(آیت 34) {فَلْيَاْتُوْابِحَدِيْثٍمِّثْلِهٖۤاِنْكَانُوْاصٰدِقِيْنَ:} یعنی اگر یہ اسے رسول کا اپنے پاس سے گھڑا ہوا انسانی کلام سمجھتے ہیں تو وہ بھی اس جیسی ایک بات ہی بنا کر لے آئیں، اگر سچے ہیں۔ آخر وہ بھی اہلِ زبان ہیں، انھیں اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز ہے، پھر انھیں یہ بھی پیش کش ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ساری کائنات کو ساتھ ملا کر اس جیسی ایک بات بنا کر لے آئیں۔ قرآن مجید کے ان مقامات پر بھی نظر ڈال لیں، سورۂ بقرہ (۲۳)، یونس (۳۸)، ہود (۱۳) اور بنی اسرائیل (۸۸)۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
34۔ 1 یعنی اگر یہ اپنے دعوے میں سچے ہیں کہ یہ قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا گھڑا ہوا ہے تو پھر یہ بھی اس جیسی کتاب بنا کر پیش کردیں جو نظم، اعجاز، حسن بیان، حقائق کے مسائل میں اس کا مقابلہ کرسکیں۔