کِتٰبٌ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ فَلَا یَکُنۡ فِیۡ صَدۡرِکَ حَرَجٌ مِّنۡہُ لِتُنۡذِرَ بِہٖ وَ ذِکۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
ایک عظیم کتاب ہے جو تیری طرف نازل کی گئی ہے، تو تیرے سینے میں اس سے کوئی تنگی نہ ہو، تاکہ تو اس کے ساتھ ڈرائے اور ایمان والوں کے لیے سراسر نصیحت ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
(اے محمدﷺ) یہ کتاب (جو) تم پر نازل ہوئی ہے۔ اس سے تمہیں تنگ دل نہیں ہونا چاہیئے، (یہ نازل) اس لیے (ہوئی ہے) کہ تم اس کے ذریعے سے (لوگوں) کو ڈر سناؤ اور (یہ) ایمان والوں کے لیے نصیحت ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
یہ ایک کتاب ہے جو آپ کے پاس اس لئے بھیجی گئی ہے کہ آپ اس کے ذریعہ سے ڈرائیں، سو آپ کے دل میں اس سے بالکل تنگی نہ ہو اور نصیحت ہے ایمان والوں کے لئے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 2){كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ ……:} کتاب نازل کی گئی، کس نے نازل کی، یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ کتاب کس نے نازل کی ہے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ ہے۔ مقصود اس سے یہ ہے کہ آپ جھٹلانے والوں کو ڈرائیں اور خبردار کریں، تاکہ وہ ایمان لے آئیں اور ایمان والوں کو نصیحت کریں، تاکہ ان کے ایمان اور ہدایت میں اضافہ ہو، اس لیے آپ اسے پہنچانے میں دل میں کوئی تنگی یا خوف نہ آنے دیں کہ لوگ آپ کی مخالفت کریں گے، کیونکہ اگر کچھ جھٹلانے والے ہوں گے تو ایمان لانے والے بھی ہوں گے اور آپ پر یہ کتاب اتارنے والا آپ کا حامی و ناصر ہو گا، اس لیے کسی تنگ دہی یا خوف میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں، آپ کا کام صرف پہنچانا ہے، ہدایت دینا نہ دینا اﷲ تعالیٰ کا کام ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
2۔ 1 یعنی اس کے بھیجنے سے آپ کا دل تنگ نہ ہو کہ کہیں کافر میری تکذیب (جھٹلائیں) نہ کریں اور مجھے ایذا نہ پہنچائیں اس لئے کہ اللہ سب کا حافظ و ناصر ہے یا حرج شک کے معنی میں ہے۔ یعنی اس کی منزل من اللہ ہونے کے بارے میں آپ اپنے سینے میں شک محسوس نہ کریں۔ یہ نہی بطور تعریف ہے اور اصل مخاطب امت ہے کہ وہ شک نہ کرے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
2۔ یہ کتاب [2] آپ کی طرف نازل کی گئی ہے۔ اس (کی تبلیغ) سے آپ کے دل میں گھٹن [3] نہ ہونی چاہیئے۔ (کتاب اتارنے سے غرض یہ ہے) کہ آپ اس کے ذریعہ لوگوں کو ڈرائیں اور یہ مومنوں کے لئے یاد دہانی کا کام دے۔ [2] یہاں کتاب سے مراد یہی سورہ اعراف ہے اور قرآن میں جب کبھی سورۃ کے ابتداء میں کتاب کا لفظ آتا ہے تو اس کا معنی وہ سورت ہی ہوتا ہے گویا قرآن کریم کی ہر سورہ ایک مستقل کتاب ہے جو اپنی ذات، میں مکمل ہے اور قرآن ایسی ہی ایک سو چودہ کتابوں (یا سورتوں) کا مجموعہ ہے جیسا کہ سورۃ «البينه» میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً 0 فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ﴾ [البينه: 2۔ 3] پھر لفظ کتاب کا اطلاق پورے قرآن پر بھی ہوتا ہے۔
