ترجمہ و تفسیر — سورۃ نوح (71) — آیت 1
اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖۤ اَنۡ اَنۡذِرۡ قَوۡمَکَ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو ڈرا، اس سے پہلے کہ ان پر ایک درد ناک عذاب آ جائے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ پیشتر اس کے کہ ان پر درد دینے والا عذاب واقع ہو اپنی قوم کو ہدایت کر دو
ترجمہ محمد جوناگڑھی
یقیناً ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا کہ اپنی قوم کو ڈرا دو (اور خبردار کر دو) اس سے پہلے کہ ان کے پاس دردناک عذاب آ جائے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آدم اور نوح علیھما السلام کے درمیان کتنی مدت تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [عَشَرَةُ قُرُوْنٍ] دس قرن۔ [صحیح ابن حبان، التاریخ، باب ذکر الإخبار عما کان…: ۶۱۹۰] حافظ ابن کثیر نے اسے مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ [البدایۃ والنہایۃ، جلد: ۱، قصۃ نوح] ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا: [كَانَ بَيْنَ نُوْحٍ وَ آدَمَ عَشَرَةُ قُرُوْنٍ كُلُّهُمْ عَلٰي شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْحَقِّ فَاخْتَلَفُوْا فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيِّيْنَ مُبَشِّرِيْنَ وَ مُنْذِرِيْنَ] [مستدرک حاکم: 546/2، ح: ۴۰۰۹] آدم اور نوح کے درمیان دس قرن تھے اور وہ سارے کے سارے دین حق پر قائم تھے، پھر جب انھوں نے اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو بھیجا (جو انھیں جنت کی) خوش خبری دیتے اور (عذاب سے) ڈراتے تھے۔ محقق حکمت بن بشیر نے ابن کثیر میں سورۂ بقرہ کی آیت (۲۱۳) کے تحت کہا کہ یہ حدیث طبری میں بھی ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شروع میں سب لوگ اللہ کی توحید پر قائم تھے اور شرک و بت پرستی کا وجود نہیں تھا، پھر جیسا کہ زیر تفسیر سورت کی آیت(۲۳) کی تشریح میں آرہا ہے کہ شیطان کے سکھانے سے بت پرستی شروع ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں شرک سے منع کرنے اور اللہ واحد کی عبادت کی تبلیغ کے لیے نوح علیہ السلام کو بھیجا، آپ اللہ تعالیٰ کے پہلے رسول ہیں جو زمین والوں کی طرف بھیجے گئے، جیسا کہ حدیث شفاعت میں ہے۔ [دیکھیے بخاري، الأنبیاء، باب: «ذریۃ من حملنا…» : ۴۷۱۲] رسالت ملنے کے بعد آپ علیہ السلام ساڑھے نو سو (۹۵۰) سال اپنی قوم کو سمجھاتے رہے، جب وہ نافرمانی سے باز نہ آئے تو انھیں پانی کے طوفان سے غرق کر دیا گیا۔ (دیکھیے عنکبوت: ۱۴) یہ پوری سورت نوح علیہ السلام کی دعوت، اس کے جواب میں قوم کے طرز عمل اور ان کے انجام کی تفصیل پر مشتمل ہے اور اس کا نام بھی اسی جلیل القدر پیغمبر کے نام پر ہے۔
(آیت 1){ اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ …:} نوح علیہ السلام کی قوم جس شرک اور بت پرستی میں گرفتار تھی اس کا لازمی نتیجہ دنیا اور آخرت میں عذابِ الیم تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کاقاعدہ یہ ہے کہ وہ آگاہ کرنے اور ڈرانے کے بغیر عذاب نہیں دیتا۔ (دیکھیے بنی اسرائیل: ۱۵) سو اس عذابِ الیم سے ڈرانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

یقیناً ہم نے نوح ؑ کو ان کی قوم کی طرف (1) بھیجا کہ اپنی قوم کو ڈرا دو (اور خبردار کردو) اس سے پہلے کہ ان کے پاس دردناک عذاب آجائے (2)

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

عذاب سے پہلے نوح علیہ السلام کا قوم سے خطاب ٭٭
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا اور حکم دیا کہ عذاب کے آنے سے پہلے اپنی قوم کو ہوشیار کر دو اگر وہ توبہ کر لیں گے اور اللہ کی طرف جھکنے لگیں گے تو اللہ کا عذاب ان سے اٹھ جائے گا۔
نوح علیہ السلام نے اللہ کا پیغام اپنی امت کو پہنچا دیا اور صاف کہہ دیا کہ دیکھو میں کھلے لفظوں میں تمہیں آگاہ کئے دیتا ہوں، میں صاف صاف کہہ رہا ہوں کہ اللہ کی عبادت اس کا ڈر اور میری اطاعت لازمی چیزیں ہیں جو کام رب نے تم پر حرام کئے ہیں ان سے بچو، گناہ کے کاموں سے الگ تھلگ رہو، جو میں کہوں بجا لاؤ جس سے روکوں رک جاؤ، میری رسالت کی تصدیق کرو تو اللہ تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ آیت «يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ أَجَلَ اللَّـهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ» ۱؎ [71-نوح:4]‏‏‏‏ میں لفظ «مِّنْ» یہاں زائد ہے، اثبات کے موقعہ پر بھی کبھی لفظ «مِّنْ» زائد آ جاتا ہے جیسے عرب کے مقولے «قَدْ كَانَ مِنْ مَّطَرٍ» میں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ معنی میں «عن» کے ہو بلکہ ابن جریر رحمہ اللہ تو اسی کو پسند فرماتے ہیں
اور یہ قول بھی ہے کہ «مِّنْ» «إِنَّهَا لِلتَّبْعِيضِ أَيْ يَغْفِر لَكُمْ الذُّنُوب الْعِظَام الَّتِي وَعَدَكُمْ عَلَى اِرْتِكَابكُمْ إِيَّاهَا الِانْتِقَام» کے لیے ہے یعنی ’ تمہارے کچھ گناہ معاف فرما دے گا۔ ‘ یعنی وہ گناہ جن پر سزا کا وعدہ ہے اور وہ بڑے بڑے گناہ ہیں، اگر تم نے یہ تینوں کام کئے تو وہ معاف ہو جائیں گے اور جس عذاب کے ذریعے وہ تمہیں اب تمہاری ان خطاؤں اور غلط کاریوں کی وجہ سے برباد کرنے والا ہے اس عذاب کو ہٹا دے گا اور تمہاری عمریں بڑھا دے گا۔
اس آیت سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ اللہ کی اطاعت اور نیک سلوک اور صلہ رحمی سے حقیقتاً عمر بڑھ جاتی ہے، حدیث میں یہ بھی ہے کہ { صلہ رحمی عمر بڑھاتی ہے۔} ۱؎ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:1908]‏‏‏‏
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ نیک اعمال اس سے پہلے کر لو کہ اللہ کا عذاب آ جائے اس لیے جب وہ آ جاتا ہے پھر نہ اسے کوئی ہٹا سکتا ہے نہ روک سکتا ہے، اس بڑے کی بڑائی نے ہر چیز کو پست کر رکھا ہے اس کی عزت و عظمت کے سامنے تمام مخلوق پست ہے۔‘

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل