قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
رات کو قیام کر مگر تھوڑا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی سی رات
ترجمہ محمد جوناگڑھی
رات (کے وقت نماز) میں کھڑے ہوجاؤ مگر کم
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 2تا4) ➊ {قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا …:} تھوڑا حصہ چھوڑ کر ساری رات کا قیام کر۔ {” نِصْفَهٗۤ “ ” الَّيْلَ “} سے بدل ہے، مگر اس {” الَّيْلَ “} سے جس میں سے {” قَلِيْلًا “} کا استثنا ہو چکا ہے۔ {” قَلِيْلًا “} کا لفظ چونکہ مجمل ہے، اس لیے اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر جس حصے کا قیام کرنا ہے وہ کتنا ہونا چاہیے۔ فرمایا رات کا نصف قیام کریں یا نصف سے کچھ کم کرلیں یا نصف سے زیادہ کرلیں۔ اس سورت کی آخری آیت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ان آیات کے نزول کے بعد رات کی دو تہائی کے قریب اور رات کے نصف اور رات کی تہائی کے برابر قیام کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ” نصف سے کچھ کم“ کا مطلب ثلث اور ”نصف سے زیادہ“ کا مطلب دو ثلث کے قریب ہے۔ {” مِنْهُ “} اور {” عَلَيْهِ “} کی ضمیریں { ” نِصْفَهٗۤ “ } کی طرف لوٹ رہی ہیں۔ اس تقریر سے وہ سوال حل ہو جاتا ہے کہ {” اِلَّا قَلِيْلًا “} کے بعد {” اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًا “} میں تکرار ہے۔ اس سوال کا ایک اور حل یہ ہے کہ {” قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا “} کا ترجمہ یہ کیا جائے کہ ”رات کا قیام کر مگر کسی رات رہ جائے تو مضائقہ نہیں۔“ {” نِصْفَهٗۤ “} سے یہ بیان شروع ہوتا ہے کہ رات کا کتنا حصہ قیام میں گزارنا ہے، یہ تفسیر بھی درست ہے۔
➋ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام اللیل کا حکم دے کر اس کی تاکید فرمائی ہے۔ تہجد، وتر، قیام رمضان اور تراویح سب قیام اللیل ہی کے نام ہیں۔ اہلِ علم میں اختلاف ہے کہ یہ نماز فرض ہے یا سنت اور اگر فرض ہے تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھی یا پوری امت پر فرض ہے؟قرطبی میں ہے کہ حسن اور ابنِ سیرین اس بات کے قائل ہیں کہ رات کو نماز ہر مسلم پر فرض ہے خواہ بکری کا دودھ دوہنے کے برابر پڑھے، مگر اکثر علماء فرماتے ہیں اور صحیح بھی یہی ہے کہ قیام اللیل امت پر فرض نہیں بلکہ یہ ایسی سنت ہے جس کی بہت تاکید کی گئی۔ سورۂ مزمل کے آخر میں فرمایا: «اِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ اَنَّكَ تَقُوْمُ اَدْنٰى مِنْ ثُلُثَيِ الَّيْلِ وَ نِصْفَهٗ وَ ثُلُثَهٗ وَ طَآىِٕفَةٌ مِّنَ الَّذِيْنَ مَعَكَ» [المزمل: ۲۰] یعنی آپ کے ساتھیوں کی ایک جماعت بھی آپ کے ساتھ اتنا قیام کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ صحابہ کی صرف ایک جماعت قیام کرتی تھی، اگر یہ فرض ہوتا تو ایک جماعت کے بجائے تمام صحابہ قیام کرتے۔
صحیحین میں طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سائل کو ارکان دین بتائے اور نمازوں میں سے دن رات میں صرف پانچ نمازیں فرض بتائیں، اس نے پوچھا: ”کیا مجھ پر اس کے علاوہ بھی کچھ فرض ہے؟“ تو آپ نے فرمایا: [لاَ، إِلاَّ أَنْ تَطَوَّعَ] [بخاري، الإیمان، باب الزکاۃ من الإسلام: ۴۶۔ مسلم: ۱۱] ”نہیں، الا یہ کہ تم اپنی خوشی سے پڑھو۔“ صحیحین ہی میں عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ ایک رمضان میں تین راتیں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جماعت کی صورت میں قیام میں شریک ہوتے رہے۔ چوتھی رات آپ باہر تشریف نہیں لائے اور فرمایا: [أَنِّيْ خَشِيْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ] [بخاري، التھجد، باب تحریض النبي صلی اللہ علیہ وسلم …: ۱۱۲۹۔ مسلم: ۷۶۱] ”میں اس بات سے ڈرا کہ تم پر (یہ نماز) فرض نہ ہو جائے۔“ اگر قیام اللیل فرض ہوتا تو آپ اس کے ان پر (یہ نماز) فر ض ہو جانے سے کیوں ڈرتے؟ رہی یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیام اللیل فرض تھا یا نہیں تو اس کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت (۷۹) کی تفسیر۔
فرض نہ ہونے کے باوجود قیام اللیل کی تاکید و فضیلت قرآن و حدیث میں بہت آئی ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوْبَةِ الصَّلَاةُ فِيْ جَوْفِ اللَّيْلِ] [مسلم، الصیام، باب فضل صوم المحرم: ۲۰۳ /۱۱۶۳] ”فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن اور متقی بندوں کی شان میں فرمایا: «تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ» [السجدۃ: ۱۶] ”ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔“ اور فرمایا: «كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ» [الذاریات: ۱۷] ”وہ رات کے تھوڑے حصے میں سویا کرتے تھے۔“ اور فرمایا: «وَ مِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ عَسٰۤى اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا» [بني إسرائیل: ۷۹] ”اور رات کے کچھ حصے میں پھر اس کے ساتھ بیدار رہ، اس حال میں کہ تیرے لیے زائد ہے۔ قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود پر کھڑا کرے۔“ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [مَنْ قَامَ بِعَشْرِ آيَاتٍ لَّمْ يُكْتَبْ مِنَ الْغَافِلِيْنَ وَمَنْ قَامَ بِمِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْقَانِتِيْنَ وَمَنْ قَامَ بِأَلْفِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْمُقَنْطِرِيْنَ] [أبو داوٗد، تفریع أبواب شھر رمضان، باب تحزیب القرآن: ۱۳۹۸، وقال الألباني صحیح] ”جو شخص دس آیات کے ساتھ قیام کرے وہ غافلین میں نہیں لکھا جاتا، جو سو آیات کے ساتھ قیام کرے وہ قانتین (عبادت گزاروں) میں لکھا جاتا ہے اور جو ہزار آیات کے ساتھ قیام کرے وہ مقنطرین (خزانے والوں) میں لکھا جاتا ہے۔“ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [رَحِمَ اللّٰهُ رَجُلاً قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلّٰی وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِيْ وَجْهِهَا الْمَاءَ، رَحِمَ اللّٰهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ وَأَيْقَظَتْ زَوْجَهَا فَإِنْ أَبٰی نَضَحَتْ فِيْ وَجْهِهِ الْمَاءَ] [أبوداوٗد، التطوع، باب قیام اللیل: ۱۳۰۸، وقال الألباني حسن صحیح] ”اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم کرے جو رات کو اٹھا، نماز پڑھی اور اپنی بیوی کو جگایا (اور اس نے بھی نماز پڑھی)، اگر اس نے انکار کیاتو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم کرے جو رات کو اٹھی اور نماز پڑھی، خاوند کو جگایا (اور اس نے بھی نماز پڑھی)، اگر اس نے انکار کیا تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔“
رات کے اوقات میں سے بھی رات کے آخری حصے میں قیام کی فضیلت زیادہ ہے۔ عمروبن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أَقْرَبُ مَا يَكُوْنُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِيْ جَوْفِ اللَّيْلِ الْآخِرِ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُوْنَ مِمَّنْ يَّذْكُرُ اللّٰهَ فِيْ تِلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ] [ترمذي، الدعوات، باب: ۳۵۷۹، و صححہ الألباني في صحیح الجامع] ”رب تعالیٰ بندے کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصے میں ہوتا ہے، اگر تو یہ کر سکے کہ اس وقت اللہ کا ذکر کرنے والوں میں سے ہو تو یہ کام کر۔“ قیام اللیل کا سب سے بہتر طریقہ داؤد علیہ السلام کا طریقہ ہے۔ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أَحَبُّ الصَّلاَةِ إِلَی اللّٰهِ صَلاَةُ دَاوٗدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَكَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيَقُوْمُ ثُلُثَهُ وَ يَنَامُ سُدُسَهُ] [بخاري، التھجد، باب من نام عند السحر: ۱۱۳۱] ”اللہ تعالیٰ کو نمازوں میں سے سب سے محبوب نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے، وہ رات کا نصف سو جاتے اور اس کا تیسرا حصہ قیام کرتے اور چھٹا حصہ سو جاتے۔“
➌ {” وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ “} اور قرآن کو ٹھہرٹھہر کر پڑھ۔ {” تَرْتِيْلًا “} مصدر تاکید کے لیے ہے، خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھ۔ اس میں بتایا ہے کہ رات کے قیام میں پڑھنا کیا ہے؟ سو حکم ہوا کہ قرآن پڑھیں اور خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ ترتیل میں کئی چیزیں شامل ہیں، ان میں سے پہلی یہ ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر پورے غور و فکر کے ساتھ تلاوت کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم کے مطابق خوب ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کیا کرتے تھے۔ حفصہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: [وَ كَانَ يَقْرَأُ بِالسُّوْرَةِ فَيُرَتِّلُهَا حَتّٰی تَكُوْنَ أَطْوَلَ مِنْ أَطْوَلَ مِنْهَا] [مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جواز النافلۃ قائمًا و قاعدًا…: ۷۳۳] ”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورت کی تلاوت کرتے اور اسے اتنا ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ اس سے لمبی سورت سے بھی لمبی ہو جاتی۔“ دوسری چیز جو ترتیل میں شامل ہے، یہ ہے کہ ہر لفظ الگ الگ سمجھ میں آئے، چنانچہ یعلیٰ بن مملک نے ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت اور نماز کے متعلق سوال کیا، انھوں نے پہلے آپ کی رات کی نماز کا حال بیان کیا: [ثُمَّ نَعَتَتْ قِرَاءَتَهٗ فَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ قِرَاءَةً مُّفَسَّرَةً حَرْفًا حَرْفًا] [ترمذي، فضائل القرآن، باب ما جاء کیف کانت قراء ۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم : ۲۹۲۳] ”پھر ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کی صفت بیان کی تو انھوں نے ایسی قراء ت بیان کی جس کا ایک ایک حرف واضح کیا گیا تھا۔“ تیسری چیز ہر آیت پرٹھہرنا ہے، بعض لوگ ایک ہی سانس میں وقف کے بغیر آیت کے ساتھ آیت ملائے جاتے ہیں اور اسے کمال سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ سنت کے خلاف ہے، جیسا کہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: [كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَطِّعُ قِرَاءَتَهٗ وَ فِيْ رِوَايَةِ أَبِيْ دَاوٗدَ: يُقَطِّعُ قِرَاءَتَهٗ آيَةً آيَةً يَقْرَأُ: «الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» ثُمَّ يَقِفُ «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ» ثُمَّ يَقِفُ] [ترمذي، القرائات، باب في فاتحۃ الکتاب: ۲۹۲۷۔ أبو داوٗد: ۴۰۰۱، وصححہ الألباني في صحیح الجامع الصغیر] ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قراء ت الگ الگ کر کے پڑھتے تھے۔“ اور ابو داؤد کی روایت میں ہے: ”آپ اپنی قراء ت ایک ایک آیت الگ کر کے پڑھتے تھے۔“ آپ {” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ “} پڑھتے اور ٹھہر جاتے، پھر {” الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “} پڑھتے اور ٹھہر جاتے۔“ چوتھی چیز یہ ہے کہ حروف مدّہ کو لمبا کرکے پڑھا جائے۔ قتادہ فرماتے ہیں: [سُئِلَ أَنَسٌ كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ كَانَتْ مَدًّا ثُمَّ قَرَأَ: «بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» يَمُدُّ بِبِسْمِ اللّٰهِ وَ يَمُدُّ بِالرَّحْمٰنِ وَ يَمُدُّ بِالرَّحِيْمِ] [بخاري، فضائل القرآن، باب مد القراءۃ: ۵۰۴۶] ”انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کیسی تھی؟ تو انھوں نے فرمایا: ”آپ کی قراء ت کھینچ کھینچ کر ہوتی تھی۔“ پھر انھوں نے {” بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “} پڑھی۔ وہ {” بِسْمِ اللّٰهِ “} کو لمبا کر کے پڑھتے تھے اور {” الرَّحْمٰنِ “} کو لمبا کرکے پڑھتے اور {”الرَّحِيْمِ “} کو لمبا کر کے پڑھتے تھے۔“ پانچویں یہ کہ قرآن کو خوب صورت لہجے اور خوش آوازی سے پڑھا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ] [بخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالٰی: {وأسروا قولکم…}: ۷۵۲۷] ”جو شخص قرآن کو خوبصورت لہجے اور خوش آوازی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔“ غرض ترتیل کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کو خوب غور و فکر کے ساتھ، ٹھہر ٹھہر کر، الفاظ کی واضح ادائیگی کے ساتھ اور حروف مدّہ کو لمبا کرکے جس قدر خوش آوازی کے ساتھ ہو سکے پڑھا جائے۔
➋ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام اللیل کا حکم دے کر اس کی تاکید فرمائی ہے۔ تہجد، وتر، قیام رمضان اور تراویح سب قیام اللیل ہی کے نام ہیں۔ اہلِ علم میں اختلاف ہے کہ یہ نماز فرض ہے یا سنت اور اگر فرض ہے تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھی یا پوری امت پر فرض ہے؟قرطبی میں ہے کہ حسن اور ابنِ سیرین اس بات کے قائل ہیں کہ رات کو نماز ہر مسلم پر فرض ہے خواہ بکری کا دودھ دوہنے کے برابر پڑھے، مگر اکثر علماء فرماتے ہیں اور صحیح بھی یہی ہے کہ قیام اللیل امت پر فرض نہیں بلکہ یہ ایسی سنت ہے جس کی بہت تاکید کی گئی۔ سورۂ مزمل کے آخر میں فرمایا: «اِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ اَنَّكَ تَقُوْمُ اَدْنٰى مِنْ ثُلُثَيِ الَّيْلِ وَ نِصْفَهٗ وَ ثُلُثَهٗ وَ طَآىِٕفَةٌ مِّنَ الَّذِيْنَ مَعَكَ» [المزمل: ۲۰] یعنی آپ کے ساتھیوں کی ایک جماعت بھی آپ کے ساتھ اتنا قیام کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ صحابہ کی صرف ایک جماعت قیام کرتی تھی، اگر یہ فرض ہوتا تو ایک جماعت کے بجائے تمام صحابہ قیام کرتے۔
صحیحین میں طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سائل کو ارکان دین بتائے اور نمازوں میں سے دن رات میں صرف پانچ نمازیں فرض بتائیں، اس نے پوچھا: ”کیا مجھ پر اس کے علاوہ بھی کچھ فرض ہے؟“ تو آپ نے فرمایا: [لاَ، إِلاَّ أَنْ تَطَوَّعَ] [بخاري، الإیمان، باب الزکاۃ من الإسلام: ۴۶۔ مسلم: ۱۱] ”نہیں، الا یہ کہ تم اپنی خوشی سے پڑھو۔“ صحیحین ہی میں عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ ایک رمضان میں تین راتیں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جماعت کی صورت میں قیام میں شریک ہوتے رہے۔ چوتھی رات آپ باہر تشریف نہیں لائے اور فرمایا: [أَنِّيْ خَشِيْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ] [بخاري، التھجد، باب تحریض النبي صلی اللہ علیہ وسلم …: ۱۱۲۹۔ مسلم: ۷۶۱] ”میں اس بات سے ڈرا کہ تم پر (یہ نماز) فرض نہ ہو جائے۔“ اگر قیام اللیل فرض ہوتا تو آپ اس کے ان پر (یہ نماز) فر ض ہو جانے سے کیوں ڈرتے؟ رہی یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیام اللیل فرض تھا یا نہیں تو اس کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت (۷۹) کی تفسیر۔
فرض نہ ہونے کے باوجود قیام اللیل کی تاکید و فضیلت قرآن و حدیث میں بہت آئی ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوْبَةِ الصَّلَاةُ فِيْ جَوْفِ اللَّيْلِ] [مسلم، الصیام، باب فضل صوم المحرم: ۲۰۳ /۱۱۶۳] ”فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔“ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن اور متقی بندوں کی شان میں فرمایا: «تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ» [السجدۃ: ۱۶] ”ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، اپنے رب کو ڈرتے ہوئے اور امید کرتے ہوئے پکارتے ہیں اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔“ اور فرمایا: «كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ» [الذاریات: ۱۷] ”وہ رات کے تھوڑے حصے میں سویا کرتے تھے۔“ اور فرمایا: «وَ مِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ عَسٰۤى اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا» [بني إسرائیل: ۷۹] ”اور رات کے کچھ حصے میں پھر اس کے ساتھ بیدار رہ، اس حال میں کہ تیرے لیے زائد ہے۔ قریب ہے کہ تیرا رب تجھے مقام محمود پر کھڑا کرے۔“ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [مَنْ قَامَ بِعَشْرِ آيَاتٍ لَّمْ يُكْتَبْ مِنَ الْغَافِلِيْنَ وَمَنْ قَامَ بِمِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْقَانِتِيْنَ وَمَنْ قَامَ بِأَلْفِ آيَةٍ كُتِبَ مِنَ الْمُقَنْطِرِيْنَ] [أبو داوٗد، تفریع أبواب شھر رمضان، باب تحزیب القرآن: ۱۳۹۸، وقال الألباني صحیح] ”جو شخص دس آیات کے ساتھ قیام کرے وہ غافلین میں نہیں لکھا جاتا، جو سو آیات کے ساتھ قیام کرے وہ قانتین (عبادت گزاروں) میں لکھا جاتا ہے اور جو ہزار آیات کے ساتھ قیام کرے وہ مقنطرین (خزانے والوں) میں لکھا جاتا ہے۔“ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [رَحِمَ اللّٰهُ رَجُلاً قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلّٰی وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِيْ وَجْهِهَا الْمَاءَ، رَحِمَ اللّٰهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ وَأَيْقَظَتْ زَوْجَهَا فَإِنْ أَبٰی نَضَحَتْ فِيْ وَجْهِهِ الْمَاءَ] [أبوداوٗد، التطوع، باب قیام اللیل: ۱۳۰۸، وقال الألباني حسن صحیح] ”اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم کرے جو رات کو اٹھا، نماز پڑھی اور اپنی بیوی کو جگایا (اور اس نے بھی نماز پڑھی)، اگر اس نے انکار کیاتو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم کرے جو رات کو اٹھی اور نماز پڑھی، خاوند کو جگایا (اور اس نے بھی نماز پڑھی)، اگر اس نے انکار کیا تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔“
رات کے اوقات میں سے بھی رات کے آخری حصے میں قیام کی فضیلت زیادہ ہے۔ عمروبن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أَقْرَبُ مَا يَكُوْنُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِيْ جَوْفِ اللَّيْلِ الْآخِرِ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُوْنَ مِمَّنْ يَّذْكُرُ اللّٰهَ فِيْ تِلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ] [ترمذي، الدعوات، باب: ۳۵۷۹، و صححہ الألباني في صحیح الجامع] ”رب تعالیٰ بندے کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصے میں ہوتا ہے، اگر تو یہ کر سکے کہ اس وقت اللہ کا ذکر کرنے والوں میں سے ہو تو یہ کام کر۔“ قیام اللیل کا سب سے بہتر طریقہ داؤد علیہ السلام کا طریقہ ہے۔ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أَحَبُّ الصَّلاَةِ إِلَی اللّٰهِ صَلاَةُ دَاوٗدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَكَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيَقُوْمُ ثُلُثَهُ وَ يَنَامُ سُدُسَهُ] [بخاري، التھجد، باب من نام عند السحر: ۱۱۳۱] ”اللہ تعالیٰ کو نمازوں میں سے سب سے محبوب نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے، وہ رات کا نصف سو جاتے اور اس کا تیسرا حصہ قیام کرتے اور چھٹا حصہ سو جاتے۔“
➌ {” وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ “} اور قرآن کو ٹھہرٹھہر کر پڑھ۔ {” تَرْتِيْلًا “} مصدر تاکید کے لیے ہے، خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھ۔ اس میں بتایا ہے کہ رات کے قیام میں پڑھنا کیا ہے؟ سو حکم ہوا کہ قرآن پڑھیں اور خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ ترتیل میں کئی چیزیں شامل ہیں، ان میں سے پہلی یہ ہے کہ ٹھہر ٹھہر کر پورے غور و فکر کے ساتھ تلاوت کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم کے مطابق خوب ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کیا کرتے تھے۔ حفصہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: [وَ كَانَ يَقْرَأُ بِالسُّوْرَةِ فَيُرَتِّلُهَا حَتّٰی تَكُوْنَ أَطْوَلَ مِنْ أَطْوَلَ مِنْهَا] [مسلم، صلاۃ المسافرین، باب جواز النافلۃ قائمًا و قاعدًا…: ۷۳۳] ”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورت کی تلاوت کرتے اور اسے اتنا ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے کہ وہ اس سے لمبی سورت سے بھی لمبی ہو جاتی۔“ دوسری چیز جو ترتیل میں شامل ہے، یہ ہے کہ ہر لفظ الگ الگ سمجھ میں آئے، چنانچہ یعلیٰ بن مملک نے ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت اور نماز کے متعلق سوال کیا، انھوں نے پہلے آپ کی رات کی نماز کا حال بیان کیا: [ثُمَّ نَعَتَتْ قِرَاءَتَهٗ فَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ قِرَاءَةً مُّفَسَّرَةً حَرْفًا حَرْفًا] [ترمذي، فضائل القرآن، باب ما جاء کیف کانت قراء ۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم : ۲۹۲۳] ”پھر ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کی صفت بیان کی تو انھوں نے ایسی قراء ت بیان کی جس کا ایک ایک حرف واضح کیا گیا تھا۔“ تیسری چیز ہر آیت پرٹھہرنا ہے، بعض لوگ ایک ہی سانس میں وقف کے بغیر آیت کے ساتھ آیت ملائے جاتے ہیں اور اسے کمال سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ سنت کے خلاف ہے، جیسا کہ ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: [كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَطِّعُ قِرَاءَتَهٗ وَ فِيْ رِوَايَةِ أَبِيْ دَاوٗدَ: يُقَطِّعُ قِرَاءَتَهٗ آيَةً آيَةً يَقْرَأُ: «الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» ثُمَّ يَقِفُ «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ» ثُمَّ يَقِفُ] [ترمذي، القرائات، باب في فاتحۃ الکتاب: ۲۹۲۷۔ أبو داوٗد: ۴۰۰۱، وصححہ الألباني في صحیح الجامع الصغیر] ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قراء ت الگ الگ کر کے پڑھتے تھے۔“ اور ابو داؤد کی روایت میں ہے: ”آپ اپنی قراء ت ایک ایک آیت الگ کر کے پڑھتے تھے۔“ آپ {” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ “} پڑھتے اور ٹھہر جاتے، پھر {” الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “} پڑھتے اور ٹھہر جاتے۔“ چوتھی چیز یہ ہے کہ حروف مدّہ کو لمبا کرکے پڑھا جائے۔ قتادہ فرماتے ہیں: [سُئِلَ أَنَسٌ كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَةُ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ كَانَتْ مَدًّا ثُمَّ قَرَأَ: «بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ» يَمُدُّ بِبِسْمِ اللّٰهِ وَ يَمُدُّ بِالرَّحْمٰنِ وَ يَمُدُّ بِالرَّحِيْمِ] [بخاري، فضائل القرآن، باب مد القراءۃ: ۵۰۴۶] ”انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کیسی تھی؟ تو انھوں نے فرمایا: ”آپ کی قراء ت کھینچ کھینچ کر ہوتی تھی۔“ پھر انھوں نے {” بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ “} پڑھی۔ وہ {” بِسْمِ اللّٰهِ “} کو لمبا کر کے پڑھتے تھے اور {” الرَّحْمٰنِ “} کو لمبا کرکے پڑھتے اور {”الرَّحِيْمِ “} کو لمبا کر کے پڑھتے تھے۔“ پانچویں یہ کہ قرآن کو خوب صورت لہجے اور خوش آوازی سے پڑھا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ] [بخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالٰی: {وأسروا قولکم…}: ۷۵۲۷] ”جو شخص قرآن کو خوبصورت لہجے اور خوش آوازی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں۔“ غرض ترتیل کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کو خوب غور و فکر کے ساتھ، ٹھہر ٹھہر کر، الفاظ کی واضح ادائیگی کے ساتھ اور حروف مدّہ کو لمبا کرکے جس قدر خوش آوازی کے ساتھ ہو سکے پڑھا جائے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام اللیل اور ترتیل قرآن کا حکم ٭٭
اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے کہ راتوں کے وقت کپڑے لپیٹ کر سو رہنے کو چھوڑیں اور تہجد کی نماز کے قیام کو اختیار کر لیں، جیسے فرمان ہے «تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ» ۱؎ [32-السجدة:16]، یعنی ’ ان کے پہلو بستروں سے الگ ہوتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور لالچ سے پکارتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے دیتے رہتے ہیں۔ ‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری عمر اس حکم کی بجا آوری کرتے رہے تہجد کی نماز صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھی یعنی امت پر واجب نہیں ہے، جیسے اور جگہ ہے «وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا» ۱؎ [17-الإسراء:79]، یعنی ’ راتوں کو تہجد پڑھا کر یہ حکم صرف تجھے ہے تیرا رب تجھے مقام محمود میں پہچانے والا ہے۔ ‘ یہاں اس حکم کے ساتھ ہی مقدار بھی بیان فرما دی کہ آدھی رات یا کچھ کم و بیش۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری عمر اس حکم کی بجا آوری کرتے رہے تہجد کی نماز صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھی یعنی امت پر واجب نہیں ہے، جیسے اور جگہ ہے «وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا» ۱؎ [17-الإسراء:79]، یعنی ’ راتوں کو تہجد پڑھا کر یہ حکم صرف تجھے ہے تیرا رب تجھے مقام محمود میں پہچانے والا ہے۔ ‘ یہاں اس حکم کے ساتھ ہی مقدار بھی بیان فرما دی کہ آدھی رات یا کچھ کم و بیش۔
باب
«مُزَّمِّلُ» کے معنی سونے والے اور کپڑا لپیٹنے والے کے ہیں، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’ اے قرآن کے مفہوم کو اچھی طرح اخذ کرنے والے تو آدھی رات تک تہجد میں مشغول رہا کر، یا کچھ بڑھا گھٹا دیا کر اور قرآن کو آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کر تاکہ خوب سمجھتا جائے۔ ‘
اس حکم کے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عامل تھے، ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے جس سے بڑی دیر میں سورت ختم ہوتی تھی گویا چھوٹی سی سورت بڑی سے بڑی ہو جاتی تھی۔ } ۱؎ [صحیح بخاری:733]
اس حکم کے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عامل تھے، ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے جس سے بڑی دیر میں سورت ختم ہوتی تھی گویا چھوٹی سی سورت بڑی سے بڑی ہو جاتی تھی۔ } ۱؎ [صحیح بخاری:733]
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کا وصف پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوب مد کر کے پڑھا کرتے تھے پھر آیت «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھ کر سنائی جس میں لفظ «الله» پر لفظ «رحمن» پر لفظ «رحیم» پر مد کیا۔ } ۱؎ [صحیح بخاری:5046]
ابن جریج میں ہے کہ { ہر ہر آیت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورا پورا وقف کرتے تھے، جیسے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھ کر وقف کرتے، آیت «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» پڑھ کر وقف کرتے، آیت «الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھ کر وقف کرتے، آیت «مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ» پڑھ کر ٹھہرتے۔} یہ حدیث مسند احمد ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے۔۱؎ [سنن ترمذي:2927،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابن جریج میں ہے کہ { ہر ہر آیت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورا پورا وقف کرتے تھے، جیسے «بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھ کر وقف کرتے، آیت «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» پڑھ کر وقف کرتے، آیت «الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ» پڑھ کر وقف کرتے، آیت «مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ» پڑھ کر ٹھہرتے۔} یہ حدیث مسند احمد ابوداؤد اور ترمذی میں بھی ہے۔۱؎ [سنن ترمذي:2927،قال الشيخ الألباني:صحیح]
مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے کہ { قرآن کے قاری سے قیامت والے دن کہا جائے گا کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا اور ترتیل سے پڑھ جیسے دنیا میں ترتیل سے پڑھا کرتا تھا تیرا درجہ وہ ہے جہاں تیری آخری آیت ختم ہو۔ } یہ حدیث ابوداؤد و ترمذی اور نسائی میں بھی ہے اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن صحیح کہتے ہیں۔ ۱؎ [سنن ابوداود:1464،قال الشيخ الألباني:حسن صحیح]
ہم نے اس تفسیر کے شروع میں وہ احادیث وارد کر دی ہیں، جو ترتیل کے مستحب ہونے اور اچھی آواز سے قرآن پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں، جیسے وہ حدیث جس میں ہے { قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو } ۱؎ [سنن ابوداود:1468،قال الشيخ الألباني:صحیح]، اور { ہم میں سے وہ نہیں جو خوش آوازی سے قرآن نہ پڑھے } ۱؎ [صحیح بخاری:2527] اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ { اسے آل داؤد کی خوش آوازی عطا کی گئی ہے } ۱؎ [صحیح بخاری:5048] اور ابوموسیٰ کا فرمانا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن رہے ہیں تو میں اور اچھے گلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ پڑھتا۔“ ۱؎ [صحیح مسلم:793]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان کہ ریت کی طرح قرآن کو نہ پھیلاؤ اور شعروں کی طرح قرآن کو بے ادبی سے نہ پڑھو اس کی عجائب پر غور کرو اور دلوں میں اثر لیتے جاؤ اور اس میں دوڑ نہ لگاؤ کہ جلد سورت ختم ہو۔ [بغوی]
ہم نے اس تفسیر کے شروع میں وہ احادیث وارد کر دی ہیں، جو ترتیل کے مستحب ہونے اور اچھی آواز سے قرآن پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں، جیسے وہ حدیث جس میں ہے { قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کرو } ۱؎ [سنن ابوداود:1468،قال الشيخ الألباني:صحیح]، اور { ہم میں سے وہ نہیں جو خوش آوازی سے قرآن نہ پڑھے } ۱؎ [صحیح بخاری:2527] اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ { اسے آل داؤد کی خوش آوازی عطا کی گئی ہے } ۱؎ [صحیح بخاری:5048] اور ابوموسیٰ کا فرمانا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن رہے ہیں تو میں اور اچھے گلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ پڑھتا۔“ ۱؎ [صحیح مسلم:793]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان کہ ریت کی طرح قرآن کو نہ پھیلاؤ اور شعروں کی طرح قرآن کو بے ادبی سے نہ پڑھو اس کی عجائب پر غور کرو اور دلوں میں اثر لیتے جاؤ اور اس میں دوڑ نہ لگاؤ کہ جلد سورت ختم ہو۔ [بغوی]
ایک شخص آ کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہتا ہے میں نے مفصل کی تمام سورتیں آج کی رات ایک ہی رکعت میں پڑھ ڈالیں۔ آپ نے فرمایا: پھر تو تو نے شعروں کی طرح جلدی جلدی پڑھا ہو گا مجھے برابر برابر کی سورتیں خوب یاد ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملا کر پڑھا کرتے تھے پھر مفصل کی سورتوں میں سے بیس سورتوں کے نام لیے کہ ان میں سے دو دو سورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک رکعت میں پڑھا کرتے تھے۔ ۱؎ [صحیح بخاری:775]
پھر فرماتا ہے ’ ہم تجھ پر عنقریب بھاری بوجھل بات اتاریں گے۔ ‘ یعنی عمل میں ثقیل ہو گی اور اترتے وقت بوجہ اپنی عظمت کے گراں قدر ہو گی۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری اس وقت آپ کا گھٹنا میرے گھٹنے پر تھا وحی کا اتنا بوجھ پڑا کہ میں تو ڈرنے لگا کہ میری ران کہیں ٹوٹ نہ جائے۔ } ۱؎ [صحیح بخاری:4592]
پھر فرماتا ہے ’ ہم تجھ پر عنقریب بھاری بوجھل بات اتاریں گے۔ ‘ یعنی عمل میں ثقیل ہو گی اور اترتے وقت بوجہ اپنی عظمت کے گراں قدر ہو گی۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری اس وقت آپ کا گھٹنا میرے گھٹنے پر تھا وحی کا اتنا بوجھ پڑا کہ میں تو ڈرنے لگا کہ میری ران کہیں ٹوٹ نہ جائے۔ } ۱؎ [صحیح بخاری:4592]
مسند احمد میں ہے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وحی کا احساس بھی آپ کو ہوتا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایسی آواز سنتا ہوں جیسے کسی زنجیر کے بجنے کی آواز ہو میں چپکا ہو جاتا ہوں جب بھی وحی نازل ہوتی ہے مجھ پر اتنا بوجھ پڑتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ میری جان نکل جائے گی۔“ ۱؎ [مسند احمد:222/2:ضعیف]
صحیح بخاری کے شروع میں ہے حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ”یا رسول اللہ! آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کبھی تو گھنٹی کی آواز کی طرح ہوتی ہے جو مجھ پر بہت بھاری پڑتی ہے اور وہ گنگناہٹ کی آواز ختم ہو جاتی ہے تو میں اس میں جو کچھ کہا گیا وہ مجھے خوب محفوظ ہو جاتا ہے اور کبھی فرشتہ انسانی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور میں یاد کر لیتا ہوں۔“
صحیح بخاری کے شروع میں ہے حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ”یا رسول اللہ! آپ کے پاس وحی کس طرح آتی ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کبھی تو گھنٹی کی آواز کی طرح ہوتی ہے جو مجھ پر بہت بھاری پڑتی ہے اور وہ گنگناہٹ کی آواز ختم ہو جاتی ہے تو میں اس میں جو کچھ کہا گیا وہ مجھے خوب محفوظ ہو جاتا ہے اور کبھی فرشتہ انسانی صورت میں میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور میں یاد کر لیتا ہوں۔“
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں { میں نے دیکھا ہے کہ سخت جاڑے والے دن میں بھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر چکتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک سے پسینے کے قطرے ٹپکتے۔ } ۱؎ [صحیح بخاری:4592]
مسند احمد میں ہے کہ کبھی اونٹنی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوتے اور اسی طاقت میں وحی آتی تو اونٹنی جھک جاتی۔ ۱؎ [مسند احمد:118/6:صحیح]
ابن جریر میں یہ بھی ہے کہ پھر جب تک وحی ختم نہ ہو لے اونٹنی سے قدم نہ اٹھایا جاتا، نہ اس کی گردن اونچی ہوتی۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:127/29:مرسل] مطلب یہ ہے کہ خود وحی کا اترنا بھی اہم اور بوجھل تھا پھر احکام کا بجا لانا اور ان کا عامل ہونا بھی اہم اور بوجھل تھا۔ یہی قول امام ابن جریر رحمہ اللہ کا ہے۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جس طرح دنیا میں یہ ثقیل کام ہے اسی طرح آخرت میں اجر بھی بڑا بھاری ملے گا۔
مسند احمد میں ہے کہ کبھی اونٹنی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوتے اور اسی طاقت میں وحی آتی تو اونٹنی جھک جاتی۔ ۱؎ [مسند احمد:118/6:صحیح]
ابن جریر میں یہ بھی ہے کہ پھر جب تک وحی ختم نہ ہو لے اونٹنی سے قدم نہ اٹھایا جاتا، نہ اس کی گردن اونچی ہوتی۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:127/29:مرسل] مطلب یہ ہے کہ خود وحی کا اترنا بھی اہم اور بوجھل تھا پھر احکام کا بجا لانا اور ان کا عامل ہونا بھی اہم اور بوجھل تھا۔ یہی قول امام ابن جریر رحمہ اللہ کا ہے۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جس طرح دنیا میں یہ ثقیل کام ہے اسی طرح آخرت میں اجر بھی بڑا بھاری ملے گا۔
رات کا اٹھنا نفس کی درستگی ٭٭
پھر فرماتا ہے رات کا اٹھنا نفس کو زیر کرنے کے لیے اور زبان کو درست کرنے کے لیے اکسیر ہے، «نشاء» کے معنی حبشی زبان میں قیام کرنے کے ہیں، رات بھر میں جب اٹھے اسے «نَاشِئَتةَ الَّلیَلِ» کہتے ہیں، تہجد کی نماز کی خوبی یہ ہے کہ دل اور زبان ایک ہو جاتا ہے اور تلاوت کے جو الفاظ زبان سے نکلتے ہیں دل میں گڑ جاتے ہیں اور بہ نسبت دن کے رات کی تنہائی میں معنی خوب ذہن نشین ہوتا جاتا ہے کیونکہ دن بھیڑ بھاڑ کا، شورغل کا، کمائی دھندے کا وقت ہوتا ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے آیت «أَقْوَمُ قِيلًا» ۱؎ [73-المزمل:6] کو «اَصْوَبُ قِیْلًا» پڑھا تو لوگوں نے کہا ہم تو «أَقْوَمُ» پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا «اَصْوَبُ اَقُوَمُ اَھْیَأ» اور ان جیسے سب الفاظ ہم معنی ہیں۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے آیت «أَقْوَمُ قِيلًا» ۱؎ [73-المزمل:6] کو «اَصْوَبُ قِیْلًا» پڑھا تو لوگوں نے کہا ہم تو «أَقْوَمُ» پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا «اَصْوَبُ اَقُوَمُ اَھْیَأ» اور ان جیسے سب الفاظ ہم معنی ہیں۔