[3] جب کبھی کوئی سورۃ نازل ہوتی اور آپ لوگوں کو سناتے تو کافروں کی طرف سے ردّ عمل یہ ہوتا کہ کبھی صاف انکار کر دیتے کبھی مذاق اڑاتے، کبھی اعتراضات شروع کر دیتے، کبھی کسی حِسی معجزہ کا مطالبہ شروع کر دیتے۔ غرض یہ کہ ان کی طرف سے حوصلہ شکنی اور دل شکنی کی تمام صورتیں واقع ہو جاتیں مگر حوصلہ افزائی کی کوئی صورت نہ ہوتی اسی وجہ سے بعض دفعہ آپ کی طبیعت میں سخت انقباض اور گھٹن پیدا ہو جاتی اللہ تعالیٰ آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن لوگوں تک صرف پہنچا دیں اور انہیں ڈرائیں کفار سے جو رد عمل ہو رہا ہے یا وہ ہدایت قبول نہیں کرتے تو اس کے لیے آپ پریشان نہ ہوں اللہ خود ان سے نمٹ لے گا، البتہ اس قرآن کے سنانے کا ایک فائدہ تو یقینی ہے جو یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے لیے یہ نصیحت بھی ہے اور یاد دہانی بھی جو ان کے ایمان کو مزید پختہ اور مضبوط بنا دے گی۔ اور یاد دہانی سے مراد عہد ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ﴾ [الاعراف: 172] کی یاد دہانی ہے جو ہر انسان کے تحت الشعور میں موجود ہے اور کسی بھی خارجی داعیے سے اس کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ یہ قرآن اسی دبے ہوئے شعور کو بیدار کرتا اور اس عہد کی یاد تازہ کرتا ہے۔
[3] جب کبھی کوئی سورۃ نازل ہوتی اور آپ لوگوں کو سناتے تو کافروں کی طرف سے ردّ عمل یہ ہوتا کہ کبھی صاف انکار کر دیتے کبھی مذاق اڑاتے، کبھی اعتراضات شروع کر دیتے، کبھی کسی حِسی معجزہ کا مطالبہ شروع کر دیتے۔ غرض یہ کہ ان کی طرف سے حوصلہ شکنی اور دل شکنی کی تمام صورتیں واقع ہو جاتیں مگر حوصلہ افزائی کی کوئی صورت نہ ہوتی اسی وجہ سے بعض دفعہ آپ کی طبیعت میں سخت انقباض اور گھٹن پیدا ہو جاتی اللہ تعالیٰ آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن لوگوں تک صرف پہنچا دیں اور انہیں ڈرائیں کفار سے جو رد عمل ہو رہا ہے یا وہ ہدایت قبول نہیں کرتے تو اس کے لیے آپ پریشان نہ ہوں اللہ خود ان سے نمٹ لے گا، البتہ اس قرآن کے سنانے کا ایک فائدہ تو یقینی ہے جو یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے لیے یہ نصیحت بھی ہے اور یاد دہانی بھی جو ان کے ایمان کو مزید پختہ اور مضبوط بنا دے گی۔ اور یاد دہانی سے مراد عہد ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ﴾ [الاعراف: 172] کی یاد دہانی ہے جو ہر انسان کے تحت الشعور میں موجود ہے اور کسی بھی خارجی داعیے سے اس کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ یہ قرآن اسی دبے ہوئے شعور کو بیدار کرتا اور اس عہد کی یاد تازہ کرتا ہے۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
باب
اس سورت کی ابتداء میں جو حروف ہیں، ان کے متعلق جو کچھ بیان ہمیں کرنا تھا، اسے تفصیل کے ساتھ سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں معہ اختلاف علماء کے ہم لکھ آئے ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے معنی میں مروی ہے کہ ”اس سے مراد «اَنَا اللهُ اُفَصِّلُ» ہے یعنی میں اللہ ہوں، میں تفصیل وار بیان فرما رہا ہوں۔“ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:14315]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے معنی میں مروی ہے کہ ”اس سے مراد «اَنَا اللهُ اُفَصِّلُ» ہے یعنی میں اللہ ہوں، میں تفصیل وار بیان فرما رہا ہوں۔“ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:14315]
سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی یہ مروی ہے۔
”یہ کتاب قرآن کریم تیری جانب تیرے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہ کرنا، دل تنگ نہ ہونا، اس کے پہنچانے میں کسی سے نہ ڈرنا، نہ کسی کا لحاظ کرنا، بلکہ سابقہ اولوالعزم پیغمبروں علیہم السلام کی طرح صبر و استقامت کے ساتھ کلام اللہ کی تبلیغ مخلوق الٰہی میں کرنا۔ اس کا نزول اس لیے ہوا ہے کہ تو کافروں کو ڈرا کر ہوشیار اور چوکنا کر دے۔ یہ قرآن مومنوں کے لئے نصیحت و عبرت، وعظ و پند ہے۔“
اس کے بعد تمام دنیا کو حکم ہوتا ہے کہ ”اس نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پیروی کرو، اس کے قدم بہ قدم چلو۔ یہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہے، کلام اللہ تمہارے پاس لایا ہے۔ وہ اللہ تم سب کا خالق، مالک ہے اور تمام جان داروں کا رب ہے۔ خبردار! ہرگز ہرگز نبی سے ہٹ کر دوسرے کی تابعداری نہ کرنا ورنہ حکم عدولی پر سزا ملے گی۔ افسوس! تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔“
جیسے فرمان ہے کہ ’ گو تم چاہو لیکن اکثر لوگ اپنی بے ایمانی پر اڑے ہی رہیں گے۔ ‘ ۱؎ [12-يوسف:103]
اور آیت میں ہے: «وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ» ۱؎ [6-الأنعام:116] یعنی ’ اگر تو انسانوں کی کثرت کی طرف جھک جائے گا تو وہ بھی تجھے بہکا کر ہی چین لیں گے۔ ‘
سورۃ یوسف میں فرمان ہے: ’ اکثر لوگ اللہ کو مانتے ہوئے بھی شرک سے باز نہیں رہتے۔ ‘ ۱؎ [12-يوسف:106]
”یہ کتاب قرآن کریم تیری جانب تیرے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہ کرنا، دل تنگ نہ ہونا، اس کے پہنچانے میں کسی سے نہ ڈرنا، نہ کسی کا لحاظ کرنا، بلکہ سابقہ اولوالعزم پیغمبروں علیہم السلام کی طرح صبر و استقامت کے ساتھ کلام اللہ کی تبلیغ مخلوق الٰہی میں کرنا۔ اس کا نزول اس لیے ہوا ہے کہ تو کافروں کو ڈرا کر ہوشیار اور چوکنا کر دے۔ یہ قرآن مومنوں کے لئے نصیحت و عبرت، وعظ و پند ہے۔“
اس کے بعد تمام دنیا کو حکم ہوتا ہے کہ ”اس نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پیروی کرو، اس کے قدم بہ قدم چلو۔ یہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہے، کلام اللہ تمہارے پاس لایا ہے۔ وہ اللہ تم سب کا خالق، مالک ہے اور تمام جان داروں کا رب ہے۔ خبردار! ہرگز ہرگز نبی سے ہٹ کر دوسرے کی تابعداری نہ کرنا ورنہ حکم عدولی پر سزا ملے گی۔ افسوس! تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔“
جیسے فرمان ہے کہ ’ گو تم چاہو لیکن اکثر لوگ اپنی بے ایمانی پر اڑے ہی رہیں گے۔ ‘ ۱؎ [12-يوسف:103]
اور آیت میں ہے: «وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ» ۱؎ [6-الأنعام:116] یعنی ’ اگر تو انسانوں کی کثرت کی طرف جھک جائے گا تو وہ بھی تجھے بہکا کر ہی چین لیں گے۔ ‘
سورۃ یوسف میں فرمان ہے: ’ اکثر لوگ اللہ کو مانتے ہوئے بھی شرک سے باز نہیں رہتے۔ ‘ ۱؎ [12-يوسف:106]