یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتوں سے بھی، بے شک اللہ ہمیشہ تم پر پورا نگہبان ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اول) اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد وعورت (پیدا کرکے روئے زمین پر) پھیلا دیئے۔ اور خدا سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت بر آری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو اور (قطع مودت) ارحام سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
سورۂ نساء مدنی ہے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے کہ سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء ایسے زمانے میں نازل ہوئیں جب میں (رخصتی کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آ چکی تھی۔ [بخاری، فضائل القرآن، باب تألیف القرآن: ۴۹۹۳] اس سورت میں عورتوں سے متعلقہ مسائل کی وجہ سے اس کا نام سورۂ نساء ہے۔
(آیت 1) ➊ {خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ:} یعنی پوری نوع انسانی آدم علیہ السلام کی نسل سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قیامت کے دن) لوگ آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے، اے آدم! آپ انسانوں کے باپ ہیں، آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔“ [بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالٰی: «و لقد أرسلنا …» : ۳۳۴۰، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ] ایک جان سے پیدا کرنے سے یہ توجہ دلانا بھی مقصود ہے کہ تم تمام انسان ایک شخص کی اولاد ہو، کوئی اور رشتہ داری نہ ہو تو یہ رشتہ داری کیا کم ہے، اس کا خیال ہی رکھو اور اپنے کمزوروں کی مدد کرتے رہو۔
➋ {وَ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا:} رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ اوپر کا ہوتا ہے، سو اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ بیٹھو گے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو اس طرح فائدہ اٹھا ؤ گے کہ اس میں برابر ٹیڑھا پن ہو گا۔“ [بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم و ذریتہ: ۳۳۳۱، ۵۱۸۴، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ] بعض روایات میں ہے: [وَ كَسْرُهَا طَلاَقُهَا] ” اور اس کا توڑنا اسے طلاق دینا ہے۔“ [مسلم، الرضاع، باب الوصیۃ بالنساء: 715/59 بعد ح: ۱۴۶۶۔ بخاری: ۵۱۸۴] قرآن کی آیت سے معلوم ہوا کہ حواء علیھا السلام آدم علیہ السلام سے پیدا ہوئیں۔ حدیث سے ثابت ہوا کہ پسلی سے پیدا ہوئیں، اس کی کیفیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں کی۔ بعض لوگ اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ عورت میں کچھ ٹیڑھا پن رہتا ہی ہے، اس لیے اسے پسلی سے تشبیہ دی گئی ہے، مگر قرآن کے صریح الفاظ کہ آدم سے اس کی بیوی کو پیدا کیا، ان کے ساتھ حدیث ملائیں تو اس کا پسلی سے پیدا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ہاں، اس کی کجی بھی اپنی جگہ درست ہے۔
➌ {تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ:} یعنی جس اللہ کا نام لے کر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اس اللہ سے ڈرو۔ { ”وَ الْاَرْحَامَ“ } اس کا عطف لفظ {” اللّٰهَ “} پر ہے، یعنی {”وَاتَّقُوا الْأَرْحَامَ“} کہ قطع رحمی اور رشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی سے بچو۔ { ”الْاَرْحَامَ“ } کو میم کے کسرہ سے پڑھنا غلط ہے اور قواعد نحویہ کی رو سے بھی ٹھیک نہیں، ہاں معنی کے اعتبار سے صحیح ہے، یعنی جس رشتہ داری کے نام پر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو۔ (قرطبی) شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تمام علمائے شریعت و لغت کا اتفاق ہے کہ {”الْاَرْحَامَ“} سے محرم اور غیر محرم تمام رشتے مراد ہیں۔ قرآن و حدیث میں قطع رحمی کی بہت مذمت آئی ہے۔ دیکھیے سورۂ محمد (۲۲،۲۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رشتے داری کو توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔“ [بخاری، الأدب، باب إثم القاطع: ۵۹۸۴، عن جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ] اور فرمایا: ”جو شخص چاہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کے نشانِ(قدم) دیر تک رکھے جائیں وہ اپنی رشتے داری کو ملائے۔“ [بخاری، الأدب، باب فضل صلۃ الرحم…: ۵۹۸۳، عن أبی أیوب الأنصاری رضی اللہ عنہ]
➍ {رَقِيْبًا:} رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی عبادت کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، سو اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔“ [بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ۵۰۔ مسلم: ۸، عن أبی ہریرۃ و عمر رضی اللہ عنہما]
(آیت 1) ➊ {خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ:} یعنی پوری نوع انسانی آدم علیہ السلام کی نسل سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قیامت کے دن) لوگ آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے، اے آدم! آپ انسانوں کے باپ ہیں، آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے بنایا۔“ [بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالٰی: «و لقد أرسلنا …» : ۳۳۴۰، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ] ایک جان سے پیدا کرنے سے یہ توجہ دلانا بھی مقصود ہے کہ تم تمام انسان ایک شخص کی اولاد ہو، کوئی اور رشتہ داری نہ ہو تو یہ رشتہ داری کیا کم ہے، اس کا خیال ہی رکھو اور اپنے کمزوروں کی مدد کرتے رہو۔
➋ {وَ خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا:} رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ اوپر کا ہوتا ہے، سو اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ بیٹھو گے اور اگر اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو اس طرح فائدہ اٹھا ؤ گے کہ اس میں برابر ٹیڑھا پن ہو گا۔“ [بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب خلق آدم و ذریتہ: ۳۳۳۱، ۵۱۸۴، عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ] بعض روایات میں ہے: [وَ كَسْرُهَا طَلاَقُهَا] ” اور اس کا توڑنا اسے طلاق دینا ہے۔“ [مسلم، الرضاع، باب الوصیۃ بالنساء: 715/59 بعد ح: ۱۴۶۶۔ بخاری: ۵۱۸۴] قرآن کی آیت سے معلوم ہوا کہ حواء علیھا السلام آدم علیہ السلام سے پیدا ہوئیں۔ حدیث سے ثابت ہوا کہ پسلی سے پیدا ہوئیں، اس کی کیفیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں کی۔ بعض لوگ اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ عورت میں کچھ ٹیڑھا پن رہتا ہی ہے، اس لیے اسے پسلی سے تشبیہ دی گئی ہے، مگر قرآن کے صریح الفاظ کہ آدم سے اس کی بیوی کو پیدا کیا، ان کے ساتھ حدیث ملائیں تو اس کا پسلی سے پیدا ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ہاں، اس کی کجی بھی اپنی جگہ درست ہے۔
➌ {تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَ الْاَرْحَامَ:} یعنی جس اللہ کا نام لے کر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اس اللہ سے ڈرو۔ { ”وَ الْاَرْحَامَ“ } اس کا عطف لفظ {” اللّٰهَ “} پر ہے، یعنی {”وَاتَّقُوا الْأَرْحَامَ“} کہ قطع رحمی اور رشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی سے بچو۔ { ”الْاَرْحَامَ“ } کو میم کے کسرہ سے پڑھنا غلط ہے اور قواعد نحویہ کی رو سے بھی ٹھیک نہیں، ہاں معنی کے اعتبار سے صحیح ہے، یعنی جس رشتہ داری کے نام پر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو۔ (قرطبی) شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تمام علمائے شریعت و لغت کا اتفاق ہے کہ {”الْاَرْحَامَ“} سے محرم اور غیر محرم تمام رشتے مراد ہیں۔ قرآن و حدیث میں قطع رحمی کی بہت مذمت آئی ہے۔ دیکھیے سورۂ محمد (۲۲،۲۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رشتے داری کو توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔“ [بخاری، الأدب، باب إثم القاطع: ۵۹۸۴، عن جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ] اور فرمایا: ”جو شخص چاہے کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کے نشانِ(قدم) دیر تک رکھے جائیں وہ اپنی رشتے داری کو ملائے۔“ [بخاری، الأدب، باب فضل صلۃ الرحم…: ۵۹۸۳، عن أبی أیوب الأنصاری رضی اللہ عنہ]
➍ {رَقِيْبًا:} رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی عبادت کر گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، سو اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔“ [بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ۵۰۔ مسلم: ۸، عن أبی ہریرۃ و عمر رضی اللہ عنہما]
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا (1) اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو (2) بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
1۔ لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک جان [1] سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے (دنیا میں) بہت سے مرد [2] اور عورتیں پھیلا دیں۔ نیز اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی [3] رشتوں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو۔ بلا شبہ اللہ تم پر ہر وقت نظر رکھے ہوئے ہے [1] ایک جان سے مراد ابو البشر آدم ہیں۔ انہی سے آپ کی بیوی سیدہ حواؑ کو پیدا کیا گیا۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری وصیت مانو اور عورتوں سے بھلائی کرتے رہنا۔ کیونکہ عورت کی خلقت پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی کے اوپر کا حصہ ٹیڑھا ہوتا ہے۔ اگر اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اور اگر یوں ہی چھوڑ دو۔ تو ٹیڑھی ہی رہے گی۔ لہٰذا میری وصیت مانو اور ان سے اچھا سلوک کرو۔“
[بخاری: کتاب بدء الخلق، باب: ﴿وإذ قال ربك للملائكة﴾]
[2] اس سورۃ کا آغاز اس آیت سے غالباً اس لئے کیا جا رہا ہے کہ اس سورۃ کا بیشتر حصہ عائلی اور معاشرتی قوانین پر مشتمل ہے۔ نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانی سطح پر سب انسان ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ لہٰذا ہر ایک سے حسن سلوک سے پیش آنا ضروری ہے۔
[بخاری: کتاب بدء الخلق، باب: ﴿وإذ قال ربك للملائكة﴾]
[2] اس سورۃ کا آغاز اس آیت سے غالباً اس لئے کیا جا رہا ہے کہ اس سورۃ کا بیشتر حصہ عائلی اور معاشرتی قوانین پر مشتمل ہے۔ نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسانی سطح پر سب انسان ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ لہٰذا ہر ایک سے حسن سلوک سے پیش آنا ضروری ہے۔
[3] صلہ رحمی کی تاکید اور فضیلت:۔
قریبی رشتہ داروں سے بہترین سلوک کرنا بہت بڑا نیکی کا کام ہے اور ان تعلقات کو بگاڑنا، خراب کرنا یا توڑنا گناہ کبیرہ ہے۔ اس سلسلہ میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیے:
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رحم، رحمٰن سے نکلا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رحم سے کہا ”جو تجھے ملائے گا میں اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرے گا میں اسے قطع کروں گا۔“
[بخاری، کتاب الادب، باب من وصل وصلہ اللہ]
2۔
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رحم، رحمٰن سے نکلا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رحم سے کہا ”جو تجھے ملائے گا میں اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرے گا میں اسے قطع کروں گا۔“
[بخاری، کتاب الادب، باب من وصل وصلہ اللہ]
2۔
فراخی رزق کا نسخہ:۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمر لمبی ہو اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے۔“
[بخاری، کتاب الادب۔ باب من بسط لہ فی الرزق/مسلم کتاب البر والصلۃ۔ باب صلۃ الرحم]
3۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔“
[بخاری، کتاب الادب۔ باب إثم القاطع مسلم کتاب البر والصلہ۔ باب صلۃ الرحم و تحریم قطیعتھا]
4۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ مخلوق کی تخلیق سے فارغ ہوا تو رحم نے کہا (اے اللہ) قطع رحمی سے تیری پناہ طلب کرنے کا یہی موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں! کیا تو اس بات سے راضی نہیں کہ میں اسے ہی ملاؤں جو تجھے ملائے اور اسے توڑوں جو تجھے توڑے؟ رحم نے کہا: ہاں اے میرے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”تیری یہ بات منظور ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاہو تو (دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھ لو:
﴿فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ﴾ [سوره محمد، آيت: 22]
[بخاري و مسلم۔ حواله ايضاً]
5۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بدلہ کے طور پر رشتہ ملانے والا، رشتہ ملانے والا نہیں بلکہ رشتہ ملانے والا تو وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے ملائے۔“
[بخاری۔ کتاب الادب۔ باب لیس الواصل بالمکافیئ]
6۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا ”میرے کچھ قریبی ہیں۔ میں ان سے رشتہ ملاتا ہوں اور وہ مجھ سے رشتہ توڑتے ہیں۔ میں ان سے اچھا سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں۔ میں ان سے حوصلہ سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جاہلوں کا سا برتاؤ کرتے ہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر ایسی بات ہی ہے جو تم کہہ رہے ہو تو گویا تم ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہے ہو۔ اور جب تک تم اس حال پر قائم رہو گے ان کے مقابلہ میں اللہ کی طرف سے تمہارے ساتھ ہمیشہ ایک مددگار رہے گا۔“
[مسلم، کتاب البرو الصلہ۔ باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا]
7۔ سیدہ اسماءؓ کہتی ہیں کہ جس زمانہ میں آپ کی (قریش سے) صلح تھی۔ اس دوران میری ماں (میرے پاس) آئی اور وہ اسلام سے بے رغبت تھی۔ میں نے آپ سے پوچھا کیا میں اس سے صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“
[بخاری۔ کتاب الادب۔ باب صلۃ المراۃ أمھا ولھا زوج]
8۔ سیدنا ابو ایوبؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے ایسا عمل بتلائیے۔ جو مجھے جنت میں لے جائے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی عبادت کرو اور اس میں ذرا بھی شرک نہ کرنا، نماز قائم کرو زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔“
[بخاری۔ کتاب الادب۔ باب فضل صلۃ الرحم]
9۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی گناہ بغاوت اور قطع رحمی سے زیادہ اس بات کا اہل نہیں کہ اللہ اسے دنیا میں بھی فوراً سزا دے اور ساتھ ہی ساتھ آخرت میں بھی اس کے لیے عذاب بطور ذخیرہ رکھے۔“
[ترمذی۔ ابواب صفۃ القیامۃ]
[بخاری، کتاب الادب۔ باب من بسط لہ فی الرزق/مسلم کتاب البر والصلۃ۔ باب صلۃ الرحم]
3۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔“
[بخاری، کتاب الادب۔ باب إثم القاطع مسلم کتاب البر والصلہ۔ باب صلۃ الرحم و تحریم قطیعتھا]
4۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ مخلوق کی تخلیق سے فارغ ہوا تو رحم نے کہا (اے اللہ) قطع رحمی سے تیری پناہ طلب کرنے کا یہی موقع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں! کیا تو اس بات سے راضی نہیں کہ میں اسے ہی ملاؤں جو تجھے ملائے اور اسے توڑوں جو تجھے توڑے؟ رحم نے کہا: ہاں اے میرے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”تیری یہ بات منظور ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاہو تو (دلیل کے طور پر) یہ آیت پڑھ لو:
﴿فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ﴾ [سوره محمد، آيت: 22]
[بخاري و مسلم۔ حواله ايضاً]
5۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بدلہ کے طور پر رشتہ ملانے والا، رشتہ ملانے والا نہیں بلکہ رشتہ ملانے والا تو وہ ہے کہ جب اس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ اسے ملائے۔“
[بخاری۔ کتاب الادب۔ باب لیس الواصل بالمکافیئ]
6۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا ”میرے کچھ قریبی ہیں۔ میں ان سے رشتہ ملاتا ہوں اور وہ مجھ سے رشتہ توڑتے ہیں۔ میں ان سے اچھا سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں۔ میں ان سے حوصلہ سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جاہلوں کا سا برتاؤ کرتے ہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر ایسی بات ہی ہے جو تم کہہ رہے ہو تو گویا تم ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہے ہو۔ اور جب تک تم اس حال پر قائم رہو گے ان کے مقابلہ میں اللہ کی طرف سے تمہارے ساتھ ہمیشہ ایک مددگار رہے گا۔“
[مسلم، کتاب البرو الصلہ۔ باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا]
7۔ سیدہ اسماءؓ کہتی ہیں کہ جس زمانہ میں آپ کی (قریش سے) صلح تھی۔ اس دوران میری ماں (میرے پاس) آئی اور وہ اسلام سے بے رغبت تھی۔ میں نے آپ سے پوچھا کیا میں اس سے صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“
[بخاری۔ کتاب الادب۔ باب صلۃ المراۃ أمھا ولھا زوج]
8۔ سیدنا ابو ایوبؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے ایسا عمل بتلائیے۔ جو مجھے جنت میں لے جائے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی عبادت کرو اور اس میں ذرا بھی شرک نہ کرنا، نماز قائم کرو زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔“
[بخاری۔ کتاب الادب۔ باب فضل صلۃ الرحم]
9۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی گناہ بغاوت اور قطع رحمی سے زیادہ اس بات کا اہل نہیں کہ اللہ اسے دنیا میں بھی فوراً سزا دے اور ساتھ ہی ساتھ آخرت میں بھی اس کے لیے عذاب بطور ذخیرہ رکھے۔“
[ترمذی۔ ابواب صفۃ القیامۃ]
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
محبت و مودت کا آفاقی اصول ٭٭
محبت و مودت کا آفاقی اصول اللہ تعالیٰ اپنے تقوے کا حکم دیتا ہے کہ جسم سے اسی ایک ہی کی عبادتیں کی جائیں اور دل میں صرف اسی کا خوف رکھا جائے، پھر اپنی قدرت کاملہ کا بیان فرماتا ہے کہ اس نے تم سب کو ایک ہی شخص یعنی آدم علیہ السلام سے پیدا کیا ہے، ان کی بیوی یعنی حواء علیہما السلام کو بھی انہی سے پیدا کیا، آپ سوئے ہوئے تھے کہ بائیں طرف کی پسلی کی پچھلی طرف سے حواء کو پیدا کیا، آپ نے بیدار ہو کر انہیں دیکھا اور اپنی طبیعت کو ان کی طرف راغب پایا اور انہیں بھی ان سے انس پیدا ہوا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں عورت مرد سے پیدا کی گئی ہے اس لیے اس کی حاجت و شہوت مرد میں رکھی گئی ہے اور مرد زمین سے پیدا کئے گئے ہیں اس لیے ان کی حاجت زمین میں رکھی گئی ہے۔ پس تم اپنی عورتوں کو روکے رکھو، صحیح حدیث میں ہے عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور سب سے بلند پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہے پس اگر تو اسے بالکل سیدھی کرنے کو جائے گا تو توڑ دے گا اور اگر اس میں کچھ کجی باقی چھوڑتے ہوئے فائدہ اٹھانا چاہے گا تو بیشک فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ۱؎ [صحیح بخاری:3331]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں عورت مرد سے پیدا کی گئی ہے اس لیے اس کی حاجت و شہوت مرد میں رکھی گئی ہے اور مرد زمین سے پیدا کئے گئے ہیں اس لیے ان کی حاجت زمین میں رکھی گئی ہے۔ پس تم اپنی عورتوں کو روکے رکھو، صحیح حدیث میں ہے عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور سب سے بلند پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہے پس اگر تو اسے بالکل سیدھی کرنے کو جائے گا تو توڑ دے گا اور اگر اس میں کچھ کجی باقی چھوڑتے ہوئے فائدہ اٹھانا چاہے گا تو بیشک فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ۱؎ [صحیح بخاری:3331]
پھر فرمایا ان دونوں سے یعنی آدم اور حواء سے بہت سے انسان مردو عورت چاروں طرف دنیا میں پھیلا دیئے جن کی قسمیں، صفتیں، رنگ روپ، بول چال میں بہت کچھ اختلاف ہے، جس طرح یہ سب پہلے اللہ تعالیٰ کے قبضے میں تھے اور پھر انہیں اس نے ادھر ادھر پھیلا دیا، ایک وقت ان سب کو سمیٹ کر پھر اپنے قبضے میں کر کے ایک میدان میں جمع کرے گا۔
پس اللہ سے ڈرتے رہو اس کی اطاعت، عبادت بجا لاتے رہو، اسی اللہ کے واسطے سے اور اسی کے پاک نام پر تم آپس میں ایک دوسرے سے مانگتے ہو، مثلاً یہ کہنا کہ میں تجھے اللہ کو یاد دلا کر اور رشتے کو یاد دلا کر یوں کہتا ہوں ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:519/7] اسی کے نام کی قسمیں کھاتے ہو اور عہد و پیمان مضبوط کرتے ہو، ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:518/7] اللہ جل شانہ سے ڈر کر رشتوں ناتوں کی حفاظت کرو انہیں توڑو نہیں بلکہ جوڑو صلہ رحمی، نیکی اور سلوک آپس میں کرتے رہو ۱؎۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:519/7-522]
پس اللہ سے ڈرتے رہو اس کی اطاعت، عبادت بجا لاتے رہو، اسی اللہ کے واسطے سے اور اسی کے پاک نام پر تم آپس میں ایک دوسرے سے مانگتے ہو، مثلاً یہ کہنا کہ میں تجھے اللہ کو یاد دلا کر اور رشتے کو یاد دلا کر یوں کہتا ہوں ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:519/7] اسی کے نام کی قسمیں کھاتے ہو اور عہد و پیمان مضبوط کرتے ہو، ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:518/7] اللہ جل شانہ سے ڈر کر رشتوں ناتوں کی حفاظت کرو انہیں توڑو نہیں بلکہ جوڑو صلہ رحمی، نیکی اور سلوک آپس میں کرتے رہو ۱؎۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:519/7-522]
«ارحام» بھی ایک قرأت میں ہے یعنی اللہ کے نام پر اور رشتے کے واسطے سے، اللہ تعالیٰ تمہارے تمام احوال اور اعمال سے واقف ہے خوب دیکھ بھال رہا ہے، جیسے اور جگہ ہے: «وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ» ۱؎ [85-البروج:9] یعنی ’ اللہ ہر چیز پر گواہ اور حاضر ہے ‘،
صحیح حدیث میں ہے اللہ عزوجل کی ایسی عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے، ۱؎ [صحیح بخاری:50] مطلب یہ ہے کہ اس کا لحاظ رکھو جو تمہارے ہر اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے پر نگراں ہے، یہاں فرمایا گیا کہ لوگو تم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو ایک دوسرے پر شفقت کیا کرو، کمزور اور ناتواں کا ساتھ دو اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب قبیلہ مضر کے چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چادریں لپیٹے ہوئے آئے کیونکہ ان کے جسم پر کپڑا تک نہ تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر نماز ظہر کے بعد وعظ بیان فرمایا جس میں اس آیت کی تلاوت کی پھر آیت «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّـهَ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ» ۱؎ [59-الحشر:18] کی تلاوت کی، پھر لوگوں کو خیرات کرنے کی ترغیب دی چنانچہ جس سے جو ہو سکا ان لوگوں کے لیے دیا درہم و دینار بھی اور کھجور و گیہوں بھی ۱؎ [صحیح مسلم:1017] یہ حدیث، مسند اور سنن میں خطبہ حاجات کے بیان میں ہے ۱؎ [سنن ابوداود:2118،قال الشيخ الألباني:صحیح] پھر تین آیتیں پڑھیں جن میں سے ایک آیت یہی «اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ» ہے۔
صحیح حدیث میں ہے اللہ عزوجل کی ایسی عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے، ۱؎ [صحیح بخاری:50] مطلب یہ ہے کہ اس کا لحاظ رکھو جو تمہارے ہر اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے پر نگراں ہے، یہاں فرمایا گیا کہ لوگو تم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو ایک دوسرے پر شفقت کیا کرو، کمزور اور ناتواں کا ساتھ دو اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب قبیلہ مضر کے چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چادریں لپیٹے ہوئے آئے کیونکہ ان کے جسم پر کپڑا تک نہ تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر نماز ظہر کے بعد وعظ بیان فرمایا جس میں اس آیت کی تلاوت کی پھر آیت «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّـهَ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ» ۱؎ [59-الحشر:18] کی تلاوت کی، پھر لوگوں کو خیرات کرنے کی ترغیب دی چنانچہ جس سے جو ہو سکا ان لوگوں کے لیے دیا درہم و دینار بھی اور کھجور و گیہوں بھی ۱؎ [صحیح مسلم:1017] یہ حدیث، مسند اور سنن میں خطبہ حاجات کے بیان میں ہے ۱؎ [سنن ابوداود:2118،قال الشيخ الألباني:صحیح] پھر تین آیتیں پڑھیں جن میں سے ایک آیت یہی «اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ» ہے۔