ترجمہ و تفسیر — سورۃ المجادلة (58) — آیت 11
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَکُمۡ تَفَسَّحُوۡا فِی الۡمَجٰلِسِ فَافۡسَحُوۡا یَفۡسَحِ اللّٰہُ لَکُمۡ ۚ وَ اِذَا قِیۡلَ انۡشُزُوۡا فَانۡشُزُوۡا یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۱۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اے لوگوجو ایمان لائے ہو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں کھل جاؤ تو کھل جاؤ، اللہ تمھارے لیے فراخی کر دے گا اور جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہو جاؤ، اللہ ان لوگوں کو درجوں میں بلند کرے گاجو تم میں سے ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا اور اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، پوری طرح باخبر ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
مومنو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں کھل کر بیٹھو تو کھل بیٹھا کرو۔ خدا تم کو کشادگی بخشے گا۔ اور جب کہا جائے کہ اُٹھ کھڑے ہو تو اُٹھ کھڑے ہوا کرو۔ جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجے بلند کرے گا۔ اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اے مسلمانو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں ذرا کشادگی پیدا کرو تو تم جگہ کشاده کر دو اللہ تمہیں کشادگی دے گا، اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو جاؤ تو تم اٹھ کھڑے ہو جاؤ اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان ﻻئے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا، اور اللہ تعالیٰ (ہر اس کام سے) جو تم کر رہے ہو (خوب) خبردار ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 11) ➊ {يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قِيْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا …:} پچھلی آیات میں مجلس کے آداب میں سے سرگوشی سے ممانعت کا ادب بیان ہوا، اس آیت میں اس کے مزید کچھ آداب بیان ہوئے ہیں۔ ان آداب کی ضرورت اس لیے پڑی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ہر شخص آپ کے زیادہ سے زیادہ قریب رہنے کی خواہش رکھتا تھا، جس سے مجلس میں تنگی پیش آتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ادب سکھایا کہ جب حاضرینِ مجلس کی سہولت کے لیے کہا جائے کہ کھل جاؤ، تاکہ سب لوگ آسانی سے کھلے ہو کر بیٹھ سکیں تو کھل جاؤ، صرف میر مجلس کے قرب کے پیش نظر ایک دوسرے کے اوپر چڑھ کر بیٹھے رہنے پر اصرار نہ کرو۔ اسی طرح اگر مجلس میں کچھ اور لوگ آجائیں اور ان کی جگہ بنانے کے لیے کھل جانے کے لیے کہا جائے تو کھل جاؤ اور دل میں تنگی محسوس نہ کرو۔
➋ { يَفْسَحِ اللّٰهُ لَكُمْ: يَفْسَحِ } فعل مضارع معلوم ہے جو { تَفَسَّحُوْا } امر کا جواب ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے، آگے ملانے کے لیے اسے کسرہ دیا گیا ہے، یعنی تم مجلس میں کشادگی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمھارے لیے فراخی کر دے گا، اس فراخی میں سب سے پہلی فراخی تودل کی فراخی ہے کہ خوش دلی سے کھل جاؤ گے تو دلوں کی تنگی دور ہوگی اور ان میں بھائیوں کے لیے وسعت پیدا ہوگی۔ اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت کے ہر معاملے میں تمھیں فراخی عطا فرمائے گا، کیونکہ ہر عمل کا بدلا اسی جیسا ہوتا ہے، جیسا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [مَنْ بَنٰی مَسْجِدًا لِلّٰهِ بَنَی اللّٰهُ لَهُ فِي الْجَنَّةِ مِثْلَهُ] [مسلم، المساجد، باب فضل بناء المساجد والحث علیھا: ۲۵ /۵۳۳۔ بخاري: ۴۵۰] جو شخص اللہ کے لیے مسجد بنائے اللہ اس کے لیے اس کی مثل جنت میں (گھر) بنائے گا۔ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُّؤْمِنٍ كُرْبَةً مِّنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللّٰهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِّنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ يَسَّرَ عَلٰی مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللّٰهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللّٰهُ فِيْ عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِيْ عَوْنِ أَخِيْهِ] [مسلم، الذکر، باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر: ۲۶۹۹] جو شخص کسی مومن سے دنیا کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کرے اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور فرمائے گا۔ اور جو کسی تنگی والے پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جو شخص کسی مسلم (کے عیبوں) پر پردہ ڈالے اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس (کے عیبوں) پر پردہ ڈالے گا اور اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے۔
➌ {وَ اِذَا قِيْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا: نَشَزَ يَنْشِزُ نَشْزًا (ض،ن) اَلرَّجُلُ عَنْ مَّكَانِهٖ} آدمی کا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہونا۔ جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو جاؤ تو اٹھ کھڑے ہو جاؤ، یعنی جب مجلس کا امیر یا مجلس کے منتظمین حاضرین میں سے کسی کے علم و فضل اور شرف و مرتبہ کے پیش نظر اسے امیر کے قریب لانے کے لیے کسی کو اس کی جگہ سے اٹھ جانے کے لیے کہیں تو اسے چاہیے کہ اٹھ جائے اور اپنے دل میں کوئی تنگی یا ملال نہ لائے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لِيَلِنِيْ مِنْكُمْ أُوْلُو الْأَحْلَامِ وَالنُّهٰی ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِيْنَ يَلُوْنَهُمْ] [مسلم، الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف و إقامتہا …: ۴۳۲] تم میں سے میرے قریب وہ لوگ ہوں جو سمجھ اور عقل والے ہوں، پھر جو ان سے (سمجھ اور عقل میں) قریب ہوں۔ اسی طرح اگر امیر کسی شخص سے یا کچھ لوگوں سے مشورہ کرنے کے لیے یا ان کی بات سننے کے لیے کسی کو اس کی جگہ سے اٹھ جانے کے لیے کہے تو اسے کسی ملال کے بغیر اٹھ جانا چاہیے۔ یہ ادب اس لیے مقرر فرمایا کہ بعض اوقات عام سمجھ والے مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی وجہ سے یا منافقین اپنے خبثِ باطن کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ساری جگہ گھیر لیتے، پھر کوئی بزرگ صحابی مثلاً ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما وغیرہ آتے تو ان کے لیے جگہ نہ چھوڑتے اور اگر اٹھنے کے لیے کہا جاتا تو برا مناتے۔ ظاہر ہے اگر اس ادب کا خیال نہ رکھا جائے تو کسی امیر کی کوئی مجلس صحیح طریقے سے چل ہی نہیں سکتی۔ اسی طرح اگر امیر مجلس کو برخاست کر دے اور سب کو اٹھ جانے کے لیے کہے تو انھیں اٹھ جانا چاہیے اور اس میں اپنی توہین محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
➍ {يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا …: يَرْفَعِ } فعل مضارع ہے جو { فَانْشُزُوْا } امر کا جواب ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے، کسرہ اسے آگے ملانے کے لیے دیا گیا ہے۔ یعنی جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو جاؤ تو اٹھ کھڑے ہو جاؤ۔ جب تم اللہ کا حکم سمجھ کر تواضع اختیار کرو گے اور اٹھنے میں کسی طرح کی توہین یا کسرِ شان کا خیال دل میں نہیں لاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کو درجوں میں بلند کر دے گا جو ایمان لائے، کیونکہ ایمان کا تقاضا تواضع ہے اور ایمان اور کبر کبھی جمع نہیں ہو سکتے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لاَ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِيْ قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِّنْ كِبْرٍ وَلاَ يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِيْ قَلْبِهِ مِثْقَالُ خَرْدَلٍ مِّنْ إِيْمَانٍ] [أبو داوٗد، اللباس، باب ما جاء في الکبر: ۴۰۹۱، وقال الألباني صحیح] وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر کبر ہوگا اور وہ شخص آگ میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے برابر ایمان ہوگا۔
➎ {يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ:} بظاہر یہاں الفاظ یہ ہونے چاہییں تھے کہ {يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ نَشَزُوْا مِنْكُمْ} یعنی (جب تمھیں کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو جاؤ تو اٹھ کھڑے ہو جاؤ) تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اٹھ کھڑے ہوں گے درجات میں بلند کر دے گا مگر اللہ تعالیٰ نے منافقین کو نکالنے کے لیے { اٰمَنُوْا مِنْكُمْ } کی قید لگا دی کہ منافقین اس حکم پر اٹھ کھڑے ہوں تب بھی انھیں رفع درجات کا شرف حاصل نہیں ہو سکتا، ان کا ٹھکانا {الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ } (آگ کا سب سے نچلا درجہ) ہی ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۱۴۵)۔
➏ {وَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ:} یہ { الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا } ہی کی صفت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو { الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ } قرار دیا ہے۔ دیکھیے سورۂ محمد (۱۶) کی تفسیر اور ایمان کا ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ بھی علم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ» ‏‏‏‏ [محمد: ۱۹] پس جان لے کہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ہاں علم اور ایمان کے مدارج میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ اسی طرح جنت میں علم کے لحاظ سے اہلِ ایمان کے مدارج میں بلندی ہوگی۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَ رَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَؤُهَا] [أبو داوٗد، الوتر، باب کیف یستحب الترتیل في القراء ۃ: ۱۴۶۴، وقال الألباني حسن صحیح] قرآن والے شخص سے کہا جائے گا پڑھ اور چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا تھا، تیرا مقام آخری آیت کے پاس ہے جسے تو پڑھے گا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [إِنَّ اللّٰهَ يَرْفَعُ بِهٰذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِيْنَ] [مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ…: ۸۱۷، عن عمر رضی اللہ عنہ] یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنھیں علم دیا گیا درجات میں بلندی عطا فرمائے گا، وہ جس قدر ایمان اور علم میں زیادہ ہوں گے اتنے ہی درجوں میں بلند ہوں گے۔ اس آیت سے علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
➐ یہاں ایک سوال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے { الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ } اور { وَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ } کو عطف کے ساتھ ذکر فرمایا ہے، جو مغایرت کے لیے ہوتا ہے، تو یہ دونوں ایک ہی موصوف کی صفت کیسے ہو سکتے ہیں؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں موصوف میں مغایرت مراد نہیں صفات میں مغایرت مراد ہے اور بعض اوقات ایک ہی موصوف کی صفات اس طرح بھی لائی جاتی ہیں، جیسا کہ سورۂ اعلیٰ میں ہے: «‏‏‏‏سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى (1) الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى (2) وَ الَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى (3) وَ الَّذِيْۤ اَخْرَجَ الْمَرْعٰى» ‏‏‏‏ [الأعلٰی: ۱ تا ۴] اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو سب سے بلند ہے۔ وہ جس نے پیدا کیا، پس درست بنایا۔ اور وہ جس نے اندازہ ٹھہرایا، پھر ہدایت کی۔ اور وہ جس نے چارا اُگایا۔
