اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ نُہُوۡا عَنِ النَّجۡوٰی ثُمَّ یَعُوۡدُوۡنَ لِمَا نُہُوۡا عَنۡہُ وَ یَتَنٰجَوۡنَ بِالۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ وَ مَعۡصِیَتِ الرَّسُوۡلِ ۫ وَ اِذَا جَآءُوۡکَ حَیَّوۡکَ بِمَا لَمۡ یُحَیِّکَ بِہِ اللّٰہُ ۙ وَ یَقُوۡلُوۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ لَوۡ لَا یُعَذِّبُنَا اللّٰہُ بِمَا نَقُوۡلُ ؕ حَسۡبُہُمۡ جَہَنَّمُ ۚ یَصۡلَوۡنَہَا ۚ فَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں سر گوشی کرنے سے منع کیا گیا، پھر وہ اس چیز کی طرف لوٹتے ہیں جس سے انھیں منع کیا گیا اور آپس میں گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشی کرتے ہیں اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو (ان لفظوں کے ساتھ) تجھے سلام کہتے ہیں جن کے ساتھ اللہ نے تجھے سلام نہیں کہا اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں اس پر سزا کیوں نہیں دیتا جو ہم کہتے ہیں ؟ انھیں جہنم ہی کافی ہے، وہ اس میں داخل ہوں گے ، پس وہ برا ٹھکانا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو سرگوشیاں کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ پھر جس (کام) سے منع کیا گیا تھا وہی پھر کرنے لگے اور یہ تو گناہ اور ظلم اور رسول (خدا) کی نافرمانی کی سرگوشیاں کرتے ہیں۔ اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو جس (کلمے) سے خدا نے تم کو دعا نہیں دی اس سے تمہیں دعا دیتے ہیں۔ اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ (اگر یہ واقعی پیغمبر ہیں تو) جو کچھ ہم کہتے ہیں خدا ہمیں اس کی سزا کیوں نہیں دیتا؟ (اے پیغمبر) ان کو دوزخ (ہی کی سزا) کافی ہے۔ یہ اسی میں داخل ہوں گے۔ اور وہ بری جگہ ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جنہیں کانا پھوسی سے روک دیا گیا تھا وه پھر بھی اس روکے ہوئے کام کو دوباره کرتے ہیں اور آپس میں گناه کی اور ﻇلم وزیادتی کی اور نافرمانیٴ پیغمبر کی سرگوشیاں کرتے ہیں، اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھے ان لفظوں میں سلام کرتے ہیں جن لفظوں میں اللہ تعالیٰ نے نہیں کہا اور اپنے دل میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر جو ہم کہتے ہیں سزا کیوں نہیں دیتا، ان کے لیے جہنم کافی (سزا) ہے جس میں یہ جائیں گے، سو وه برا ٹھکانا ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 8) ➊ { اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ نُهُوْا عَنِ النَّجْوٰى …:} یہاں سے یہود اور منافقین کے طرز عمل پر گرفت کا آغاز ہو رہا ہے، جو انھوں نے اختیار کر رکھا تھا۔ یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر رکھا تھا اور آپ کی مجلسوں میں آتے جاتے تھے اور منافقین بظاہر ایمان لا چکے تھے اور مسلمانوں کی جماعت کے فرد تھے، مگر ان کی دوستی یہود ہی کے ساتھ تھی۔ منافقین اور یہود نے اندر ہی اندر اپنا الگ جتھا بنا رکھا تھا، انھیں جب بھی موقع ملتا خفیہ مجالس میں مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے، فتنہ برپا کرنے اور مشرکین سے مل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتے تو آپس میں کھسر پھسر کرتے رہتے، جس سے مجلس کی بے وقعتی ہوتی اور اس بات کا اظہار ہوتا کہ انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ بعض اوقات وہ آپس میں سرگوشی کرتے ہوئے کسی مسلمان کو دیکھ کر آپس میں آنکھ مارتے، تاکہ وہ سمجھے کہ وہ اس کے متعلق کوئی بات کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو ان کے اس رویے سے سخت تکلیف ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایسی مجالس سے منع کیا جن میں وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خفیہ مشورے اور سازشیں کرتے تھے اور مسلمانوں کی مجلسوں میں علیحدہ سرگوشیوں سے بھی منع کیا، مگر وہ باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ آیات نازل فرما کر ان پر اپنی ناراضی کا اظہار فرمایا۔
➋ { وَ يَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ مَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ:} اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ان کے خفیہ مشورے اور سرگوشیاں یا تو ایسے گناہوں پر مشتمل ہوتی تھیں جن کا تعلق ان کی ذات سے تھا یا ایسے گناہوں پر جن میں دوسروں پر ظلم و زیادتی ہوتی، یا پھر ان کی سرگوشیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر مشتمل ہوتی تھیں۔
➌ { وَ اِذَا جَآءُوْكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللّٰهُ: ”حَيِيَ يَحْيٰ حَيَاةً“} ({خَشِيَ يَخْشٰي}) زندہ ہونا۔ {” حَيّٰي يُحَيِّيْ تَحِيَّةً “} (تفعیل) زندگی اور سلامتی کی دعا دینا، سلام کہنا۔ (دیکھیے نساء: ۸۶) یعنی جب یہ یہودی اور ان کے ہم نوا منافقین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں تو ایسے الفاظ کے ساتھ آپ کو سلام کہتے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام نہیں کہا۔ اللہ تعالیٰ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کا ذکرِ خاص اس آیت میں ہے: «يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا» [الأحزاب: ۵۶] ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اس پر صلوٰۃ بھیجو اور سلام بھیجو، خوب سلام بھیجنا۔“ اور ذکرِ عام اس آیت میں ہے: «قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰى» [النمل: ۵۹] ”کہہ دے سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے اس کے ان بندوں پر جنھیں اس نے چن لیا۔“ یہودی آپ کو {”اَلسَّلاَمُ عَلَيْكُمْ“} کے بجائے {”اَلسَّامُ عَلَيْكُمْ“} (تم پر موت ہو) کہتے۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین نے بھی یہود کی دیکھا دیکھی یہ کام شروع کر دیا تھا، جیسا کہ انھوں نے یہود سے سیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو متوجہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والا لفظ {” رَاعِنَا “} گالی کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا تھا، جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا اور اس کے بجائے {” انْظُرْنَا “} کہنے کا حکم دیا۔ (دیکھیے بقرہ: ۱۰۴) عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ کچھ یہودی لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: [اَلسَّامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ!] ”اے ابو القاسم! تجھ پر موت ہو۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [وَعَلَيْكُمْ] ”اور وہ تمھی پر ہو۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں میں نے کہا: [بَلْ عَلَيْكُمُ السَّامُ وَالذَّامُ] ”بلکہ تم پر موت اور مذمت ہو۔“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [يَا عَائِشَةُ! لَا تَكُوْنِيْ فَاحِشَةً] ”اے عائشہ! نازیبا الفاظ کہنے والی نہ بن۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا: ”آپ نے وہ نہیں سنا جو انھوں نے کہا ہے؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أَوَ لَيْسَ قَدْ رَدَدْتُ عَلَيْهِمُ الَّذِيْ قَالُوْا، قُلْتُ وَعَلَيْكُمْ] ”تو کیا میں نے وہ بات انھی پر لوٹا نہیں دی جو انھوں نے کہی ہے؟ میں نے کہہ دیا {”وَعَلَيْكُمْ “} کہ ”وہ تمھی پر ہو۔“ تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرما دی: «وَ اِذَا جَآءُوْكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللّٰهُ» ”اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو (ان لفظوں کے ساتھ) تجھے سلام کہتے ہیں جن کے ساتھ اللہ نے تجھے سلام نہیں کہا۔“ [مسلم، السلام، باب النھي عن ابتداء أھل الکتاب بالسلام…: ۱۱ /۲۱۶۵۔ مسند أحمد: ۶ /۲۲۹، ۲۳۰، ح: ۲۵۹۷۸]
