ترجمہ و تفسیر — سورۃ الممتحنة (60) — آیت 1
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّیۡ وَ عَدُوَّکُمۡ اَوۡلِیَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ وَ قَدۡ کَفَرُوۡا بِمَا جَآءَکُمۡ مِّنَ الۡحَقِّ ۚ یُخۡرِجُوۡنَ الرَّسُوۡلَ وَ اِیَّاکُمۡ اَنۡ تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ رَبِّکُمۡ ؕ اِنۡ کُنۡتُمۡ خَرَجۡتُمۡ جِہَادًا فِیۡ سَبِیۡلِیۡ وَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِیۡ ٭ۖ تُسِرُّوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ ٭ۖ وَ اَنَا اَعۡلَمُ بِمَاۤ اَخۡفَیۡتُمۡ وَ مَاۤ اَعۡلَنۡتُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡہُ مِنۡکُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ، تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ یقینا انھوں نے اس حق سے انکار کیا جو تمھارے پاس آیا ہے، وہ رسول کو اور خود تمھیں اس لیے نکالتے ہیں کہ تم اللہ پر ایمان لائے ہو، جو تمھارا رب ہے، اگر تم میرے راستے میں جہاد کے لیے اور میری رضا تلاش کرنے کے لیے نکلے ہو۔ تم ان کی طرف چھپا کر دوستی کے پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ میں زیادہ جاننے والا ہوں جو کچھ تم نے چھپایا اور جو تم نے ظاہر کیا اور تم میں سے جو کوئی ایسا کرے تو یقینا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
مومنو! اگر تم میری راہ میں لڑنے اور میری خوشنودی طلب کرنے کے لئے (مکے سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم تو ان کو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور وہ (دین) حق سے جو تمہارے پاس آیا ہے منکر ہیں۔ اور اس باعث سے کہ تم اپنے پروردگار خدا تعالیٰ پر ایمان لائے ہو پیغمبر کو اور تم کو جلاوطن کرتے ہیں۔ تم ان کی طرف پوشیدہ پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔ اور جو کچھ تم مخفی طور پر اور جو علیٰ الاعلان کرتے ہو وہ مجھے معلوم ہے۔ اور جو کوئی تم میں سے ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اے وه لوگو جو ایمان ﻻئے ہو! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وه اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں، پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلاوطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو، اگر تم میری راه میں جہاد کے لیے اور میری رضا مندی کی طلب میں نکلتے ہو (تو ان سے دوستیاں نہ کرو)، تم ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیده پوشیده بھیجتے ہو اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا اور وه بھی جو تم نے ﻇاہر کیا، تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا وه یقیناً راه راست سے بہک جائے گا

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

سورۂ حشر میں منافقین کی کفار اہل کتاب کے ساتھ دوستی اور اس کے برے انجام کا بیان تھا، اس سورت میں مشرکین کے ساتھ دوستی سے منع فرمایا، خصوصاً ان مہاجرین کو جن کے بیوی بچے یا عزیز مکہ میں رہ گئے تھے اور وہ اس خیال سے مشرکین سے تعلق قائم رکھنا چاہتے تھے کہ مشرکین اس وجہ سے ان کے بیوی بچوں اور عزیزوں کا خیال رکھیں گے۔
۶ ہجری میں حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفارِ قریش کے درمیان دس سال کے لیے صلح کا جو معاہدہ ہوا اس کی ایک شق یہ تھی کہ جو قبائل چاہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف بن جائیں اور جو چاہیں کفارِ قریش کے حلیف بن جائیں اور کوئی فریق دوسرے فریق کے حلیف پر نہ حملہ کرے اور نہ حملہ کرنے والوں کی مدد کرے۔ چنانچہ مکہ کے قریب رہنے والے قبائل میں سے بنو بکر قریش کے حلیف بن گئے اور بنو خزاعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف بن گئے۔ ابھی معاہدے کو تقریباً ڈیڑھ سال ہی گزرا تھا کہ بنو بکر نے مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا۔ قریش نے آدمیوں اور اسلحہ سے ان کی مدد کی، وہ بھاگ کر حرم میں آئے تو انھوں نے وہاں بھی انھیں نہیں چھوڑا بلکہ قتل کر دیا۔ بنو خزاعہ کا ایک وفد فریاد لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ پہنچا۔ یہ قریش کی صریح عہد شکنی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سزا دینے اور مکہ پر حملہ کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور اس کے لیے خفیہ طور پر تیاری شروع کر دی۔ مقصد یہ تھا کہ اچانک حملے میں کفار مزاحمت نہیں کر سکیں گے اور کشت و خون کی نوبت نہیں آئے گی۔ مسلمانوں کی قیمتی جانیں بھی محفوظ رہیں گی اور کفار میں سے جن کی قسمت میں سعادت لکھی ہو گی مسلمان ہو سکیں گے اور آگے چل کر اسلام کی سربلندی میں حصہ لے سکیں گے۔ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ ایک مہاجر صحابی تھے اور بدری تھے، مکہ میں ان کی اولاد اور مال اسباب تھا۔ وہ اصلاً قریش میں سے نہیں تھے، بلکہ ان کے حلیف تھے۔ انھوں نے قریش کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کی اطلاع دینے کے لیے ان کی طرف ایک خط لکھا اور ایک عورت کے ہاتھ بھیج دیا۔
صحیح بخاری میں اس کی تفصیل آئی ہے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے، زبیر اور مقداد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا کہ تم چلتے جاؤ یہاں تک روضۂ خاخ (خاخ نامی باغ) تک جا پہنچو، وہاں اونٹنی پر سوار ایک عورت ہوگی، اس سے خط لے آؤ۔ چنانچہ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے روانہ ہو گئے، یہاں تک کہ ہم اس باغ کے پاس جا پہنچے۔ دیکھا تو اونٹنی پر سوار وہ عورت وہاں تھی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال۔ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں۔ ہم نے کہا: تم ہر صورت خط نکالو گی یا ہم تمھارے کپڑے اتاریں گے۔ چنانچہ اس نے وہ خط اپنی چوٹی سے نکال کے دے دیا۔ ہم اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ دیکھا تو اس میں لکھا تھا کہ یہ خط حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مکہ کے کچھ لوگوں کے نام ہے، جو مشرکین میں سے تھے۔ اس میں انھوں نے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض امور کی خبر دی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [يَا حَاطِبُ! مَا هٰذَا؟] حاطب! یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: یا رسول اللہ! مجھ پر جلدی نہ کریں، میں ایسا آدمی تھا جو قریش کے ساتھ جڑا ہوا تھا، ان کا حلیف تھا، اصلاً ان میں سے نہیں تھا اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں ان کی وہاں کئی قرابتیں ہیں، جن کے ذریعے سے وہ اپنے اہل و عیال اور اموال کی حفاظت رکھتے ہیں۔ تو میں نے چاہا کہ جب میرا ان سے کوئی نسبی رشتہ نہیں تو میں ان پر ایک احسان کردوں جس کی وجہ سے وہ میرے گھر والوں کی حفاظت رکھیں۔ میں نے یہ کام نہ اپنے دین سے مرتد ہونے کی وجہ سے کیا ہے اور نہ ہی اسلام لانے کے بعد کفر کو پسند کرنے کی وجہ سے کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ] سن لو! اس نے یقینا تم سے سچ کہا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں، میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّ اللّٰهَ اطَّلَعَ عَلٰی مَنْ شَهِدَ بَدْرًا قَالَ اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ] یہ تو بدر میں شریک ہوا ہے اور تجھے کیا معلوم شاید اللہ نے بدر میں شریک ہونے والوں کو جھانک کر کہا ہو کہ تم جو چاہو کرو، کیونکہ میں نے تمھیں بخش دیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرما دی: «‏‏‏‏يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ ........ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيْلِ» ‏‏‏‏ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ........ تو یقینا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ [بخاري، المغازي، باب غزوۃ الفتح: ۴۲۷۴]
(آیت 1) ➊ { يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ: عَدُوٌّ عَدَا يَعْدُوْ عَدْوًا وَعَدَاوَةً} سے{ فَعُوْلٌ } بمعنی {فَاعِلٌ } کے وزن پر ہے، دشمن۔ {فَعِيْلٌ} اور { فَعُوْلٌ } دونوں صیغے واحد، تثنیہ، جمع اور مذکر و مؤنث کے لیے ایک ہی لفظ کے ساتھ آ جاتے ہیں، اس لیے ترجمہ میرے دشمنوں کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہنے کے بجائے کہ کفار اور مشرکین کو دوست نہ بناؤ، یہ فرمایا کہ میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ پھر { عَدُوِّيْ } (میرے دشمنوں) کا ذکر پہلے کیا اور { عَدُوَّكُمْ } (اپنے دشمنوں) کا ذکر بعد میں کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کافر و مشرک کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے، کیونکہ ان کی دشمنی کی بنیاد نہ وطن ہے نہ نسب اور نہ مال، بلکہ انھوں نے مسلمانوں کی دشمنی صرف اللہ تعالیٰ کی دشمنی کی وجہ سے اختیار کر رکھی ہے۔ اللہ کی دشمنی کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کی توحید، اس کے دین اور اس کے رسول کو نہیں مانتے، اس لیے انھوں نے ان کی شدید مخالفت اور دشمنی اختیار کر رکھی ہے۔ { عَدُوِّيْ } کو { عَدُوَّكُمْ } سے پہلے لانے کی مناسبت یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے دین کے دشمن پہلے ہیں، پھر اس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ آیت میں کفار و مشرکین کی عداوت کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو ان کی دوستی سے منع فرمایا گیا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر کفار کی دوستی سے منع کیا گیا ہے اور ساتھ ہی دوستی سے ممانعت کی کوئی نہ کوئی وجہ بیان کی گئی ہے۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۲۸)، نساء (۱۴۴)، مائدہ (57،51) اور سورۂ توبہ (24،23) ان تمام وجوہات میں بنیادی بات یہی ہے کہ وہ تمھارے اور تمھارے دین کے دشمن ہیں، جب تک تم کافر نہ ہو جاؤ وہ کبھی تمھارے دوست نہیں ہو سکتے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۲۰) اور سورۂ نساء (۸۹)۔
➋ { تُلْقُوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ:} اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ {اَلْمَوَدَّةُ تُلْقُوْنَ } کا مفعول بہ ہے اور اس پر باء تاکید کے لیے آئی ہے، اس صورت میں معنی یہ ہے کہ تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو۔ دوسرا معنی یہ کہ { تُلْقُوْنَ } کا مفعول بہ محذوف ہے: {أَيْ تُلْقُوْنَ إِلَيْهِمُ الْأَخْبَارَ بِالْمَوَدَّةِ} یعنی تم دوستی کی وجہ سے ان کی طرف خبریں پہنچاتے ہو (جن کا اللہ کے دشمنوں اور تمھارے دشمنوں کو کسی صورت علم نہیں ہونا چاہیے)۔
➌ { وَ قَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّ:} یعنی انھوں نے تو وہ حق ماننے ہی سے انکار کر دیا ہے جو تمھارے پاس آیا ہے اور تم ہو کہ ان کی طرف دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔
➍ {يُخْرِجُوْنَ الرَّسُوْلَ وَ اِيَّاكُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ: اَنْ تُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ رَبِّكُمْ } سے پہلے لام محذوف ہے، یعنی انھوں نے صرف کفر اور معمولی دشمنی ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ رشتہ داری اور محبت کے تمام سلسلے قطع کر کے رسول کو اور تمھیں اتنی ایذا دی کہ تم سب کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا، صرف اس وجہ سے کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو۔ اس جملے کی ہم معنی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ بروج (۸) اور سورۂ حج (۴۰) { يُخْرِجُوْنَ } مضارع کا صیغہ لانے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ انھوں نے تمھیں نکالا ہے بلکہ وہ تمھیں نکالنے پر ابھی تک قائم ہیں اور اب بھی تمھیں تمھارے گھروں میں واپس نہیں آنے دے رہے۔ اس میں مسلمانوں کو کفار کی دشمنی کے لیے ابھارا گیا ہے کہ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ وہ تمھارے رسول کو اور تمھیں نکال رہے ہیں اور تم ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہو۔
➎ { اِنْ كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِيْ سَبِيْلِيْ …: جِهَادًا } اور { ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِيْ } دونوں { خَرَجْتُمْ } کے مفعول لہ ہیں اور { اِنْ كُنْتُمْ } شرط کی جزا محذوف ہے جو آیت کے پہلے جملے { لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ } سے معلوم ہو رہی ہے، یعنی اگر تم میرے راستے میں جہاد کے لیے اور میری رضا تلاش کرنے کے لیے نکلے ہو تو میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ۔
➏ { تُسِرُّوْنَ اِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ …:} یعنی تم پر تعجب ہے کہ تم چھپ کر ان کی طرف دوستی کے پیغام بھیجتے ہو، حالانکہ میں ان باتوں کو جو تم نے چھپائیں اور جو ظاہر کیں تم سے اور ہر ایک سے بڑھ کر جاننے والا ہوں۔ سو تمھیں یہ سوچ کر بھی ایسی حرکت سے اجتناب کرنا چاہیے کہ تمھارا مالک تمھارے ہر کام سے پوری طرح آگاہ ہے اور تم اپنی کوئی حرکت اس سے کسی طرح بھی نہیں چھپا سکتے۔
➐ {وَ مَنْ يَّفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيْلِ:} یعنی یہ صرف حاطب رضی اللہ عنہ یا کسی مہاجر کی مشرکینِ مکہ کے ساتھ دوستی کا معاملہ نہیں، بلکہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں میں سے جو بھی یہ کام کرے گا وہ یقینا سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔
➑ اس آیت سے مخلصین پر اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کا اظہار بھی ہو رہا ہے کہ اتنی بڑی غلطی کرنے والوں کو { يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا } کے ساتھ خطاب ہو رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی معصیت اور گناہ کی وجہ سے آدمی کافر نہیں ہوتا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب رضی اللہ عنہ کی غلطی سے درگزر فرمایا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی آدمی کے معاملات میں اس کی سابقہ زندگی کو بھی مدِ نظر رکھا جائے گا۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! میرے اور (خود) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ (1) تم دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو (2) اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں، پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو (3) اگر تم میری راہ میں جہاد کے لئے اور میری رضامندی کی طلب میں نکلتے ہو (تو ان سے دوستیاں نہ کرو (4) ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیدہ بھیجتے ہو اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا وہ بھی جو تم نے ظاہر کیا، تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا وہ یقیناً راہ راست سے بہک جائے گا (5)۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

حاطب رضی اللہ عنہ کا قصہ ٭٭
سیدنا حاطب بن ابوبلتہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس سورت کی شروع کی آیتیں نازل ہوئی ہیں، واقعہ یہ ہوا کہ حاطب رضی اللہ عنہ مہاجرین میں سے تھے بدر کی لڑائی میں بھی آپ نے مسلمانوں کے لشکر میں شرکت کی تھی ان کے بال بچے اور مال و دولت مکہ میں ہی تھا اور یہ خود قریش سے نہ تھے صرف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے حلیف تھے اس وجہ سے مکہ میں انہیں امن حاصل تھا، اب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ شریف میں تھے یہاں تک کہ جب اہل مکہ نے عہد توڑ دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کرنا چاہی تو آپ کی خواہش یہ تھی کہ انہیں اچانک دبوچ لیں تاکہ خونریزی نہ ہونے پائے اور مکہ شریف پر قبضہ ہو جائے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کی کہ باری تعالیٰ ہماری تیاری کی خبریں ہمارے پہنچنے تک اہل مکہ کو نہ پہنچیں، ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے اس موقعہ پر ایک خط اہل مکہ کے نام لکھا اور ایک قریشیہ عورت کے ہاتھ اسے چلتا کیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارادے اور مسلمانوں کی لشکر کشی کی خبر درج تھی، آپ کا ارادہ اس سے صرف یہ تھا کہ میرا کوئی احسان قریش پر رہ جائے جس کے باعث میرے بال بچے اور مال دولت محفوظ رہیں، چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہو چکی تھی ناممکن تھا کہ قریشیوں کو کسی ذریعہ سے بھی اس ارادے کا علم ہو جائے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پوشیدہ راز سے مطلع فرما دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے پیچھے اپنے سوار بھیجے راستہ میں اسے روکا گیا اور خط اس سے حاصل کر لیا گیا، یہ مفصل واقعہ صحیح احادیث میں پوری طرح آ چکا ہے۔
مسند احمد میں ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے اور زبیر رضی اللہ عنہ اور مقداد رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلوا کر فرمایا تم یہاں سے فوراً کوچ کرو روضہ خاخ میں جب تم پہنچو گے تو تمہیں ایک سانڈنی سوار عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہے تم اسے قبضہ میں کر کے یہاں لے آؤ، ہم تینوں گھوڑوں پر سوار ہو کر بہت تیز رفتاری سے روانہ ہو گئے، روضہ خاخ میں جب پہنچے تو فی الواقع ہمیں ایک سانڈنی سوار عورت دکھائی دی ہم نے اس سے کہا کہ جو خط تیرے پاس ہے وہ ہمارے حوالے کر، اس نے صاف انکار کر دیا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں، ہم نے کہا غلط کہتی ہے تیرے پاس یقیناً خط ہے اگر تو راضی خوشی نہ دے گی تو ہم جامہ تلاشی کر کے جبراً وہ خط تجھ سے چھینیں گے، اب تو وہ عورت سٹ پٹائی اور آخر اس نے اپنی چٹیا کھول کر اس میں سے وہ پرچہ نکال کر ہمارے حوالے کیا ہم اسی وقت وہاں سے واپس روانہ ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اسے پیش کر دیا، پڑھنے پر معلوم ہوا کہ حاطب نے اسے لکھا ہے اور یہاں کی خبر رسانی کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادوں سے کفار مکہ کو آگاہ کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: حاطب! یہ کیا حرکت ہے؟ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ! جلدی نہ کیجئے، میری بھی سن لیجئے، میں قریشیوں میں ملا ہوا تھا خود قریشیوں میں سے نہ تھا، پر آپ پر ایمان لا کر آپ کے ساتھ ہجرت کی جتنے اور مہاجرین ہیں ان سب کے قرابت دار مکہ میں موجود ہیں جو ان کے بال بچے وغیرہ مکہ میں رہ گئے ہیں وہ ان کی حمایت کرتے ہیں لیکن میرا کوئی رشتہ دار نہیں جو میرے بچوں کی حفاظت کرے اس لیے میں نے چاہا کہ قریشیوں کے ساتھ کوئی سلوک و احسان کروں جس سے میرے بچوں کی حفاظت وہ کریں اور جس طرح اوروں کے نسب کی وجہ سے ان کا تعلق ہے میرے احسان کی وجہ سے میرا تعلق ہو جائے۔ یا رسول اللہ! میں نے کوئی کفر نہیں کیا نہ، اپنے دین سے مرتد ہوا ہوں، نہ اسلام کے بعد کفر سے راضی ہوا ہوں، بس اس خط کی وجہ سے صرف اپنے بچوں کی حفاظت کا حیلہ تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو تم سے جو واقعہ حاطب بیان کرتے ہیں وہ بالکل حرف بہ حرف سچا ہے کہ اپنے نفع کی خاطر ایک غلطی کر بیٹھے ہیں نہ کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا یا کفار کی مدد کرنا ان کے پیش نظر ہو، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اس موقعہ پر موجود تھے اور یہ واقعات آپ کے سامنے ہوئے آپ کو بہت غصہ آیا اور فرمانے لگے یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیجئیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا معلوم نہیں؟ کہ یہ بدری صحابی ہیں اور بدر والوں پر اللہ تعالیٰ نے جھانکا اور فرمایا جو چاہو عمل کرو میں نے تمہیں بخش دیا، یہ روایت اور بھی بہت سی حدیث کی کتابوں میں ہے۔[صحیح بخاری:4274]‏‏‏‏
صحیح بخاری شریف کتاب المغازی میں اتنا اور بھی ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری اور کتاب التفسیر میں ہے کہ عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اسی بارے میں آیت «يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنوا لا تَتَّخِذوا عَدُوّي وَعَدُوَّكُم أَولِياءَ تُلقونَ إِلَيهِم بِالمَوَدَّةِ وَقَد كَفَروا بِما جاءَكُم مِنَ الحَقِّ يُخرِجونَ الرَّسولَ وَإِيّاكُم أَن تُؤمِنوا بِاللَّهِ رَبِّكُم إِن كُنتُم خَرَجتُم جِهادًا في سَبيلي وَابتِغاءَ مَرضاتي تُسِرّونَ إِلَيهِم بِالمَوَدَّةِ وَأَنا أَعلَمُ بِما أَخفَيتُم وَما أَعلَنتُم وَمَن يَفعَلهُ مِنكُم فَقَد ضَلَّ سَواءَ السَّبيلِ» [60-الممتحنة:1]‏‏‏‏، اتری لیکن راوی کو شک ہے کہ آیت کے اترنے کا بیان سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کا ہے یا حدیث میں ہے، امام علی بن مدینی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں سفیان رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ یہ آیت اسی میں اتری ہے؟ تو سفیان رحمہ اللہ نے فرمایا یہ لوگوں کی بات میں ہے میں نے اسے سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ سے حفظ کیا ہے اور ایک حرف بھی نہیں چھوڑا اور میرا خیال ہے کہ میرے سوا کسی اور نے اسے حفظ بھی نہیں رکھا۔
بخاری مسلم کی ایک روایت میں سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کے نام کے بدلے سیدنا ابومرثد رضی اللہ عنہ کا نام ہے اس میں یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ اس عورت کے پاس حاطب کا خط ہے، اس عورت کی سواری کو بٹھا کر اس کے انکار پر ہر چند ٹٹولا گیا لیکن کوئی پرچہ ہاتھ نہ لگا آخر جب ہم عاجز آ گئے اور کہیں سے پرچہ نہ ملا تو ہم نے اس عورت سے کہا کہ اس میں تو مطلق شک نہیں کہ تیرے پاس پرچہ ہے گو ہمیں نہیں ملتا لیکن تیرے پاس ہے ضرور، یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات غلط ہو اب اگر تو نہیں دیتی تو ہم تیرے کپڑے اتار کر ٹٹولیں گے، جب اس نے دیکھ لیا کہ انہیں پختہ یقین ہے اور یہ لئے بغیر نہ ٹلیں گے تو اس نے اپنا سر کھول کر اپنے بالوں میں سے پرچہ نکال کر ہمیں دے دیا ہم اسے لے کر واپس خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے،
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ واقعہ سن کر فرمایا: اس نے اللہ، اس کے رسول کی اور مسلمانوں کی خیانت کی مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دیجئیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا اور انہوں نے وہ جواب دیا جو اوپر گزر چکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے فرما دیا کہ انہیں کچھ نہ کہو اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی وہ فرمایا جو پہلے بیان ہوا کہ بدری صحابہ میں سے ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے جنت واجب کر دی ہے جسے سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رو دیئے اور فرمانے لگے اللہ کو اور اس کے رسول کو ہی کامل علم ہے، [صحیح بخاری:6939]‏‏‏‏ یہ حدیث ان الفاظ سے صحیح بخاری کتاب المغازی میں غزوہ بدر کے ذکر میں ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مکہ جانے کا ارادہ اپنے چند ہم راز صحابہ کبار رضی اللہ عنہم کے سامنے تو ظاہر کیا تھا جن میں سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ بھی تھے باقی عام طور پر مشہور تھا کہ خیبر جا رہے ہیں، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب ہم خط کو سارے سامان میں ٹٹول چکے اور نہ ملا تو سیدنا ابومرثد رضی اللہ عنہ نے کہا شاید اس کے پاس کوئی پرچہ ہی نہیں اس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ناممکن ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ بول سکتے ہیں، نہ ہم نے جھوٹ کہا، جب ہم نے اسے دھمکایا تو اس نے ہم سے کہا: تمہیں اللہ کا خوف نہیں؟ کیا تم مسلمان نہیں؟
ایک روایت میں ہے کہ اس نے پرچہ اپنے جسم میں سے نکالا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: یہ بدر میں موجود تو ضرور تھے لیکن عہد شکنی کی اور دشمنوں میں ہماری خبر رسانی کی اور روایت میں ہے کہ یہ عورت قبیلہ مزینہ کی عورت تھی، بعض کہتے ہیں اس کا نام سارہ تھا، اولاد عبدالمطلب کی آزاد کردہ لونڈی تھی، سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے اسے کچھ دینا کیا تھا اور اس نے اپنے بالوں تلے کاغذ رکھ کر اوپر سے سرگوندھ لیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھوڑ سواروں سے فرما دیا تھا کہ اس کے پاس حاطب کا دیا ہوا اس مضمون کا خط ہے، آسمان سے اس کی خبر اے اللہ کے رسول! کے پاس آئی تھی، بنو احمد کے حلیفہ میں یہ عورت پکڑی گئی تھی، اس عورت نے ان سے کہا تھا کہ تم منہ پھیر لو میں نکال دیتی ہوں انہوں نے منہ پھیر لیا پھر اس نے نکال کر حوالہ کیا، اس روایت میں سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے جواب میں یہ بھی ہے کہ اللہ کی قسم میں اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں کوئی تغیر تبدل میرے ایمان میں نہیں ہوا، اور اسی بارے میں اس سورت کی آیتیں ابراہیم کے قصہ «قَد كانَت لَكُم أُسوَةٌ حَسَنَةٌ في إِبراهيمَ وَالَّذينَ مَعَهُ إِذ قالوا لِقَومِهِم إِنّا بُرَآءُ مِنكُم وَمِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّهِ كَفَرنا بِكُم وَبَدا بَينَنا وَبَينَكُمُ العَداوَةُ وَالبَغضاءُ أَبَدًا حَتّىٰ تُؤمِنوا بِاللَّهِ وَحدَهُ إِلّا قَولَ إِبراهيمَ لِأَبيهِ لَأَستَغفِرَنَّ لَكَ وَما أَملِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن شَيءٍ رَبَّنا عَلَيكَ تَوَكَّلنا وَإِلَيكَ أَنَبنا وَإِلَيكَ المَصيرُ» [60-الممتحنة:4]‏‏‏‏، کے ختم تک اتریں۔
ایک اور روایت میں ہے کہ اس عورت کو اس کی اجرت کے دس درہم سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے دیئے تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خط کے حاصل کرنے کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا اور حجفہ میں یہ ملی تھی۔
مطلب آیتوں کا یہ ہے کہ اے مسلمانو! مشرکین اور کفار کو جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومن بندوں سے لڑنے والے ہیں، جن کے دل تمہاری عداوت سے پر ہیں تمہیں ہرگز لائق نہیں کہ ان سے دوستی اور محبت میل ملاپ اور اپنایت رکھو تمہیں اس کے خلاف حکم دیا گیا ہے ارشاد ہے «يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنوا لا تَتَّخِذُوا اليَهودَ وَالنَّصارىٰ أَولِياءَ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِنكُم فَإِنَّهُ مِنهُم إِنَّ اللَّهَ لا يَهدِي القَومَ الظّالِمينَ» [5-المائدة:52]‏‏‏‏، اے ایماندارو! یہود و نصاریٰ سے دوستی مت گانٹھو وہ آپس میں ہی ایک دوسروں کے دوست ہیں تم میں سے جو بھی ان سے موالات و محبت کرے وہ انہی میں سے شمار ہو گا اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ اس میں کس قدر ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے اور جگہ ہے «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ» ۱؎ [5-المائدہ:57]‏‏‏‏ مسلمانو! ان اہل کتاب اور کفار سے دوستیاں نہ کرو جو تمہارے دین کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے کھیل کود سمجھ رہے ہیں اگر تم میں ایمان ہے تو ذات باری سے ڈرو۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلَّـهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا» [4-النساء:144]‏‏‏‏ مسلمانو! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستیاں نہ کرو کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا کھلا الزام ثابت کر لو۔
ایک اور جگہ فرمایا «لا يَتَّخِذِ المُؤمِنونَ الكافِرينَ أَولِياءَ مِن دونِ المُؤمِنينَ وَمَن يَفعَل ذٰلِكَ فَلَيسَ مِنَ اللَّهِ في شَيءٍ إِلّا أَن تَتَّقوا مِنهُم تُقاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفسَهُ وَإِلَى اللَّهِ المَصيرُ» [3-آل عمران:28]‏‏‏‏ ’ مسلمانوں کو چاہیئے کہ اپنوں کے علاوہ کافروں سے دوستیاں نہ کریں جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں ہاں بطور دفع الوقتی اور بچاؤ کے ہو تو اور بات ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آپ سے ڈرا رہا ہے اور اللہ کی طرف ہی تم کو لوٹ کر جانا ہے ‘، اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کا عذر قبول فرما لیا کہ اپنے مال و اولاد کے بچاؤ کی خاطر یہ کام ان سے ہو گیا تھا۔
مسند احمد میں ہے کہ { ہمارے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مثالیں بیان فرمائیں ایک اور تین اور پانچ اور سات اور نو اور گیارہ پھر ان میں سے یہ تفصیل صرف ایک ہی بیان کی باقی سب چھوڑ دیں، فرمایا: ایک ضعیف مسکین قوم تھی جس پر زور آور ظالم قوم چڑھائی کر کے آ گئی، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کمزوروں کی مدد کی اور انہیں اپنے دشمن پر غالب کر دیا، غالب آ کر ان میں رعونت سما گئی اور انہوں نے ان پر مظالم شروع کر دیئے جس پر اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ کے لیے ناراض ہو گیا[مسند احمد:407/5:ضعیف]‏‏‏‏
پھر مسلمانوں کو ہوشیار کرتا ہے کہ تم ان دشمنان دین سے کیوں موّدت و محبت رکھتے ہو؟ حالانکہ یہ تم سے بدسلوکی کرنے میں کسی موقعہ پر کمی نہیں کرتے کیا یہ تازہ واقعہ بھی تمہارے ذہن سے ہٹ گیا کہ انہوں نے تمہیں بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جبراً وطن سے نکال باہر کیا اور اس کی کوئی اور وجہ نہ تھی سوائے اس کے کہ تمہاری توحید اور فرمانبرداریِ رسول ان پر گراں گزرتی تھی۔
جیسے اور جگہ ہے «وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ» [85-البروج:8]‏‏‏‏ یعنی ’ مومنوں سے صرف اس بنا پر مخاصمت اور دشمنی ہے کہ وہ اللہ برتر بزرگ پر ایمان رکھتے ہیں ‘۔
اور جگہ ہے «الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّـهُ» [22-الحج:40]‏‏‏‏ ’ یہ لوگ محض اس وجہ سے ناحق جلا وطن کئے گئے کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے ‘۔
پھر فرماتا ہے ’ اگر سچ مچ تم میری راہ کے جہاد کو نکلے ہو اور میری رضا مندی کے طالب ہو تو ہرگز ان کفار سے جو تمہارے اور میرے دشمن ہیں میرے دین کو اور تمہارے جان و مال کو نقصان پہنچا رہے ہیں دوستیاں نہ پیدا کرو، بھلا کس قدر غلطی ہے کہ تم ان سے پوشیدہ طور پر دوستانہ رکھو؟ کیا یہ پوشیدگی اللہ سے بھی پوشیدہ رہ سکتی ہے؟ جو ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے، دلوں کے بھید اور نفس کے وسوسے بھی جس کے سامنے کھلے ہوئے ہیں ‘۔
بس سن لو جو بھی ان کفار سے موالات و محبت رکھے وہ سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا۔ تم نہیں دیکھ رہے؟ کہ ان کافروں کا اگر بس چلے، اگر انہیں کوئی موقعہ مل جائے تو نہ اپنے ہاتھ پاؤں سے تمہیں نقصان پہنچانے میں دریغ کریں، نہ برا کہنے سے اپنی زبانیں روکیں، جو ان کے امکان میں ہو گا وہ کر گزریں گے بلکہ تمام تر کوشش اس امر پر صرف کر دیں گے کہ تمہیں بھی اپنی طرح کافر بنا لیں، پس جب کہ ان کی اندرونی اور بیرونی دشمنی کا حال تمہیں بخوبی معلوم ہے، پھر کیا اندھیر ہے؟ کہ تم اپنے دشمنوں کو دوست سمجھ رہے ہو اور اپنی راہ میں خود کانٹے بو رہے ہو، غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کو کافروں پر اعتماد کرنے اور ان سے ایسے گہرے تعلقات رکھنے اور دلی میل رکھنے سے روکا جا رہا ہے اور وہ باتیں یاد دلائی جا رہی ہیں جو ان سے علیحدگی پر آمادہ کر دیں۔ تمہاری قرابتیں اور رشتہ داریاں تمہیں اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گی، اگر تم اللہ کو ناراض کر کے انہیں خوش کرو اور چاہو کہ تمہیں نفع ہو یا نقصان ہٹ جائے یہ بالکل خام خیالی ہے، نہ اللہ کی طرف کے نقصان کو کوئی ٹال سکے، نہ اس کے دیئے ہوئے نفع کو کوئی روک سکے، اپنے والوں سے ان کے کفر پر جس نے موافقت کی وہ برباد ہوا، گو رشتہ دار کیسا ہی ہو کچھ نفع نہیں۔
مسند احمد میں ہے کہ { ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنم میں، جب وہ جانے لگا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: «إِنَّ أَبِي وَأَبَاك فِي النَّار» سن میرا باپ اور تیرا باپ دونوں ہی جہنمی ہیں۔‏‏‏‏ یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں اور سنن ابوداؤد میں بھی ہے۔ [صحیح مسلم:203]‏‏‏‏

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل