ترجمہ و تفسیر — سورۃ الزخرف (43) — آیت 26
وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ وَ قَوۡمِہٖۤ اِنَّنِیۡ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعۡبُدُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا بے شک میں ان چیزوں سے بالکل بری ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ جن چیزوں کو تم پوجتے ہو میں ان سے بیزار ہوں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور جبکہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد سے اور اپنی قوم سے فرمایا کہ میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 27،26) ➊ {وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ لِاَبِيْهِ وَ قَوْمِهٖۤ …:} یہاں ابراہیم علیہ السلام کے قصے کی مناسبت یہ ہے کہ قریش اور قومِ عرب سے کہا جا رہا ہے کہ تمھارے پیشوا اور جد امجد نے باپ کی راہ غلط دیکھ کر چھوڑ دی تھی، تم بھی ایسا ہی کرو۔
➋ {اِنَّنِيْ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ …: بَرَآءٌ } مصدر ہے، واحد، تثنیہ، جمع اور مذکر و مؤنث کے لیے یہی لفظ استعمال ہوتا ہے، جو { بَرِيْءٌ} کے معنی میں ہے، مگر اس میں مبالغہ ہے، جیسے { زَيْدٌ عَادِلٌ } میں وہ زور نہیں جو { زَيْدٌ عَدْلٌ } (زید اتنا عادل ہے کہ سراپا عدل ہے) میں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ میں تمھارے تمام معبودوں سے سراپا براء ت ہوں، دل، زبان اور عمل کے ساتھ۔ غرض ہر طرح سے ان سے براء ت کا اعلان کرتا ہوں، سوائے اس معبود کے جس نے مجھے پیدا کیا۔
➌ {اِلَّا الَّذِيْ فَطَرَنِيْ:} اپنے اس کلام میں ابراہیم علیہ السلام نے صرف اللہ واحد کی عبادت کی دلیل بھی بیان فرمائی ہے۔ وہ ہے: «‏‏‏‏اِلَّا الَّذِيْ فَطَرَنِيْ» جس نے مجھے پیدا کیا۔ یعنی عبادت اسی کا حق ہے جو پیدا کرنے والا ہے۔ یہاں ابراہیم علیہ السلام کے اللہ کے سوا تمام معبودوں سے اعلانِ براء ت کا ذکر ہے، دوسرے مقامات پر براء ت کے علاوہ ان سے عداوت کا بھی اعلان ہے اور تقریباً ہر جگہ اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کی صفت کا خاص طور پر ذکر فرمایا ہے۔ (دیکھیے شعراء: ۷۵ تا ۷۸۔ انعام: ۷۸، ۷۹) سورۂ ممتحنہ (۴) میں باطل معبودوں کے ساتھ ان کے پجاریوں سے بھی براء ت و انکار کے علاوہ کھلم کھلا بغض و عداوت کا اعلان ہے، جب تک وہ اکیلے اللہ پر ایمان نہ لائیں۔
➍ { فَاِنَّهٗ سَيَهْدِيْنِ:} سورۂ شعراء میں ابراہیم علیہ السلام کا قول ہے: «‏‏‏‏الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَهُوَ يَهْدِيْنِ» [الشعراء: ۷۸] وہ جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی مجھے راستہ دکھاتا (اور اس پر چلاتا) ہے۔ یہاں فرمایا: «فَاِنَّهٗ سَيَهْدِيْنِ» ‏‏‏‏ یعنی جس نے مجھے پیدا کیا آئندہ بھی وہی مجھے سیدھی راہ پر چلاتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچائے گا۔ یعنی ہدایت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے جس کے ہاتھ میں خلق ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ انعام (۷۷)، شعراء (۷۸) اور صافات (۹۹)۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

امام الموحدین کا ذکر اور دنیا کی قیمت ٭٭
قریشی کفار نسب اور دین کے اعتبار سے چونکہ خلیل اللہ امام الحنفاء سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سنت ابراہیمی ان کے سامنے رکھی کہ دیکھو جو اپنے بندے آنے والے تمام نبیوں کے باپ، اللہ کے رسول امام الموحدین تھے انہوں نے کھلے لفظوں میں نہ صرف اپنی قوم سے بلکہ اپنے سگے باپ سے بھی کہہ دیا کہ مجھ میں تم میں کوئی تعلق نہیں۔ میں سوائے اپنے سچے اللہ کے جو میرا خالق اور ہادی ہے تمہارے ان معبودوں سے بیزار ہوں سب سے بے تعلق ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی اس جرأت ‘ حق گوئی اور جوش توحید کا بدلہ یہ دیا کہ کلمہ توحید کو ان کی اولاد میں ہمیشہ کے لیے باقی رکھ لیا۔ ناممکن ہے کہ آپ علیہ السلام کی اولاد میں اس پاک کلمے کے قائل نہ ہوں۔ انہی کی اولاد اس توحید کلمہ کی اشاعت کرے گی اور سعید روحیں اور نیک نصیب لوگ اسی گھرانے سے توحید سیکھیں گے۔ غرض اسلام اور توحید کا معلم یہ گھرانہ قرار پا گیا۔
پھر فرماتا ہے بات یہ ہے کہ یہ کفار کفر کرتے رہے اور میں انہیں متاع دنیا دیتا رہا یہ اور بہکتے گئے اور اس قدر بد مست بن گئے کہ جب ان کے پاس دین حق اور رسول حق آئے تو انہوں نے جھٹلانا شروع کر دیا کہ کلام اللہ اور معجزات انبیاء علیہم السلام جادو ہیں اور ہم ان کے منکر ہیں۔ سرکشی اور ضد میں آ کر کفر کر بیٹھے۔ عناد اور بغض سے حق کے مقابلے پر اتر آئے اور باتیں بنانے لگے کہ کیوں صاحب اگر یہ قرآن سچ مچ اللہ ہی کا کلام ہے تو پھر مکے اور طائف کے کسی رئیس پر ‘ کسی بڑے آدمی پر‘ کسی دنیوی وجاہت والے پر کیوں نہ اترا؟
اور بڑے آدمی سے ان کی مراد ولید بن مغیرہ، عروہ بن مسعود، عمیر بن عمرو، عتبہ بن ربیعہ، حبیب بن عمرو ابن عبد یا لیل، کنانہ بن عمرو وغیرہ سے تھی۔ غرض یہ تھی کہ ان دونوں بستیوں میں سے کسی بڑے مرتبے کے آدمی پر قرآن نازل ہونا چاہیئے تھا۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل