وَ اِنَّہُمۡ لَیَصُدُّوۡنَہُمۡ عَنِ السَّبِیۡلِ وَ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ ﴿۳۷﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور بے شک وہ ضرور انھیں اصل راستے سے روکتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ بے شک وہ سیدھی راہ پر چلنے والے ہیں ۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور یہ (شیطان) ان کو رستے سے روکتے رہتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ سیدھے رستے پر ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور وه انہیں راه سے روکتے ہیں اور یہ اسی خیال میں رہتے ہیں کہ یہ ہدایت یافتہ ہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 37) ➊ {وَ اِنَّهُمْ لَيَصُدُّوْنَهُمْ عَنِ السَّبِيْلِ: اِنَّهُمْ } میں ضمیر شیاطین کی طرف اور { لَيَصُدُّوْنَهُمْ } میں ضمیر {هُمْ} رحمان کے ذکر سے غفلت کرنے والوں کی طرف جا رہی ہے، حالانکہ پچھلی آیت میں دونوں کا ذکر واحد کی ضمیر کے ساتھ آیا ہے، لیکن وہاں بھی لفظ { مَنْ } واحد ہونے کے باوجود معنی کے لحاظ سے جمع ہے۔ یعنی اس کی یاد سے جان بوجھ کر غفلت کرنے والوں کو کوئی نہ کوئی شیطان چمٹ جاتے ہیں، خواہ انسانی شیطان ہوں یا ابلیس کی اولاد، وہ ان کے لیے گناہوں کو خوبصورت کرکے دکھاتے ہیں، ان کی نفسانی خواہشات کو ابھارتے اور انھیں اللہ کی نافرمانی میں مشغول کر دیتے ہیں، حتیٰ کہ انھیں صراطِ مستقیم سے بالکل روک دیتے ہیں اور جہنم میں پہنچا کر چھوڑتے ہیں۔
➋ { وَ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ مُّهْتَدُوْنَ:} یعنی راہِ راست سے رک جانے والے وہ غافل سراسر گمراہ ہونے کے باوجود اپنے بارے میں سمجھتے ہیں کہ وہ سیدھے راستے پر ہیں۔ یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے گمراہ کرنے والے شیاطین کے متعلق سمجھتے ہیں کہ وہ سیدھے راستے پر ہیں، اس لیے آنکھیں بند کرکے ان کے پیچھے چلتے چلے جاتے ہیں۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

37۔ 1 یعنی وہ شیطان ان کے حق کے راستے کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں اور اس سے انہیں روکتے ہیں اور انہیں برابر سمجھاتے رہتے ہیں کہ تم حق پر ہو، حتٰی کہ وہ واقعی اپنے بارے میں یہی گمان کرنے لگ جاتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں یا کافر شیطانوں کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہیں اور ان کی اطاعت کرتے رہتے ہیں (ابن کثیر)۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

شیطان سے بچو ٭٭
ارشاد ہوتا ہے کہ ’ جو شخص اللہ تعالیٰ رحیم و کریم کے ذکر سے غفلت و بے رغبتی کرے اس پر شیطان قابو پا لیتا ہے اور اس کا ساتھی بن جاتا ہے ‘۔
آنکھ کی بینائی کی کمی کو عربی زبان میں «عَشْیٌ فِیْ الْعَیْنِ» کہتے ہیں۔ یہی مضمون قرآن کریم کی اور بھی بہت سی آیتوں میں ہے جیسے فرمایا آیت «وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاءَتْ مَصِيْرًا» ‏‏‏‏ ۱؎ [4-النساء:115]‏‏‏‏، یعنی ’ جو شخص ہدایت ظاہر کر چکنے کے بعد مخالفت رسول کر کے مومنوں کی راہ کے سوا دوسری راہ کی پیروی کرے ہم اسے وہیں چھوڑیں گے اور جہنم واصل کریں گے جو بڑی بری جگہ ہے ‘۔
اور آیت میں ارشاد ہے «فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ» ۱؎ [61-الصف:5]‏‏‏‏ یعنی ’ جب وہی ٹیڑھے ہو گئے اللہ نے ان کے دل بھی کج کر دئیے ‘۔
اور آیت میں فرمایا «‏‏‏‏وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ فَزَيَّنُوا لَهُم مَّا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ» ۱؎ [41-فصلت:25]‏‏‏‏، یعنی ’ ان کے جو ہم نشین ہم نے مقرر کر دئیے ہیں وہ ان کے آگے پیچھے کی چیزوں کو زینت والی بنا کر انہیں دکھاتے ہیں ‘، یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ’ ایسے غافل لوگوں پر شیطان اپنا قابو کر لیتا ہے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتا ہے اور ان کے دل میں یہ خیال جما دیتا ہے کہ ان کی روش بہت اچھی ہے یہ بالکل صحیح دین پر قائم ہیں قیامت کے دن جب اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے اور معاملہ کھل جائے گا تو اپنے اس شیطان سے جو ان کے ساتھ تھا برات ظاہر کرے گا اور کہے گا کاش کے میرے اور تمہارے درمیان اتنا فاصلہ ہوتا جتنا مشرق اور مغرب میں ہے۔ ‘ یہاں بہ اعتبار غلبے کے مشرقین یعنی دو مشرقوں کا لفظ کہدیا گیا ہے جیسے سورج چاند کو «قمرین» یعنی دو چاند کہہ دیا جاتا ہے اور ماں باپ کو «ابوین» یعنی دو باپ کہہ دیا جاتا ہے۔
ایک قرأت میں «جَاۤءَ انَا» بھی ہے یعنی ’ شیطان اور یہ غافل انسان دونوں جب ہمارے پاس آئیں گے ‘۔ سعید جریری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کافر کے اپنی قبر سے اٹھتے ہی شیطان آ کر اس کے ہاتھ سے ہاتھ ملا لیتا ہے پھر جدا نہیں ہوتا یہاں تک کہ جہنم میں بھی دونوں کو ساتھ ہی ڈالا جاتا ہے۔‏‏‏‏
پھر فرماتا ہے کہ ’ جہنم میں تم سب کا جمع ہونا اور وہاں کے عذابوں میں سب کا شریک ہونا تمہارے لیے نفع دینے والا نہیں ‘، اس کے بعد اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ’ ازلی بہروں کے کان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت کی آواز نہیں ڈال سکتے مادر زاد اندھوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم راہ نہیں دکھا سکتے صریح گمراہی میں پڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت قبول نہیں کر سکتے ‘۔
یعنی تجھ پر ہماری جانب سے یہ فرض نہیں کہ خواہ مخواہ ہر ہر شخص مسلمان ہو ہی جائے ہدایت تیرے قبضے کی چیز نہیں جو حق کی طرف کان ہی نہ لگائے جو سیدھی راہ کی طرف آنکھ ہی نہ اٹھائے جو بہکے اور اسی میں خوش رہو تجھے ان کی بابت کیوں اتنا خیال ہے؟ تجھ پر ضروری کام صرف تبلیغ کرنا ہے ہدایت و ضلالت ہمارے ہاتھ کی چیزیں ہیں عادل ہیں ہم حکیم ہیں ہم جو چاہیں گے کریں گے تم تنگ دل نہ ہو جایا کرو۔