یا سواری، یا لونڈی وغیرہ، اسے صفی بھی کہتے تھے۔
زمانۂ جاہلیت میں معمول تھا کہ جنگ میں جو شخص جو کچھ لوٹ لیتا اسی کا ہوتا۔ اسلام میں سب سے پہلا عظیم الشان معرکہ بدر واقع ہوا تو ابھی تک کفار سے حاصل ہونے والے مال کی تقسیم کا طریقہ مقرر نہیں ہوا تھا۔ بدر میں جب بہت سا مالِ غنیمت حاصل ہوا تو یہ مسئلہ پیش آیا۔ چنانچہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے تو میں آپ کے ساتھ بدر میں شریک ہوا۔ لوگوں کا باہمی مقابلہ ہوا، اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست دی، تو ایک گروہ انھیں ہزیمت دیتے اور قتل کرتے ہوئے ان کے پیچھے چل پڑا، ایک گروہ لشکر گاہ پر متوجہ ہو کر اس کی حفاظت اور مال جمع کرنے لگ گیا اور ایک گروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھیرا ڈالے رکھا کہ دشمن آپ کے متعلق کسی غفلت سے فائدہ نہ اٹھا لے۔ آخر سب لوگ واپس آ کر جمع ہوئے تو جنھوں نے غنیمتیں جمع کی تھیں، کہنے لگے، یہ ہم نے جمع کی ہیں، کسی اور کا ان میں کوئی حصہ نہیں، جو دشمن کے پیچھے گئے تھے انھوں نے کہا تم ہم سے زیادہ اس کے حق دار نہیں ہو، ہم نے دشمن کو ان سے ہٹایا اور انھیں مار بھگایا ہے۔ جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھیر ڈالے رکھا، انھوں نے کہا، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیرے میں رکھا اور اس بات سے ڈرے کہ دشمن کسی طرح کی غفلت میں آپ کو نقصان نہ پہنچائے، چنانچہ ہم اس کام میں مشغول رہے، تو اس وقت یہ آیات اتریں: «{ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دشمن کی زمین میں حملے کے لیے جاتے تو چوتھا حصہ بطور نفل (زائد) دیتے تھے، پھر جب واپس آتے، لوگ تھکے ہوئے ہوتے تو تیسرا حصہ بطور نفل عطا فرماتے تھے اور آپ خصوصاً زائد حصے دینا پسند نہیں کرتے تھے اور فرماتے تھے: مومنوں کا قوت والا ان کے کمزور پر غنیمت واپس لاتا ہے۔ [أحمد: 323/5، ۳۲۴، ح ۲۲۷۶۲، وقال شعیب الأرنؤوط حسن لغیرہ]ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان اور مستدرک حاکم میں بھی اس حدیث کے بعض اجزا مروی ہیں۔
➋ {قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ …:} فرمایا آپ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کس کا حق ہیں، کس طرح تقسیم ہوں گی، آپ فرما دیں کہ غنیمتیں حقیقت میں تم میں سے کسی کی بھی ملکیت نہیں، یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت ہیں، تمھارا ان میں کچھ دخل نہیں، کیونکہ فتح تمھاری طاقت سے نہیں بلکہ اللہ کی مدد سے ہوئی ہے۔ آگے دور تک یہ بات بیان کی ہے کہ فتح اللہ کی مدد ہی سے ہوئی ہے اور ہوتی ہے، اس لیے تم اللہ سے ڈرو اور ان اموال کی وجہ سے تمھارے باہمی تعلقات میں جو خرابی آئی ہے اسے درست کرو اور اگر تم مومن ہو تو اللہ اور اس کا رسول جو بھی حکم دیں اس کی اطاعت کرو، جسے جتنا دیں یا نہ دیں، وہ اس پر راضی رہے اور اس مال کی بنا پر تمھارے آپس کے تعلقات ہر گز خراب نہیں ہونے چاہییں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم آپس کے تعلقات بگاڑنے سے بچو، اس لیے کہ یہ چیز (دین) کو مونڈ دینے والی ہے۔ [ترمذی، صفۃ القیامۃ، باب فی فضل صلاح ذات البین: ۲۵۰۸، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ] تفسیر ابن کثیر میں یہاں مسند ابی یعلی کے حوالے سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث نقل کی گئی ہے جس میں اپنے بھائی کو معاف کرنے والے کے لیے اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں جانے کا ذکر ہے، یہ روایت مستدرک میں بھی ہے، جسے امام حاکم نے صحیح کہا ہے، مگر ذہبی نے اس کے ایک راوی عباد کو ضعیف اور اس کے شیخ کو {لَا يُعْرَفُ} کہا ہے۔
➌ { اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ:} اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو بھی ایمان کی شرط قرار دیا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے مراد (جیسا کہ ظاہر ہے) آپ کی سنت کی پیروی ہے، لہٰذا جو شخص آپ کی سنت سے منہ موڑ کر صرف قرآن کی اطاعت کرنا چاہتا ہے (جبکہ حدیث کے بغیر قرآن پر عمل کسی صورت ممکن ہی نہیں) وہ قرآن کی واضح تصریح کے مطابق دائرۂ ایمان سے خارج ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کا حکم دریافت کرتے ہیں (1) آپ فرما دیجئے! کہ غنیمتیں اللہ کی ہیں اور رسول کی ہیں (2) سو تم اللہ سے ڈرو اور اپنے باہمی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم ایمان والے ہو (3)۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

1۔ لوگ آپ سے انفال [1] (اموال زائدہ) کے متعلق [2] پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ یہ اموال زائدہ اللہ اور اس کے رسول [3] کے لئے ہیں۔ پس تم لوگ اللہ سے ڈرتے رہو اور اپنے باہمی تعلقات [4] درست رکھو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اگر تم مومن ہو
[1] انفال سے مراد کون سے اموال ہیں؟
اموال زائدہ یا انفال سے مراد وہ اموال ہیں جو کسی کی محنت کا صلہ نہ ہوں بلکہ اللہ نے محض اپنے فضل و کرم سے عطا کئے ہوں اور ان کی کئی اقسام ہیں مثلاً:
(1) اموال غنیمت جو اگرچہ مجاہدین کی محنت کا صلہ معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اسے اس لیے انفال میں شمار کیا گیا کہ پہلی امتوں پر غنیمت کے اموال حرام تھے۔ ایسے سب اموال ایک میدان میں اکٹھے کردیئے جاتے پھر رات کو آگ اتر کر ان کو بھسم کردیتی تھی۔ مگر اس امت پر حلال کی گئی ہے۔
(2) اموال فے یعنی ایسے اموال جو لڑے بھڑے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائیں۔
(3) اموال سلب یعنی وہ مال جو ایک مجاہد مقتول دشمن کے جسم سے اتارتا ہے۔
(4) دیگر اموال جیسے جزیہ، صدقات اور عطیات وغیرہ۔ یہ سب انفال کے ضمن میں آتے ہیں۔
[2] سورۃ انفال کا شان نزول، غزوہ بدر اور اموال غنیمت میں جھگڑا :۔
غزوہ بدر کے اختتام پر یہ صورت پیدا ہوئی کہ جس فریق نے اموال غنیمت لوٹے تھے وہ ان پر قابض ہو گیا تھا۔ ایک دوسرا فریق جس نے کفار کا تعاقب کیا تھا یہ کہتا تھا کہ ہم بھی ان اموال میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ اگر ہم کفار کا تعاقب نہ کرتے تو وہ مڑ کر حملہ کر سکتے تھے اور اس طرح فتح شکست میں تبدیل ہو سکتی تھی اور ایک تیسرا فریق جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد حفاظت کی خاطر حصار بنائے ہوئے تھا وہ کہتا تھا کہ ہم بھی ان اموال میں برابر کے حصہ دار ہیں کیونکہ اگر ہم آپ کی حفاظت نہ کرتے اور خدا نخواستہ آپ کو کوئی گزند پہنچ جاتا تو فتح شکست میں بدل سکتی تھی۔ مگر قابضین ایسی باتیں قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ جس سے ان مجاہدین میں کشیدگی پیدا ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس صورت حال کا حل دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور وحی الٰہی کا انتظار کرنے لگے۔ اس وقت یہ آیت بلکہ اس سورۃ کا کثیر حصہ نازل ہوا۔ جس کی ابتدا ہی مسلمانوں کی اخلاقی کمزوریوں اور ان کی اصلاح کے طریقوں سے کی گئی ہے۔
[3] اموال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کے لئے کیوں؟
اموال غنیمت وغیرہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک فیصلہ دے دیا کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ لہٰذا تمہیں اس میں جھگڑا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال کے متعلق جو فیصلہ کرے گا وہی تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ سیدنا سعدؓ فرماتے ہیں کہ بدر کے دن میں ایک تلوار لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہ! اللہ نے مشرکین (کو قتل کرنے) سے میرا سینہ ٹھنڈا کر دیا۔ یا کچھ ایسے ہی الفاظ کہے اور کہا کہ یہ تلوار آپ مجھے ہی دے دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یہ تلوار میری ہے نہ تیری ہے۔“ میں نے (دل میں) کہا: ہو سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تلوار کسی ایسے آدمی کو دے دیں۔ جس نے مجھ جیسی محنت نہ کی ہو، پھر میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کہا کہ: تو نے مجھ سے تلوار مانگی تھی۔ اس وقت وہ میری نہ تھی اور اب مجھے اختیار دیا گیا ہے۔ لہٰذا وہ تمہیں دیتا ہوں۔ اس وقت یہ آیت اتری۔ [ترمذي، ابواب التفسير، مسلم، كتاب الجهاد والسيه، باب الانفال]
اور اموال غنیمت کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق قرار دینے کی وجہ یہ تھی کہ غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح خالصتاً اللہ کی مدد اور مہربانی سے حاصل ہوئی تھی۔ جیسا کہ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ پھر اسی سورۃ کی آیت نمبر 41 کی رو سے اموال غنیمت میں پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مقرر کیا گیا اور باقی 5؍4 مجاہدین میں برابر تقسیم کا حکم دیا گیا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ اللہ نے مال غنیمت ہمارے ہاتھوں سے نکال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں دے دیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو برابر تقسیم کردیا [حاكم، كتاب التفسير] رہے اموال فئ، اموال سلب اور متفرق اموال تو ان کے الگ الگ احکام ہیں جو اپنے اپنے موقعہ پر بیان ہوں گے۔
[4] یعنی اموال غنیمت کے جھگڑے میں پڑ کر اپنے تعلقات خراب نہ کرلو۔ بلکہ اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کے حکم کو تسلیم کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال کو جس طرح تقسیم کرے اسے قبول کرو اور ہر کام میں اس کی اطاعت کو اپنا شعار بنا لو اور اگر تم فی الواقع اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہو تو تمہیں برضا و رغبت ان احکام کو تسلیم کر لینا چاہیے۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

بخاری شریف میں ہے ٭٭
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں سورۃ الانفال غزوہ بدر کے بارے میں اتری ہے۔۱؎ [صحیح بخاری:4645]‏‏‏‏ فرماتے ہیں انفال سے مراد غنیمتیں ہیں۔ ۱؎ [صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ الانفال باب:1]‏‏‏‏ جو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی تھیں ان میں سے کوئی چیز کسی اور کیلئے نہ تھی۔ آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا گھوڑا بھی انفال میں سے ہے اور سامان بھی۔ سائل نے پھر پوچھا آپ نے پھر یہی جواب دیا اس نے پھر پوچھا کہ جس انفال کا ذکر کتاب اللہ میں ہے اس سے کیا مراد ہے؟ غرض پوچھتے پوچھتے آپ کو تنگ کر دیا تو آپ نے فرمایا اس کا یہ کرتوت اس سے کم نہیں جسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مارا تھا۔۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:168/6]‏‏‏‏
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے جب سوال ہوتا تو آپ فرماتے نہ تجھے حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں واللہ حق تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے والا حکم فرمانے والا حلال حرام کی وضاحت کرنے والا ہی بنا کر بھیجا ہے۔ آپ نے اس سائل کو جواب دیا کہ کسی کسی کو بطور نفل [مال غنیمت]‏‏‏‏ گھوڑا بھی ملتا اور ہتھیار بھی۔ دو تین دفعہ اس نے یہی سوال کیا جس سے آپ غضبناک ہو گئے اور فرمانے لگے یہ تو ایسا ہی شخص ہے جسے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کوڑے لگائے تھے یہاں تک کہ اس کی ایڑیاں اور ٹخنے خون آلود ہو گئے تھے۔ اس پر سائل کہنے لگا کہ خیر آپ سے تو اللہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا بدلہ لے ہی لیا۔ الغرض سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نزدیک تو یہاں نفل سے مراد پانچویں حصے کے علاوہ وہ انعامی چیزیں ہیں جو امام اپنے سپاہیوں کو عطا فرمائے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پانچویں حصے کا مسئلہ پوچھا جو چار ایسے ہی حصوں کے بعد رہ جائے۔ پس یہ آیت اتری۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:168/6]‏‏‏‏
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں لڑائی والے دن اس سے زیادہ امام نہیں دے سکتا بلکہ لڑائی کے شروع سے پہلے اگر چاہے دیدے۔ عطا فرماتے ہیں کہ یہاں مراد مشرکوں کا وہ مال ہے جو بے لڑے بھڑے مل جائے خواہ جانور ہو خواہ لونڈی غلام یا اسباب ہو پس وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی تھا آپ کو اختیار تھا کہ جس کام میں چاہیں لگا لیں تو گویا ان کے نزدیک مال فے انفال ہے۔۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:169/6]‏‏‏‏ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد لشکر کے کسی رسالے کو بعوض ان کی کارکردگی یا حوصلہ افزائی کے امام انہیں عام تقسیم سے کچھ زیادہ دے اسے انفال کہا جاتا ہے۔
مسند احمد میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بدر والے دن جب میرے بھائی عمیر قتل کئے گئے میں نے سعید بن العاص کو قتل کیا اور اس کی تلوار لے لی جسے ذوالکتیعہ کہا جاتا تھا سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { جاؤ اسے باقی مال کے ساتھ رکھ آؤ۔ } میں نے حکم کی تعمیل تو کر لی لیکن اللہ ہی کو معلوم ہے کہ اس وقت میرے دل پر کیا گذری۔
ایک طرف بھائی کے قتل کا صدمہ دوسری طرف اپنا حاصل کردہ سامان واپس ہونے کا صدمہ۔ ابھی میں چند قدم ہی چلا ہوں گا جو سورۃ الانفال نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: { جاؤ اور وہ تلوار جو تم ڈال آئے ہو لے جاؤ }۔ ۱؎ [مسند احمد:180/1:حسن لغیرہ]‏‏‏‏
مسند میں سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آج کے دن اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکوں سے بچا لیا اب آپ یہ تلوار مجھے دے دیجئیے آپ نے فرمایا: { سنو نہ یہ تمہاری ہے نہ میری ہے۔ اسے بیت المال میں داخل کر دو }،میں نے رکھ دی اور میرے دل میں خیال آیا کہ آج جس نے مجھ جیسی محنت نہیں کی اسے یہ انعام مل جائے گا یہ کہتا ہوا جا ہی رہا تھا جو آواز آئی کہ کوئی میرا نام لے کر میرے پیچھے سے مجھے پکار رہا ہے لوٹا اور پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہیں میرے بارے میں کوئی وحی نہیں اتری؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { ہاں تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی اس وقت وہ میری نہ تھی اب وہ مجھے دے دی گئی اور میں تمہیں دے رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ہے۔ } } ۱؎ [سنن ابوداود:2740،قال الشيخ الألباني:حسن]‏‏‏‏
پس آیت «‏‏‏‏يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَنْفَالِ ۭقُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُوْلِ ۚ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۠ وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗٓ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ» ۱؎ [8-الأنفال:1]‏‏‏‏، اس بارے میں اتری ہے جو ابوداؤد طیالسی میں انہی سے مروی ہے کہ { میرے بارے میں چار آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ مجھے بدر والے دن ایک تلوار ملی میں اسے لے کر سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ تلوار آپ مجھے عنایت فرمائیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { جاؤ جہاں سے لی ہے وہیں رکھ دو }۔ میں نے پھر طلب کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جواب دیا۔ میں نے پھر مانگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایا۔ اسی وقت یہ آیت اتری۔}
یہ پوری حدیث ہم نے آیت «‏‏‏‏وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْـنًا ۭ وَاِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۭ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ» ‏‏‏‏ ۱؎ [29- العنكبوت: 8]‏‏‏‏، کی تفسیر میں وارد کی ہے۔ پس ایک تو یہ آیت دوسری آیت «يٰٓاَيُّھَاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ» ۱؎ [5- المآئدہ: 90]‏‏‏‏، چوتھی آیت وصیت۔ ۱؎ [صحیح مسلم:1748]‏‏‏‏
سیرت ابن اسحاق میں ہے ابوسعید مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی میں مجھے سیف بن عاند کی تلوار ملی جسے مرزبان کہا جاتا تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ جو کچھ جس کسی کے پاس ہو وہ جمع کرا دے، میں بھی گیا اور وہ تلوار رکھ آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگتا تو آپ انکار نہ کرتے۔ ارقم بن ارقم خزاعی رضی اللہ عنہ نے اس تلوار کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کا سوال کیا آپ نے انہیں عطا فرما دی۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:15672]‏‏‏‏
اس آیت کے نزول کا سبب مسند امام احمد میں ہے کہ ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے عبادہ رضی اللہ عنہ سے انفال کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا ہم بدریوں کے بارے میں ہے جبکہ ہم مال کفار کے بارے میں باہم اختلاف کرنے لگے اور جھگڑے بڑھ گئے تو یہ آیت اتری اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہو گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مال کو برابری سے تقسیم فرمایا۔۱؎ [مسند احمد:319/5:حسن لغیرہ]‏‏‏‏
مسند احمد میں ہے کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں غزوۂ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔۱؎ [مسند احمد:324/5:حسن لغیرہ]‏‏‏‏ ہم غزوہ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دے دی ہماری ایک جماعت نے تو ان کا تعاقب کیا کہ پوری ہزیمت دیدے دوسری جماعت نے مال غنیمت میدان جنگ سے سمیٹنا شروع کیا اور ایک جماعت اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد کھڑی ہو گئی کہ کہیں کوئی دشمن آپ کو کوئی ایذاء نہ پہنچائے۔ رات کو سب لوگ جمع ہوئے اور ہر جماعت اپنا حق اس مال پر جتانے لگی۔ پہلی جماعت نے کہا دشمنوں کو ہم نے ہی ہرایا ہے۔ دوسری جماعت نے کہا مال غنیمت ہمارا ہی سمیٹا ہوا ہے۔ تیسری جماعت نے کہا ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکیداری کی ہے پس یہ آیت اتری اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس مال کو ہم میں تقسیم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ حملے کی موجودگی میں چوتھائی بانٹتے اور لوٹتے وقت تہائی آپ انفال کو مکروہ سمجھتے۔۱؎ [سنن ترمذي:1561،قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏
ابن مردویہ میں ہے کہ بدر والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ { جو ایسا کرے اسے یہ انعام اور جو ایسا کرے اسے یہ انعام۔ } اب نوجوان تو دوڑ پڑے اور کار نمایاں انجام دیئے۔ بوڑھوں نے مورچے تھامے اور جھنڈوں تلے رہے۔ اب جوانوں کا مطالبہ تھا کہ کل مال ہمیں ملنا چاہیئے بوڑھے کہتے تھے کہ لشکر گاہ کو ہم نے محفوظ رکھا تم اگر شکست اٹھاتے تو یہیں آتے۔
اسی جھگڑے کے فیصلے میں یہ آیت اتری۔۱؎ [سنن ابوداود:2737،قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏ مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہو گیا تھا کہ { جو کسی کافر کو قتل کرے اسے اتنا ملے گا اور جو کسی کافر کو قید کرے اسے اتنا ملے گا۔} ابوالیسر رضی اللہ عنہ دو قیدی پکڑ لائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وعدہ یاد دلایا اس پر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر تو ہم سب یونہی رہ جائیں گے۔ بزدلی یا بے طاقتی کی وجہ سے ہم آگے نہ بڑھے ہوں یہ بات نہیں بلکہ اس لیے کہ پچھلی جانب سے کفار نہ آ پڑیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اس لیے ہم آپ کے اردگرد رہے، اسی جھگڑے کے فیصلے میں یہ آیت اتری اور آیت «وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ باللّٰهِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ ۭوَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ» ۱؎ [8- الانفال: 41]‏‏‏‏، بھی اتری۔
امام ابو عبیداللہ قاسم بن سلام نے اپنی کتاب احوال الشرعیہ میں لکھا ہے کہ انفال غنیمت ہے اور حربی کافروں کے جو مال مسلمانوں کے قبضے میں آئیں وہ سب ہیں پس انفال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں تھے بدر والے دن بغیر پانچواں حصہ نکالے جس طرح اللہ نے آپ کو سمجھایا آپ نے مجادین میں تقسیم کیا اس کے بعد پانچواں حصہ نکالنے کے حکم کی آیت اتری ۱؎ [سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:0000،۔]‏‏‏‏ اور یہ پہلا حکم منسوخ ہو گیا لیکن ابن زید وغیرہ اسے منسوخ نہیں بتلاتے بلکہ محکم کہتے ہیں۔ انفال غنیمت کی جمع ہے مگر اس میں سے پانجواں حصہ مخصوص ہے۔ اس کی اہل کیلئے جیسے کہ کتاب اللہ میں حکم ہے اور جیسے کہ سنت رسول اللہ جاری ہوئی ہے۔
انفال کے معنی کلام عرب میں ہر اس احسان کے ہیں جسے کوئی بغیر کسی پابندی یا وجہ کے دوسرے کے ساتھ کرے۔ پہلے کی تمام امتوں پر یہ مال حرام تھے اس امت پر اللہ نے رحم فرمایا اور مال غنیمت ان کے لیے حلال کیا۔
چنانچہ بخاری و مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں پھر ان کے ذکر میں ایک یہ ہے کہ آپ نے فرمایا میرے لیے غنیمتیں حلال کی گئیں مجھ سے پہلے کسی کو حلال نہ تھیں۔ } ۱؎ [صحیح بخاری:335]‏‏‏‏
امام ابو عبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام جن لشکریوں کو کوئی انعام دے جو اس کے مقررہ حصہ کے علاوہ ہو اسے نفل کہتے ہیں غنیمت کے انداز اور اس کے کارنامے کے صلے کے برابر یہ ملتا ہے۔ اس نفل کی چار صورتیں ہیں ایک تو مقتول کا مال اسباب وغیرہ جس میں سے پانچواں حصہ نہیں نکالا جاتا۔ دوسرے وہ نفل جو پانچواں حصہ علیحدہ کرنے کے بعد دیا جاتا ہے۔ مثلاً امام نے کوئی چھوٹا سا لشکر کسی دشمن پر بھیج دیا وہ غنیمت یا مال لے کر پلٹا تو امام اس میں سے اسے چوتھائی یا تہائی بانٹ دے تیسرے صورت یہ کہ جو پانچواں حصہ نکال کر باقی کا تقسیم ہو چکا ہے، اب امام بقدر خزانہ اور بقدر شخصی جرات کے اس میں سے جسے جتنا چاہے دے۔ چوتھی صورت یہ کہ امام پانچواں حصہ نکالنے سے پہلے ہی کسی کو کچھ دے مثلاً چرواہوں کو، سائیسوں کو، بہشتیوں کو وغیرہ۔ پھر ہر صورت میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ نکالنے سے پہلے جو سامان اسباب مقتولین کا مجاہدین کو دیا جائے وہ انفال میں داخل ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا حصہ پانچویں حصے میں سے پانچواں جو تھا اس میں سے آپ جسے جاہیں جتنا چاہیں عطا فرمائیں یہ نفل ہے۔
پس امام کو چاہیئے کہ دشمنوں کی کثرت مسلمانوں کی قلت اور ایسے ہی ضروری وقتوں میں اس سنت کی تابعیداری کرے۔ ہاں جب ایسا موقع نہ ہو تو نفل ضروری نہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ امام ایک چھوٹی سی جماعت کہیں بھیجتا ہے اور ان سے کہدیتا ہے کہ جو شخص جو کچھ حاصل کرے پانچواں حصہ نکال کر باقی سب اسی کا ہے تو وہ سب انہی کا ہے کیونکہ انہوں نے اسی شرط پر غزوہ کیا ہے اور یہ رضا مندی سے طے ہو چکی ہے۔ لیکن ان کے اس بیان میں جو کہا گیا ہے کہ بدر کی غنیمت کا پانچواں حصہ نہیں نکالا گیا۔ اس میں ذرا کلام ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ دو اونٹنیاں وہ ہیں جو انہیں بدر کے دن پانچویں حصے میں ملی تھیں میں نے اس کا پورا بیان کتاب السیرہ میں کر دیا ہے۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ۔
قولہ تعالیٰ «يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ» ’ تم اپنے کاموں میں اللہ کا ڈر رکھو، آپس میں صلح و صفائی رکھو، ظلم، جھگڑے اور مخالفت سے باز آ جاؤ۔ جو ہدایت و علم اللہ کی طرف سے تمہیں ملا ہے اس کی قدر کرو۔ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو، عدل و انصاف سے ان مالوں کو تقسیم کرو۔ پرہیزگاری اور صلاحیت اپنے اندر پیدا کرو ‘۔ سدی رحمة الله کہتے ہیں کہ «وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ» کے معنی ہیں کہ آپس میں لڑو جھگرو نہیں اور گالی گلوچ نہ بکو۔
مسند ابویعلیٰ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے ایک مرتبہ مسکرائے اور پھر ہنس دیئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں، کیسے ہنس دیئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { میری امت کے دو شخص اللہ رب العزت کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے ایک نے کہا اللہ میرے بھائی سے میرے ظلم کا بدلہ لے اللہ نے اس سے فرمایا ٹھیک ہے اسے بدلہ دے اس نے کہا اللہ میرے پاس تو نیکیاں اب باقی نہیں رہیں اس نے کہا پھر اللہ میری برائیاں اس پر لا دھ دے۔}
اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو نکل آئے اور فرمانے لگے { وہ دن بڑا ہی سخت ہے لوگ چاہتے ہوں گے تلاش میں ہوں گے کہ کسی پر ان کا بوجھ لادھ دیا جائے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے طالب اپنی نگاہ اٹھا اور ان جنتیوں کو دیکھ وہ دیکھے گا اور کہے گا چاندی کے قلعے اور سونے کے محل میں دیکھ رہا ہوں جو لؤ لؤ اور موتیوں سے جڑاؤ کئے ہوئے ہیں پروردگار مجھے بتایا جائے کہ یہ مکانات اور یہ درجے کسی نبی کے ہیں یا کسی صدیق کے یا کسی شہید کے؟ اللہ فرمائے گا یہ اس کے ہیں جو ان کی قیمت ادا کر دے۔ وہ کہے گا اللہ کس سے ان کی قیمت ادا ہو سکے گی؟ فرمائے گا تیرے پاس تو اس کی قیمت ہے وہ خوش ہو کر پوچھے گا کہ پروردگار کیا؟ اللہ فرمائے گا یہی کہ تیرا جو حق اس مسلمان پر ہے تو اسے معاف کر دے، بہت جلد کہے گا کہ اللہ میں نے معاف کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہو گا کہ اب اس کا ہاتھ تھام لے اور تم دونوں جنت میں چلے جاؤ۔ } پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کا آخری حصہ تلاوت فرمایا کہ { اللہ سے ڈرو اور آپس کی اصلاح کرو دیکھو اللہ تعالیٰ خود قیامت کے دن مومنوں میں صلح کرائے گا۔}۱؎ [سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:0000،۔]‏‏‏‏

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل