وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا وَّ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اورہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لیے خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور (اے محمدﷺ) ہم نے تم کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبریاں سنانے واﻻ اور ڈرانے واﻻ بنا کر بھیجا ہے ہاں مگر (یہ صحیح ہے) کہ لوگوں کی اکثریت بےعلم ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 28) ➊ {وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ: كَآفَّةً } بمعنی {عَامَّةً} ہے، یہ {اَلنَّاسُ} سے حال ہے، یعنی ہم نے تجھے نہیں بھیجا، مگر تمام لوگوں کی طرف۔ آخرت اور توحید کے بیان کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا بیان فرمایا۔ داؤد و سلیمان علیھما السلام کو نبوت کے ساتھ ایسی بادشاہت عطا ہوئی جو ان کا خاصہ تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی رسالت عطا ہوئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی نبی کو عطا نہیں ہوئی۔ وہ یہ کہ پہلے تمام انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے اور ان کی دعوت محدود وقت تک کے لوگوں کے لیے ہوتی تھی، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روئے زمین کی تمام اقوام اور سب لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قیامت تک کے لوگوں کے لیے ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ اعراف (۱۵۸)، انبیاء (۱۰۷) اور سورۂ فرقان (۱) کی تفسیر۔
➋ { كَآفَّةً } کا ایک اور معنی بھی کیا گیا ہے کہ {كَفَّ يَكُفُّ كَفًّا} (ن) کا معنی روکنا ہے اور { كَآفَّةً } میں تاء تانیث کی نہیں، بلکہ مبالغہ کی ہے، جیسا کہ {عَلَّامَةٌ} اور {رَاوِيَةٌ} میں ہے، بہت روکنے والا، یعنی ہم نے تجھے لوگوں کو (ضلالت سے) بہت روکنے والا ہی بنا کر بھیجا ہے۔ یہ معنی بھی درست ہے۔
➌ { بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا:} یعنی آپ کی دعوت میں بشارت و نذارت دونوں جمع ہیں، اطاعت کرنے والوں کے لیے خوش خبری دینا اور نہ ماننے والوں کو عذابِ الٰہی سے ڈرانا۔
➍ {وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ:} یعنی اکثر لوگ آپ کی قدرو منزلت نہیں جانتے، انھیں احساس نہیں کہ کیسی عظیم الشّان ہستی کی بعثت سے انھیں نوازا گیا ہے، اس لیے جہل کی وجہ سے وہ آپ کی مخالفت اور عداوت پر کمر بستہ ہیں۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

28۔ 1 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عامہ کا بیان فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری نسل انسانیت کا ہادی اور رہنما بنا کر بھیجا گیا ہے۔ دوسرا، یہ بیان فرمایا کہ اکثر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش اور کوشش کے باوجود ایمان سے محروم رہیں گے۔ ان دونوں باتوں کی و ضاحت اور بھی دوسرے مقامات پر فرمائی ہے۔ مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے ضمن میں فرمایا، (قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ) 7۔ الاعراف:158) (تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَۨا) 25۔ الفرقان:1) ایک حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں 1۔ مہینے کی مسافت پر دشمن کے دل میں میری دھاک بٹھانے میں میری مدد فرمائی گئی ہے۔ 2۔ تمام روئے زمین میرے لئے مسجد اور پاک ہے، جہاں بھی نماز کا وقت آجائے، میری امت وہاں نماز ادا کر دے۔ 3۔ مال غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا، جو مجھ سے قبل کسی کے لئے حلال نہیں تھا۔ 4۔ مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہے۔ 5۔ پہلے نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا، مجھے کائنات کے تمام انسانوں کے لئے نبی بنا کر بھیجا ہے (صحیح بخاری صحیح مسلم، کتاب المساجد) احمر اسود سے مراد بعض نے جن وانس اور بعض نے عرب وعجم لیے ہیں امام ابن کثیر فرماتے ہیں دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ اسی طرح اکثر کی بےعلمی اور گمراہی کی وضاحت فرمائی (وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ) 12۔ یوسف:13) آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے (وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ) 6۔ الانعام:116) اگر آپ اہل زمین کی اکثریت کے پیچھے چلیں گے تو وہ آپ کو گمراہ کردیں گے جس کا مطلب یہی ہوا کہ اکثریت گمراہوں کی ہے

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

تمام اقوام کے لئے نبوت ٭٭
اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ ہم نے تجھے تمام کائنات کی طرف اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔
جیسے اور جگہ ہے «قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا» ۱؎ [7-الأعراف:158]‏‏‏‏ یعنی ’ اعلان کر دو کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ ‘
اور آیت میں ہے «تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَا» ۱؎ [25-الفرقان:1]‏‏‏‏ ’ بابرکت ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہاں کو ہوشیار کر دے ‘ یہاں بھی فرمایا کہ اطاعت گزاروں کو بشارت جنت دے اور نافرمانوں کو خبر جہنم۔ لیکن اکثر لوگ اپنی جہالت سے نبی کی نبوت کو نہیں مانتے
جیسے فرمایا «وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ» ۱؎ [12-يوسف:103]‏‏‏‏ ’ گو تو ہر چند چاہے تاہم اکثر لوگ بے ایمان رہیں گے۔ ‘
ایک اور جگہ ارشاد ہوا اگر بڑی جماعت کی بات مانے گا تو وہ خود تجھے راہ راست سے ہٹا دیں گے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام لوگوں کی طرف ہے۔ عرب و عجم سب کی طرف سے اللہ کو زیادہ پیارا وہ ہے جو سب سے زیادہ اس کا تابع فرمان ہو۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان والوں اور نبیوں پر غرض سب پر فضیلت دی ہے۔ لوگوں نے اس کی دلیل دریافت کی تو آپ نے فرمایا دیکھو قرآن فرماتا ہے کہ ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا۔ تاکہ وہ اس میں کھلم کھلا تبلیغ کر دے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے عام لوگوں کی طرف اپنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا۔
بخاری و مسلم میں فرمان رسالت مآب ہے کہ { مجھے پانچ صفتیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ مہینہ بھر کی راہ تک میری مدد صرف رعب سے کی گئی ہے۔ میرے لیے ساری زمین مسجد اور پاک بنائی گئی ہے۔ میری امت میں سے جس کسی کو جس جگہ نماز کا وقت آ جائے وہ اسی جگہ نماز پڑھ لے۔ مجھ سے پہلے کسی نبی کے لیے غنیمت کا مال حلال نہ تھا میرے لیے غنیمت حلال کر دی گئی۔ مجھے شفاعت دی گئی۔ ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا۔ اور میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ } ۱؎ [صحیح مسلم:3521]‏‏‏‏
اور حدیث میں ہے { سیاہ و سرخ سب کی طرف میں نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ } ۱؎ [صحیح مسلم:3]‏‏‏‏ یعنی جن و انس، عرب و عجم کی طرف، پھر کافروں کا قیامت کو محال ماننا بیان ہو رہا ہے کہ پوچھتے ہیں قیامت کب آئے گی؟
جیسے اور جگہ ہے بے ایمان تو اس کی جلدی مچا رہے ہیں اور با ایمان اس سے کپکپا رہے ہیں اور اسے حق جانتے ہیں۔ ۱؎ [42-الشورى:18]‏‏‏‏
جواب دیتا ہے کہ تمہارے لیے وعدے کا دن مقرر ہو چکا ہے جس میں تقدیم و تاخیر کمی و زیادتی ناممکن ہے۔ جیسے فرمان ہے «اِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ اِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ ۘ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ» ۱؎ [71-نوح:4]‏‏‏‏ اور فرمایا «وَمَا نُؤَخِّرُهٗٓ اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ» ۱؎ [11-هود:104-105]‏‏‏‏ الخ یعنی ’ وہ مقررہ وقت پیچھے ہٹنے کا نہیں۔ تمہیں اس وقت مقررہ وقت تک ڈھیل ہے جب وہ دن آ گیا پھر تو کوئی لب بھی نہ ہلا سکے گا۔ اس دن بعض نیک بخت ہوں گے اور بعض بدبخت۔ ‘