لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
نہیں، میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں!
ترجمہ فتح محمد جالندھری
ہم کو روز قیامت کی قسم
ترجمہ محمد جوناگڑھی
میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 2،1) ➊ {لَا اُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ…: ” الْقِيٰمَةِ “ ” قِيَامٌ“} مصدر ہے، کھڑا ہونا، تاء ”ایک دفعہ“ کا معنی ادا کرنے کے لیے ہے، یعنی آدمی کا ایک دفعہ کھڑا ہونا۔یہاں یہ تنبیہ کے لیے لائی گئی ہے کہ قیامت کا وقوع دفعتاً ہو گا۔ (راغب) {”يَوْمُ الْقِيَامَةِ“} کا معنی ہو گا ایک ہی دفعہ اٹھ کھڑے ہونے کا دن۔ {” اللَّوَّامَةِ “ ”لَامَ يَلُوْمُ“} سے مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی بہت ملامت کرنے والا، جیسے {”عَلَّامَةٌ“} اور {” فَهَّامَةٌ “} ہے۔
➋ {” لَاۤ اُقْسِمُ “} کا معنی یہ نہیں کہ میں قسم نہیں کھاتا، بلکہ {” لَا“} الگ ہے اور {” اُقْسِمُ “} الگ۔ معنی یہ ہے کہ نہیں، میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں۔ عرب کے ہاں یہ محاورہ عام ہے {”لاَ وَاللّٰهِ“} یعنی جب کوئی شخص انکار کر رہا ہو تو پہلے اس کے انکار کی نفی {”لَا“} سے کی جاتی ہے، پھر اپنی بات کی تاکید کے لیے قسم ذکر کی جاتی ہے۔ اردو میں بھی مخاطب کے غلط خیال کی تردید کے لیے ایسے ہی کہا جاتا ہے کہ نہیں، اللہ کی قسم! بات اس طرح ہے۔ کئی مفسرین نے فرمایا کہ {” لَا “} زائدہ ہے اورمعنی یہ ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں۔ مگر زائدہ ماننے کے بجائے بامعنی قرار دینا بلاغتِ قرآن کے زیادہ لائق ہے، جب کہ معنی بھی درست ہو رہا ہے اور پر زور ہو رہا ہے۔
➌ قرآن میں انسانی نفس کی تین قسموں کا ذکر کیا گیا ہے، ایک وہ جو اسے گناہ پر ابھارتا ہے، اس کا نام ”امارہ“ہے، جیساکہ فرمایا: «اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ» [یوسف: ۵۳] ” نفس تو برائی کا حکم دینے والا ہے۔ “دوسرا وہ نفس جو آدمی کو برائی پر ملامت کرتا ہے، اس کا نام ”لوامہ“ ہے۔ کوئی بھی شخص خواہ نیک ہو یا بد، نیک کام میں کوتاہی اور برے کام کے ارتکاب پر خود اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اسے عام طور پر اردو میں ضمیر کہتے ہیں۔ تیسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تمام باتوں پر یقین ہو اور ان کے حق ہونے پر اسے پورا اطمینان اور تسلی ہو، منافقین کی طرح شک و شبہ میں مبتلا نہ ہو، یہ ”نفس مطمئنہ “ ہے۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ یہ ایک ہی نفس کی مختلف وقتوں میں تین حالتیں ہیں۔
➍ {” بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ “} اور {” بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ “} کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ یہاں لفظوں میں مذکور نہیں، مگر بعد میں آنے والی آیات سے وہ بات خود بخود سمجھ میں آرہی ہے کہ وہ یہ ہے کہ ہم یقینا انسان کی ہڈیاں اکٹھی کرکے اسے دوبارہ زندہ کریں گے۔
➎ قسم سے مراد اس بات کی تاکید ہوتی ہے جس کے لیے قسم کھائی جاتی ہے، پھر بعض اوقات تاکید کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ چیز نہایت عظیم الشان ہوتی ہے جس کی قسم کھائی گئی ہے اور اس کی عظمت ہی بات کی تاکیدکے لیے کافی سمجھی جاتی ہے اور بعض اوقات قسم اپنے جواب قسم کی دلیل ہوتی ہے جس سے اس کی تاکید ہوتی ہے۔ یہاں قیامت کے دن کی قسم قیامت کے حق ہونے کی تاکید کے لیے اٹھائی گئی ہے، اس کی وجہ قیامت کی عظمت بھی ہے اور یہ بھی کہ روز قیامت اپنی دلیل خود ہے، جیساکہ سورۂ ص میں قرآن کے حق ہونے کے لیے خود قرآن کی قسم کھائی ہے، فرمایا: «صٓ وَ الْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ» [صٓ: ۱] ”صٓ۔ اس نصیحت والے قرآن کی قسم۔ “ اور نفس لوامہ کی قسم اس لیے کہ یہ بات انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے کہ اس کا نفس برے کام پر اسے ملامت کرتا ہے، قطع نظر اس سے کہ اس کے نزدیک اچھائی یا برائی کا معیار کیا ہے اور قطع نظر اس سے کہ وہ ضمیر کی اس ملامت کی پروا کرتا ہے یا نہیں؟ ملامت کرنے والا یہ نفس اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر حجت ہے کہ جس طرح تمھارا اپنا نفس خود تم سے باز پرس کر رہا ہے لازم ہے کہ ایک ایسا وقت آئے جب تمھارا پیدا کرنے والا تم سے باز ُپرس کرے۔
➋ {” لَاۤ اُقْسِمُ “} کا معنی یہ نہیں کہ میں قسم نہیں کھاتا، بلکہ {” لَا“} الگ ہے اور {” اُقْسِمُ “} الگ۔ معنی یہ ہے کہ نہیں، میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں۔ عرب کے ہاں یہ محاورہ عام ہے {”لاَ وَاللّٰهِ“} یعنی جب کوئی شخص انکار کر رہا ہو تو پہلے اس کے انکار کی نفی {”لَا“} سے کی جاتی ہے، پھر اپنی بات کی تاکید کے لیے قسم ذکر کی جاتی ہے۔ اردو میں بھی مخاطب کے غلط خیال کی تردید کے لیے ایسے ہی کہا جاتا ہے کہ نہیں، اللہ کی قسم! بات اس طرح ہے۔ کئی مفسرین نے فرمایا کہ {” لَا “} زائدہ ہے اورمعنی یہ ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں۔ مگر زائدہ ماننے کے بجائے بامعنی قرار دینا بلاغتِ قرآن کے زیادہ لائق ہے، جب کہ معنی بھی درست ہو رہا ہے اور پر زور ہو رہا ہے۔
➌ قرآن میں انسانی نفس کی تین قسموں کا ذکر کیا گیا ہے، ایک وہ جو اسے گناہ پر ابھارتا ہے، اس کا نام ”امارہ“ہے، جیساکہ فرمایا: «اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ» [یوسف: ۵۳] ” نفس تو برائی کا حکم دینے والا ہے۔ “دوسرا وہ نفس جو آدمی کو برائی پر ملامت کرتا ہے، اس کا نام ”لوامہ“ ہے۔ کوئی بھی شخص خواہ نیک ہو یا بد، نیک کام میں کوتاہی اور برے کام کے ارتکاب پر خود اس کا نفس اسے ملامت کرتا ہے کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ اسے عام طور پر اردو میں ضمیر کہتے ہیں۔ تیسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی تمام باتوں پر یقین ہو اور ان کے حق ہونے پر اسے پورا اطمینان اور تسلی ہو، منافقین کی طرح شک و شبہ میں مبتلا نہ ہو، یہ ”نفس مطمئنہ “ ہے۔ بعض اہل علم نے فرمایا کہ یہ ایک ہی نفس کی مختلف وقتوں میں تین حالتیں ہیں۔
➍ {” بِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ “} اور {” بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ “} کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ یہاں لفظوں میں مذکور نہیں، مگر بعد میں آنے والی آیات سے وہ بات خود بخود سمجھ میں آرہی ہے کہ وہ یہ ہے کہ ہم یقینا انسان کی ہڈیاں اکٹھی کرکے اسے دوبارہ زندہ کریں گے۔
➎ قسم سے مراد اس بات کی تاکید ہوتی ہے جس کے لیے قسم کھائی جاتی ہے، پھر بعض اوقات تاکید کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ چیز نہایت عظیم الشان ہوتی ہے جس کی قسم کھائی گئی ہے اور اس کی عظمت ہی بات کی تاکیدکے لیے کافی سمجھی جاتی ہے اور بعض اوقات قسم اپنے جواب قسم کی دلیل ہوتی ہے جس سے اس کی تاکید ہوتی ہے۔ یہاں قیامت کے دن کی قسم قیامت کے حق ہونے کی تاکید کے لیے اٹھائی گئی ہے، اس کی وجہ قیامت کی عظمت بھی ہے اور یہ بھی کہ روز قیامت اپنی دلیل خود ہے، جیساکہ سورۂ ص میں قرآن کے حق ہونے کے لیے خود قرآن کی قسم کھائی ہے، فرمایا: «صٓ وَ الْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ» [صٓ: ۱] ”صٓ۔ اس نصیحت والے قرآن کی قسم۔ “ اور نفس لوامہ کی قسم اس لیے کہ یہ بات انسان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہے کہ اس کا نفس برے کام پر اسے ملامت کرتا ہے، قطع نظر اس سے کہ اس کے نزدیک اچھائی یا برائی کا معیار کیا ہے اور قطع نظر اس سے کہ وہ ضمیر کی اس ملامت کی پروا کرتا ہے یا نہیں؟ ملامت کرنے والا یہ نفس اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر حجت ہے کہ جس طرح تمھارا اپنا نفس خود تم سے باز پرس کر رہا ہے لازم ہے کہ ایک ایسا وقت آئے جب تمھارا پیدا کرنے والا تم سے باز ُپرس کرے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی (1)۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
ہم سب اپنے اعمال کا خود آئینہ ہیں ٭٭
یہ کئی دفعہ بیان ہو چکا ہے کہ جس چیز پر قسم کھائی جائے اگر وہ رد کرنے کی چیز ہو تو قسم سے پہلے «لا» کا کلمہ نفی کی تائید کے لیے لانا جائز ہوتا ہے یہاں قیامت کے ہونے پر اور جاہلوں کے اس قول کی تردید پر قیامت نہ ہو گی قسم کھائی جا رہی ہے تو فرماتا ہے ’ قسم ہے قیامت کے دن کی اور قسم ہے ملامت کرنے والی جان کی ‘۔
حسن رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں قیامت کی قسم ہے اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم نہیں ہے، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں دونوں کی قسم ہے، حسن اور اعرج رحمہ اللہ علیہم کی قرأت «لَأُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ» ہے اس سے بھی حسن رحمہ اللہ کے قول کی تائید ہوتی ہے اس لیے کہ ان کے نزدیک پہلے کی قسم ہے اور دوسرے کی نہیں، لیکن صحیح قول یہی ہے کہ دونوں کی قسم کھائی ہے جیسے کہ قتادہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سعید بن جبیر رضی اللہ عنہما سے بھی یہی مروی ہے اور امام ابن جریر رحمہ اللہ کا مختار قول بھی یہی ہے۔ یوم قیامت کو تو ہر شخص جانتا ہی ہے۔
حسن رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں قیامت کی قسم ہے اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم نہیں ہے، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں دونوں کی قسم ہے، حسن اور اعرج رحمہ اللہ علیہم کی قرأت «لَأُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ» ہے اس سے بھی حسن رحمہ اللہ کے قول کی تائید ہوتی ہے اس لیے کہ ان کے نزدیک پہلے کی قسم ہے اور دوسرے کی نہیں، لیکن صحیح قول یہی ہے کہ دونوں کی قسم کھائی ہے جیسے کہ قتادہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سعید بن جبیر رضی اللہ عنہما سے بھی یہی مروی ہے اور امام ابن جریر رحمہ اللہ کا مختار قول بھی یہی ہے۔ یوم قیامت کو تو ہر شخص جانتا ہی ہے۔
«نفس لوامہ» کی تفسیر میں حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد مومن کا نفس ہے وہ ہر وقت اپنے تئیں ملامت ہی کرتا رہتا ہے کہ یوں کیوں کہہ دیا؟، یہ کیوں کھا لیا؟، یہ خیال دل میں کیوں آیا؟ ہاں فاسق، فاجر، غافل ہوتا ہے اسے کیا پڑی جو اپنے نفس کو روکے۔
یہ بھی مروی ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق قیامت کے دن اپنے تئیں ملامت کرے گی، خیر والے خیر کی کمی پر اور شر والے شر کے سرزد ہونے پر، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مذموم نفس ہے جو نافرمان ہو، فوت شدہ پر نادم ہونے والا اور اس پر ملامت کرنے والا۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ”یہ سب اقوال قریب قریب ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ نفس والا ہے جو نیکی کی کمی پر برائی کے ہو جانے پر اپنے نفس کو ملامت کرتا ہے اور فوت شدہ پر ندامت کرتا ہے۔“
پھر فرماتا ہے ’ کیا انسان یہ سوچے ہوئے ہے کہ ہم قیامت کے دن اس کی ہڈیوں کے جمع کرنے پر قادر نہ ہوں گے، یہ تو نہایت غلط خیال ہے ہم اسے متفرق جگہ سے جمع کر کے دوبارہ کھڑا کریں گے اور اس کی بالشت بالشت بنا دیں گے ‘۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں یعنی ”ہم قادر ہیں کہ اسے اونٹ یا گھوڑے کے تلوے کی طرح بنا دیں“، امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی ”دنیا میں بھی اگر ہم چاہتے اسے ایسا کر دیتے۔“
آیت کے لفظوں سے تو ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ «قَادِرِينَ» حال ہے «نَّجْمَعَ» سے یعنی کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے ہاں ہاں ہم عنقریب جمع کریں گے درآنحالیکہ ہمیں ان کے جمع کرنے کی قدرت ہے بلکہ اگر ہم چاہیں تو جتنا یہ تھا اس سے بھی کچھ زیادہ بنا کر اسے اٹھائیں اس کی انگلیوں کے سرے تک برابر کر کے پیدا کریں۔ ابن قتیبہ اور زجاج کے قول کے یہی معنی ہیں۔
پھر فرماتا ہے کہ انسان اپنے آگے فسق و فجور کرنا چاہتا ہے یعنی قدم بہ قدم بڑھ رہا ہے، امیدیں باندھے ہوئے ہے، کہتا جاتا ہے کہ گناہ کر تو لوں توبہ بھی ہو جائے گی قیامت کے دن سے جو اس کے آگے ہے کفر کرتا ہے، وہ گویا اپنے سر پر سوار ہو کر آگے بڑھ رہا ہے، ہر وقت یہی پایا جاتا ہے کہ ایک ایک قدم اپنے نفس کو اللہ کی معصیت کی طرف بڑھاتا جاتا ہے مگر جن پر رب کا رحم ہے۔
اکثر سلف کا قول اس آیت کی تفسیر میں یہی ہے کہ گناہوں میں جلدی کرتا ہے اور توبہ میں تاخیر کرتا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”جو یوم حساب کا منکر ہے“، ابن زید رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں اور یہی زیادہ ظاہر مراد ہے کیونکہ اس کے بعد ہی ہے کہ وہ پوچھتا ہے قیامت کب ہوگی، اس کا یہ سوال بھی بطور انکار کے ہے یہ جانتا ہے کہ قیامت کا آنا محال ہے۔
جیسے اور جگہ ہے «وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ قُل لَّكُم مِّيعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ» ۱؎ [34-سبأ:29،30]، ’ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتا دو کہ قیامت کب آئے گی؟ ان سے کہہ دے کہ اس کا ایک دن مقرر ہے جس سے نہ تم ایک ساعت آگے بڑھ سکو گے نہ پیچھے ہٹ سکو گے ‘۔
یہ بھی مروی ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق قیامت کے دن اپنے تئیں ملامت کرے گی، خیر والے خیر کی کمی پر اور شر والے شر کے سرزد ہونے پر، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مذموم نفس ہے جو نافرمان ہو، فوت شدہ پر نادم ہونے والا اور اس پر ملامت کرنے والا۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ”یہ سب اقوال قریب قریب ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ نفس والا ہے جو نیکی کی کمی پر برائی کے ہو جانے پر اپنے نفس کو ملامت کرتا ہے اور فوت شدہ پر ندامت کرتا ہے۔“
پھر فرماتا ہے ’ کیا انسان یہ سوچے ہوئے ہے کہ ہم قیامت کے دن اس کی ہڈیوں کے جمع کرنے پر قادر نہ ہوں گے، یہ تو نہایت غلط خیال ہے ہم اسے متفرق جگہ سے جمع کر کے دوبارہ کھڑا کریں گے اور اس کی بالشت بالشت بنا دیں گے ‘۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں یعنی ”ہم قادر ہیں کہ اسے اونٹ یا گھوڑے کے تلوے کی طرح بنا دیں“، امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی ”دنیا میں بھی اگر ہم چاہتے اسے ایسا کر دیتے۔“
آیت کے لفظوں سے تو ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ «قَادِرِينَ» حال ہے «نَّجْمَعَ» سے یعنی کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے ہاں ہاں ہم عنقریب جمع کریں گے درآنحالیکہ ہمیں ان کے جمع کرنے کی قدرت ہے بلکہ اگر ہم چاہیں تو جتنا یہ تھا اس سے بھی کچھ زیادہ بنا کر اسے اٹھائیں اس کی انگلیوں کے سرے تک برابر کر کے پیدا کریں۔ ابن قتیبہ اور زجاج کے قول کے یہی معنی ہیں۔
پھر فرماتا ہے کہ انسان اپنے آگے فسق و فجور کرنا چاہتا ہے یعنی قدم بہ قدم بڑھ رہا ہے، امیدیں باندھے ہوئے ہے، کہتا جاتا ہے کہ گناہ کر تو لوں توبہ بھی ہو جائے گی قیامت کے دن سے جو اس کے آگے ہے کفر کرتا ہے، وہ گویا اپنے سر پر سوار ہو کر آگے بڑھ رہا ہے، ہر وقت یہی پایا جاتا ہے کہ ایک ایک قدم اپنے نفس کو اللہ کی معصیت کی طرف بڑھاتا جاتا ہے مگر جن پر رب کا رحم ہے۔
اکثر سلف کا قول اس آیت کی تفسیر میں یہی ہے کہ گناہوں میں جلدی کرتا ہے اور توبہ میں تاخیر کرتا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”جو یوم حساب کا منکر ہے“، ابن زید رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں اور یہی زیادہ ظاہر مراد ہے کیونکہ اس کے بعد ہی ہے کہ وہ پوچھتا ہے قیامت کب ہوگی، اس کا یہ سوال بھی بطور انکار کے ہے یہ جانتا ہے کہ قیامت کا آنا محال ہے۔
جیسے اور جگہ ہے «وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ قُل لَّكُم مِّيعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ» ۱؎ [34-سبأ:29،30]، ’ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتا دو کہ قیامت کب آئے گی؟ ان سے کہہ دے کہ اس کا ایک دن مقرر ہے جس سے نہ تم ایک ساعت آگے بڑھ سکو گے نہ پیچھے ہٹ سکو گے ‘۔