اَمۡ خُلِقُوۡا مِنۡ غَیۡرِ شَیۡءٍ اَمۡ ہُمُ الۡخٰلِقُوۡنَ ﴿ؕ۳۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
یا وہ کسی چیز کے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں، یا وہ (خود) پیدا کرنے والے ہیں؟
ترجمہ فتح محمد جالندھری
کیا یہ کسی کے پیدا کئے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں۔ یا یہ خود (اپنے تئیں) پیدا کرنے والے ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 36،35) ➊ {اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ ٔ…:} اس سے پہلے تین سوال یہ ثابت کرنے کے لیے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول اور قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے، اب یہاں سے اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت اور قدرتِ کاملہ کو ثابت کرنے کی بات کا آغاز فرمایا۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے جو دعوت پیش کی ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھارا خالق ہے، اس لیے تمھیں اسی کی عبادت کرنی چاہیے، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔ آخر اس پر ان کے بگڑنے کی کیا کوئی معقول وجہ ہے؟ اگر یہ رب تعالیٰ کو خالق نہیں مانتے تو بتائیں کہ کیا وہ کسی بنانے والے کے بغیر ہی بن گئے ہیں؟ ظاہر ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ہر بنی ہوئی چیز کا کوئی بنانے والا ضرور ہوتا ہے۔ یا پھر انھوں نے اپنے آپ کو خود بنا لیا ہے؟ یہ پہلی بات سے بھی زیادہ ناممکن بات ہے، کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی چیز خالق بھی ہو اور مخلوق بھی۔ یا پھر یہ بتائیں کہ یہ آسمان و زمین انھوں نے بنائے ہیں؟ ظاہر ہے ایسا بھی نہیں، کیونکہ یہ کائنات اس وقت کی بنی ہوئی ہے جب ان لوگوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔
ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے تین سوال کیے ہیں جن کا جواب ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ وہ بالکل ظاہر ہے کہ نہ یہ لوگ کسی بنانے والے کے بغیر بنے ہیں، نہ یہ اپنے آپ کو خود بنانے والے ہیں اور نہ کائنات ان کی بنائی ہوئی ہے، بلکہ انھیں اور ساری کائنات کو بنانے والا کوئی اور ہے اور وہ اللہ تعالیٰ ہے۔ اس حقیقت کو وہ بھی مانتے تھے، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ» [الزخرف: ۸۷] اور یقینا اگر تو ان سے پوچھے کہ انھیں کس نے پیدا کیا تو بلاشبہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے،پھر کہاں بہکائے جاتے ہیں۔ اور فرمایا: «وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ» ‏‏‏‏ [لقمان: ۲۵] اوربلاشبہ اگر تو ان سے پوچھے کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور ہی کہیں گے کہ اللہ نے۔
➋ { بَلْ لَّا يُوْقِنُوْنَ:} یعنی بات یہ نہیں کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق نہیں مانتے اور اس کا اقرار نہیں کرتے، بلکہ اصل یہ ہے کہ اقرار کے باوجود انھیں اس بات کا یقین نہیں ہے، کیونکہ اگر انھیں واقعی یقین ہوتا کہ ہمارا خالق اللہ تعالیٰ ہے تو اسی کی عبادت کرتے، نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بناتے اور نہ اس کی طرف دعوت دینے والے کی اس طرح مخالفت کرتے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

35۔ 1 یعنی اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ انہیں کسی بات کا حکم دے یا کسی بات سے منع کرے۔ لیکن جب ایسا نہیں ہے بلکہ انہیں ایک پیدا کرنے والے نے پیدا کیا ہے تو ظاہر ہے اس کا انہیں پیدا کرنے کا ایک خاص مقصد ہے، وہ انہیں پیدا کر کے یوں کس طرح چھوڑ دے گا۔ 35۔ 2 یعنی یہ خود بھی اپنے خالق نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ کے خالق ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

توحید ربوبیت اور الوہیت ٭٭
توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کا ثبوت دیا جا رہا ہے، فرماتا ہے کیا یہ بغیر موجد کے موجود ہو گئے؟ یا یہ خود اپنے موجد آپ ہی ہیں؟ دراصل دونوں باتیں نہیں بلکہ ان کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، یہ کچھ نہ تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کر دیا۔ { سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز میں سورۃ والطور کی تلاوت کر رہے تھے میں کان لگائے سن رہا تھا جب آپ آیت «أَمْ عِندَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ» ’ یا کیا ان کے پاس تیرے رب کے خزانے ہیں؟ یا [ان خزانوں کے]‏‏‏‏ یہ داروغہ ہیں ‘ [52-الطور:37]‏‏‏‏ تک پہنچے تو میری حالت ہو گئی کہ گویا میرا دل اڑا جا رہا ہے }۔ [صحیح بخاری:4854]‏‏‏‏
بدری قیدیوں میں ہی یہ سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ آئے تھے یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب یہ کافر تھے، قرآن پاک کی ان آیتوں کا سننا ان کے لیے اسلام کا ذریعہ بن گیا۔
پھر فرمایا ہے کیا آسمان و زمین کے پیدا کرنے والے یہ ہیں؟ یہ بھی نہیں بلکہ یہ جانتے ہوئے کہ خود ان کا اور کل مخلوقات کا بنانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر بھی یہ اپنی بےیقینی سے باز نہیں آتے، پھر فرماتا ہے کیا دنیا میں تصرف ان کا ہے؟ کیا ہر چیز کے خزانوں کے مالک یہ ہیں؟ یا مخلوق کے محاسب یہ ہیں حقیقت میں ایسا نہیں بلکہ مالک و متصرف صرف اللہ عزوجل ہی ہے وہ قادر ہے جو چاہے کر گزرے۔
پھر فرماتا ہے کیا اونچے آسمانوں تک چڑھ جانے کا کوئی زینہ ان کے پاس ہے؟ اگر یوں ہے تو ان میں سے جو وہاں پہنچ کر کلام سن آتا ہے وہ اپنے اقوال و افعال کی کوئی آسمانی دلیل پیش کرے لیکن نہ وہ پیش کر سکتا ہے، نہ وہ کسی حقانیت کے پابند ہیں، یہ بھی ان کی بڑی بھاری غلطی ہے کہ کہتے ہیں فرشتے اللہ کی لڑکیاں ہیں، کیا مزے کی بات ہے کہ اپنے لیے تو لڑکیاں ناپسند ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کریں، انہیں اگر معلوم ہو جائے کہ ان کے ہاں لڑکی ہوئی تو غم کے مارے چہرہ سیاہ پڑ جائے اور اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتوں کو اس کی لڑکیاں بتائیں، اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی پرستش کریں، پس نہایت ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ فرماتا ہے کیا اللہ کی لڑکیاں ہیں اور تمہارے لڑکے ہیں؟
پھر فرمایا کیا تو اپنی تبلیغ پر ان سے کچھ معاوضہ طلب کرتا ہے جو ان پر بھاری پڑے؟ یعنی نبی اللہ، دین اللہ کے پہنچانے پر کسی سے کوئی اجرت نہیں مانگتے پھر انہیں یہ پہنچانا کیوں بھاری پڑتا ہے؟ کیا یہ لوگ غیب دان ہیں؟ نہیں! بلکہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق میں سے کوئی بھی غیب کی باتیں نہیں جانتا۔ کیا یہ لوگ دین اللہ اور رسول اللہ کی نسبت بکواس کر کے خود رسول کو مومنوں اور عام لوگوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں؟ یاد رکھو یہی دھوکے باز دھوکے میں رہ جائیں گے اور اخروی عذاب سمیٹیں گے۔
پھر فرمایا کیا اللہ کے سوا ان کے اور معبود ہیں؟ اللہ کی عبادت میں بتوں کو اور دوسری چیزوں کو یہ کیوں شریک کرتے ہیں؟ اللہ تو شرکت سے مبرا، شرک سے پاک اور مشرکوں کے اس فعل سے سخت بیزار ہے۔