وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَ الۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ ۙ﴿۷﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور جان لو کہ تم میں اللہ کا رسول ہے، اگر وہ بہت سے کاموں میں تمھارا کہا مان لے تو یقینا تم مشکل میں پڑ جاؤ اور لیکن اللہ نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میںمزین کر دیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور جان رکھو کہ تم میں خدا کے پیغمبرﷺ ہیں۔ اگر بہت سی باتوں میں وہ تمہارا کہا مان لیا کریں تو تم مشکل میں پڑ جاؤ لیکن خدا نے تم کو ایمان عزیز بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور کفر اور گناہ اور نافرمانی سے تم کو بیزار کردیا۔ یہی لوگ راہ ہدایت پر ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، اگر وه تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں، تو تم مشکل میں پڑجاؤ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناه کو اور نافرمانی کو تمہارے نگاہوں میں ناپسندیده بنا دیا ہے، یہی لوگ راه یافتہ ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 7) ➊ { وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ فِيْكُمْ رَسُوْلَ اللّٰهِ:} ظاہر ہے کہ ہر صحابی یہ جانتا تھا کہ اللہ کا رسول ہم میں موجود ہے، اس کے باوجود فرمایا: ”اور جان لو کہ تم میں اللہ کا رسول ہے۔“ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بنفس نفیس موجود ہونے اور آپ کی وفات کے بعد کتاب و سنت کے موجود ہونے کے باوجود جو شخص اپنی رائے پر اصرار کرتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی حدیث سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے اپنی بات منوانا چاہتا ہے درحقیقت وہ اس بات سے جاہل ہے کہ ہم میں اللہ کا رسول موجود ہے، ہمیں ہر معاملے میں ان کی بات ماننا چاہیے، کیونکہ اگر اسے یہ بات معلوم ہوتی تو وہ رسول کی اطاعت کرتا اور رسول کو اپنی اطاعت کروانے کی کوشش نہ کرتا۔ سو جس طرح وہ شخص جاہل ہے جو چار دیواری کے باہر سے آپ کو آوازیں دیتا ہے اور وہ شخص جاہل ہے جو کسی فاسق کی لائی ہوئی خبر پر بلاتحقیق کارروائی کر گزرتا ہے، اسی طرح وہ شخص بھی جاہل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی حدیث کے ہوتے ہوئے اپنی بات منوانا چاہتا ہے۔ اس لیے اسے یہ بتانے کی شدید ضرورت ہے کہ جان لو! تم میں اللہ کا رسول موجود ہے۔
➋ { لَوْ يُطِيْعُكُمْ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِلَعَنِتُّمْ:} یعنی رسول کے احکام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے اور اس کا ہر حکم علم و حکمت اور رحمت و مصلحت پر مبنی ہے اس لیے رسول کی اطاعت کرنے سے تم ہر طرح کی مشقت اور مصیبت سے بچے رہو گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ» [البقرۃ: ۱۸۵] ”اللہ تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اورتمھارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔“ اور رسول کو بھی تمھارا مشقت میں پڑنا کسی صورت گوارا نہیں، فرمایا: «عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ» [التوبۃ: ۱۲۸] ”اس پر بہت شاق ہے کہ تم مشقت میں پڑو، تم پر بہت حرص رکھنے والا ہے۔“ اس کے برعکس اگر رسول تمھاری اطاعت کرے تو تم مشقت میں پڑ جاؤ گے، کیونکہ اوّل تو تمھاری سب کی بات ایک نہیں ہو گی، ہر شخص وہ بات منوانے کی کوشش کرے گا جو اس کے خیال میں اس کے فائدے کی ہے، تو رسول کس کس کی بات مانے گا اور کس کی بات کا امت کو حکم دے گا؟ پھر تمھارا علم ناقص ہے، نہ تمھیں مستقبل کی کوئی خبر ہے نہ تم غیب کا علم رکھتے ہو، تمھیں کیا معلوم کہ تم جسے اپنے لیے فائدہ مند سمجھ رہے ہو وہ انجام کے لحاظ سے کس قدر نقصان دہ ہے۔ اس لیے جس طرح کائنات کا نظام درست اس لیے چل رہا ہے کہ وہ ایک اللہ کے حکم کے مطابق چل رہا ہے اسی طرح شریعت کا نظام بھی صرف رسول کی اطاعت سے صحیح چل سکتا ہے، کیونکہ اس کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، فرمایا: «وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِيْهِنَّ» [المؤمنون: ۷۱] ”اور اگر حق ان کی خواہشوں کے پیچھے چلے تو سب آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے، یقینا بگڑ جائیں۔“
➌ { ” لَوْ يُطِيْعُكُمْ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ “} میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ رسول بعض تدبیری امور میں تمھارا مشورہ مان بھی لیتا ہے، کیونکہ اسے اللہ کی طرف سے مشورے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا: «فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِ» [آل عمران: ۱۵۹] ”سو ان سے درگزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر۔“ مگر یاد رکھو! تمھارا کام حکم دینا نہیں، مشورہ دینا ہے، رسول مناسب سمجھے تو مان لے مناسب نہ سمجھے تو نہ مانے، آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے ساتھ اسی نے کرنا ہے، جیسا کہ فرمایا: «فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ» [آل عمران: ۱۵۹] ”پھر جب تو پختہ ارادہ کرے تو اللہ پر بھروسا کر۔“
➍ { وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ:} ایمان سے مراد یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے جس میں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالارکان تینوں شامل ہیں۔ یعنی اگر رسول بہت سی باتوں میں تمھاری اطاعت کرے تو یقینا تم مشکل میں پڑ جاؤ، لیکن اللہ تعالیٰ نے(تمھیں مشکل میں پڑنے سے بچا لیا اور) ایمان یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو تمھارے لیے محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں ایسا مزین کر دیا کہ تم خوش دلی سے رسول کی اطاعت پر کار بند ہو گئے۔ اس لیے بعض اوقات بتقاضائے بشریت تم سے غلطی ہو جاتی ہے مگر ایمان کی محبت اور کفر سے نفرت کی بدولت تم جلد ہی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہو اور گناہوں سے باز رہتے ہو۔
➎ { وَ كَرَّهَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْيَانَ:} یعنی کفر، فسوق اور عصیان کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا۔ رازی نے فرمایا: ”ایمان میں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالارکان تینوں شامل ہیں۔ کفر دل کی تصدیق نہ ہونا ہے، فسوق زبان سے اقرار نہ کرنا ہے اور عصیان عمل نہ کرنا ہے۔“ شیخ عبد الرحمان السعدی نے فرمایا: ”(کفر کا معنی تو ظاہر ہے) فسوق سے مراد بڑے گناہ (کبائر) اور عصیان سے مراد ان سے کم تر درجے کے گناہ ہیں۔“ (واللہ اعلم)
➏ {اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ:} یعنی یہ لوگ جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے ان کے دلوں میں مزین کر دیا ہے اور کفر و فسوق و عصیان کو ان کے لیے ناپسندیدہ بنا دیا ہے، یہی لوگ ہیں جو کامل ہدایت والے ہیں۔ ”الف لام“ بیانِ کمال کے لیے ہے اور حصر کا فائدہ بھی دے رہا ہے کہ صحابہ ہی ہدایت پر ہیں، ان کے دشمن اور مخالف گمراہ ہیں۔ اس آیت میں صحابہ کرام کی بے حد فضیلت بیان ہوئی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کے وہ اوصاف حمیدہ بیان کیے جو اس نے انھیں عطا فرمائے اور آخر میں صریح الفاظ میں ان کے راہِ راست پر ہونے کی شہادت دی۔
➋ { لَوْ يُطِيْعُكُمْ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِلَعَنِتُّمْ:} یعنی رسول کے احکام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ علیم و حکیم ہے اور اس کا ہر حکم علم و حکمت اور رحمت و مصلحت پر مبنی ہے اس لیے رسول کی اطاعت کرنے سے تم ہر طرح کی مشقت اور مصیبت سے بچے رہو گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ» [البقرۃ: ۱۸۵] ”اللہ تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اورتمھارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا۔“ اور رسول کو بھی تمھارا مشقت میں پڑنا کسی صورت گوارا نہیں، فرمایا: «عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ» [التوبۃ: ۱۲۸] ”اس پر بہت شاق ہے کہ تم مشقت میں پڑو، تم پر بہت حرص رکھنے والا ہے۔“ اس کے برعکس اگر رسول تمھاری اطاعت کرے تو تم مشقت میں پڑ جاؤ گے، کیونکہ اوّل تو تمھاری سب کی بات ایک نہیں ہو گی، ہر شخص وہ بات منوانے کی کوشش کرے گا جو اس کے خیال میں اس کے فائدے کی ہے، تو رسول کس کس کی بات مانے گا اور کس کی بات کا امت کو حکم دے گا؟ پھر تمھارا علم ناقص ہے، نہ تمھیں مستقبل کی کوئی خبر ہے نہ تم غیب کا علم رکھتے ہو، تمھیں کیا معلوم کہ تم جسے اپنے لیے فائدہ مند سمجھ رہے ہو وہ انجام کے لحاظ سے کس قدر نقصان دہ ہے۔ اس لیے جس طرح کائنات کا نظام درست اس لیے چل رہا ہے کہ وہ ایک اللہ کے حکم کے مطابق چل رہا ہے اسی طرح شریعت کا نظام بھی صرف رسول کی اطاعت سے صحیح چل سکتا ہے، کیونکہ اس کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، فرمایا: «وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ وَ مَنْ فِيْهِنَّ» [المؤمنون: ۷۱] ”اور اگر حق ان کی خواہشوں کے پیچھے چلے تو سب آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے، یقینا بگڑ جائیں۔“
➌ { ” لَوْ يُطِيْعُكُمْ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ “} میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ رسول بعض تدبیری امور میں تمھارا مشورہ مان بھی لیتا ہے، کیونکہ اسے اللہ کی طرف سے مشورے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ فرمایا: «فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِ» [آل عمران: ۱۵۹] ”سو ان سے درگزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر۔“ مگر یاد رکھو! تمھارا کام حکم دینا نہیں، مشورہ دینا ہے، رسول مناسب سمجھے تو مان لے مناسب نہ سمجھے تو نہ مانے، آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کے ساتھ اسی نے کرنا ہے، جیسا کہ فرمایا: «فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ» [آل عمران: ۱۵۹] ”پھر جب تو پختہ ارادہ کرے تو اللہ پر بھروسا کر۔“
➍ { وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْاِيْمَانَ:} ایمان سے مراد یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے جس میں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالارکان تینوں شامل ہیں۔ یعنی اگر رسول بہت سی باتوں میں تمھاری اطاعت کرے تو یقینا تم مشکل میں پڑ جاؤ، لیکن اللہ تعالیٰ نے(تمھیں مشکل میں پڑنے سے بچا لیا اور) ایمان یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو تمھارے لیے محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں ایسا مزین کر دیا کہ تم خوش دلی سے رسول کی اطاعت پر کار بند ہو گئے۔ اس لیے بعض اوقات بتقاضائے بشریت تم سے غلطی ہو جاتی ہے مگر ایمان کی محبت اور کفر سے نفرت کی بدولت تم جلد ہی اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہو اور گناہوں سے باز رہتے ہو۔
