بَلِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فِیۡ عِزَّۃٍ وَّ شِقَاقٍ ﴿۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
بلکہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا تکبر اور مخالفت میں (پڑے ہوئے) ہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
مگر جو لوگ کافر ہیں وہ غرور اور مخالفت میں ہیں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
بلکہ کفار غرور ومخالفت میں پڑے ہوئے ہیں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 2) {بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ عِزَّةٍ وَّ شِقَاقٍ:” عِزَّةٍ “} سے مراد خود ساختہ عزت، یعنی تکبّر ہے، جیسا کہ فرمایا: «وَ اِذَا قِيْلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِثْمِ» [البقرۃ: ۲۰۶] ”اور جب اس سے کہا جاتا ہے اللہ سے ڈر تو اس کی عزت اسے گناہ میں پکڑے رکھتی ہے۔“ {” شِقَاقٍ “ ”شَقٌّ“} سے باب مفاعلہ کا مصدر ہے، کسی کا دوسرے کے مقابلے میں اس طرح آنا کہ یہ ایک شق (طرف) میں ہو اور وہ دوسری شق میں، یعنی شدید مخالفت اور عداوت۔ اس جملے سے {” وَ الْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ “} کا جواب قسم ظاہر ہو رہا ہے: {”أَيْ إِنَّ كُفْرَهُمْ لَيْسَ بِبُرْهَانٍ بَلْ هُوَ بِسَبَبِ عِزَّةٍ وَّ شِقَاقٍ“} کہ اس عزّو شرف والے، نصیحت سے بھرپور اور نجات کے لیے ضروری ہر بات پر مشتمل قرآن کی قسم ہے کہ کفار کا کفر کسی دلیل یا معقول وجہ سے نہیں، بلکہ محض تکبرّ اور شدید مخالفت کی وجہ سے ہے۔ قسم عموماً جواب قسم کی دلیل ہوتی ہے، مطلب یہ کہ ان اوصاف والا «ذِي الذِّكْرِ» قرآن شاہد اور دلیل ہے کہ اسے نہ ماننے والوں کے کفر کا باعث کوئی دلیل یا معقول وجہ نہیں بلکہ اس کی وجہ محض عزت و شقاق ہے۔ {” عِزَّةٍ “} اور {” شِقَاقٍ “} پر تنوین تکبر اور مخالفت کی شدت کے اظہار کے لیے ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
2۔ 1 یعنی یہ قرآن تو یقینا شک سے پاک اور ان کے لئے نصیحت ہے جو اس سے عبرت حاصل کریں البتہ ان کافروں کو اس سے فائدہ اس لئے نہیں پہنچ رہا ہے ان کے دماغوں میں استکبار اور غرور ہے اور دلوں میں مخالفت وعناد۔ عزت کے معنی ہوتے ہیں۔ حق کے مقابلے میں اکڑنا۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
نصیحت دینے والا قرآن ٭٭
حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفسیر سورۃ البقرہ کے شروع میں گذر چکی ہے۔ یہاں قرآن کی قسم کھائی اور اسے پند و نصیحت کرنے والا فرمایا۔ کیونکہ اس کی باتوں پر عمل کرنے والے کی دین و دنیا دونوں سنور جاتی ہیں اور آیت میں ہے «لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ» [21- الأنبياء: 10] اس قرآن میں تمہارے لیے نصیحت ہے اور یہ بھی مطلب ہے کہ قرآن شرافت میں بزرگ عزت و عظمت والا ہے۔ اب اس قسم کا جواب بعض کے نزدیک تو «اِنْ كُلٌّ اِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ» [38- ص: 14]، ہے۔ بعض کہتے ہیں «اِنَّ ذٰلِكَ لَحَــقٌّ تَخَاصُمُ اَهْلِ النَّارِ» [38- ص: 64]، ہے لیکن یہ زیادہ مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا جواب اس کے بعد کی آیت ہے۔ ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو مختار بتاتے ہیں۔
بعض عربی داں کہتے ہیں اس کا جواب ص ہے اور اس لفظ کے معنی صداقت اور حقانیت کے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ پوری سورت کا خلاصہ اس قسم کا جواب ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
پھر فرماتا ہے یہ قرآن تو سراسر عبرت و نصیحت ہے مگر اس سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے دل میں ایمان ہے کافر لوگ اس فائدے سے اس لیے محروم ہیں کہ وہ متکبر ہیں اور مخالف ہیں یہ لوگ اپنے سے پہلے اور اپنے جیسے لوگوں کے انجام پر نظر ڈالیں تو اپنے انجام سے ڈریں۔
اگلی امتیں اسی جرم پر ہم نے تہ و بالا کر دی ہیں عذاب آ پڑنے کے بعد تو بڑے روئے پیٹے خوب آہ و زاری کی لیکن اس وقت کی تمام باتیں بےسود ہیں۔ جیسے فرمایا «فَلَمَّآ اَحَسُّوْا بَاْسَنَآ اِذَا هُمْ مِّنْهَا يَرْكُضُوْنَ» [21- الأنبياء: 12] ہمارے عذابوں کو معلوم کر کے ان سے بچنا اور بھاگنا چاہا۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا تھا؟
بعض عربی داں کہتے ہیں اس کا جواب ص ہے اور اس لفظ کے معنی صداقت اور حقانیت کے ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ پوری سورت کا خلاصہ اس قسم کا جواب ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
پھر فرماتا ہے یہ قرآن تو سراسر عبرت و نصیحت ہے مگر اس سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے دل میں ایمان ہے کافر لوگ اس فائدے سے اس لیے محروم ہیں کہ وہ متکبر ہیں اور مخالف ہیں یہ لوگ اپنے سے پہلے اور اپنے جیسے لوگوں کے انجام پر نظر ڈالیں تو اپنے انجام سے ڈریں۔
اگلی امتیں اسی جرم پر ہم نے تہ و بالا کر دی ہیں عذاب آ پڑنے کے بعد تو بڑے روئے پیٹے خوب آہ و زاری کی لیکن اس وقت کی تمام باتیں بےسود ہیں۔ جیسے فرمایا «فَلَمَّآ اَحَسُّوْا بَاْسَنَآ اِذَا هُمْ مِّنْهَا يَرْكُضُوْنَ» [21- الأنبياء: 12] ہمارے عذابوں کو معلوم کر کے ان سے بچنا اور بھاگنا چاہا۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا تھا؟
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اب بھاگنے کا وقت نہیں نہ فریاد کا وقت ہے، اس وقت کوئی فریاد رسی نہیں کر سکتا۔ چاہو جتنا چیخو چلاؤ محض بےسود ہے۔ اب توحید کی قبولیت غیر نافع، توبہ بیکار ہے۔ یہ بیوقت کی پکار ہے۔ «لَاتَ» معنی «لا» کے ہے۔ اس میں ”ت“ زائد ہے جیسے ثم میں بھی ”ت“ زیادہ ہوتی ہے اور ربت میں بھی۔ یہ مفصولہ ہے اور اس پر وقف ہے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ ”ت“ «حین» سے ملی ہوئی ہے یعنی «ولاتحین» ہے، لیکن مشہور اول ہی ہے۔ جمہور نے «حین» کو زبر سے پڑھا ہے۔ تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ وقت آہو زاری کا وقت نہیں۔
بعض نے یہاں زیر پڑھنا بھی جائز رکھا ہے لغت میں «نوص» کہتے ہیں پیچھے ہٹنے کو اور «بوص» کہتے ہیں آگے بڑھنے کو پس مقصد یہ ہے کہ یہ وقت بھاگنے اور نکل جانے کا وقت نہیں واللہ الموافق۔
بعض نے یہاں زیر پڑھنا بھی جائز رکھا ہے لغت میں «نوص» کہتے ہیں پیچھے ہٹنے کو اور «بوص» کہتے ہیں آگے بڑھنے کو پس مقصد یہ ہے کہ یہ وقت بھاگنے اور نکل جانے کا وقت نہیں واللہ الموافق۔