بے شک وہ لوگ جو ہماری آیات کے بارے میں ٹیڑھے چلتے ہیں، وہ ہم پر مخفی نہیں رہتے، تو کیا وہ شخص جو آگ میں پھینکا جائے بہتر ہے، یاجو امن کی حالت میں قیامت کے دن آئے؟ تم کرو جو چاہو، بے شک وہ اسے جو تم کر رہے ہو خوب دیکھنے والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
جو لوگ ہماری آیتوں میں کج راہی کرتے ہیں وہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ بھلا جو شخص دوزخ میں ڈالا جائے وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن وامان سے آئے۔ (تو خیر) جو چاہو سو کرلو۔ جو کچھ تم کرتے ہو وہ اس کو دیکھ رہا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
بیشک جو لوگ ہماری آیتوں میں کج روی کرتے ہیں وه (کچھ) ہم سے مخفی نہیں، (بتلاؤ تو) جو آگ میں ڈاﻻ جائے وه اچھا ہے یا وه جو امن و امان کے ساتھ قیامت کے دن آئے؟ تم جو چاہو کرتے چلے جاؤ وه تمہارا سب کیا کرایا دیکھ رہا ہے
(آیت 40) ➊ {اِنَّالَّذِيْنَيُلْحِدُوْنَفِيْۤاٰيٰتِنَا: ”يُلْحِدُوْنَ“} کا مادہ {”لَحْدٌ“} ہے۔ لحد اس قبر کو کہتے ہیں جو نیچے سیدھی کھودنے کے بجائے کچھ نیچے جا کر ایک طرف کھود کر بنائی جاتی ہے۔ {”إِلْحَادٌ“} کا معنی ہے سیدھے راستے سے انحراف، یعنی ایک طرف کو ہٹ جانا، کج روی اور ٹیڑھا چلنا، یعنی جو لوگ حق سے ہٹ کر ٹیڑھی راہ اختیار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آیات میں الحاد (ٹیڑھا چلنا) یہ ہے کہ ان کا انکار کر دے، یا ان کا سیدھا سادا اور واضح مطلب لینے کے بجائے غیر متعلق بحثیں کرے اور انھیں غلط مطلب پہنانے کی کوشش کرے۔ جو لوگ مسلمان ہو کر باطل نظریات مثلاً مشرکانہ عقائد، بدعت، انکارِ حدیث، اشتراکیت، سرمایہ داری اور دہریت وغیرہ کے حامی بن جاتے ہیں وہ یہی طرز اختیار کرتے ہیں، خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ یہاں آیاتِالٰہی میں کج روی اختیار کرنے والوں کے لیے وعید آئی ہے اور سورۂ اعراف کی آیت (۱۸۰) میں اسمائے الٰہی میں کج روی اختیار کرنے والوں سے علیحدگی کا حکم اور ایسے لوگوں کا انجام بیان فرمایا ہے۔ ➋ {لَايَخْفَوْنَعَلَيْنَا:} یہ پہلی شدید وعید ہے جو یہاں آیاتِالٰہی میں ٹیڑھا چلنے والوں کے لیے آئی ہے کہ یہ لوگ ہم پر مخفی نہیں ہیں، بلکہ ہر لمحے ہماری نگاہ میں ہیں اور ہماری گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ ہم اگر ان کے عذاب میں تاخیر کر رہے ہیں اور انھیں مہلت دے رہے ہیں تو اس لیے کہ جلدی تو وہ کرے جسے خطرہ ہو کہ مجرم رو پوش ہو جائے گا اور قابو سے نکل جائے گا۔ مطلب یہ کہ ہم انھیں اس الحاد کی سزا ضرور دیں گے۔ ➌ { اَفَمَنْيُّلْقٰىفِيالنَّارِخَيْرٌاَمْمَّنْيَّاْتِيْۤاٰمِنًايَّوْمَالْقِيٰمَةِ:} یہ دوسری دھمکی ہے کہ آیاتِالٰہی کا مطلب توڑنے مروڑنے والے اور ان کے بارے میں ٹیڑھے چلنے والے آگ میں پھینکے جائیں گے اور آیاتِالٰہی میں الحاد سے اجتناب کرنے والے قیامت کے دن امن کی حالت میں آئیں گے۔ تو بتاؤ، جو آگ میں پھینکا جائے گا وہ بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن کی حالت میں آئے گا؟ ➍ {اِعْمَلُوْامَاشِئْتُمْ …:} یہ تیسری دھمکی ہے، ”کرو جو چاہو“ کا مطلب اپنی مرضی کرنے کی اجازت دینا نہیں بلکہ ڈانٹ ہے کہ اس مہلت میں تم جو چاہو کر لو، پھر اس کی سزا کے لیے ہم جو چاہیں گے کریں گے۔ تمھارے ہر عمل کو ہم خوب دیکھ رہے ہیں، یہ خیال نہ کرنا کہ تم اپنے کسی عملِ بد کی سزا سے اس لیے بچ جاؤ گے کہ وہ ہماری نگاہ سے اوجھل ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی عظیم فرماں روا اپنے کچھ غلاموں پر ناراض ہو کر شدید غصے سے کہے، جو چاہو کرو۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
40۔ 1 یعنی ان کو مانتے نہیں بلکہ ان سے اعراض، انحراف اور ان کی تکذیب کرتے ہیں حضرت ابن عباس ؓ نے الحاد کے معنی کیے ہیں وضع الکلام علی غیر مواضعہ جس کی رو سے اس میں وہ باطل فرقے بھی آجاتے ہیں جو اپنے غلط عقائد و نظریات کے اثبات کے لیے آیات الہی میں تحریف معنوی اور دجل وتلبیس سے کام لیتے ہیں۔ 40۔ 2 یہ ملحدین (چاہے وہ کسی قسم کے ہوں) کے لئے سخت وعید ہے۔ 40۔ 3 یعنی کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ نہیں۔، یقینا نہیں علاوہ ازیں اس سے اشارہ کردیا کہ کافر آگ میں ڈالے جائیں گے اور اہل ایمان قیامت والے دن بےخوف ہونگے۔ 40۔ 3 یہ امر کا لفظ ہے، لیکن یہاں اس سے مقصود وعید اور تہدید ہے۔ کفر و شرک اور معیصت کے لئے اذن اور جواز نہیں ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
عذاب و ثواب نہ ہوتا تو عمل نہ ہوتا ٭٭
«اِلْحَاد» کے معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کلام کو اس کی جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنے کے مروی ہیں۔ اور قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ سے «اِلْحَاد» کے معنی کفر و عناد ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ ملحد لوگ ہم سے مخفی نہیں۔ ہمارے اسماء وصفات کو ادھر ادھر کر دینے والے ہماری نگاہوں میں ہیں۔ انہیں ہم بدترین سزائیں دیں گے۔ سمجھ لو کہ کیا جہنم واصل ہونے والا اور تمام خطروں سے بچ رہنے والا برابر ہیں؟ ہرگز نہیں۔ بدکار کافرو! جو چاہو عمل کرتے چلے جاؤ۔ مجھ سے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں۔ باریک سے باریک چیز بھی میری نگاہوں سے اوجھل نہیں ‘۔ ذکر سے مراد بقول ضحاک سدی اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم قرآن ہے، وہ باعزت باتوقیر ہے اس کے مثل کسی کا کلام نہیں اس کے آگے پیچھے سے یعنی کسی طرف سے اس سے باطل مل نہیں سکتا، یہ رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ جو اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے۔ اس کے تمام تر احکام بہترین انجام والے ہیں، ’ تجھ سے جو کچھ تیرے زمانے کے کفار کہتے ہیں یہی تجھ سے اگلے نبیوں کو ان کی کافر امتوں نے کہا تھا۔ پس جیسے ان پیغمبروں نے صبر کیا تم بھی صبر کرو۔ جو بھی تیرے رب کی طرف رجوع کرے وہ اس کے لیے بڑی بخششوں والا ہے اور جو اپنے کفر و ضد پر اڑا رہے مخالفت حق اور تکذیب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے باز نہ آئے اس پر وہ سخت درد ناک سزائیں کرنے والا ہے ‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اگر اللہ تعالیٰ کی بخشش اور معافی نہ ہوتی تو دنیا میں ایک متنفس جی نہیں سکتا تھا اور اگر اس کی پکڑ دکڑ عذاب سزا نہ ہوتی تو ہر شخص مطمئن ہو کر ٹیک لگا کر بے خوف ہو جاتا }۔۱؎[تفسیر ابن ابی حاتم:مرسل و ضعیف]