ترجمہ و تفسیر — سورۃ المرسلات (77) — آیت 1
وَ الۡمُرۡسَلٰتِ عُرۡفًا ۙ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
قسم ہے ان ( ہوائوں) کی جو جانے پہچانے معمول کے مطابق چھوڑی جاتی ہیں!
ترجمہ فتح محمد جالندھری
ہواؤں کی قسم جو نرم نرم چلتی ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
دل خوش کن چلتی ہواؤں کی قسم

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

اس سورت کی ابتدا میں چند قسموں کے بعد فرمایا: «‏‏‏‏اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَوَاقِعٌ» ‏‏‏‏ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے یقینا وہ ہو کر رہنے والی ہے۔ یعنی یہ قسمیں اس بات کا یقین دلانے کے لیے ذکر کی گئی ہیں کہ قیامت برحق ہے۔ ان آیات میں جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے ان کا ذکر نام لے کر نہیں کیا گیا بلکہ صرف ان کی صفات بیان کی گئی ہیں، وہ صفات کئی چیزوں میں پائی جاتی ہیں، اس لیے مفسرین نے مختلف چیزیں ان کا مصداق قرار دی ہیں۔ اکثر مفسرین نے ان کا مصداق ہواؤں کو قرار دیا ہے، بعض نے ان کا مصداق فرشتے قرار دیے ہیں اور بعض نے پہلی چار صفات ہواؤں کی اور آخری صفت{ فَالْمُلْقِيٰتِ ذِكْرًا (5) عُذْرًا اَوْ نُذْرًا } فرشتوں کی بیان کی ہے، مگر کلام کے تسلسل کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ تمام صفات ایک ہی چیز کی ہونی چاہییں اور زیادہ واضح یہی ہے کہ ان سے مراد ہوائیں ہیں، کیونکہ ان آیات میں جو صفات مذکور ہوئی ہیں قرآن مجید کے مختلف مقامات پر یہ صفات ہواؤں ہی کی بیان ہوئی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «‏‏‏‏اَللّٰهُ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهٗ فِي السَّمَآءِ كَيْفَ يَشَآءُ وَ يَجْعَلُهٗ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ» ‏‏‏‏ [الروم: ۴۸] اللہ وہ ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل کو اٹھاتی ہیں، پھر وہ اسے آسمان میں جس طرح چاہتا ہے پھیلا دیتا ہے اور اسے کئی ٹکڑے بنا دیتا ہے تو تم بارش کے قطرے اس کے درمیان سے نکلتے ہوئے دیکھتے ہو۔ اور فرمایا: «وَ لِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖۤ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا» ‏‏‏‏ [الأنبیاء: ۸۱] اور ہم نے سلیمان کے لیے تیز و تند ہوا تابع کر دی اور وہ اس کے حکم سے اس زمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی۔ علاوہ ازیں قیامت کے ثبوت کے لیے فرشتوں کے اوصاف پیش کرنے کے بجائے جو نظر ہی نہیں آتے، ایسی چیز پیش کرنا زیادہ مناسب ہے جو ہر شخص کو نظر آتی ہے۔
(آیت 1تا7){ وَ الْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا …: الْمُرْسَلٰتِ } یہ {اَلرِّيَاحُ} کی صفت ہے جو محذوف ہے، وہ ہوائیں جو چھوڑی گئی ہیں، بھیجی گئی ہیں۔ { عُرْفًا } یہ {نُكْرٌ} کی ضد ہے، جانی پہچانی چیز، بھلائی۔ گھوڑے کی گردن کے بالوں اور مرغ کی کلغی کو بھی {عُرْفٌ} کہتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں ایک سطر میں یکے بعد دیگرے ہوتی ہیں،اس لیے ان کی مشابہت سے پے در پے آنے والی چیزوں پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے، مثلاً: {جَاؤُوْا عُرْفًا وَاحِدًا} وہ سب پے در پے آگئے۔ { عُرْفًا } کا معنی اگر جانی پہچانی چیز کریں تو اس سے پہلے باء مقدر ہوگی: {أَيْ وَالْمُرْسَلَاتِ بِالْعُرْفِ} یعنی ان ہواؤں کی قسم جو جانے پہچانے معمول کے مطابق چھوڑی جاتی ہیں! اگر اس کا معنی بھلائی کریں تو اس سے پہلے لام مقدر ہو گا اور یہ مفعول لہ ہو گا: {أَيْ وَالْمُرْسَلَاتِ لِلْعُرْفِ} یعنی ان ہواؤں کی قسم جنھیں(لوگوں کی) بھلائی کے لیے چھوڑا جاتا ہے! اور اگر معنی پے در پے کریں تو { عُرْفًا } حال ہو گا، یعنی ان ہواؤں کی قسم جو پے در پے چھوڑی جاتی ہیں! تینوں معنی درست ہیں۔
قرآن مجید میں مذکور قسمیں عام طور پر اس دعویٰ کی دلیل ہوتی ہیں جو بعد میں مذکور ہوتا ہے۔ ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ ان پانچ صفات والی ہواؤں میں زبردست شہادت ہے کہ قیامت جس کا وعدہ دیا جاتا ہے، ضرور آنے والی ہے۔ آپ دیکھیں! ہوائیں کبھی نرم رفتار سے چلتی ہیں، پھر کبھی تند و تیز ہو کر آندھیاں بن جاتی ہیں، پھر بادلوں کو اٹھا کر لاتی اور پھیلا دیتی ہیں، پھر ان کے قطعے جدا جدا کرکے بارش برسانا شروع کر دیتی ہیں اور کہیں ایک قطرہ برسائے بغیر ہی آگے گزر جاتی ہیں۔ ہواؤں کے یہ مختلف اطوار کہ کبھی آہستہ چلنا، کبھی تند و تیز آندھی بن جانا، پھر بادلوں کو اٹھانا، انھیں پھیلا کر برسانا اورمنتشر کر دینا، کہیں خوف ناک طوفان کی صورت میں عذاب بن کر آنا وغیرہ، یہ سب کچھ دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آجاتا ہے۔ اسی طرح یہ ہوائیں دلوں میں اللہ کے ذکر کا القا کرتی ہیں اور اللہ کی طرف توجہ مبذول کرواتی ہیں، کبھی ترغیب کے ساتھ اور کبھی ترہیب کے ساتھ۔ ہوائیں اگر خوشگوار اور نفع بخش ہیں تو اللہ کی نعمت ہیں اور ان کا اثر بندے پر یہ پڑنا چاہیے کہ وہ شکر ادا کرے اور اپنے عمل کی کوتاہی کا عذر پیش کرے اور اگر اس کے برعکس خوف ناک طوفان اور بجلیوں کی صورت میں ہیں تو ان کا اثر بندے پر یہ ہونا چاہیے کہ وہ ڈر کر گناہوں سے توبہ کی طرف متوجہ ہو۔ ان مختلف اطوار والی ہواؤں کو پیدا کرنے والے اور ان کا بندوبست کرنے والے پروردگار کے لیے قیامت برپا کرنا اور تمام فوت شدہ لوگوں کو زندہ کر کے ان سے باز پرس کرنا کون سا مشکل کام ہے؟

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

دل خوش کن چلتی ہوئی ہواؤں کی قسم (1)

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

فرشتوں اور ہواؤں کی قسم ٭٭
بعض بزرگ صحابہ تابعین وغیرہ سے تو مروی ہے کہ مذکورہ بالا قسمیں ان اوصاف والے فرشتوں کی کھائی ہیں، بعض کہتے ہیں پہلے کی چار قسمیں تو ہواؤں کی ہیں اور پانچویں قسم فرشتوں کی ہے۔ بعض نے توقف کیا ہے کہ «وَالْمُرْسَلَاتِ» سے مراد یا تو فرشتے ہیں یا ہوائیں ہیں، ہاں «والْعَاصِفَاتِ» میں کہا ہے کہ اس سے مراد تو ہوائیں ہی ہیں، بعض «عاصفات» میں یہ فرماتے ہیں اور «نَّاشِرَاتِ» میں کوئی فیصلہ نہیں کرتے، یہ بھی مروی ہے کہ «نَّاشِرَاتِ» سے مراد بارش ہے، بہ ظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ «مُُرْسَلَاتِ» سے مراد ہوائیں ہے۔
جیسے اور جگہ فرمان باری «‏‏‏‏وَاَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاَسْقَيْنٰكُمُوْهُ وَمَآ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِيْنَ» ۱؎ [15-الحجر:22]‏‏‏‏ یعنی ’ ہم نے ہوائیں چلائیں جو ابر کو بوجھل کرنے والی ہیں ‘۔
اور جگہ ہے «وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ يُّرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرٰتٍ وَّلِيُذِيْقَكُمْ مِّنْ رَّحْمَتِهٖ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِاَمْرِهٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ» ۱؎ [30-الروم:46]‏‏‏‏ الخ ’ اپنی رحمت سے پیشتر اس کی خوشخبری دنیے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں وہ چلاتا ہے ‘۔
«عَاصِفَاتِ» سے بھی مراد ہوائیں ہیں، وہ نرم ہلکی اور بھینی بھینی ہوائیں تھیں یہ ذرا تیز جھونکوں والی اور آواز والی ہوائیں ہیں۔ «نَّاشِرَاتِ» سے مراد بھی ہوائیں ہیں جو بادلوں کو آسمان میں ہر چار سو پھیلا دیتی ہیں اور جدھر اللہ کا حکم ہوتا ہے انہیں لے جاتی ہیں۔
«فَارِقَاتِ» اور «مُلْقِيَاتِ» سے مراد البتہ فرشتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسولوں پر وحی لے کر آتے ہیں جس سے حق و باطل، حلال و حرام میں، ضالت و ہدایت میں امتیاز اور فرق ہو جاتا ہے تاکہ لوگوں کے عذر ختم ہو جائیں اور منکرین کو تنبیہ ہو جائے۔
ان قسموں کے بعد فرمان ہے کہ ’ جس قیامت کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے جس دن تم سب کے سب اول آخر والے اپنی اپنی قبروں سے دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور اپنے کرتوت کا پھل پاؤ گے نیکی کی جزا اور بدی کی سزا پاؤ گے، صور پھونک دیا جائے گا اور ایک چٹیل میدان میں تم سب جمع کر دئیے جاؤ گے یہ وعدہ یقیناً حق ہے اور ہو کر رہنے والا اور لازمی طور پر آنے والا ہے، اس دن ستاروں کا نور اور ان کی چمک دمک ماند پڑ جائے گی‘۔
جیسے فرمایا «‏‏‏‏وَاِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ» ۱؎ [81-التكوير:2]‏‏‏‏ اور جگہ فرمايا «‏‏‏‏وَاِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ» ۱؎ [82-الإنفطار:2]‏‏‏‏ ’ ستارے بے نور ہو کر گر جائیں گے اور آسمان پھٹ جائے گا ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے یہاں تک کہ نام نشان بھی باقی نہ رہے گا ‘۔
جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا» ۱؎ [20-طه:105]‏‏‏‏ اور فرمایا «وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا» ۱؎ [18-الكهف:47]‏‏‏‏، یعنی ’ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے اور اس دن وہ چلنے لگیں گے بالکل نام و نشان مٹ جائے گا اور زمین ہموار بغیر اونچ نیچے کی رہ جائے گی اور رسولوں کو جمع کیا جائے گا اس وقت مقررہ پر انہیں لایا جائے گا ‘۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ» ۱؎ [5-المائدة:109]‏‏‏‏ ’ اس دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع کرے گا اور ان سے شہادتیں لے گا ‘۔
جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْءَ بالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ» ۱؎ [39-الزمر:69]‏‏‏‏ ’ زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی، نامہ اعمال دے دیئے جائیں گے، نبیوں کو اور گواہوں کو لایا جائے گا اور حق و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے جائیں گے اور کسی پر ظلم نہ ہو گا ‘۔
پھر فرماتا ہے کہ ’ ان رسولوں کو ٹھہرایا گیا تھا اس لیے کہ قیامت کے دن فیصلے ہوں گے ‘۔
جیسے فرمایا «‏‏‏‏فَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ مُخْلِفَ وَعْدِهٖ رُسُلَهٗ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ ذو انْتِقَامٍ» ۱؎ [14-إبراھیم:47]‏‏‏‏ ’ یہ خیال نہ کر کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے وعدہ خلافی کرے گا، نہیں نہیں اللہ تعالیٰ بڑے غلبہ والا اور انتقام والا ہے، جس دن یہ زمین بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب کے سب اللہ واحد و قہار کے سامنے پیش ہو جائیں گے ‘۔
اسی کو یہاں فیصلے کا دن کہا گیا، پھر اس دن کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے فرمایا: ’ میرے معلوم کرائے بغیر اے نبی کریم تم بھی اس دن کی حقیقت سے باخبر نہیں ہو سکتے، اس دن ان جھٹلانے والوں کے لیے سخت خرابی ہے ‘۔
ایک غیر صحیح حدیث میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ { ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:3164،قال الشيخ الألباني:ضعیف]‏‏‏‏

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل