ترجمہ و تفسیر — سورۃ محمد (47) — آیت 4
فَاِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَضَرۡبَ الرِّقَابِ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَثۡخَنۡتُمُوۡہُمۡ فَشُدُّوا الۡوَثَاقَ ٭ۙ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعۡدُ وَ اِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الۡحَرۡبُ اَوۡزَارَہَا ۬ۚ۟ۛ ذٰؔلِکَ ؕۛ وَ لَوۡ یَشَآءُ اللّٰہُ لَانۡتَصَرَ مِنۡہُمۡ وَ لٰکِنۡ لِّیَبۡلُوَا۠ بَعۡضَکُمۡ بِبَعۡضٍ ؕ وَ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَلَنۡ یُّضِلَّ اَعۡمَالَہُمۡ ﴿۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
تو جب تم ان لوگوں سے ملو جنھوں نے کفر کیا تو گردنیں مارنا ہے، یہاں تک کہ جب انھیں خوب قتل کرچکو تو (ان کو) مضبوط باندھ لو، پھر بعد میں یا تو احسان کرنا ہے اور یا فدیہ لے لینا، یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے، (بات) یہی ہے۔ اور اگر اللہ چاہے تو ضرور ان سے انتقام لے لے اور لیکن تاکہ تم میں سے بعض کو بعض کے ساتھ آزمائے۔ اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل کر دیے گئے تو وہ ہرگز ان کے اعمال ضائع نہیں کرے گا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ تو ان کی گردنیں اُڑا دو۔ یہاں تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو (جو زندہ پکڑے جائیں ان کو) مضبوطی سے قید کرلو۔ پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہیئے یا کچھ مال لے کر یہاں تک کہ (فریق مقابل) لڑائی (کے) ہتھیار (ہاتھ سے) رکھ دے۔ (یہ حکم یاد رکھو) اور اگر خدا چاہتا تو (اور طرح) ان سے انتقام لے لیتا۔ لیکن اس نے چاہا کہ تمہاری آزمائش ایک (کو) دوسرے سے (لڑوا کر) کرے۔ اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کے عملوں کو ہرگز ضائع نہ کرے گا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
تو جب کافروں سے تمہاری مڈبھیڑ ہوتو گردنوں پر وار مارو۔ جب ان کو اچھی طرح کچل ڈالو تو اب خوب مضبوط قید وبند سے گرفتار کرو، (پھر اختیار ہے) کہ خواه احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ لے کر تاوقتیکہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے۔ یہی حکم ہے اور اللہ اگر چاہتا تو (خود) ہی ان سے بدلہ لے لیتا، لیکن (اس کا منشا یہ ہے) کہ تم میں سے ایک کا امتحان دوسرے کے ذریعہ سے لے لے، جو لوگ اللہ کی راه میں شہید کر دیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 4) ➊ { فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ: فَاِذَا } میں فاء کا تعلق پہلے کلام سے ہے کہ جب کفار باطل کے پیروکار اور مومن حق کے پیروکار ہیں تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ حق کے پیروکار باطل کے پیروکاروں کو یہ موقع نہ دیں کہ وہ زمین میں فساد پھیلاتے پھریں، لہٰذا جب تم (میدانِ جنگ میں) ان لوگوں سے ملو جنھوں نے کفر کیا تو ان کی گردنیں خوب اڑاؤ۔
➋ { فَاِذَا لَقِيْتُمْ} کا لفظی معنی اگرچہ جب تم ملو ہے، مگر اس سے مراد یہ ہے کہ جب تمھارا ان سے مقابلہ ہو۔ یہ مطلب نہیں کہ جب کوئی کافر سامنے آ جائے تو اسے قتل کر دو، کیونکہ قرآن مجید اور کلامِ عرب میں لقاءِ عدو سے مراد دشمن سے مقابلہ لیا جاتا ہے، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ» ‏‏‏‏ [الأنفال: ۴۵]اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم کسی گروہ کے مقابل ہو تو جمے رہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔
➌ { فَضَرْبَ الرِّقَابِ } اصل میں {فَاضْرِبُوا الرِّقَابَ ضَرْبًا} ہے، فعل امر {فَاضْرِبُوْا} کو حذف کرکے مفعول مطلق {ضَرْبًا} کو اس کے قائم مقام کر دیا اور اسے مفعول بہ { الرِّقَابِ } کی طرف مضاف کر دیا۔ اس سے اختصار کے علاوہ کلام میں ہیبت اور زور بھی پیدا ہو گیا کہ کفار سے مقابلے کی صورت میں بس ایک ہی کام ہے اور وہ ہے گردنیں مارنا۔ ضرب کا لفظ عربی زبان میں تلوار کی کاٹ کے لیے استعمال ہوتا ہے، نیزے کے لیے طعن اور تیر کے لیے رمي کا لفظ آتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ قوت و شجاعت اور ہیبت کا مظاہرہ آمنے سامنے تیغ زنی میں ہے، خصوصاً جب تلوار گردن پر پڑے، اس لیے { فَضَرْبَ الرِّقَابِ } فرمایا، کیونکہ جو زورِ بیان اس لفظ میں ہے کسی اور میں نہیں۔ ورنہ مراد کسی بھی طریقے سے قتل کرنا ہے، تلوار سے ہو یا تیر سے یا نیزے سے یا کسی جدید اسلحہ سے اور اس اسلحے کی چوٹ خواہ گردن پر پڑے یا جسم کے کسی اور حصے پر۔ یا بلا اسلحہ ہی دشمن کو قتل کر دیا جائے، خواہ گلا گھونٹ کر، مکا مار کر یا جسم کے کسی نازک حصے پر چوٹ مار کر، غرض مقصد دشمن کو کسی بھی طریقے سے قتل کرنا ہے۔
➍ {حَتّٰۤى اِذَاۤ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ: أَثْخَنَ يُثْخِنُ إِثْخَانًا} (افعال) قتل اور خون ریزی میں مبالغہ کرنا۔ {شَدَّ يَشُدُّ شَدًّا (ن) اَلشَّيْءَ } کسی چیز کو باندھنا۔ {شَدَّ الْعُقْدَةَ أَوِ الْوَثَاقَ} گرہ یا رسی کو مضبوطی سے باندھنا۔ { الْوَثَاقَ } رسی وغیرہ جس کے ساتھ باندھا جائے۔ یعنی جنگ کا اصل ہدف دشمن کی جنگی قوت کو توڑنا ہے، اس لیے جنگ کی ابتدا ہی میں دشمن کے آدمیوں کو گرفتار کرنے میں نہیں لگ جانا چاہیے، بلکہ زیادہ سے زیادہ خونریزی اور قتل کے بعد جب ان کا اچھی طرح قلع قمع ہو جائے اور لڑائی اختتام کو پہنچ چکی ہو تو پھر بچے کھچے لوگوں کو قیدی بنانا چاہیے، تاکہ ان میں دوبارہ مقابلے کی سکت باقی نہ رہے۔ جنگِ بدر میں مسلمانوں نے دشمن کو اچھی طرح تہ تیغ کرنے سے پہلے ہی اس کے آدمیوں کو قیدی بنایا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: «‏‏‏‏مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَ اللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ وَ اللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ» ‏‏‏‏ [الأنفال:۶۷]کبھی کسی نبی کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں قیدی ہوں، یہاں تک کہ وہ زمین میں خوب خون بہا لے، تم دنیا کا سامان چاہتے ہو اور اللہ آخرت کو چاہتا ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
➎ {فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآءً: مَنًّا } اور { فِدَآءً } مفعول مطلق ہیں جن کا فعل حذف کر دیا گیا ہے اور تنوین تنکیر کے لیے ہے: { أَيْ إِمَّا تَمُنُّوْنَ عَلَيْهِمْ مَنًّا بَعْدَ ذٰلِكَ وَ إِمَّا تُفَادُوْنَهُمْ فِدَاءً } یعنی اس کے بعد یا تو ان پر احسان کر دو، کسی طرح احسان کرنا یا ان سے فدیہ لے لو، کسی طرح فدیہ لینا۔
کسی طرح احسان کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ انھیں قتل نہ کیا جائے، بلکہ ان کی جان بخشی کرکے انھیں لونڈی و غلام بنا کر مسلمان افراد کے حوالے کر دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ دائمی قید یا قتل کے مقابلے میں غلام بنا لینا کوئی کم احسان نہیں، خصوصاً اسلام میں لونڈی و غلام سے جس حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے اس کے ہوتے ہوئے دائمی قید یا قتل کے مقابلے میں یہ بہت بڑی نعمت ہے، کیونکہ بہت سے کاموں کے کفارے کی صورت میں اور مکاتبت یعنی کمائی کرکے اپنی قیمت ادا کرنے کی صورت میں ان کی آزادی کے مواقع موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم سے مفتوح لوگوں کو لونڈی و غلام بنانا تواتر سے ثابت ہے اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پر لونڈیوں اور غلاموں کا ذکر موجود ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۳،۲۴، ۳۶)، مومنون (۵، ۶)، احزاب (۵۰)، نحل (۷۱)، روم (۲۸)، نور (۳۱ تا ۳۳،۵۸) اور دوسری متعدد آیات۔ ان آیات و احادیث اور خلفائے راشدین کے عمل کے ہوتے ہوئے اسلام میں غلامی سے انکار کوئی ملحد ہی کر سکتا ہے، یا کوئی جاہل جسے کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا علم نہ ہو۔
قیدیوں پر کسی طرح احسان کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ انھیں بلامعاوضہ رہا کر دیا جائے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایسا کرنا مصلحت کا تقاضا ہو، مثلاً امید ہو کہ وہ مسلمان ہو جائیں گے، یا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سرگرمیوں سے باز آ جائیں گے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے سردار ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو بلامعاوضہ رہا کر دیا۔ (دیکھیے بخاری: ۴۳۷۲) جنگ حنین کے کئی ہزار قیدیوں کو احسان فرما کر رہا کر دیا۔ (دیکھیے بخاری: ۴۳۱۸، ۴۳۱۹) صلح حدیبیہ کے موقع پر اسّی (۸۰) آدمی تنعیم کی طرف سے آئے اور فجر کی نماز کے قریب انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شب خون مارنے کا ارادہ کیا، مگر وہ سب کے سب پکڑ لیے گئے، پھر آپ نے سب کو چھوڑ دیا، تاکہ یہ معاملہ لڑائی کا باعث نہ بن جائے۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی: «وَ هُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ» ‏‏‏‏ [الفتح: ۲۴] اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمھارے ہاتھ ان سے روک دیے، اس کے بعد کہ تمھیں ان پر فتح دے دی۔ [دیکھیے مسلم، الجہاد، باب قول اللہ تعالٰی: { وھو الذی کف أیدیہم عنکم }: ۱۸۰۸] فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند آدمیوں کو مستثنیٰ کرکے تمام اہلِ مکہ کو بطور احسان معاف فرما دیا۔ غزوۂ بنی مصطلق کے بعد جب اس قبیلے کے قیدی لائے گئے اور لوگوں میں تقسیم کر دیے گئے، تو اس وقت جویریہ رضی اللہ عنھا جس شخص کے حصے میں آئی تھیں اسے ان کا معاوضہ ادا کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدا اور آزاد کرکے ان سے نکاح کر لیا۔ اس پر تمام مسلمانوں نے اپنے حصے کے قیدی یہ کہہ کر رہا کر دیے کہ یہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسرالی رشتہ دار بن چکے ہیں۔ [دیکھیے مسند أحمد: 277/6، ح: ۲۶۴۱۹]
قیدیوں کے ساتھ احسان کی ایک صورت یہ ہے کہ ان پر جزیہ لگا کر انھیں مسلمانوں کا ذمی بنا لیا جائے، جیسا کہ فرمایا: «حَتّٰى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَّدٍ وَّ هُمْ صٰغِرُوْنَ» [التوبۃ: ۲۹] یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ دیں اور وہ حقیر ہوں۔
قیدیوں پر احسان میں یہ بھی شامل ہے کہ جب تک وہ قید میں رہیں ان سے اچھا سلوک کیا جائے، ان کے کھانے پینے، لباس اور صحت وغیرہ کا خیال رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بہت تاکید فرمائی ہے۔ دیکھیے سورۂ دہر کی آیت (۸): «وَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًا» ‏‏‏‏ کی تفسیر۔
{ وَ اِمَّا فِدَآءً } فدیہ لینے کی ایک صورت یہ ہے کہ ان سے کچھ مال لے کر انھیں آزاد کر دیا جائے، جیسا کہ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لیا گیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ انفال (۷۰) کی تفسیر۔ اور فدیے کی ایک صورت یہ ہے کہ رہائی کی شرط کے طور پر کوئی خاص خدمت لینے کے بعد ہی انھیں رہا کیا جائے، مثلاً وہ ان لوگوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں جو ان کے سپرد کیے جائیں۔ اور فدیے کی ایک صورت یہ ہے کہ کفار کے ہاتھوں گرفتار کسی مسلم قیدی کی رہائی کے بدلے میں انھیں رہا کر دیا جائے، جیسا کہ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ بنو فزارہ پر حملے میں جو قیدی آئے امیرِ لشکر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک نہایت حسین لونڈی انھیں زائد عطیہ کے طور پر دی، جب وہ مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے وہ لونڈی اصرار کے ساتھ ہبہ کے طورپر مانگ لی، انھوں نے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی، تو: [فَبَعَثَ بِهَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلٰی أَهْلِ مَكَّةَ فَفَدٰی بِهَا نَاسًا مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ كَانُوْا أُسِرُوْا بِمَكَّةَ] [مسلم، الجہاد و السیر، باب التنفیل و فداء المسلمین بالأسارٰی: ۱۷۵۵] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لونڈی کو کچھ مسلمانوں کے فدیے کے طور پر اہل مکہ کی طرف بھیج دیا، جو مکہ میں قید کیے ہوئے تھے۔
➏ اس آیت کے الفاظ سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ کفار کو قیدی بنا لینے کے بعد احسان یا فدیہ ہی میں سے کوئی ایک صورت اختیار کی جائے گی، انھیں قتل نہیں کیا جائے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے امیر کو انھیں قتل کرنے کا بھی اختیار ہے، جیسا کہ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو قتل کیا۔ بنو قریظہ کے قیدیوں کو، جو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلے پر اپنے قلعوں سے نیچے اترے انھیں قتل کیا۔ فتح مکہ کے دن ابن خطل اور مقیس بن صبابہ کو قتل کیا اور اُحد کے بعد ابوعزہ شاعر کو قتل کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ عمل کے بعد کسی کو یہ کہنے کا اختیار نہیں کہ کافر کو قید کرنے کے بعد کسی صورت قتل نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ آپ سے بڑھ کر کوئی شخص قرآن مجید کا مطلب نہیں سمجھ سکتا۔ اگر کوئی شخص آیت کے الفاظ پر غور کرے تو خود اس میں قیدیوں کو قتل کرنے کا اختیار موجود ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قیدیوں کو مضبوطی سے باندھنے کے حکم کے بعد فرمایا: «‏‏‏‏فَاِمَّا مَنًّۢا بَعْدُ وَ اِمَّا فِدَآءً» ‏‏‏‏ { مَنًّا } کا معنی انعام و احسان ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک {اَلْمَنَّانُ} بھی ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ انعام کرنے والے پر لازم نہیں ہوتا کہ وہ انعام کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو انعام کیے ہیں وہ نہ اللہ پر واجب تھے نہ بندوں کا حق تھے، جسے ادا کرنا اللہ کے ذمے لازم ہو۔ اس لفظ { مَنًّا } (انعام و احسان) سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا قیدیوں کو زندہ رکھنا ان کی طرف سے قیدیوں کے لیے انعام ہے۔ اگر انھیں قتل کرنے کا اختیار ہی نہ ہو بلکہ انھیں ہر حال میں زندہ رکھنا ان پر واجب ہو تو انھیں چھوڑ دینا ان پر کوئی احسان و انعام نہیں ہو گا، بلکہ انھیں چھوڑ کر ان کا حق ادا کیا جائے گا جو مسلمانوں کے ذمے واجب تھا۔ اس لیے { مَنًّا } اور { فِدَآءً } کے دو الفاظ میں وہ چاروں صورتیں آ جاتی ہیں جن کا مسلمانوں کے امیر کو اختیار ہے اور وہ ہے قتل کرنا یا غلام بنانا یا بلامعاوضہ چھوڑنا یا فدیہ لے کر چھوڑنا۔ (بقاعی) صحیح بخاری میں ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قیدی کو چھوڑنا اس کا استحقاق نہیں، اس پر انعام ہے۔ چنانچہ اس نے کہا: [إِنْ تَقْتُلْنِيْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلٰی شَاكِرٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيْدُ الْمَالَ فَسَلْ مِنْهُ مَا شِئْتَ] [بخاري، المغازي، باب وفد بني حنیفۃ…: ۴۳۷۲۔ مسلم: ۱۷۶۴] (اے محمد!) اگر تم مجھے قتل کرو تو ایک خون والے کو قتل کرو گے اور اگر انعام کرو تو ایک شکر گزار پر انعام کرو گے اور اگر مال چاہتے ہو تو مانگو جتنا چاہتے ہو۔
➐ {حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا: اَوْزَارَهَا وِزْرٌ} کی جمع ہے جس کا معنی بوجھ ہے، مراد اس سے لڑائی کے ہتھیار ہیں، کیونکہ جب تک لڑائی باقی رہے ہتھیار اٹھانا پڑتے ہیں جو اٹھانے والوں کے لیے بوجھ ہوتے ہیں، یعنی کفار کی گردنیں مارتے رہو اور ان سے لڑائی جاری رکھو، حتیٰ کہ لڑائی ختم ہو جائے اور کسی کافر میں مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کی جرأت اور طاقت نہ رہے۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب مسلمان پوری زمین پر غالب ہوں اور کفار میں ان کے مقابل آنے کی اور ان کے حکم سے سر پھیرنے کی جرأت و ہمت باقی نہ رہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّ يَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ» ‏‏‏‏ [الأنفال: ۳۹] اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کے لیے ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کفر و اسلام کا یہ معرکہ قیامت تک جاری رہے گا۔ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لَنْ يَبْرَحَ هٰذَا الدِّيْنُ قَائِمًا، يُقَاتِلُ عَلَيْهِ عِصَابَةٌ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ حَتّٰي تَقُوْمَ السَّاعَةُ] [مسلم، الإمارۃ، باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم : لا تزال طائفۃ من أمتي ظاھرین علی الحق… : ۱۹۲۲] یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا، مسلمانوں کی ایک جماعت اس پر لڑتی رہے گی، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو۔
➑ {ذٰلِكَ:} یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے: { أَيْ اَلْأَمْرُ ذٰلِكَ} یعنی بات یہی ہے جو گردنیں مارنے، قید کرنے، احسان کرنے اور فدیہ لینے کی تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی، یا یہ فعل محذوف کا مفعول بہ ہے: { أَيْ اِفْعَلُوْا ذٰلِكَ} یعنی یہ کام کرو۔ یہ مختصر سا لفظ گزشتہ پوری تفصیل کو ذہن میں پختہ کرنے اور اس کی تاکید کے لیے لایا گیا ہے۔
➒ {وَ لَوْ يَشَآءُ اللّٰهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ:} یہ اس سوال کا جواب ہے کہ اگر کفار اتنے ہی برے ہیں تو اللہ تعالیٰ خود انھیں سزا کیوں نہیں دیتا؟ یعنی اللہ تعالیٰ نے گردنیں مارنے اور دوسری باتوں کا حکم تمھیں دیا ہے، حالانکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ خود کفار سے انتقام لے سکتا ہے۔ اس کے لیے اس کی طرف سے زلزلے کا ایک جھٹکا، بجلی کی ایک کڑک، سیلاب کا ایک ریلا یا آندھی کا ایک جھونکا کافی ہے، جیسا کہ اس نے گزشتہ کئی کافر اقوام کے ساتھ کیا۔ (دیکھیے عنکبوت:۴۰) لیکن اگر وہ ایسا کرتا تو سب لوگ ہلاکت سے بچنے کے لیے ایمان لے آتے جو جبری اور اضطراری ہوتا، اپنی مرضی اور اختیار سے نہ ہوتا، اس طرح آزمائش اور امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا۔
➓ { وَ لٰكِنْ لِّيَبْلُوَاْ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ: لِيَبْلُوَاْ} فعل محذوف کے متعلق ہے: { أَيْ وَلٰكِنَّهُ أَمَرَكُمْ بِالْجِهَادِ لِيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ} یعنی لیکن اس نے تمھیں جہاد کا حکم اس لیے دیا ہے کہ تمھارے بعض کو بعض کے ساتھ آزمائے اور ظاہر ہو جائے کہ کون مخلص مومن ہے اور کون منافق، جیسا کہ فرمایا: «‏‏‏‏اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَ يَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ» ‏‏‏‏ [آل عمران: ۱۴۲] یا تم نے گمان کر لیا کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تک اللہ نے ان لوگوں کو نہیں جانا جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا اور تاکہ وہ صبر کرنے والوں کو جان لے۔ ایمان والوں کو جہاد کا حکم دینے میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار حکمتوں میں سے چند حکمتیں اس آیت میں بیان ہوئی ہیں، فرمایا: «قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَ يُخْزِهِمْ وَ يَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَ يَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُؤْمِنِيْنَ (14) وَ يُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوْبِهِمْ وَ يَتُوْبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ وَ اللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ» ‏‏‏‏ [التوبۃ: ۱۴،۱۵] ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انھیں رسوا کرے گا اور ان کے خلاف تمھاری مدد کرے گا اور مومن لوگوں کے سینوں کو شفا دے گا۔ اور ان کے دلوں کا غصہ دور کرے گا اور اللہ توبہ کی توفیق دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ اس کی تفصیل سورۂ توبہ کی مذکورہ بالا آیات میں ملاحظہ فرمائیں۔
⓫ {وَ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَلَنْ يُّضِلَّ اَعْمَالَهُمْ:} یعنی شہداء کے اللہ کی راہ میں قتل کیے جانے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی جان سے گئے، انھیں کچھ بھی نہ ملا اور ان کی قربانی سے فائدہ ان لوگوں نے اٹھایا جو اس دنیا میں زندہ رہے۔ فرمایا ایسا ہر گز نہیں، اللہ تعالیٰ ان کے اعمال ہر گز ضائع نہیں کرے گا، بلکہ اس سودے کا اصل نفع خود انھی کو حاصل ہو گا۔ مزید دیکھیے سورۂ توبہ (۱۱۱) کی تفسیر۔ شہداء کو ملنے والی چند نعمتوں کا ذکر اس آیت کے بعد متصل آیات میں بھی آ رہا ہے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

4۔ 1 جب دونوں فریقوں کا ذکر کردیا تو اب کافروں اور غیر معاہد اہل کتاب سے جہاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے قتل کرنے کے بجائے گردنیں مارنے کا حکم دیا کہ اس تعبیر میں کفار کے ساتھ غلظت وشدت کا زیادہ اظہار ہے۔ (فتح القدیر) 4۔ 2 یعنی زور دار معرکہ آرائی اور زیادہ سے زیادہ ان کو قتل کرنے کے بعد ان کے جو آدمی قابو میں آجائیں انہیں قیدی بنا لو اور مضبوطی سے انہیں جکڑ کر رکھو تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔ 4۔ 3 من کا مطلب ہے بغیر فدیہ لیے بطور احسان چھوڑ دینا اور فداء کا مطلب کچھ معاوضہ لے کر چھوڑنا ہے قیدیوں کے بارے میں اختیار دے دیا گیا جو صورت حالات کے اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں کے حق میں زیادہ بہتر ہو وہ اختیار کرلی جائے۔ 4۔ 4 یعنی کافروں کے ساتھ جنگ ختم ہوجائے یا مراد ہے کہ محارب دشمن شکست کھا کر یا صلح کر کے ہتھیار رکھ دے یا تمہاری معرکہ آرائی جاری رہے گی جس میں تم انہیں قتل بھی کرو گے قیدیوں میں تمہیں مذکورہ دونوں باتوں کا اختیار ہے بعض کہتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے اور سوائے قتل کے کوئی صورت باقی نہیں ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں محکم ہے اور امام وقت کو چاروں باتوں کا اختیار ہے کافروں کو قتل کرے یا قیدی بنائے قیدیوں میں سے جس کو یا سب کو چاہے بطور احسان چھوڑ دے یا معاوضہ لے کر چھوڑ دے۔ (فتح القدیر) 4۔ 5 یا تم اسی طرح کرو افعلوا ذلک یا ذلک حکم الکفار۔ 4۔ 6  مطلب کافروں کو ہلاک کر کے یا انہیں عذاب میں مبتلا کر کے۔ یعنی تمہیں ان سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ 4۔ 7 یعنی ان کا اجر وثواب ضائع نہیں فرمائے گا۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

جب کفار سے میدان جہاد میں آمنا سامنا ہو جائے ٭٭
یہاں ایمان داروں کو جنگی احکام دئیے جاتے ہیں کہ جب کافروں سے مڈبھیڑ ہو جائے دستی لڑائی شروع ہو جائے تو ان کی گردنیں اڑاؤ، تلواریں چلا کر گردن دھڑ سے اڑا دو۔ پھر جب دیکھو کہ دشمن ہارا اس کے آدمی کافی کٹ چکے تو باقی ماندہ کو مضبوط قید و بند کے ساتھ مقید کر لو، جب لڑائی ختم ہو چکے، معرکہ پورا ہو جائے، تو پھر تمہیں اختیار ہے کہ قیدیوں کو بطور احسان بغیر کچھ لیے ہی چھوڑ دو اور یہ بھی اختیار ہے کہ ان سے تاوان جنگ وصول کرو پھر چھوڑو۔
بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ بدر کے غزوے کے بعد یہ آیت اتری ہے کیونکہ بدر کے معرکہ میں زیادہ تر مخالفین کو قید کرنے اور قید کرنے کی کمی کرنے میں مسلمانوں پر عتاب کیا گیا تھا اور فرمایا تھا «مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ تُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ لَّوْلَا كِتَابٌ مِّنَ اللَّـهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ» ۱؎ [8-الانفال:67]‏‏‏‏، ’ نبی کو لائق نہ تھا کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ ایک مرتبہ جی کھول کر مخالفین میں موت کی گرم بازاری نہ ہو لے کیا تم دنیوی اسباب کی چاہت میں ہو؟ اللہ کا ارادہ تو آخرت کا ہے اور اللہ عزیز و حکیم ہے۔ اگر پہلے ہی سے اللہ کا لکھا ہوا نہ ہوتا تو جو تم نے لیا اس کی بابت تمہیں بڑا عذاب ہوتا ‘۔
بعض علماء کا قول ہے کہ یہ اختیار منسوخ ہے اور یہ آیت ناسخ ہے آیت «فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُّمُــوْهُمْ وَخُذُوْهُمْ وَاحْصُرُوْهُمْ وَاقْعُدُوْا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ» ۱؎ [9-التوبة:5]‏‏‏‏، کی یعنی ’ حرمت والے مہینے جب گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ وہیں قتل کرو ‘۔ لیکن اکثر علماء کا فرمان ہے کہ منسوخ نہیں۔
اب بعض تو کہتے ہیں قتل کر ڈالنے کا بھی اختیار ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ { بدر کے قیدیوں میں سے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابومعیط کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کرا دیا تھا اور یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ نے جب کہ وہ اسیری حالت میں تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا تھا کہ کہو ثمامہ! کیا خیال ہے؟، تو انہوں نے کہا: اگر آپ قتل کریں گے تو ایک خون والے کو قتل کریں گے اور اگر آپ احسان رکھیں گے تو ایک شکر گزار پر احسان رکھیں گے اور اگر مال طلب کرتے ہیں تو جو آپ مانگیں گے مل جائے گا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4372]‏‏‏‏
امام شافعی رحمہ اللہ ایک چوتھی بات کا بھی اختیار بتاتے ہیں یعنی قتل، احسان، بدلے کا اور غلام بنا کر رکھ لینے کا۔ اس مسئلے کی تفصیل کی جگہ فروعی مسائل کی کتابیں ہیں۔ اور ہم نے بھی اللہ کے فضل و کرم سے کتاب الاحکام میں اس کے دلائل بیان کر دئیے ہیں۔
پھر فرماتا ہے یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے یعنی بقول مجاہد رحمہ اللہ عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو جائیں۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:308/11:]‏‏‏‏
ممکن ہے مجاہد رحمہ اللہ کی نظریں اس حدیث پر ہوں جس میں ہے { میری امت ہمیشہ حق کے ساتھ ظاہر رہے گی یہاں تک کہ ان کا آخری شخص دجال سے لڑے گا }۔۱؎ [سنن ابوداود:2484،قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏
مسند احمد اور نسائی میں ہے کہ { سلمہ بن نفیل رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے میں نے گھوڑوں کو چھوڑ دیا اور ہتھیار الگ کر دئیے اور لڑائی نے اپنے ہتھیار رکھ دئیے اور میں نے کہہ دیا کہ اب لڑائی ہے ہی نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب لڑائی آ گئی، میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ لوگوں پر ظاہر رہے گی جن لوگوں کے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے، یہ ان سے لڑیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں ان سے روزیاں دے گا یہاں تک کہ اللہ کا امر آ جائے اور وہ اسی حالت پر ہوں گے مومنوں کی زمین شام میں ہے۔ گھوڑوں کی ایال میں قیامت تک کے لیے اللہ نے خیر رکھ دی ہے۱؎ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:1935،]‏‏‏‏
یہ حدیث امام بغوی رحمہ اللہ نے بھی وارد کی ہے اور حافظ ابو یعلیٰ موصلی رحمہ اللہ نے بھی، اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ جو لوگ اس آیت کو منسوخ نہیں بتاتے گویا کہ یہ حکم مشروع ہے جب تک لڑائی باقی رہے اور اس حدیث نے بتایا کہ لڑائی قیامت تک باقی رہے گی یہ آیت مثل اس آیت کے ہے «قَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّـهِ» ۱؎ [2-البقرة:193]‏‏‏‏، یعنی ’ ان سے لڑتے رہو جب تک کہ فتنہ باقی ہے اور جب تک کہ دین اللہ ہی کیلئے نہ ہو جائے ‘۔
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں لڑائی کے ہتھیار رکھ دینے سے مراد شرک کا باقی نہ رہنا ہے اور بعض سے مروی ہے کہ مراد یہ ہے کہ مشرکین اپنے شرک سے توبہ کر لیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کوششیں اللہ کی اطاعت میں صرف کرنے لگ جائیں۔
پھر فرماتا ہے کہ ’ اگر اللہ چاہتا تو خود ہی کفار کو برباد کر دیتا اپنے پاس سے ان پر عذاب بھیج دیتا لیکن وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تمہیں آزما لے ‘، اسی لیے جہاد کے احکام جاری فرمائے ہیں۔ سورۃ آل عمران اور برأت میں بھی اسی مضمون کو بیان کیا ہے۔
آل عمران میں ہے «اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ» ۱؎ [3-آل عمران:142]‏‏‏‏ ’ کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ بغیر اس بات کے کہ اللہ جان لے کہ تم میں سے مجاہد کون ہیں اور تم میں سے صبر کرنے والے کون ہیں تم جنت میں چلے جاؤ گے؟ ‘۔
سورۃ براۃ میں ہے «قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللَّـهُ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ» [9-التوبة:14-15]‏‏‏‏ ’ ان سے جہاد کرو اللہ تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب کرے گا اور تمہیں ان پر نصرت عطا فرمائے گا اور ایمان والوں کے سینے شفاء والے کر دے گا اور اپنے دلوں کے ولولے نکالنے کا انہیں موقعہ دے گا اور جس کی چاہے گا توبہ قبول فرمائے گا اللہ بڑا علیم و حکیم ہے ‘۔
اب چونکہ یہ بھی تھا کہ جہاد میں مومن بھی شہید ہوں اس لیے فرماتا ہے «وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ» ۱؎ [47-محمد:4]‏‏‏‏ ’ شہیدوں کے اعمال اکارت نہیں جائیں گے بلکہ بہت بڑھا چڑھا کر ثواب انہیں دئیے جائیں گے ‘۔ بعض کو تو قیامت تک کے ثواب ملیں گے۔
مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { شہید کو چھ انعامات حاصل ہوتے ہیں، اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرتے ہی اس کے کل گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اسے اس کا جنت کا مکان دکھا دیا جاتا ہے اور نہایت خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے اس کا نکاح کرا دیا جاتا ہے وہ بڑی گھبراہٹ سے امن میں رہتا ہے وہ عذاب قبر سے بچا لیا جاتا ہے اسے ایمان کے زیور سے آراستہ کر دیا جاتا ہے }۔
ایک اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ { اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جاتا ہے۔ جو درو یاقوت کا جڑاؤ ہوتا ہے جس کا ایک یاقوت تمام دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے گراں بہا ہے۔ اسے بہتر حورعین ملتی ہیں اور اپنے خاندان کے ستر شخصوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے }۔ یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے -۱؎ [سنن ترمذي:1663،قال الشيخ الألباني:صحیح]‏‏‏‏
صحیح مسلم شریف میں ہے { سوائے قرض کے شہیدوں کے سب گناہ بخش دئیے جاتے ہیں }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:1886]‏‏‏‏ شہیدوں کے فضائل کی اور بھی بہت حدیثیں ہیں۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل