اور ہم نے ان کے لیے کچھ ساتھی مقرر کر دیے تو انھوں نے ان کے لیے ان کے سامنے اور ان کے پیچھے جو کچھ تھا، خوش نما بنا دیا اور ان پر بات ثابت ہو گئی، ان قوموں کے ساتھ ساتھ جو جنوں اور انسانوں میں سے ان سے پہلے گزر چکی تھیں، بے شک وہ خسارہ اٹھانے والے تھے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور ہم نے (شیطانوں کو) ان کا ہم نشین مقرر کردیا تھا تو انہوں نے ان کے اگلے اور پچھلے اعمال ان کو عمدہ کر دکھائے تھے اور جنات اور انسانوں کی جماعتیں جو ان سے پہلے گزر چکیں ان پر بھی خدا (کے عذاب) کا وعدہ پورا ہوگیا۔ بےشک یہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور ہم نے ان کے کچھ ہم نشیں مقرر کر رکھے تھے، جنہوں نے ان کے اگلے پچھلے اعمال ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنا رکھے تھے اور ان کے حق میں بھی اللہ کا قول ان امتوں کے ساتھ پورا ہوا جو ان سے پہلے جنوں انسانوں کی گزر چکی ہیں۔ یقیناً وه زیاں کار ﺛابت ہوئے۔
(آیت 25) ➊ {وَقَيَّضْنَالَهُمْقُرَنَآءَ …:”قُرَنَآءَ“”قَرِيْنٌ“} کی جمع ہے، ساتھ رہنے والا۔ {”اَلْقَيْضُ“} انڈے کے چھلکے کو کہتے ہیں۔ یعنی جس طرح چھلکا انڈے کے ساتھ پیوست ہوتا ہے اسی طرح ہم نے ایسے برے لوگ ان مشرکین کے ساتھ لگا دیے جو ان کے ساتھ اس طرح چمٹے رہتے ہیں جس طرح انڈے کا چھلکا چمٹا رہتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ اگر انسان برا ہو تو اسے ساتھی بھی برے میسر آتے ہیں، جو اسے سبز باغ دکھاتے رہتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان برائیوں میں مگن ہو جاتا ہے اور آخر کار خود کو اپنے ساتھیوں سمیت لے ڈوبتا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ زخرف (۳۶) اور سورۂ ق (۲۳ تا ۲۹)۔ ➋ { فَزَيَّنُوْالَهُمْمَّابَيْنَاَيْدِيْهِمْ …: ”مَابَيْنَاَيْدِيْهِمْ“} سے مراد وہ اعمال ہیں جو وہ دنیا میں کر رہے تھے اور {”وَمَاخَلْفَهُمْ“} سے مراد وہ اعمالِ بد ہیں جو اس سے پہلے کر چکے تھے۔ یعنی وہ برے ساتھی ان کے لیے ان کے موجودہ اور گزشتہ تمام برے اعمال کو خوش نما بنا کر پیش کرتے رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ انھی پر جمے رہتے ہیں اور ان لوگوں میں شامل ہو جاتے ہیں جن کے اعمالِ بد کی وجہ سے ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان صادق آتا ہے: «لَاَمْلَـَٔنَّجَهَنَّمَمِنَالْجِنَّةِوَالنَّاسِاَجْمَعِيْنَ» [ہود: ۱۱۹]”میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے ضرور ہی بھروں گا۔“ بعض مفسرین نے {”مَابَيْنَاَيْدِيْهِمْ“} سے مراد دنیا اور {”وَمَاخَلْفَهُمْ“} سے مراد آخرت لی ہے۔ یعنی ان کے برے ساتھی آخرت کے متعلق بھی انھیں خوش گمانی میں مبتلا رکھتے ہیں کہ اوّل تو وہ ہو گی ہی نہیں اور اگر ہوئی بھی تو جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمھیں دنیا میں نعمتوں سے نوازا ہے وہاں بھی نوازے گا۔ مزید دیکھیے سورۂ مریم (۷۷)۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
25۔ 1 ان سے مراد وہ شیاطین انس و جن ہیں جو باطل پر اصرار کرنے والوں کے ساتھ لگ جاتے ہیں، جو انہیں کفر و معاصی کو خوبصورت کر کے دکھاتے ہیں، پس وہ اس گمراہی کی دلدل میں پھنسے رہتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں موت آجاتی ہے اور وہ خسارہ ابدی کے مستحق قرار پاتے ہیں۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
آداب قرآن حکیم ٭٭
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ ’ مشرکین کو اس نے گمراہ کر دیا ہے اور یہ اس کی مشیت اور قدرت سے ہے۔ وہ اپنے تمام افعال میں حکمت والا ہے۔ اس نے کچھ جن و انس ایسے ان کے ساتھ کر دیئے تھے۔ جنہوں نے ان کے بداعمال انہیں اچھی صورت میں دکھائے۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ دور ماضی کے لحاظ سے اور آئندہ آنے والے زمانے کے لحاظ سے بھی ان کے اعمال اچھے ہی ہیں ‘۔ جیسے اور آیتیں ہے «وَمَنْيَّعْشُعَنْذِكْرِالرَّحْمٰنِنُـقَيِّضْلَهٗشَيْطٰنًافَهُوَلَهٗقَرِيْنٌوَإِنَّهُمْلَيَصُدُّونَهُمْعَنِالسَّبِيلِوَيَحْسَبُونَأَنَّهُممُّهْتَدُونَ»۱؎[43-الزخرف:36-37]، ان پر کلمہ عذاب صادق آ گیا۔ جیسے ان لوگوں پر جو ان سے پہلے جیسے تھے۔ نقصان اور گھاٹے میں یہ اور وہ یکساں ہو گئے، کفار نے آپس میں مشورہ کر کے اس پر اتفاق کر لیا ہے کہ وہ کلام اللہ کو نہیں مانیں گے نہ ہی اس کے احکام کی پیروی کریں گے۔ بلکہ ایک دوسرے سے کہہ رکھا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو شور و غل کرو اور اسے نہ سنو۔ تالیاں بجاؤ سیٹیاں بجاؤ آوازیں نکالو۔ چنانچہ قریشی یہی کرتے تھے۔ عیب جوئی کرتے تھے انکار کرتے تھے۔ دشمنی کرتے تھے اور اسے اپنے غلبہ کا باعث جانتے تھے۔
یہی حال ہر جاہل کافر کا ہے کہ اسے قرآن کا سننا اچھا نہیں لگتا۔ اسی لیے اس کے برخلاف اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم فرمایا «اِذَاقُرِئَالْقُرْاٰنُفَاسْتَمِعُوْالَهٗوَاَنْصِتُوْالَعَلَّكُمْتُرْحَمُوْنَ»۱؎[7-الأعراف:204]۔ ’ جب قرآن پڑھا جائے تو تم سنو اور چب رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ‘، ان کافروں کو دھمکایا جا رہا ہے کہ قرآن کریم سے مخالفت کرنے کی بناء پر انہیں سخت سزا دی جائے گی۔ اور ان کی بدعملی کا مزہ انہیں ضرور چکھایا جائے گا، ان اللہ کے دشمنوں کا بدلہ دوزخ کی آگ ہے۔ جس میں ان کیلئے ہمیشہ کا گھر ہے۔ یہ اس کا بدلہ ہے جو وہ اللہ کی آیات کا انکار کرتے تھے۔ اس کے بعد آیت کا مطلب سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”جن سے مراد ابلیس اور انس سے مراد آدم علیہ السلام کا وہ لڑکا ہے جس نے اپنے بھائی کو مار ڈالا تھا۔ اور روایت میں ہے کہ ابلیس تو ہر مشرک کو پکارے گا۔ اور آدم کا یہ لڑکا ہر کبیرہ گناہ کرنے والے کو پکارے گا۔ پس ابلیس شرک کی طرف اور تمام گناہوں کی طرف لوگوں کو دعوت دینے والا ہے اور اول رسول آدم کا یہ لڑکا جو اپنے بھائی کا قاتل ہے۔“ چنانچہ حدیث میں ہے { روئے زمین پر جو قتل ناحق ہوتا ہے اس کا گناہ آدم کے اس پہلے فرزند پر بھی ہوتا ہے کیونکہ قتل بیجا کا شروع کرنے والا یہ ہے }۔۱؎[صحیح بخاری:3335] پس کفار قیامت کے دن جن و انس جو انہیں گمراہ کرنے والے تھے انہیں نیچے کے طبقے میں داخل کرانا چاہیں گے تا کہ انہیں سخت عذاب ہوں۔ وہ درک اسفل میں چلے جائیں اور ان سے زیادہ سزا بھگتیں۔ سورۃ الاعراف میں بھی یہ بیان گزر چکا ہے کہ یہ ماننے والے جن کی مانتے تھے ان کیلئے قیامت کے دن دوہرے عذاب کی درخواست کریں گے جس پر کہا جائے گا کہ «قَالَلِكُلٍّضِعْفٌوَلَـٰكِنلَّاتَعْلَمُونَ»۱؎[7-الأعراف:38] ’ ہر ایک دوگنے عذاب میں ہی ہے، لیکن تم بے شعور ہو ‘۔ یعنی ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق سزا ہو رہی ہے۔ جیسے اور آیت میں ہے «الَّذِينَكَفَرُواوَصَدُّواعَنسَبِيلِاللَّـهِزِدْنَاهُمْعَذَابًافَوْقَالْعَذَابِبِمَاكَانُوايُفْسِدُونَ»۱؎[16-النحل:88]۔ یعنی ’ جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا انہیں ہم ان کے فساد کی وجہ سے عذاب پر عذاب دیں گے ‘۔