اَلَمۡ نُہۡلِکِ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿ؕ۱۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کیا ہم نے پہلوں کو ہلاک نہیں کیا؟
ترجمہ فتح محمد جالندھری
کیا ہم نے پہلے لوگوں کو ہلاک نہیں کر ڈالا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
کیا ہم نے اگلوں کو ہلاک نہیں کیا؟
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 16تا19){ اَلَمْ نُهْلِكِ الْاَوَّلِيْنَ …:} رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے پہلے کے کفار کو {” الْاَوَّلِيْنَ “} فرمایا، جن میں نوح علیہ السلام کے زمانے کے کفار سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے تمام کفار شامل ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد تمام زمانوں کے کفار کو {” الْاٰخِرِيْنَ “} فرمایا۔ پہلے لوگوں کی بربادی کا سبب بھی یہ تھا کہ وہ آخرت پر یقین نہیں رکھتے تھے اور اس دنیا کی زندگی ہی کو اصل زندگی سمجھتے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ آخر کار تباہ و برباد ہو گئے۔ اب بھی یہی قانون ہے کہ جو قوم آخرت کا انکار کرے گی تباہ و برباد ہو گی۔ قیامت کے دن ایسے لوگوں پر جو ہلاکت آئے گی وہ اس دنیاوی بربادی کے علاوہ ہے اور ان کی اصل بربادی کا دن وہی ہو گا۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
حسرت و افسوس کا وقت آنے سے پہلے ٭٭
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ تم سے پہلے بھی جن لوگوں نے میرے رسولوں کی رسالت کو جھٹلایا میں نے انہیں نیست و نابود کر دیا پھر ان کے بعد اور لوگ آئے انہوں نے بھی ایسا ہی کیا اور ہم نے بھی انہیں اسی طرح غارت کر دیا ہم مجرموں کی غفلت کا یہی بدلہ دیتے چلے آئے ہیں، اس دن ان جھٹلانے والوں کی درگت ہو گی ‘۔
پھر اپنی مخلوق کو اپنا احسان یاد دلاتا ہے اور منکرین قیامت کے سامنے دلیل پیش کرتا ہے کہ ’ ہم نے اسے حقیر اور ذلیل قطرے سے پیدا کیا جو خالق کائنات کی قدرت کے سامنے ناچیز محض تھا ‘، جیسے سورۃ یس کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ ’ اے ابن آدم بھلا تو مجھے کیا عاجز کر سکے گا میں نے تو تجھے اسی جیسی چیز سے پیدا کیا ہے، پھر اس قطرے کو ہم نے رحم میں جمع کیا جو اس پانی کے جمع ہونے کی جگہ ہے اسے بڑھاتا ہے اور محفوظ رکھتا ہے، مدت مقررہ تک وہ وہیں رہا یعنی چھ مہینے یا نو مہینے، ہمارے اس اندازے کو دیکھو کہ کس قدر صحیح اور بہترین ہے، پھر بھی اگر تم اس آنے والے دن کو نہ مانو گے تو یقین جانو کہ تمہیں قیامت کے دن بڑی حسرت اور سخت افسوس ہو گا ‘۔
پھر فرمایا ’ کیا ہم نے زمین کو یہ خدمت سپرد نہیں کی؟ کہ وہ تمہیں زندگی میں بھی اپنی پیٹھ پر چلاتی رہے اور موت کے بعد بھی تمہیں اپنے پیٹ میں چھپا رکھے، پھر زمین کے نہ ہلنے جلنے کے لیے ہم نے مضبوط وزنی بلند پہاڑ اس میں گاڑ دیئے اور بادلوں سے برستا ہوا اور چشموں سے رستا ہوا ہلکا زود ہضم، خوش گوار پانی ہم نے تمہیں پلایا، ان نعمتوں کے باوجود بھی اگر تم میری باتوں کو جھٹلاتے ہی رہے تو یاد رکھو وہ وقت آ رہا ہے جب حسرت و افسوس کرو گے اور کچھ کام نہ آئے ‘۔
پھر اپنی مخلوق کو اپنا احسان یاد دلاتا ہے اور منکرین قیامت کے سامنے دلیل پیش کرتا ہے کہ ’ ہم نے اسے حقیر اور ذلیل قطرے سے پیدا کیا جو خالق کائنات کی قدرت کے سامنے ناچیز محض تھا ‘، جیسے سورۃ یس کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ ’ اے ابن آدم بھلا تو مجھے کیا عاجز کر سکے گا میں نے تو تجھے اسی جیسی چیز سے پیدا کیا ہے، پھر اس قطرے کو ہم نے رحم میں جمع کیا جو اس پانی کے جمع ہونے کی جگہ ہے اسے بڑھاتا ہے اور محفوظ رکھتا ہے، مدت مقررہ تک وہ وہیں رہا یعنی چھ مہینے یا نو مہینے، ہمارے اس اندازے کو دیکھو کہ کس قدر صحیح اور بہترین ہے، پھر بھی اگر تم اس آنے والے دن کو نہ مانو گے تو یقین جانو کہ تمہیں قیامت کے دن بڑی حسرت اور سخت افسوس ہو گا ‘۔
پھر فرمایا ’ کیا ہم نے زمین کو یہ خدمت سپرد نہیں کی؟ کہ وہ تمہیں زندگی میں بھی اپنی پیٹھ پر چلاتی رہے اور موت کے بعد بھی تمہیں اپنے پیٹ میں چھپا رکھے، پھر زمین کے نہ ہلنے جلنے کے لیے ہم نے مضبوط وزنی بلند پہاڑ اس میں گاڑ دیئے اور بادلوں سے برستا ہوا اور چشموں سے رستا ہوا ہلکا زود ہضم، خوش گوار پانی ہم نے تمہیں پلایا، ان نعمتوں کے باوجود بھی اگر تم میری باتوں کو جھٹلاتے ہی رہے تو یاد رکھو وہ وقت آ رہا ہے جب حسرت و افسوس کرو گے اور کچھ کام نہ آئے ‘۔