وَ اَمَّا ثَمُوۡدُ فَہَدَیۡنٰہُمۡ فَاسۡتَحَبُّوا الۡعَمٰی عَلَی الۡہُدٰی فَاَخَذَتۡہُمۡ صٰعِقَۃُ الۡعَذَابِ الۡہُوۡنِ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿ۚ۱۷﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور جو ثمود تھے تو ہم نے انھیں سیدھا راستہ دکھایا مگر انھوںنے ہدایت کے مقابلہ میں اندھا رہنے کو پسند کیا تو انھیںذلیل کرنے والے عذاب کی کڑک نے پکڑ لیا، اس کی وجہ سے جو وہ کماتے تھے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور جو ثمود تھے ان کو ہم نے سیدھا رستہ دکھا دیا تھا مگر انہوں نے ہدایت کے مقابلے میں اندھا دھند رہنا پسند کیا تو ان کے اعمال کی سزا میں کڑک نے ان کو آپکڑا۔ اور وہ ذلت کا عذاب تھا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
رہے ﺛمود، سو ہم نے ان کی بھی رہبری کی پھر بھی انہوں نے ہدایت پر اندھے پن کو ترجیح دی جس بنا پر انہیں (سراپا) ذلت کے عذاب، کی کڑک نے ان کے کرتوتوں کے باعﺚ پکڑ لیا
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 17) ➊ {وَ اَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ …:} قوم ثمود کے تعارف کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف (۷۳ تا ۷۹)۔ ہدایت کی تفسیر کے لیے سورۂ فاتحہ کی آیت: { اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ } کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ یعنی ہم نے انھیں راہِ حق دکھا دیا، مگر انھوں نے ہدایت قبول کرنے کے بجائے اندھا اور گمراہ رہنے کو ترجیح دی۔
➋ {فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ …:” الْهُوْنِ “} اور{”اَلْهَوَانُ“} معنی ذلت، یہ مصدر بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہے۔ ثمود پر آنے والے عذاب کو کہیں {” الرَّجْفَةُ “} (زلزلہ) کہا گیا ہے، کہیں {” الصَّيْحَةُ “} (سخت چیخ) یہاں اسے بجلی کی کڑک کہا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ ایک سخت چیخ تھی جس میں بجلی کی کڑک اور شعلہ تھا، ساتھ ہی شدید زلزلہ تھا جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور سب کے سب ہلاک ہو گئے۔ یہ ذلت کا عذاب ان کے اعمال بد کا انجام تھا۔
➋ {فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ …:” الْهُوْنِ “} اور{”اَلْهَوَانُ“} معنی ذلت، یہ مصدر بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہے۔ ثمود پر آنے والے عذاب کو کہیں {” الرَّجْفَةُ “} (زلزلہ) کہا گیا ہے، کہیں {” الصَّيْحَةُ “} (سخت چیخ) یہاں اسے بجلی کی کڑک کہا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ ایک سخت چیخ تھی جس میں بجلی کی کڑک اور شعلہ تھا، ساتھ ہی شدید زلزلہ تھا جس سے ان کے جگر پھٹ گئے اور سب کے سب ہلاک ہو گئے۔ یہ ذلت کا عذاب ان کے اعمال بد کا انجام تھا۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
17۔ 1 یعنی ان کو توحید کی دعوت دی، اس کے دلائل ان کے سامنے واضح کئے اور ان کے پیغمبر حضرت صالح ؑ کے ذریعے سے ان پر حجت تمام کی۔ 17۔ 2 یعنی انہوں نے مخالفت کی حتیٰ کہ اس اونٹنی تک کو ذبح کر ڈالا جو بطور معجزہ ان کی خواہش پر چٹان سے ظاہر کی گئی تھی اور پیغمبر کی صداقت کی دلیل تھی۔ 17۔ 2 صاعقۃ عذاب شدید کو کہتے ہیں ان پر یہ سخت عذاب چنگھاڑ اور زلزلے کی صورت میں آیا جس نے انہیں ذلت و رسوائی کے ساتھ تباہ و برباد کردیا۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اس آیت کی تفسیر اگلی آیات کیساتھ ملاحظہ کریں۔