➑ {وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ:} یعنی اللہ تعالیٰ تمھارے تمام اعمال سے پوری طرح باخبر ہے کہ تم اٹھنے کا حکم ملنے پر خوش دلی سے اٹھ کھڑے ہوتے ہو یا نفاق اور کبر کی وجہ سے مجبوراً اٹھتے ہو اور وہ تمھیں تمھارے عمل کے مطابق ہی جزا دے گا۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

11۔ 1 اس میں مسلمانوں کو مجلس کے آداب بتلائے جا رہے ہیں مجلس کا لفظ عام ہے جو ہر اس مجلس کو شامل ہے جس میں مسلمان خیر اور اجر کے حصول کے لیے جمع ہوں وعظ و نصیحت کی مجلس ہو یا جمعہ کی مجلس ہو تفسیر القرطبی کھل کر بیٹھو کا مطلب ہے کہ مجلس کا دائرہ وسیع رکھو تاکہ بعد میں آنے والوں کے لے بیٹھنے کی جگہ رہے دائرہ تنگ مت رکھو کہ بعد میں آنے والے کو کھڑا رہنا پڑھے یا کسی بیٹھے ہو‏ئے کو اٹھا کر اس کی جگہ وہ بیٹھے کہ یہ دونوں باتیں ناشائستہ ہیں چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود نہ بیٹھے اس لیے مجلس کے دائرے کو فراخ اور وسیع کرلو۔ صحیح بخاری۔ 11۔ 2 یعنی اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں وسعت عطا فرمائے گا یا جہاں بھی تم وسعت و فراخی کے طالب ہوگے، مثلاً مکان میں، رزق میں، قبر میں، ہر جگہ تمہیں فراخی عطا فرمائے گا۔ 11۔ 3 یعنی جہاد کے لئے، نماز کے لئے یا کسی بھی عمل خیر کے لئے۔ یا مطلب ہے کہ جب مجلس سے اٹھ کر جانے کو کہا جائے تو فوراً چلے جاؤ۔ مسلمانوں کو یہ حکم اس لئے دیا گیا کہ صحابہ کرام نبی کی مجلس سے اٹھ کر جانا پسند نہیں کرتے تھے لیکن اس طرح بعض دفعہ ان لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی جو نبی سے خلوت میں کوئی گفتگو کرنا چاہتے تھے۔ 11۔ 4 یعنی اہل ایمان کے درجے غیر اہل ایمان پر اور اہل علم کے درجے اہل ایمان پر بلند فرمائے گا جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان کے ساتھ علوم دین سے واقفیت مزید رفع درجات کا باعث ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

آداب مجلس باہم معاملات اور علمائے حق و باعمل کی توقیر ٭٭
یہاں ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ مجلسی آداب سکھاتا ہے۔ انہیں حکم دیتا ہے کہ نشست و برخاست میں بھی ایک دوسرے کا خیال و لحاظ رکھو۔ تو فرماتا ہے کہ جب مجلس جمع ہو اور کوئی آئے تو ذرا ادھر ادھر ہٹ ہٹا کر اسے بھی جگہ دو۔ مجلس میں کشادگی کرو۔ اس کے بدلے اللہ تعالیٰ تمہیں کشادگی دے گا۔ اس لیے کہ ہر عمل کا بدلہ اسی جیسا ہوتا ہے۔
چنانچہ ایک حدیث میں ہے { جو شخص اللہ تعالیٰ کیلئے مسجد بنا دے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنا دے گا۔ } [صحیح بخاری:450]‏‏‏‏
ایک اور حدیث میں ہے کہ { جو کسی سختی والے پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا، جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی مدد میں لگا رہے اللہ تعالیٰ خود اپنے اس بندے کی مدد پر رہتا ہے۔ } [صحیح مسلم:2699]‏‏‏‏ اور بھی اسی طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں۔
قتادہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ آیت مجلس ذکر کے بارے میں اتری ہے مثلاً وعظ ہو رہا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نصیحت کی باتیں بیان فرما رہے ہیں لوگ بیٹھے سن رہے ہیں، اب جو دوسرا کوئی آیا تو کوئی اپنی جگہ سے نہیں سرکتا تاکہ اسے بھی جگہ مل جائے، قرآن کریم نے حکم دیا کہ ایسا نہ کرو ادھر ادھر کھل جایا کرو تاکہ آنے والے کی جگہ ہو جائے۔
مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں جمعہ کے دن یہ آیت اتری، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن صفہ میں تھے یعنی مسجد کے ایک چھپر تلے جگہ تنگ تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ جو مہاجر اور انصاری بدر کی لڑائی میں آپ کے ساتھ تھے آپ ان کی بڑی عزت اور تکریم کیا کرتے تھے، اس دن اتفاق سے چند بدری صحابہ رضی اللہ عنہم دیر سے آئے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس کھڑے ہو گئے، آپ سے سلام علیک ہوئی، آپ نے جواب دیا پھر اور اہل مجلس کو سلام کیا، انہوں نے بھی جواب دیا، اب یہ اسی امید پر کھڑے رہے کہ مجلس میں ذرا کشادگی دیکھیں تو بیٹھ جائیں لیکن کوئی شخص اپنی جگہ سے نہ ہلا جو ان کیلئے جگہ ہوتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو نہ رہا گیا، نام لے لے کر بعض لوگوں کو ان کی جگہ سے کھڑا کیا اور ان بدری صحابیوں کو بیٹھنے کو فرمایا، جو لوگ کھڑے کرائے گئے تھے انہیں ذرا بھاری پڑا ادھر منافقین کے ہاتھ میں ایک مشغلہ لگ گیا، کہنے لگے، لیجئے یہ عدل کرنے کے مدعی نبی ہیں کہ جو لوگ شوق سے آئے، پہلے آئے، اپنے نبی کے قریب جگہ لی، اطمینان سے اپنی اپنی جگہ بیٹھ گئے، انہیں تو ان کی جگہ سے کھڑا کر دیا اور دیر سے آنے والوں کو ان کی جگہ دلوا دی کس قدر ناانصافی ہے، ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے ان کے دل میلے نہ ہوں دعا کی کہ اللہ اس پر رحم کرے جو اپنے مسلمان بھائی کیلئے مجلس میں جگہ کر دے۔ اس حدیث کو سنتے ہی صحابہ رضی اللہ عنہم نے فوراً خود بخود اپنی جگہ سے ہٹنا اور آنے والوں کو جگہ دینا شروع کر دیا اور جمعہ ہی کے دن یہ آیت اتری۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:244/23:مرسل]‏‏‏‏
بخاری، مسلم، مسند وغیرہ میں حدیث ہے کہ { کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے ہٹا کر وہاں نہ بیٹھے بلکہ تمہیں چاہیئے کہ ادھر ادھر سرک کر اس کیلئے جگہ بنا دو۔ } [صحیح بخاری:911]‏‏‏‏
مسند شافعی میں ہے، تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو جمعہ کے دن اس کی جگہ سے ہرگز نہ اٹھائے بلکہ کہہ دے کہ گنجائش کرو۔[مسند شافعی:159/1ضعیف]‏‏‏‏
اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ کسی آنے والے کیلئے کھڑے ہو جانا جائز ہے یا نہیں؟ بعض لوگ تو اجازت دیتے ہیں اور یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے سردار کیلئے کھڑے ہو جاؤ۔ } [صحیح بخاری:2550]‏‏‏‏
بعض علماء منع کرتے ہیں اور یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ { جو شخص یہ چاہے کہ لوگ اس کیلئے سیدھے کھڑے ہوں وہ جہنم میں اپنی جگہ بنا لے۔ } [سنن ترمذي:2755،قال الشيخ الألباني:حسن]‏‏‏‏
بعض بزرگ تفصیل بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ سفر سے اگر کوئی آیا ہو تو حاکم کیلئے عہدہ حکمرانی کے سبب لوگوں کا کھڑے ہو جانا درست ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کیلئے کھڑا ہونے کو فرمایا تھا یہ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تھے۔ بنو قریظہ کے آپ حاکم بنائے گئے تھے جب انہیں آتا ہوا دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اپنے سردار کیلئے کھڑے ہو جاؤ اور یہ (‏‏‏‏بطور تعظیم کے نہ تھا بلکہ) صرف اس لیے تھا کہ ان کے احکام کو بخوبی جاری کرائے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
ہاں اسے عادت بنا لینا کہ مجلس میں جہاں کوئی بڑا آدمی آیا اور لوگ کھڑے ہو گئے یہ عجمیوں کا طریقہ ہے، سنن کی حدیث میں ہے کہ { صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب اور باعزت کوئی نہ تھا لیکن تاہم آپ کو دیکھ کر وہ کھڑے نہیں ہوا کرتے تھے، جانتے تھے کہ آپ اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ } [سنن ترمذي:2754،قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏
سنن کی اور حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آتے ہی مجلس کے خاتمہ پر بیٹھ جایا کرتے تھے اور جہاں آپ تشریف فرما ہو جاتے وہی جگہ صدارت کی جگہ ہو جاتی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے اپنے مراتب کے مطابق مجلس میں بیٹھ جاتے۔ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ کے آپ دائیں جانب، سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ آپ کے بائیں اور عموماً سیدنا عثمان و سیدنا علی رضی اللہ عنہما آپ کے سامنے بیٹھتے تھے کیونکہ یہ دونوں بزرگ کاتب وحی تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے اور یہ وحی کو لکھ لیا کرتے تھے۔ }
صحیح مسلم میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا کہ مجھ سے قریب ہو کر عقلمند، صاحب فراست لوگ بیٹھیں پھر درجہ بدرجہ۔ } [صحیح مسلم:432]‏‏‏‏
اور یہ انتظام اس لیے تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ارشادات یہ حضرات سنیں اور بخوبی سمجھیں، یہی وجہ تھی کہ صفہ والی مجلس میں جس کا ذکر ابھی ابھی گزرا ہے آپ نے اور لوگوں کو ان کی جگہ سے ہٹا کر وہ جگہ بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کو دلوائی، گو اس کے ساتھ اور وجوہات بھی تھیں مثلاً ان لوگوں کو خود چاہیئے تھا کہ ان بزرگ صحابہ رضی اللہ عنہم کا خیال کرتے اور لحاظ و مروت برت کر خود ہٹ کر انہیں جگہ دیتے، جب انہوں نے از خود ایسا نہیں کیا تو پھر حکماً ان سے ایسا کرایا گیا، اسی طرح پہلے کے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے کلمات پوری طرح سن چکے تھے اب یہ حضرات آئے تھے تو آپ نے چاہا کہ یہ بھی باآرام بیٹھ کر میری حدیثیں سن لیں اور دینی تعلیم حاصل کر لیں، اسی طرح امت کو اس بات کی تعلیم بھی دینی تھی کہ وہ اپنے بڑوں اور بزرگوں کو امام کے پاس بیٹھنے دیں اور انہیں اپنے سے مقدم رکھیں۔
مسند احمد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی صفوں کی درستی کے وقت ہمارے مونڈھے خود پکڑ پکڑ کر ٹھیک ٹھاک کرتے اور زبانی بھی فرماتے جاتے سیدھے رہو، ٹیڑھے ترچھے نہ کھڑے ہوا کرو، دانائی اور عقلمندی والے مجھ سے بالکل قریب رہیں پھر درجہ بہ درجہ دوسرے لوگ۔ سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ اس حدیث کو بیان فرما کر فرماتے اس حکم کے باوجود افسوس کہ اب تم بڑی ٹیڑھی صفیں کرتے ہو۔ } [صحیح مسلم:432]‏‏‏‏
مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ظاہر ہے کہ جب آپ کا یہ حکم نماز کیلئے تھا تو نماز کے سوا کسی اور وقتوں میں تو بطور اولیٰ یہی حکم رہے گا، ابوداؤد میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صفوں کو درست کرو، مونڈھے ملائے رکھو، صفوں کے درمیان خالی جگہ نہ چھوڑو، اپنے بھائیوں کے پاس صف میں نرم بن جایا کرو، صف میں شیطان کیلئے سوراخ نہ چھوڑو صف ملانے والے کو اللہ تعالیٰ ملاتا ہے اور صف توڑنے والے کو اللہ تعالیٰ کاٹ دیتا ہے۔ } [سنن ابوداود:666،قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏
اسی لیے سید القراء سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ جب پہنچتے تو صف اول میں سے کسی ضعیف العقل شخص کو پیچھے ہٹا دیتے اور خود پہلی صف میں کھڑے ہو جاتے اور اسی حدیث کو دلیل میں لاتے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مجھ سے قریب ذی رائے اور اعلیٰ عقلمند کھڑے ہوں پھر درجہ بہ درجہ دوسرے لوگ۔ } [مسند احمد:140/5:صحیح]‏‏‏‏
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھ کر اگر کوئی شخص کھڑا ہو جاتا تو آپ اس کی جگہ پر نہ بیٹھتے۔ [صحیح بخاری:6280]‏‏‏‏
اور اس حدیث کو پیش کرتے جو اوپر گزری کہ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ میں کوئی اور نہ بیٹھے، یہاں بطور نمونے کے یہ چند مسائل اور تھوڑی حدیثیں لکھ کر ہم آگے چلتے ہیں بسط و تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں، نہ یہ موقع ہے۔
ایک صحیح حدیث میں ہے کہ { ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے کہ تین شخص آئے ایک تو مجلس کے درمیان جگہ خالی دیکھ کر وہاں آ کر بیٹھ گئے دوسرے نے مجلس کے آخر میں جگہ بنا لی تیسرے واپس چلے گئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں تمہیں تین شخصوں کی بابت خبر دوں، ایک نے تو اللہ کی طرف جگہ لی اور اللہ تعالیٰ نے اسے جگہ دی، دوسرے نے شرم کی۔ اللہ نے بھی اس سے حیاء کی، تیسرے نے منہ پھیر لیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے منہ پھیر لیا۔ } [صحیح بخاری:66]‏‏‏‏
مسند احمد میں ہے کہ { کسی کو حلال نہیں کہ دو شخصوں کے درمیان تفریق کرے، ہاں ان کی خوشنودی سے ہو تو اور بات ہے۔ } [سنن ابوداود:4845،قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما، حسن بصری وغیرہ فرماتے ہیں مجلسوں کی کشادگی کا حکم جہاد کے بارے میں ہے، اسی طرح اٹھ کھڑے ہونے کا حکم بھی جہاد کے بارے میں ہے۔
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی جب تمہیں بھلائی اور کارخیر کی طرف بلایا جائے تو تم فوراً آ جاؤ، مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جب تمہیں نماز کیلئے بلایا جائے تو اٹھ کھڑے ہو جایا کرو، عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آتے تو جاتے وقت ہر ایک کی چاہت یہ ہوتی کہ سب سے آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا میں ہوں، بسا اوقات آپ کو کوئی کام کاج ہوتا تو بڑا حرج ہوتا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مروت سے کچھ نہ فرماتے اس پر یہ حکم ہوا کہ جب تم سے کھڑے ہونے کو کہا جائے تو کھڑے ہو جایا کرو، جیسے اور جگہ ہے «وَإِن قيلَ لَكُمُ ارجِعوا فَارجِعوا هُوَ أَزكىٰ لَكُم وَاللَّهُ بِما تَعمَلونَ عَليمٌ» [24-النور:28]‏‏‏‏ ’ اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو لوٹ جاؤ ‘۔
پھر فرماتا ہے کہ مجلسوں میں جگہ دینے کو جب کہا جائے تو جگہ دینے میں اور جب چلے جانے کو کہا جائے تو چلے جانے میں اپنی ہتک نہ سمجھو بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مرتبہ بلند کرنا اور اپنی توقیر کرانا ہے، اسے اللہ ضائع نہ کرے گا بلکہ اس پر دنیا اور آخرت میں نیک بدلہ دے گا، جو شخص احکام الٰہیہ پر تواضع سے گردن جھکا دے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور اس کی شہرت نیکی کے ساتھ کرتا ہے۔ ایمان والوں اور صحیح علم والوں کا یہی کام ہوتا ہے کہ اللہ کے احکام کے سامنے گردن جھکا دیا کریں اور اس سے وہ بلند درجوں کے مستحق ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم ہے کہ بلند مرتبوں کا مستحق کون ہے اور کون نہیں؟
نافع بن عبدالحارث رحمہ اللہ سے امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ملاقات عسفان میں ہوئی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مکہ کا عامل بنایا تھا تو ان سے پوچھا کہ تم مکہ میں اپنی جگہ کسے چھوڑ آئے ہو؟ جواب دیا کہ ابن ابزیٰ کو، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ تو ہمارے مولیٰ ہیں یعنی آزاد کردہ غلام، انہیں تم اہل مکہ کا امیر بنا کر چلے آئے ہو؟ کہا: ہاں، اس لیے کہ وہ اللہ کی کتاب کا ماہر اور فرائض کا جاننے والا اور اچھا وعظ کہنے والا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس وقت فرمایا: سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ { اللہ تعالیٰ اس کتاب کی وجہ سے ایک قوم کو عزت پر پہنچا کر بلند مرتبہ کرے گا اور بعض کو پست و کم مرتبہ بنا دے گا }۔ [صحیح مسلم:817]‏‏‏‏
علم اور علماء کی فضیلت، جو اس آیت اور دیگر آیات و احادیث سے ظاہر ہے میں نے ان سب کو بخاری شریف کی کتاب العلم کی شرح میں جمع کر دیا ہے۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل