تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ۙ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اس کتاب کا اتارنا اللہ کی طرف سے ہے، جو سب پر غالب ، ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اس کتاب کا اتارا جانا خدائے غالب ودانا کی طرف سے ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اس کتاب کا نازل فرمانا اس اللہ کی طرف سے ہے جو غالب اور دانا ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 3،2) ➊ { تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ…:} اس سورت میں توحید، قیامت اور اسلام کے بنیادی عقائد اور کفار کے مسلمانوں کے ساتھ ناحق جھگڑے اور کج بحثی کا ذکر ہے۔ ان دو آیات میں اس کتاب کے نازل کرنے والے کی چھ صفات اس انداز سے بیان کی گئی ہیں کہ اس کتاب پر کفار کے تمام اعتراضات کا جامع جواب آ گیا ہے۔
مفسر عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”کفار کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ یہ کلام اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں، بلکہ تمھاری اختراع ہے۔ آغاز ہی میں فرما دیا کہ یہ کتاب کسی کمزور ہستی کی طرف سے نہیں بلکہ اس اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جو ({الْعَزِيْزِ} ہے، یعنی) کائنات کی ہر چیز پر غالب ہے اور تمھاری معاندانہ کوششوں اور سازشوں کے علی الرغم اپنے کلمہ کو سر بلند اور نافذ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ ({الْعَلِيْمِ }ہے، یعنی) وہ ہر چیز کا براہِ راست اور پورا پورا علم رکھتا ہے، لہٰذا اس کتاب میں اے کفار مکہ! جو (احکام اور جو) خبریں بھی دی گئی ہیں سب درست اور یقینی ہیں۔ تیسری صفت ({غَافِرِ الذَّنْۢبِ}) یہ بیان فرمائی کہ وہ اپنے فرماں بردار بندوں کے بہت سے گناہ از خود ہی بخشتا رہتا ہے۔ چوتھی صفت ({قَابِلِ التَّوْبِ}) یہ ہے کہ کافر توبہ کر کے حلقۂ اسلام میں داخل ہو جائیں تو ان کی توبہ قبول کر کے ان کے سابقہ گناہوں کو معاف کر دینے والا ہے اور اس صفت کا تعلق صرف نو مسلموں سے نہیں بلکہ جو بندہ بھی اپنے گناہوں پر نادم ہوکر اس کی طرف رجوع کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اس کے گناہ بھی معاف کر دیتا ہے۔ پانچویں صفت ({شَدِيْدِ الْعِقَابِ}) یہ ہے کہ وہ اپنے باغیوں کو سخت سزا دے کر ان کی اکڑی ہوئی گردنیں توڑ سکتا ہے، خواہ وہ یہ عذاب دنیا میں دے یا آخرت میں اور اس کی چھٹی صفت ({ذِي الطَّوْلِ}) یہ ہے کہ وہ کشادہ دست (کھلے ہاتھ اور بڑے فضل والا) ہے، ہر وقت انعامات کی بارش کرتا رہتا ہے اور اس سے اپنے نافرمانوں کو بھی محروم نہیں فرماتا۔ اتنی صفات بیان کرنے کے بعد ان دو بنیادی جھگڑوں کی حقیقت بیان فرما دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار مکہ کے درمیان چل رہے تھے، ان میں سے پہلا یہ ({لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ}) ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، باقی تمام معبود جھوٹے، باطل اور بے کار ہیں اور دوسرا ({اِلَيْهِ الْمَصِيْرُ}) یہ کہ روزِ آخرت کا قیام یقینی ہے اور تم سب کو یقینا اللہ کے حضور پیش ہونا ہو گا۔“ (تیسیر القرآن)
➋ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات بیان فرماتے ہوئے رحمت و عذاب دونوں پر مشتمل صفات بیان فرمائی ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے، تاکہ امید و خوف دونوں موجود رہیں، جیسا کہ فرمایا: «نَبِّئْ عِبَادِيْۤ اَنِّيْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (49) وَ اَنَّ عَذَابِيْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِيْمُ» [الحجر: ۴۹،۵۰] ”میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بے شک میں ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والاہوں۔ اور یہ بھی کہ بے شک میرا عذاب ہی دردناک عذاب ہے۔“ یاد رہے کہ یہاں رحمت کی صفات عذاب کی صفات سے زیادہ بیان ہوئی ہیں، چنانچہ {” شَدِيْدِ الْعِقَابِ “} سے پہلے بھی رحمت پر مشتمل دو صفات {” غَافِرِ الذَّنْۢبِ “} اور {” قَابِلِ التَّوْبِ “} ہیں اور بعد میں بھی {” ذِي الطَّوْلِ “} ہے۔ اس کی وجہ وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لَمَّا قَضَی اللّٰهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِيْ كِتَابِهِ، فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِيْ غَلَبَتْ غَضَبِيْ] [بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في قول اللّٰہ تعالٰی: «وھو الذی یبدء الخلق…» : ۳۱۹۴] ”اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق پیدا فرمائی تو اپنی کتاب میں لکھ دیا، چنانچہ وہ کتاب عرش کے اوپر اس کے پاس ہے کہ بلاشبہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔“
مفسر عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”کفار کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ یہ کلام اللہ کی طرف سے نازل شدہ نہیں، بلکہ تمھاری اختراع ہے۔ آغاز ہی میں فرما دیا کہ یہ کتاب کسی کمزور ہستی کی طرف سے نہیں بلکہ اس اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جو ({الْعَزِيْزِ} ہے، یعنی) کائنات کی ہر چیز پر غالب ہے اور تمھاری معاندانہ کوششوں اور سازشوں کے علی الرغم اپنے کلمہ کو سر بلند اور نافذ کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ ({الْعَلِيْمِ }ہے، یعنی) وہ ہر چیز کا براہِ راست اور پورا پورا علم رکھتا ہے، لہٰذا اس کتاب میں اے کفار مکہ! جو (احکام اور جو) خبریں بھی دی گئی ہیں سب درست اور یقینی ہیں۔ تیسری صفت ({غَافِرِ الذَّنْۢبِ}) یہ بیان فرمائی کہ وہ اپنے فرماں بردار بندوں کے بہت سے گناہ از خود ہی بخشتا رہتا ہے۔ چوتھی صفت ({قَابِلِ التَّوْبِ}) یہ ہے کہ کافر توبہ کر کے حلقۂ اسلام میں داخل ہو جائیں تو ان کی توبہ قبول کر کے ان کے سابقہ گناہوں کو معاف کر دینے والا ہے اور اس صفت کا تعلق صرف نو مسلموں سے نہیں بلکہ جو بندہ بھی اپنے گناہوں پر نادم ہوکر اس کی طرف رجوع کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اس کے گناہ بھی معاف کر دیتا ہے۔ پانچویں صفت ({شَدِيْدِ الْعِقَابِ}) یہ ہے کہ وہ اپنے باغیوں کو سخت سزا دے کر ان کی اکڑی ہوئی گردنیں توڑ سکتا ہے، خواہ وہ یہ عذاب دنیا میں دے یا آخرت میں اور اس کی چھٹی صفت ({ذِي الطَّوْلِ}) یہ ہے کہ وہ کشادہ دست (کھلے ہاتھ اور بڑے فضل والا) ہے، ہر وقت انعامات کی بارش کرتا رہتا ہے اور اس سے اپنے نافرمانوں کو بھی محروم نہیں فرماتا۔ اتنی صفات بیان کرنے کے بعد ان دو بنیادی جھگڑوں کی حقیقت بیان فرما دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کفار مکہ کے درمیان چل رہے تھے، ان میں سے پہلا یہ ({لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ}) ہے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، باقی تمام معبود جھوٹے، باطل اور بے کار ہیں اور دوسرا ({اِلَيْهِ الْمَصِيْرُ}) یہ کہ روزِ آخرت کا قیام یقینی ہے اور تم سب کو یقینا اللہ کے حضور پیش ہونا ہو گا۔“ (تیسیر القرآن)
➋ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات بیان فرماتے ہوئے رحمت و عذاب دونوں پر مشتمل صفات بیان فرمائی ہیں اور یہی اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے، تاکہ امید و خوف دونوں موجود رہیں، جیسا کہ فرمایا: «نَبِّئْ عِبَادِيْۤ اَنِّيْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (49) وَ اَنَّ عَذَابِيْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِيْمُ» [الحجر: ۴۹،۵۰] ”میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بے شک میں ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والاہوں۔ اور یہ بھی کہ بے شک میرا عذاب ہی دردناک عذاب ہے۔“ یاد رہے کہ یہاں رحمت کی صفات عذاب کی صفات سے زیادہ بیان ہوئی ہیں، چنانچہ {” شَدِيْدِ الْعِقَابِ “} سے پہلے بھی رحمت پر مشتمل دو صفات {” غَافِرِ الذَّنْۢبِ “} اور {” قَابِلِ التَّوْبِ “} ہیں اور بعد میں بھی {” ذِي الطَّوْلِ “} ہے۔ اس کی وجہ وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لَمَّا قَضَی اللّٰهُ الْخَلْقَ كَتَبَ فِيْ كِتَابِهِ، فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِيْ غَلَبَتْ غَضَبِيْ] [بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في قول اللّٰہ تعالٰی: «وھو الذی یبدء الخلق…» : ۳۱۹۴] ”اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق پیدا فرمائی تو اپنی کتاب میں لکھ دیا، چنانچہ وہ کتاب عرش کے اوپر اس کے پاس ہے کہ بلاشبہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔“
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اس سورت کو سورة غافر اور سورة، الطول بھی کہتے ہیں۔ 2۔ 1 تَنْزِیْل مُنَزَّل کے معنی میں ہے، یعنی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جس میں جھوٹ نہیں 2۔ 2 جو غالب ہے، اس کی قوت اور غلبے کے سامنے کوئی پر نہیں مار سکتا۔ علیم ہے، اس سے کوئی ذرہ تک پوشیدہ نہیں چاہے وہ کتنے بھی کثیف پردوں میں چھپا ہو۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہے ٭٭
سورتوں کے اول میں حم وغیرہ جیسے جو حروف آئے ہیں ان کی پوری بحث سورۃ البقرہ کی تفسیر کے شروع میں کر آئے ہیں جس کے اعادہ کی اب چنداں ضرورت نہیں۔ بعض کہتے ہیں حم اللہ کا ایک نام ہے اور اس کی شہادت میں وہ یہ شعر پیش کرتے ہیں «یذکرنی حم والرمح شاجر» «فھلا تلا حم قبل التقدم» یعنی یہ مجھے حم یاد دلاتا ہے جب کہ نیزہ تن چکا پھر اس سے پہلے ہی اس نے حٰمٗ کیوں نہ کہہ دیا۔
ابوداؤد اور ترمذی کی حدیث میں وارد ہے کہ اگر تم پر شب خون مارا جائے تو «" حم " لا ينصرون "» کہنا،[سنن ترمذي:1682،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اس کی سند صحیح ہے۔ ابوعبید کہتے ہیں مجھے یہ پسند ہے کہ اس حدیث کو یوں روایت کی جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کہو «حم لاینصروا» یعنی نون کے بغیر، تو گویا ان کے نزدیک لاینصروا جزا ہے فقولوا کی یعنی جب تم یہ کہو گے تم مغلوب نہیں ہو گے۔ تو قول صرف حم رہا یہ کتاب یعنی قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ ہے جو عزت و علم والا ہے، جس کی جناب ہر بےادبی سے پاک ہے اور جس پر کوئی ذرہ بھی مخفی نہیں گو وہ کتنے ہی پردوں میں ہو، وہ گناہوں کی بخشش کرنے والا اور جو اس کی طرف جھکے اس کی جانب مائل ہونے والا ہے۔ اور جو اس سے بےپرواہی کرے اس کے سامنے سرکشی اور تکبر کرے اور دنیا کو پسند کر کے آخرت سے بے رغبت ہو جائے۔ اللہ کی فرمانبرداری کو چھوڑ دے اسے وہ سخت ترین عذاب اور بدترین سزائیں دینے والا ہے۔
جیسے فرمان ہے «نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ» [15- الحجر: 50، 49] یعنی میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ میں بخشنے والا اور مہربانیاں کرنے والا بھی ہوں اور میرے عذاب بھی بڑے درد ناک عذاب ہیں۔ اور بھی اس قسم کی آیتیں قرآن کریم میں بہت سی ہیں جن میں رحم و کرم کے ساتھ عذاب و سزا کا بیان بھی ہے تاکہ بندہ خوف و امید کی حالت میں رہے۔ وہ وسعت و غنا والا ہے۔ وہ بہت بہتری والا ہے بڑے احسانوں، زبردست نعمتوں اور رحمتوں والا ہے۔ «وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّـهِ لَا تُحْصُوهَا» [14-إبراهيم: 34] بندوں پر اس کے انعام، احسان اس قدر ہیں کہ کوئی انہیں شمار بھی نہیں کر سکتا چہ جائیکہ اس کا شکر ادا کر سکے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک نعمت کا بھی پورا شکر کسی سے ادا نہیں ہوسکتا۔ اس جیسا کوئی نہیں اس کی ایک صفت بھی کسی میں نہیں اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں نہ اس کے سوا کوئی کسی کی پرورش کرنے والا ہے۔ اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ اس وقت وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کے مطابق جزا سزا دے گا۔ «وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ» [13-الرعد: 41] اور بہت جلد حساب سے فارغ ہو جائے گا۔
امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے ایک شخص آ کر مسئلہ پوچھتا ہے کہ میں نے کسی کو قتل کر دیا ہے کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ آپ رضی اللہ عنہما نے شروع سورت کی دو آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا ناامید نہ ہو اور نیک عمل کئے جا۔ [ابن ابی حاتم]
اس کی سند صحیح ہے۔ ابوعبید کہتے ہیں مجھے یہ پسند ہے کہ اس حدیث کو یوں روایت کی جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کہو «حم لاینصروا» یعنی نون کے بغیر، تو گویا ان کے نزدیک لاینصروا جزا ہے فقولوا کی یعنی جب تم یہ کہو گے تم مغلوب نہیں ہو گے۔ تو قول صرف حم رہا یہ کتاب یعنی قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ ہے جو عزت و علم والا ہے، جس کی جناب ہر بےادبی سے پاک ہے اور جس پر کوئی ذرہ بھی مخفی نہیں گو وہ کتنے ہی پردوں میں ہو، وہ گناہوں کی بخشش کرنے والا اور جو اس کی طرف جھکے اس کی جانب مائل ہونے والا ہے۔ اور جو اس سے بےپرواہی کرے اس کے سامنے سرکشی اور تکبر کرے اور دنیا کو پسند کر کے آخرت سے بے رغبت ہو جائے۔ اللہ کی فرمانبرداری کو چھوڑ دے اسے وہ سخت ترین عذاب اور بدترین سزائیں دینے والا ہے۔
جیسے فرمان ہے «نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ» [15- الحجر: 50، 49] یعنی میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ میں بخشنے والا اور مہربانیاں کرنے والا بھی ہوں اور میرے عذاب بھی بڑے درد ناک عذاب ہیں۔ اور بھی اس قسم کی آیتیں قرآن کریم میں بہت سی ہیں جن میں رحم و کرم کے ساتھ عذاب و سزا کا بیان بھی ہے تاکہ بندہ خوف و امید کی حالت میں رہے۔ وہ وسعت و غنا والا ہے۔ وہ بہت بہتری والا ہے بڑے احسانوں، زبردست نعمتوں اور رحمتوں والا ہے۔ «وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّـهِ لَا تُحْصُوهَا» [14-إبراهيم: 34] بندوں پر اس کے انعام، احسان اس قدر ہیں کہ کوئی انہیں شمار بھی نہیں کر سکتا چہ جائیکہ اس کا شکر ادا کر سکے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی ایک نعمت کا بھی پورا شکر کسی سے ادا نہیں ہوسکتا۔ اس جیسا کوئی نہیں اس کی ایک صفت بھی کسی میں نہیں اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں نہ اس کے سوا کوئی کسی کی پرورش کرنے والا ہے۔ اسی کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے۔ اس وقت وہ ہر عمل کرنے والے کو اس کے عمل کے مطابق جزا سزا دے گا۔ «وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ» [13-الرعد: 41] اور بہت جلد حساب سے فارغ ہو جائے گا۔
امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے ایک شخص آ کر مسئلہ پوچھتا ہے کہ میں نے کسی کو قتل کر دیا ہے کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ آپ رضی اللہ عنہما نے شروع سورت کی دو آیتیں تلاوت فرمائیں اور فرمایا ناامید نہ ہو اور نیک عمل کئے جا۔ [ابن ابی حاتم]
سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے پاس ایک شامی کبھی کبھی آیا کرتا تھا اور تھا ذرا ایسا ہی آدمی ایک مرتبہ لمبی مدت تک وہ آیا ہی نہیں تو امیر المؤمنین رضی اللہ عنہما نے لوگوں سے اس کا حال پوچھا انہوں نے کہا کہ اس نے بہ کثرت شراب پینا شروع کر دیا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے کاتب کو بلوا کر کہا لکھو یہ خط ہے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف سے فلاں بن فلاں کی طرف بعد از سلام علیک میں تمہارے سامنے اس اللہ کی تعریفیں کرتا ہوں جس کے ساتھ کوئی معبود نہیں جو گناہوں کو بخشنے والا توبہ کو قبول کرنے والا سخت عذاب والا بڑے احسان والا ہے جس کے سوا کوئی اللہ نہیں۔ اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ یہ خط اس کی طرف بھجوا کر آپ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا اپنے بھائی کیلئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کو متوجہ کر دے اور اس کی توبہ قبول فرمائے جب اس شخص کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کا خط ملا تو اس نے اسے باربار پڑھنا اور یہ کہنا شروع کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی سزا سے ڈرایا بھی ہے اور اپنی رحمت کی امید دلا کر گناہوں کی بخشش کا وعدہ بھی کیا ہے کئی کئی مرتبہ اسے پڑھ کر رو دیئے پھر توبہ کی اور سچی پکی توبہ کی۔
جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو یہ پتہ چلا تو آپ بہت خوش ہوئے۔ اور فرمایا اسی طرح کیا کرو۔ جب تم دیکھو کہ کوئی مسلمان بھائی لغزش کھا گیا تو اسے سیدھا کرو اور مضبوط کرو اور اس کیلئے اللہ سے دعا کرو۔ شیطان کے مددگار نہ بنو۔
حضرت ثابت بنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ کوفے کے گرد و نواح میں تھا میں نے ایک باغ میں جا کر دو رکعت نماز شروع کی اور اس سورۃ مومن کی تلاوت کرنے لگا میں ابھی «الیہ المصیر» تک پہنچا ہی تھا کہ ایک شخص نے جو میرے پیچھے سفید خچر پر سوار تھا جس پر یمنی چادریں تھیں مجھ سے کہا جب «غافر الذنب» پڑھو تو کہو «یاغافر الذنب اغفرلی ذنبی» اور جب «قابل التوب» پڑھو تو کہو «یَا قَاُبَل الثّْوبْ اِقْبَْل تَْوبَتِیْ» اور جب «شدید العقاب» تو کہو «یاشدید العقاب لا تعاقبنی» ۔
۔
جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو یہ پتہ چلا تو آپ بہت خوش ہوئے۔ اور فرمایا اسی طرح کیا کرو۔ جب تم دیکھو کہ کوئی مسلمان بھائی لغزش کھا گیا تو اسے سیدھا کرو اور مضبوط کرو اور اس کیلئے اللہ سے دعا کرو۔ شیطان کے مددگار نہ بنو۔
حضرت ثابت بنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ کوفے کے گرد و نواح میں تھا میں نے ایک باغ میں جا کر دو رکعت نماز شروع کی اور اس سورۃ مومن کی تلاوت کرنے لگا میں ابھی «الیہ المصیر» تک پہنچا ہی تھا کہ ایک شخص نے جو میرے پیچھے سفید خچر پر سوار تھا جس پر یمنی چادریں تھیں مجھ سے کہا جب «غافر الذنب» پڑھو تو کہو «یاغافر الذنب اغفرلی ذنبی» اور جب «قابل التوب» پڑھو تو کہو «یَا قَاُبَل الثّْوبْ اِقْبَْل تَْوبَتِیْ» اور جب «شدید العقاب» تو کہو «یاشدید العقاب لا تعاقبنی» ۔
۔
سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے گوشہ چشم سے دیکھا تو مجھے کوئی نظر نہ آیا فارغ ہو کر میں دروازے پر پہنچا وہاں جو لوگ بیٹھے تھے ان سے میں نے پوچھا کہ کیا کوئی شخص تمہارے پاس سے گذرا جس پر یمنی چادریں تھیں انہوں نے کہا نہیں ہم نے تو کسی کو آتے جاتے نہیں دیکھا۔ اب لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ یہ الیاس علیہ السلام تھے۔ یہ روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے اور اس میں الیاس کا ذکر نہیں۔ «واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم» ۔