➍ {وَ يَقُوْلُوْنَ فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ لَوْ لَا يُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُ …:} اور وہ اپنے دل میں یا آپس کی مجلس میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول نہ ہونے کی دلیل قرار دیتے تھے کہ اگر یہ رسول ہوتے تو یہ الفاظ کہتے ہوئے ہم پر عذاب آ جاتا۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا ہونے کے لیے یہی دلیل کافی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی اس حرکت سے آگاہ کر دیا۔ رہا عذاب، تو اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ گناہ پر اسی وقت گرفت فرمائے، اس نے تو ان لوگوں کو بھی مہلت دے رکھی ہے جو اسے گالی دیتے ہیں، تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں مہلت نہیں ملی اور اس نے ہر کام کی طرح ان کے عذاب کے لیے بھی ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ چنانچہ مرنے کے بعد ان کے لیے جہنم کا عذاب تیار ہے اور وہ انھیں کافی ہے، اس کے ہوتے ہوئے کسی اور سزا کی ضرورت نہ رہے گی۔
➋ { وَ يَتَنٰجَوْنَ بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ مَعْصِيَتِ الرَّسُوْلِ:} اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ان کے خفیہ مشورے اور سرگوشیاں یا تو ایسے گناہوں پر مشتمل ہوتی تھیں جن کا تعلق ان کی ذات سے تھا یا ایسے گناہوں پر جن میں دوسروں پر ظلم و زیادتی ہوتی، یا پھر ان کی سرگوشیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی پر مشتمل ہوتی تھیں۔
➌ { وَ اِذَا جَآءُوْكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللّٰهُ: ”حَيِيَ يَحْيٰ حَيَاةً“} ({خَشِيَ يَخْشٰي}) زندہ ہونا۔ {” حَيّٰي يُحَيِّيْ تَحِيَّةً “} (تفعیل) زندگی اور سلامتی کی دعا دینا، سلام کہنا۔ (دیکھیے نساء: ۸۶) یعنی جب یہ یہودی اور ان کے ہم نوا منافقین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے ہیں تو ایسے الفاظ کے ساتھ آپ کو سلام کہتے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلام نہیں کہا۔ اللہ تعالیٰ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کا ذکرِ خاص اس آیت میں ہے: «يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا» [الأحزاب: ۵۶] ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اس پر صلوٰۃ بھیجو اور سلام بھیجو، خوب سلام بھیجنا۔“ اور ذکرِ عام اس آیت میں ہے: «قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰى» [النمل: ۵۹] ”کہہ دے سب تعریف اللہ کے لیے ہے اور سلام ہے اس کے ان بندوں پر جنھیں اس نے چن لیا۔“ یہودی آپ کو {”اَلسَّلاَمُ عَلَيْكُمْ“} کے بجائے {”اَلسَّامُ عَلَيْكُمْ“} (تم پر موت ہو) کہتے۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین نے بھی یہود کی دیکھا دیکھی یہ کام شروع کر دیا تھا، جیسا کہ انھوں نے یہود سے سیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو متوجہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والا لفظ {” رَاعِنَا “} گالی کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا تھا، جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا اور اس کے بجائے {” انْظُرْنَا “} کہنے کا حکم دیا۔ (دیکھیے بقرہ: ۱۰۴) عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ کچھ یہودی لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: [اَلسَّامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ!] ”اے ابو القاسم! تجھ پر موت ہو۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [وَعَلَيْكُمْ] ”اور وہ تمھی پر ہو۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں میں نے کہا: [بَلْ عَلَيْكُمُ السَّامُ وَالذَّامُ] ”بلکہ تم پر موت اور مذمت ہو۔“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [يَا عَائِشَةُ! لَا تَكُوْنِيْ فَاحِشَةً] ”اے عائشہ! نازیبا الفاظ کہنے والی نہ بن۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا: ”آپ نے وہ نہیں سنا جو انھوں نے کہا ہے؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أَوَ لَيْسَ قَدْ رَدَدْتُ عَلَيْهِمُ الَّذِيْ قَالُوْا، قُلْتُ وَعَلَيْكُمْ] ”تو کیا میں نے وہ بات انھی پر لوٹا نہیں دی جو انھوں نے کہی ہے؟ میں نے کہہ دیا {”وَعَلَيْكُمْ “} کہ ”وہ تمھی پر ہو۔“ تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرما دی: «وَ اِذَا جَآءُوْكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ اللّٰهُ» ”اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو (ان لفظوں کے ساتھ) تجھے سلام کہتے ہیں جن کے ساتھ اللہ نے تجھے سلام نہیں کہا۔“ [مسلم، السلام، باب النھي عن ابتداء أھل الکتاب بالسلام…: ۱۱ /۲۱۶۵۔ مسند أحمد: ۶ /۲۲۹، ۲۳۰، ح: ۲۵۹۷۸]
➍ {وَ يَقُوْلُوْنَ فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ لَوْ لَا يُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُ …:} اور وہ اپنے دل میں یا آپس کی مجلس میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول نہ ہونے کی دلیل قرار دیتے تھے کہ اگر یہ رسول ہوتے تو یہ الفاظ کہتے ہوئے ہم پر عذاب آ جاتا۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا ہونے کے لیے یہی دلیل کافی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کی اس حرکت سے آگاہ کر دیا۔ رہا عذاب، تو اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ گناہ پر اسی وقت گرفت فرمائے، اس نے تو ان لوگوں کو بھی مہلت دے رکھی ہے جو اسے گالی دیتے ہیں، تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں مہلت نہیں ملی اور اس نے ہر کام کی طرح ان کے عذاب کے لیے بھی ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ چنانچہ مرنے کے بعد ان کے لیے جہنم کا عذاب تیار ہے اور وہ انھیں کافی ہے، اس کے ہوتے ہوئے کسی اور سزا کی ضرورت نہ رہے گی۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
8۔ 1 اس سے مدینے کے یہودی اور منافقین مراد ہیں جب مسلمان ان کے پاس سے گزرتے تو یہ باہم سر جوڑ کر اس طرح سرگوشیاں اور کانا پھوسی کرتے کہ مسلمان یہ سمجھتے کہ شاید ان کے خلاف یہ کوئی سازش کر رہے ہیں یا مسلمانوں کے کسی لشکر پر دشمن نے حملہ کر کے انہیں نقصان پہنچایا ہے جس کی خبر ان کے پاس پہنچ گئی ہے مسلمان ان چیزوں سے خوف زدہ ہوجاتے چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح سرگوشیاں کرنے سے منع فرما دیا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد انہوں نے پھر یہ مذموم سلسلہ شروع کردیا آیت میں ان کے اسی کردار کو بیان کیا جارہا ہے۔ 8۔ 2 یعنی ان کی سرگوشیاں نیکی اور تقویٰ کی باتوں میں نہیں ہوتیں، بلکہ گناہ، زیادتی اور معصیت رسول پر مبنی ہوتی ہیں مثلاً کسی کی غیبت، الزام تراشی، بےہودہ گوئی ایک دوسرے کو رسول اللہ کی نافرمانی پر اکسانا وغیرہ۔ 8۔ 3 یعنی اللہ نے سلام کا طریقہ یہ بتلایا ہے کہ تم السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہو، لیکن یہودی نبی کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اس کی بجائے کہتے السام علیکم یا علیک (تم پر موت وارد ہو) اس لئے رسول اللہ ان کے جواب میں صرف یہ فرمایا کرتے تھے، وعلیکم یا و علیکَ (اور تم پر ہی ہو) اور مسلمانوں کو بھی آپ نے تاکید فرمائی کہ جب کوئی اہل کتاب تمہیں سلام کرے تو جواب میں و علیک کہا کرو یعنی علیک ما قلتَ (تو نے جو کہا ہے وہ تجھ پر ہی وارد ہو (صحیح بخاری) 8۔ 4 یعنی وہ آپس میں یا اپنے دلوں میں کہتے کہ اگر یہ سچا نبی ہوتا تو اللہ تعالیٰ یقینا ہماری اس قبیح حرکت پر ہماری گرفت ضرور فرماتا۔ 8۔ 5 اللہ نے فرمایا کہ اگر اللہ نے اپنی مشیت اور حکمت بالغہ کے تحت دنیا میں ان کی فوری گرفت نہیں فرمائی تو کیا وہ آخرت میں جہنم کے عذاب سے بھی بچ جائیں گے؟ نہیں یقینا نہیں جہنم ان کی منتظر ہے جس میں وہ داخل ہوں گے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
معاشرتی آداب کا ایک پہلو اور قیامت کا ایک منظر ٭٭
کانا پھوسی سے یہودیوں کو روک دیا گیا تھا اس لیے کہ ان میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں جب صلح صفائی تھی تو یہ لوگ یہ حرکت کرنے لگے کہ جہاں کسی مسلمان کو دیکھا اور جہاں کوئی ان کے پاس گیا یہ ادھر ادھر جمع ہو ہو کر چپکے چپکے اشاروں کنایوں میں اس طرح کانا پھوسی کرنے لگتے کہ اکیلا دکیلا مسلمان یہ گمان کرتا کہ شاید یہ لوگ میرے قتل کی سازشیں کر رہے ہیں یا میرے خلاف اور ایمانداروں کے خلاف کچھ مخفی ترکیبیں سوچ رہے ہیں اسے ان کی طرف جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا، جب یہ شکایتیں عام ہوئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو اس سفلی حرکت سے روک دیا، لیکں انہوں نے پھر بھی یہی کرنا شروع کیا۔
ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ ہم لوگ باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رات کو حاضر ہوتے کہ اگر کوئی کام کاج ہو تو کریں، ایک رات کو باری والے آ گئے اور کچھ اور لوگ بھی بہ نیت ثواب آ گئے چونکہ لوگ زیادہ جمع ہو گئے تو ہم ٹولیاں ٹولیاں بن کر ادھر ادھر بیٹھ گئے اور ہر جماعت آپس میں باتیں کرنے لگی، اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ”یہ سرگوشیاں کیا ہو رہی ہیں؟ کیا تمہیں اس سے روکا نہیں گیا؟“ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہماری توبہ ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے کیونکہ اس سے کھٹکا لگا رہتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو میں تمہیں اس سے بھی زیادہ خوف کی چیز بتاؤں وہ پوشیدہ شرک ہے اس طرح کہ ایک شخص اٹھ کھڑا ہو اور دوسروں کے دکھانے کیلئے کوئی دینی کام کرے (یعنی ریاکاری)“ اس کی اسناد غریب ہے اور اس میں بعض راوی ضعیف ہیں۔[تفسیر ابن ابی حاتم:ضعیف]
پھر بیان ہوتا ہے کہ ان کی خانگی سرگوشیاں یا تو گناہ کے کاموں پر ہوتی ہیں جس میں ان کا ذاتی نقصان ہے، یا ظلم پر ہوتی ہیں جس میں دوسروں کے نقصان کی ترکیبیں سوچتے ہیں یا پیغمبر علیہ السلام کی مخالفت پر ایک دوسروں کو پختہ کرتے ہیں اور آپ کی نافرمانیوں کے منصوبے گانٹھتے ہیں۔ پھر ان بدکاروں کی ایک بدترین خصلت بیان ہو رہی ہے کہ سلام کے الفاظ کو بھی یہ بدل دیتے ہیں، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک مرتبہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا «السَّام عَلَيْك يَا أَبَا الْقَاسِم» ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رہا نہ گیا فرمایا «وَعَلَيْكُمْ السَّام» ، «سَّام» کے معنی موت کے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! اللہ تعالیٰ برے الفاظ اور سخت کلامی کو ناپسند فرماتا ہے۔ میں نے کہا: کیا آپ نے نہیں سنا۔ انہوں نے آپ کو «السلام» نہیں کہا بلکہ «السام» کہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے نہیں سنا؟ میں نے کہہ دیا «وَعَلَيْكُمْ» ۔“ [صحیح مسلم:2165]
اسی کا بیان یہاں ہو رہا ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کے جواب میں فرمایا تھا «عَلَیْکُمْ السَّامُ وَالذَّامُ وَاللَّعْنَتَهُ» اور آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو روکتے ہوئے فرمایا کہ ہماری دعا ان کے حق میں مقبول ہے اور ان کا ہمیں کوسنا نامقبول ہے۔ [ابن ابی حاتم وغیرہ] [صحیح بخاری:6030]
ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ ہم لوگ باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رات کو حاضر ہوتے کہ اگر کوئی کام کاج ہو تو کریں، ایک رات کو باری والے آ گئے اور کچھ اور لوگ بھی بہ نیت ثواب آ گئے چونکہ لوگ زیادہ جمع ہو گئے تو ہم ٹولیاں ٹولیاں بن کر ادھر ادھر بیٹھ گئے اور ہر جماعت آپس میں باتیں کرنے لگی، اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ”یہ سرگوشیاں کیا ہو رہی ہیں؟ کیا تمہیں اس سے روکا نہیں گیا؟“ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہماری توبہ ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے کیونکہ اس سے کھٹکا لگا رہتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو میں تمہیں اس سے بھی زیادہ خوف کی چیز بتاؤں وہ پوشیدہ شرک ہے اس طرح کہ ایک شخص اٹھ کھڑا ہو اور دوسروں کے دکھانے کیلئے کوئی دینی کام کرے (یعنی ریاکاری)“ اس کی اسناد غریب ہے اور اس میں بعض راوی ضعیف ہیں۔[تفسیر ابن ابی حاتم:ضعیف]
پھر بیان ہوتا ہے کہ ان کی خانگی سرگوشیاں یا تو گناہ کے کاموں پر ہوتی ہیں جس میں ان کا ذاتی نقصان ہے، یا ظلم پر ہوتی ہیں جس میں دوسروں کے نقصان کی ترکیبیں سوچتے ہیں یا پیغمبر علیہ السلام کی مخالفت پر ایک دوسروں کو پختہ کرتے ہیں اور آپ کی نافرمانیوں کے منصوبے گانٹھتے ہیں۔ پھر ان بدکاروں کی ایک بدترین خصلت بیان ہو رہی ہے کہ سلام کے الفاظ کو بھی یہ بدل دیتے ہیں، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک مرتبہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا «السَّام عَلَيْك يَا أَبَا الْقَاسِم» ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رہا نہ گیا فرمایا «وَعَلَيْكُمْ السَّام» ، «سَّام» کے معنی موت کے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! اللہ تعالیٰ برے الفاظ اور سخت کلامی کو ناپسند فرماتا ہے۔ میں نے کہا: کیا آپ نے نہیں سنا۔ انہوں نے آپ کو «السلام» نہیں کہا بلکہ «السام» کہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے نہیں سنا؟ میں نے کہہ دیا «وَعَلَيْكُمْ» ۔“ [صحیح مسلم:2165]
اسی کا بیان یہاں ہو رہا ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کے جواب میں فرمایا تھا «عَلَیْکُمْ السَّامُ وَالذَّامُ وَاللَّعْنَتَهُ» اور آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو روکتے ہوئے فرمایا کہ ہماری دعا ان کے حق میں مقبول ہے اور ان کا ہمیں کوسنا نامقبول ہے۔ [ابن ابی حاتم وغیرہ] [صحیح بخاری:6030]
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے مجمع میں تشریف فرما تھے کہ ایک یہودی نے آ کر سلام کیا،صحابہ نے جواب دیا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا: ”معلوم بھی ہے اس نے کیا کہا تھا؟“ انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول! سلام کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں اس نے کہا تھا «سَام عَلَيْكُمْ» یعنی تمہارا دین مغلوب ہو کر مٹ جائے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس یہودی کو بلاؤ جب وہ آ گیا تو آپ نے فرمایا: ”سچ سچ بتا کیا تو نے «سَام عَلَيْكُمْ» نہیں کہا تھا؟“ اس نے کہا: ہاں، میں نے یہی کہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو جب کبھی کوئی اہل کتاب تم میں سے کسی کو سلام کرے تو تم صرف «عَلَيْك» کہہ دیا کرو یعنی جو تو نے کہا ہو وہ تجھ پر۔ [سنن ابن ماجہ:3697،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پھر یہ لوگ اپنے اس کرتوت پر خوش ہو کر اپنے دل میں کہتے کہ اگر یہ نبی برحق ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہماری اس چالبازی پر ہمیں دنیا میں ضرور عذاب کرتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تو ہمارے باطنی حال سے بخوبی واقف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ انہیں دار آخرت کا عذاب ہی کافی ہے جہاں یہ جہنم میں جائیں گے اور بری جگہ پہنچیں گے ‘۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس آیت کا شان نزول یہودیوں کا اس طریقے کا سلام ہے، [مسند احمد:170/2:صحیح]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ منافق اسی طرح سلام کرتے تھے۔
پھر یہ لوگ اپنے اس کرتوت پر خوش ہو کر اپنے دل میں کہتے کہ اگر یہ نبی برحق ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہماری اس چالبازی پر ہمیں دنیا میں ضرور عذاب کرتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تو ہمارے باطنی حال سے بخوبی واقف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ انہیں دار آخرت کا عذاب ہی کافی ہے جہاں یہ جہنم میں جائیں گے اور بری جگہ پہنچیں گے ‘۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس آیت کا شان نزول یہودیوں کا اس طریقے کا سلام ہے، [مسند احمد:170/2:صحیح]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ منافق اسی طرح سلام کرتے تھے۔