(آیت 36،35){ اَفَنَجْعَلُالْمُسْلِمِيْنَ …:} مشرکین کہا کرتے تھے کہ اوّل تو مرنے کے بعد زندگی کی بات ہی غلط ہے، اگر یہ سچ ہے اور مرنے کے بعد عذاب یا ثواب ہونا ہے تو ہم یہاں مسلمانوں کی بہ نسبت خوش حال ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے ہم پر راضی ہونے کی دلیل ہے، آخرت میں بھی وہ نعمتیں اور باغات ہمیں کو ملیں گے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بات کی تردید کی اور فرمایا کہ اللہ کے ہاں اندھیر نہیں کہ حکم ماننے والوں سے اور مجرموں سے ایک جیسا سلوک کیا جائے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
35۔ 1 مشرکین مکہ کہتے تھے کہ اگر قیامت ہوئی تو وہاں بھی ہم مسلمانوں سے بہتر ہی ہونگے، جیسے دنیا میں ہم مسلمانوں سے زیادہ آسودہ حال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا، یہ کس طرح ممکن ہے ہم مسلمانوں کو یعنی اپنے فرماں برداروں کو مجرموں یعنی نافرمانوں کی طرح کردیں گے مطلب یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ عدل وانصاف کے خلاف دونوں کو یکساں کردے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
گنہگار اور نیکو کار دونوں کی جزاء کا مختلف ہونا لازم ہے ٭٭
اوپر چونکہ دنیوی جنت والوں کا حال بیان ہوا تھا اور اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم کے خلاف کرنے سے ان پر جو بلا اور آفت آئی اس کا ذکر ہوا تھا اس لیے اب ان متقی پرہیزگار لوگوں کا حال ذکر کیا گیا جنہیں آخرت میں جنتیں ملیں گی جن کی نعمتیں نہ فنا ہوں، نہ گھٹیں، نہ ختم ہوں، نہ سڑیں، نہ گلیں۔ پھر فرماتا ہے ’ کیا ہو سکتا ہے کہ مسلمان اور گنہگار جزا میں یکساں ہو جائیں؟ قسم ہے زمین و آسمان کے رب کی کہ یہ نہیں ہو سکتا، کیا ہو گیا ہے تم کس طرح یہ چاہتے ہو؟ کیا تمہارے ہاتھوں میں اللہ کی طرف سے اتری ہوئی کوئی ایسی کتاب ہے جو خود تمہیں بھی محفوظ ہو اور گزشتہ لوگوں کے ہاتھوں تم پچھلوں تک پہنچتی ہو اور اس میں وہی ہو جو تمہاری چاہت ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ ہمارا کوئی مضبوط وعدہ اور عہد تم سے ہے کہ تم جو کہہ رہے ہو وہی ہو گا اور تمہاری بے جا اور غلط خواہشیں پوری ہو کر ہی رہیں گی؟ ان سے ذرا پوچھو تو کہ اس بات کا کون ضامن ہے اور کس کے ذمے یہ کفالت ہے؟ نہ سہی تمہارے جو جھوٹے معبود ہیں انہی کو اپنی سچائی کے ثبوت میں پیش کرو ‘۔