➎ { وَ كَرَّهَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْيَانَ:} یعنی کفر، فسوق اور عصیان کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا۔ رازی نے فرمایا: ”ایمان میں تصدیق بالقلب، اقرار باللسان اور عمل بالارکان تینوں شامل ہیں۔ کفر دل کی تصدیق نہ ہونا ہے، فسوق زبان سے اقرار نہ کرنا ہے اور عصیان عمل نہ کرنا ہے۔“ شیخ عبد الرحمان السعدی نے فرمایا: ”(کفر کا معنی تو ظاہر ہے) فسوق سے مراد بڑے گناہ (کبائر) اور عصیان سے مراد ان سے کم تر درجے کے گناہ ہیں۔“ (واللہ اعلم)
➏ {اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ:} یعنی یہ لوگ جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے ان کے دلوں میں مزین کر دیا ہے اور کفر و فسوق و عصیان کو ان کے لیے ناپسندیدہ بنا دیا ہے، یہی لوگ ہیں جو کامل ہدایت والے ہیں۔ ”الف لام“ بیانِ کمال کے لیے ہے اور حصر کا فائدہ بھی دے رہا ہے کہ صحابہ ہی ہدایت پر ہیں، ان کے دشمن اور مخالف گمراہ ہیں۔ اس آیت میں صحابہ کرام کی بے حد فضیلت بیان ہوئی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کے وہ اوصاف حمیدہ بیان کیے جو اس نے انھیں عطا فرمائے اور آخر میں صریح الفاظ میں ان کے راہِ راست پر ہونے کی شہادت دی۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
7۔ 1 جس کا تقاصا یہ ہے کہ ان کی تعظیم اور اطاعت کرو اس لیے کہ وہ تمہاے مصالح زیادہ بہتر جاتنے ہیں کیونکہ ان پر وحی اترتی ہے پس تر ان کے پیچھے چلو ان کو اپنے پیچھے چلانے کی کوشش مت کرو اس لیے کہ اگر وہ تمہاری پسند کی باتیں ماننا شروع کردیں تو اس سے تم خود ہی زیادہ مشقت میں پڑ جاو گے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَوِ اتَّبَـعَ الْحَقُّ اَهْوَاۗءَهُمْ لَــفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ) 23۔ المؤمنون:71)۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
باب
پھر فرماتا ہے کہ جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں ان کی تعظیم و توقیر کرنا عزت و ادب کرنا ان کے احکام کو سر آنکھوں سے بجا لانا تمہارا فرض ہے، وہ تمہاری مصلحتوں سے بہت آگاہ ہیں، انہیں تم سے بہت محبت ہے، وہ تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتے۔ تم اپنی بھلائی کے اتنے خواہاں اور اتنے واقف نہیں ہو جتنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
چنانچہ اور جگہ ارشاد ہے «النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا» ۱؎ [33-الأحزاب:6] یعنی ’ مسلمانوں کے معاملات میں ان کی اپنی بہ نسبت نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے لیے زیادہ خیر اندیش ہیں ‘۔
پھر بیان فرمایا کہ ’ لوگو تمہاری عقلیں تمہاری مصلحتوں اور بھلائیوں کو نہیں پا سکتیں انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پا رہے ہیں۔ پس اگر وہ تمہاری ہر پسندیدگی کی رائے پر عامل بنتے رہیں تو اس میں تمہارا ہی حرج واقع ہو گا۔ ‘
جیسے اور آیت میں ہے «وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ بَلْ أَتَيْنَاهُم بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَن ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ» ۱؎ [23-المؤمنون:71] یعنی ’ اگر سچا رب ان کی خوشی پر چلے تو آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز خراب ہو جائے یہ نہیں بلکہ ہم نے انہیں ان کی نصیحت پہنچا دی ہے لیکن یہ اپنی نصیحت پر دھیان ہی نہیں دھرتے ‘۔
پھر فرماتا ہے کہ ’ اللہ نے ایمان کو تمہارے نفسوں میں محبوب بنا دیا ہے اور تمہارے دلوں میں اس کی عمدگی بٹھا دی ہے ‘۔
مسند احمد میں ہے { رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”اسلام ظاہر ہے اور ایمان دل میں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کرتے اور فرماتے تقویٰ یہاں ہے، پرہیزگاری کی جگہ یہ ہے“ }۔ ۱؎ [سلسلة احادیث ضعیفه البانی:6906]
اس نے تمہارے دلوں میں کبیرہ گناہ اور تمام نافرمانیوں کی عداوت ڈال دی ہے اس طرح بتدریج تم پر اپنی نعمتیں بھرپور کر دی ہیں۔ پھر ارشاد ہوتا ہے جن میں یہ پاک اوصاف ہیں انہیں اللہ نے رشد نیکی ہدایت اور بھلائی دے رکھی ہے۔
چنانچہ اور جگہ ارشاد ہے «النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا» ۱؎ [33-الأحزاب:6] یعنی ’ مسلمانوں کے معاملات میں ان کی اپنی بہ نسبت نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے لیے زیادہ خیر اندیش ہیں ‘۔
پھر بیان فرمایا کہ ’ لوگو تمہاری عقلیں تمہاری مصلحتوں اور بھلائیوں کو نہیں پا سکتیں انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پا رہے ہیں۔ پس اگر وہ تمہاری ہر پسندیدگی کی رائے پر عامل بنتے رہیں تو اس میں تمہارا ہی حرج واقع ہو گا۔ ‘
جیسے اور آیت میں ہے «وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ بَلْ أَتَيْنَاهُم بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَن ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ» ۱؎ [23-المؤمنون:71] یعنی ’ اگر سچا رب ان کی خوشی پر چلے تو آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز خراب ہو جائے یہ نہیں بلکہ ہم نے انہیں ان کی نصیحت پہنچا دی ہے لیکن یہ اپنی نصیحت پر دھیان ہی نہیں دھرتے ‘۔
پھر فرماتا ہے کہ ’ اللہ نے ایمان کو تمہارے نفسوں میں محبوب بنا دیا ہے اور تمہارے دلوں میں اس کی عمدگی بٹھا دی ہے ‘۔
مسند احمد میں ہے { رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”اسلام ظاہر ہے اور ایمان دل میں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کرتے اور فرماتے تقویٰ یہاں ہے، پرہیزگاری کی جگہ یہ ہے“ }۔ ۱؎ [سلسلة احادیث ضعیفه البانی:6906]
اس نے تمہارے دلوں میں کبیرہ گناہ اور تمام نافرمانیوں کی عداوت ڈال دی ہے اس طرح بتدریج تم پر اپنی نعمتیں بھرپور کر دی ہیں۔ پھر ارشاد ہوتا ہے جن میں یہ پاک اوصاف ہیں انہیں اللہ نے رشد نیکی ہدایت اور بھلائی دے رکھی ہے۔
مسند احمد میں ہے { احد کے دن جب مشرکین ٹوٹ پڑے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”درستگی کے ساتھ ٹھیک ٹھاک ہو جاؤ، تو میں نے اپنے رب عزوجل کی ثنأ بیان کروں“، پس لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صفیں باندھ کر کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی: «اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ، اللَّهُمَّ لاَ قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ، وَلاَ بَاسِطَ لِمَا قَبَضْتَ، وَلاَ هَادِيَ لِمَنْ أَضْلَلْتَ، وَلاَ مُضِلَّ لِمَنْ هَدَيْتَ، وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلاَ مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْتَ، وَلاَ مُبَاعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ، اللَّهُمَّ ابْسُطْ عَلَيْنَا مِنْ بَرَكَاتِكَ، وَرَحْمَتِكَ، وَفَضْلِكَ، وَرِزْقِكَ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ الْمُقِيمَ الَّذِي لاَ يَحُولُ وَلاَ يَزُولُ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ يَوْمَ الْعَيْلَةِ، وَالأَمْنَ يَوْمَ الْخَوْفِ، اللَّهُمَّ إِنِّي عَائِذٌ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أَعْطَيْتَنَا وَشَرِّ مَا مَنَعْتَنَا، اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الإِيمَانَ وَزِيِّنْهُ فِي قُلُوبِنَا، وَكَرِّهْ إِلَيْنَا الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ، وَاجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِينَ، اللَّهُمَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ، وَأَحْيِنَا مُسْلِمِينَ، وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِينَ غَيْرَ خَزَايَا وَلاَ مَفْتُونِينَ، اللَّهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ يُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ، وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ، وَاجْعَلْ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، اللَّهُمَّ قَاتِلِ الكَفَرَةَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ، إِلَهَ الْحَقِّ» [نسائی] یعنی ”اے اللہ! تمام تر تعریف تیرے ہی لیے ہے، تو جسے کشادگی دے اسے کوئی تنگ نہیں کر سکتا اور جس پر تو تنگی کرے اسے کوئی کشادہ نہیں کر سکتا، تو جسے گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور جسے تو ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، جس سے تو روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جسے تو دے اس سے کوئی باز نہیں رکھ سکتا، جسے تو دور کر دے اسے قریب کرنے والا کوئی نہیں اور جسے تو قریب کر لے اسے دور ڈالنے والا کوئی نہیں، اے اللہ! ہم پر اپنی برکتیں رحمتیں فضل اور رزق کشادہ کر دے، اے اللہ! میں تجھ سے وہ ہمیشہ کی نعمتیں چاہتا ہوں جو نہ ادھر ادھر ہوں، نہ زائل ہوں۔ اللہ! فقیری اور احتیاج والے دن مجھے اپنی نعمتیں عطا فرمانا اور خوف والے دن مجھے امن عطا فرمانا۔ پروردگار! جو تو نے مجھے دے رکھا ہے اور جو نہیں دیا ان سب کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے میرے معبود! ہمارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دے اور اسے ہماری نظروں میں زینت دار بنا دے اور کفر، بدکاری اور نافرمانی سے ہمارے دل میں دوری اور عداوت پیدا کر دے اور ہمیں راہ یافتہ لوگوں میں کر دے۔ اے ہمارے رب! ہمیں اسلام کی حالت میں فوت کر اور اسلام پر ہی زندہ رکھ اور نیک کار لوگوں سے ملا دے، ہم رسوا نہ ہوں، ہم فتنے میں نہ ڈالے جائیں۔ اللہ! ان کافروں کا ستیاناس کر جو تیرے رسولوں کو جھٹلائیں اور تیری راہ سے روکیں تو ان پر اپنی سزا اور اپنا عذاب نازل فرما۔ الٰہی! اہل کتاب کے کافروں کو بھی تباہ کر، اے سچے معبود“ }۔ ۱؎ [مسند احمد:2424/3:صحیح] یہ حدیث امام نسائی بھی اپنی کتاب [عمل الیوم واللیله] میں لائے ہیں۔
مرفوع حدیث میں ہے { جس شخص کو اپنی نیکی اچھی لگے اور برائی اسے ناراض کرے وہ مومن ہے }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:2165،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پھر فرماتا ہے یہ بخشش جو تمہیں عطا ہوئی ہے یہ تم پر اللہ کا فضل ہے اور اس کی نعمت ہے اللہ مستحقین ہدایت کو اور مستحقین ضلالت کو بخوبی جانتا ہے وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے۔
مرفوع حدیث میں ہے { جس شخص کو اپنی نیکی اچھی لگے اور برائی اسے ناراض کرے وہ مومن ہے }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:2165،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پھر فرماتا ہے یہ بخشش جو تمہیں عطا ہوئی ہے یہ تم پر اللہ کا فضل ہے اور اس کی نعمت ہے اللہ مستحقین ہدایت کو اور مستحقین ضلالت کو بخوبی جانتا ہے وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے۔