ترجمہ و تفسیر — سورۃ الحجرات (49) — آیت 4
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بے شک وہ لوگ جو تجھے دیواروں کے باہر سے آوازیں دیتے ہیں ان کے اکثر نہیں سمجھتے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (بالکل) بے عقل ہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 4) ➊ {اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ: حُجْرَةٌ } زمین کا وہ قطعہ جس کے گرد دیوار بنی ہوئی ہو، گھر کے صحن کی چار دیواری۔ طبری نے فرمایا: {حُجْرَةٌ } کی جمع {حُجَرٌ} ہے اور اس کی جمع {حُجُرَاتٌ} ہے۔ روح المعانی میں ان حجرات کی کیفیت بیان کی گئی ہے: یہ نو حجرے تھے، ہر بیوی کے پاس ایک حجرہ تھا اور جیسا کہ ابن سعد نے عطاء خراسانی سے روایت کی ہے، یہ کھجور کی ٹہنیوں سے بنے ہوئے تھے، ان کے دروازوں پر سیاہ بالوں کے ٹاٹ کے پردے تھے۔ بخاری نے الادب المفرد میں اور ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے داؤد بن قیس سے بیان کیا ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے وہ حجرے دیکھے ہیں، کھجور کی ٹہنیوں سے بنے ہوئے تھے، جنھیں باہر کی جانب سے بالوں کے ٹاٹوں سے ڈھانپا ہوا تھا اور میرا گمان ہے کہ صحن کے دروازے سے کمرے کے دروازے تک چھ یا سات ہاتھ (نو یا ساڑھے دس فٹ) کا فاصلہ تھا اور کمرے کا اندرونی حصہ دس ہاتھ (پندرہ فٹ) تھا اور میرا گمان ہے کہ گھر کی چوڑائی سات آٹھ ہاتھ (ساڑھے دس بارہ فٹ) کے درمیان تھی۔ اور حسن سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے کمروں میں جایا کرتا تھا تو ان کی چھت کو ہاتھ لگا لیتا تھا۔ ولید بن عبد الملک رحمہ اللہ کے عہد میں ان کے حکم سے ان گھروں کو مسجد نبوی میں شامل کر دیا گیا جس پر لوگ بہت روئے۔ اور سعید بن مسیب نے فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے پسند تھا کہ ان حجروں کو ان کی حالت پر رہنے دیا جاتا، تاکہ اہلِ مدینہ کے بچے بڑے ہوتے اور تمام دنیا سے آنے والے آتے تو دیکھتے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کیسے گھروں پر اکتفا کیا ہے۔ اس سے ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی حرص اور اس پر فخر کے بجائے زہد اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی۔ اور ابوامامہ بن سہل بن حنیف نے بھی ایسی ہی بات فرمائی۔ (روح المعانی)
گزشتہ آیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں آپ کے ادب کا بیان تھا، ان آیات میں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کو ملحوظ رکھنے کا بیان ہے جب آپ گھر میں ہوں۔ آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ کچھ اعرابی لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کی چار دیواری کے باہر کھڑے ہو کر آپ کو بلانے کے لیے آوازیں دیں، تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو { لَا يَعْقِلُوْنَ } قرار دیا۔ { لَا يَعْقِلُوْنَ } قرار دینے سے مقصود انھیں ڈانٹنا اور تمام مسلمانوں کو آپ کے ادب کی تعلیم دینا ہے۔
➋ { اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ:} ابن جزی (صاحب التسہیل) نے فرمایا: اس میں دو وجہیں ہیں، ایک یہ کہ ان میں کچھ لوگ عقل رکھنے والے بھی تھے، اس لیے ان کے اکثر کو { لَا يَعْقِلُوْنَ } فرمایا، سب کو نہیں۔ دوسری یہ کہ مراد سب ہی کو { لَا يَعْقِلُوْنَ } قرار دینا ہے، عقل والوں کو کم قرار دینے سے مراد ان کی نفی ہے۔ الفاظ کے مطابق پہلی وجہ زیادہ ظاہر ہے، دوسری میں زیادہ بلیغ طریقے سے سب کی مذمت کا بیان ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

4۔ 1 یہ آیت قبیلہ بنو تمیم کے بعض اعرابیوں (گنوار قسم کے لوگوں) کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے ایک روز دوپہر کے وقت، جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قیلولے کا وقت تھا، حجرے سے باہر کھڑے ہو کر عامیانہ انداز میں یا محمد یا محمد کی آوازیں لگائیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئیں (مسند احمد 84۔ 318) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی اکثریت بےعقل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اداب و احترام کے تقاضوں کا خیال نہ رکھنا، بےعقلی ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

آداب خطاب ٭٭
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مذمت بیان کرتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکانوں کے پیچھے سے آپ کو آوازیں دیتے اور پکارتے ہیں۔ جس طرح اعراب میں دستور تھا تو فرمایا کہ ’ ان میں سے اکثر بےعقل ہیں ‘۔
پھر اس کی بابت ادب سکھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’ چاہیئے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں ٹھہر جاتے اور جب آپ مکان سے باہر نکلتے تو آپ سے جو کہنا ہوتا کہتے ‘، نہ کہ آوازیں دے کر باہر سے پکارتے۔ دنیا اور دین کی مصلحت اور بہتری اسی میں تھی۔
پھر حکم دیتا ہے کہ ’ ایسے لوگوں کو توبہ استغفار کرنا چاہیئے کیونکہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے ‘۔ یہ آیت اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
مسند احمد میں ہے کہ { ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا، آپ کا نام لے کر پکارا یا محمد! یا محمد! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا، تو اس نے کہا: سنئے، یا رسول اللہ! میرا تعریف کرنا بڑائی کا سبب ہے اور میرا مذمت کرنا ذلت کا سبب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی ذات محض اللہ تعالیٰ کی ہی ہے۱؎ [مسند احمد:488/3:صحیح لغیرہ]‏‏‏‏
بشر بن غالب نے حجاج کے سامنے بشر بن عطارد وغیرہ سے کہا کہ تیری قوم بنو تمیم کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ جب سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے اس کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: اگر وہ عالم ہوتے تو اس کے بعد کی آیت «يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُل لَّا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُم بَلِ اللَّـهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ» ۱؎ [49-الحجرات:17]‏‏‏‏ پڑھ دیتے یعنی ’ اپنے مسلمان ہونے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اپنے مسلمان ہونے کا احسان مجھ پر نہ رکھو، بلکہ دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو ‘ اور بنو اسد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلیم کرنے میں کچھ دیر نہیں کی۔
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { کچھ عرب جمع ہوئے اور کہنے لگے ہمیں اس شخص کے پاس لے چلو اگر وہ سچا نبی ہے تو سب سے زیادہ اس سے سعادت حاصل کرنے کے مستحق ہم ہیں اور اگر وہ بادشاہ ہے تو ہم اس کے پروں تلے پل جائیں گے۔ میں نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا پھر وہ لوگ آئے اور حجرے کے پیچھے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر آپ کو پکارنے لگے، اس پر یہ آیت اتری، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کان پکڑ کر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تیری بات سچی کر دی اللہ تعالیٰ نے تیری بات سچی کر دی۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:382/11:حسن]‏‏‏‏

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل