فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡہِ الۡمَوۡتَ مَا دَلَّہُمۡ عَلٰی مَوۡتِہٖۤ اِلَّا دَآبَّۃُ الۡاَرۡضِ تَاۡکُلُ مِنۡسَاَتَہٗ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الۡجِنُّ اَنۡ لَّوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ الۡغَیۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِی الۡعَذَابِ الۡمُہِیۡنِ ﴿ؕ۱۴﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
پھر جب ہم نے اس پر موت کا فیصلہ کیا تو انھیں اس کی موت کا پتا نہیں دیا مگر زمین کے کیڑے (دیمک) نے جو اس کی لاٹھی کھاتا رہا، پھر جب وہ گرا تو جنوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں نہ رہتے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
پھر جب ہم نے ان کے لئے موت کا حکم صادر کیا تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑے سے جو ان کے عصا کو کھاتا رہا۔ جب عصا گر پڑا تب جنوں کو معلوم ہوا (اور کہنے لگے) کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کی تکلیف میں نہ رہتے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم بھیج دیا تو ان کی خبر جنات کو کسی نے نہ دی سوائے گھن کے کیڑے کے جو ان کی عصا کو کھا رہا تھا۔ پس جب (سلیمان) گر پڑے اس وقت جنوں نے جان لیا کہ اگر وه غیب دان ہوتے تو اس کے ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 14) ➊ { فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ …: ” دَآبَّةُ الْاَرْضِ “} دیمک۔ {” تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ “ ”تَبَيَّنَ يَتَبَيَّنُ“} (تفعّل) کا معنی واضح طور پر جان لینا بھی ہے اور کسی چیز کا واضح ہو جانا اور کھل کر سامنے آجانا بھی ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا ہے:
{إِذَا اشْتَبَكَتْ دُمُوْعٌ فِيْ خُدُوْدٍ
تَبَيَّنَ مَنْ بَكٰي مِمَّنْ تَبَاكٰي}
”جب رخساروں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی تو وہ لوگ صاف ظاہر ہو گئے جو رو رہے تھے، ان لوگوں سے جو رونے کی نمائش کر رہے تھے۔“
➋ اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو عطا کردہ عظیم سلطنت، علمی کمالات اور ہوا اور جنّوں کی تسخیر وغیرہ کے بیان کے بعد ان کی موت کا تذکرہ فرمایا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ موت سے کوئی نہیں بچ سکتا، اگر اس سے کوئی بچتا تو سلیمان علیہ السلام ضرور بچ جاتے، جن کے پاس اتنی عظیم قوتیں تھیں۔
➌ سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ جنّات غیب جانتے ہیں، جیسا کہ آج کل بھی اکثر لوگوں کا یہی حال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنّوں کے علم غیب کی حقیقت واضح کرنے کے لیے ایک عجیب طریقہ اختیار فرمایا، وہ یہ کہ سلیمان علیہ السلام کی وفات اس حال میں ہوئی کہ وہ اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا کر کھڑے تھے۔ جنّات ان کاموں میں مصروف تھے جن کا حکم انھیں سلیمان علیہ السلام نے دے رکھا تھا، انھیں معلوم نہیں ہو سکا کہ سلیمان علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور وہ بدستور کام میں جتے رہے۔ دیمک ان کی لاٹھی کو اندر سے کھاتی رہی، جب لاٹھی اندر سے کھوکھلی ہو گئی اور سلیمان علیہ السلام کا بوجھ برداشت نہ کر سکی تو وہ گر پڑے۔ تب جا کر لوگوں اور جنّوں کو ان کی وفات کا پتا چلا۔ اس واقعہ سے تمام لوگوں کے سامنے جنّوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔
➍ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے تابع جنّوں اور شیاطین سے سرکش انسانی قبائل مراد نہیں، کیونکہ ان کے متعلق کوئی بھی علم غیب کا قائل نہیں، نہ خود انھیں اس کا دعویٰ ہو سکتا ہے، بلکہ یہ حقیقی جنّ و شیاطین تھے۔
➎ اکثر تفاسیر میں لکھا ہے کہ سلیمان علیہ السلام وفات کے بعد لاٹھی کے سہارے ایک سال تک کھڑے رہے۔ بعض حضرات نے یہ بیان کیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے جنّوں کو حکم دے کر شیشے کا ایک مکان بنوایا اور اس میں لاٹھی کے سہارے کھڑے ہو گئے۔ اسی حالت میں ان کی وفات ہو گئی۔ جنّات ان کو ایک سال تک لاٹھی کے سہارے کھڑے دیکھتے رہے اور انھیں زندہ سمجھ کر ان کی ہیبت کی وجہ سے ان کی بتائی ہوئی تعمیرات اور دوسرے کام کرتے رہے۔ مگر ایک سال تک اس طرح کھڑے رہنے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے پورا سال نہ کچھ کھایا، نہ پیا، نہ لباس بدلا، نہ نماز پڑھی یا جماعت کروائی، نہ کسی خدمت گار کے دل میں کوئی فکر پیدا ہوئی، جو ہر روز ان کے لیے ان کاموں کا اہتمام کرتے تھے، نہ امور سلطنت کے متعلق کسی نے ان سے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی۔ آیا یہ ممکن بھی ہے؟ میں نے بہت سی تفسیروں کا مطالعہ کیا، مگر انھوں نے اس سوال کی طرف توجہ نہیں فرمائی۔ بعض مفسرین نے اسے استعارہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ لاٹھی کو دیمک کے کھانے کا مطلب ان کی سلطنت کا اندرونی طور پر آہستہ آہستہ کمزور ہونا ہے وغیرہ، مگر آیت کے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دیتے۔
علامہ مراغی نے اس کا اچھا حل بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: {” وَالْكِتَابُ الْكَرِيْمُ لَمْ يُحَدِّدِ الْمُدَّةَ الَّتِيْ قَضَاهَا سُلَيْمَانُ وَهُوَ مُتَوَكِّئٌ عَلٰي عَصَاهُ حَتّٰي عَلِمَ الْجِنُّ بِمَوْتِهِ، وَقَدْ رَوَي الْقَصَّاصُوْنَ أَنَّهَا كَانَتْ سَنَةً، وَ مِثْلُ هٰذَا لَا يَنْبَغِي الرُّكُوْنُ إِلَيْهِ، فَلَيْسَ مِنَ الْجَائِزِ أَنَّ خَدَمَ سُلَيْمَانَ لَا يَتَنَبَّهُوْنَ إِلَي الْقِيَامِ بِوَاجِبَاتِهِ الْمَعِيْشِيَّةِ مِنْ مَأْكَلٍ وَ مَشْرَبٍ وَ مَلْبَسٍ وَ نَحْوِهَا يَوْمًا كَامِلًا دُوْنَ أَنْ يُّحَادِثُوْهُ فِيْ ذٰلِكَ وَ يَطَّلِبُوْا إِلَيْهِ الْقِيَامَ بِخِدْمَتِهِ، فَالْمَعْقُوْلُ أَنَّ الْأَرْضَةَ بَدَأَتِ الْعَصَا وَ سُلَيْمَانُ لَمْ يَتَنَبَّهْ لِذٰلِكَ، وَ بَيْنَمَا هُوَ مُتَوَكِّئٌ عَلَيْهَا حَانَتْ مَنِيَّتُهُ، وَكَانَتِ الْأَرَضَةُ قَدْ فَعَلَتْ فِعْلَهَا فِي الْعَصَا فَانْكَسَرَتْ فَخَرَّ عَلَي الْأَرْضِ فَعَلِمَتِ الْجِنُّ كِذْبَهَا، إِذْ كَانَتْ تَدَّعِيْ أَنَّهَا تَعْلَمُ الْغَيْبَ، إِذْ لَوْ عَلِمَتْهُ مَا لَبِثَتْ تُرْهِقُ نَفْسَهَا فِيْ شَاقِّ الْأَعْمَالِ الَّتِيْ كُلِّفَتْ بِهَا “} ”قرآن کریم نے اس مدت کی تعیین نہیں فرمائی جو سلیمان علیہ السلام نے جنوّں کو ان کی موت کا علم ہونے تک لاٹھی پر ٹیک لگانے کی حالت میں گزاری۔ قصہ گو حضرات نے بیان کیا ہے کہ وہ ایک سال تھی مگر ایسی بات قابل توجہ نہیں ہے، کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ سلیمان علیہ السلام کی خدمت کرنے والوں کا پورا ایک دن ان کی معاشی ضروریات یعنی کھانے پینے اور لباس وغیرہ کی طرف خیال ہی نہ جائے، نہ وہ ان سے اس کے بارے میں بات کریں، نہ ان کی خدمت سرانجام دینے کا تقاضا کریں (سال تو بہت دور کی بات ہے)۔ اس لیے معقول بات یہ ہے کہ دیمک پہلے ہی لاٹھی میں لگ چکی تھی، سلیمان علیہ السلام کو اس کی خبر نہیں ہوئی۔ وہ اس پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ ان کی موت کا وقت آ گیا، جب کہ دیمک لاٹھی کے اندر اپنا کام کر چکی تھی۔ چنانچہ وہ ٹوٹ گئی اور سلیمان علیہ السلام زمین پر گر گئے تو جنوّں کو اپنا جھوٹ معلوم ہو گیا، کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ غیب جانتے ہیں، اس لیے کہ اگر وہ اسے جانتے ہوتے تو ان مشقت والے کاموں میں اپنی جان نہ مارتے رہتے جن کی انھیں تکلیف دی گئی تھی۔ “
مراغی کی رائے اس لیے بھی مضبوط ہے کہ ایک سال کی مدت کی کوئی روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، محض اسرائیلی روایات ہیں، جن کا یہ درجہ بھی نہیں کہ انھیں {”لَا نُصَدِّقُ وَلَا نُكَذِّبُ“} کہا جا سکے، بلکہ سب صریح عقل کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ایک سال مدت بیان کرنے کے باوجود ان روایات کو اسرائیلیات قرار دیا ہے اور مرفوع روایت کو غریب اور {”فِيْ صِحَّتِهِ نَظْرٌ“} فرمایا ہے اور فی الواقع وہ روایت غیر ثابت ہے۔
{إِذَا اشْتَبَكَتْ دُمُوْعٌ فِيْ خُدُوْدٍ
تَبَيَّنَ مَنْ بَكٰي مِمَّنْ تَبَاكٰي}
”جب رخساروں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی تو وہ لوگ صاف ظاہر ہو گئے جو رو رہے تھے، ان لوگوں سے جو رونے کی نمائش کر رہے تھے۔“
➋ اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کو عطا کردہ عظیم سلطنت، علمی کمالات اور ہوا اور جنّوں کی تسخیر وغیرہ کے بیان کے بعد ان کی موت کا تذکرہ فرمایا ہے، یہ بتانے کے لیے کہ موت سے کوئی نہیں بچ سکتا، اگر اس سے کوئی بچتا تو سلیمان علیہ السلام ضرور بچ جاتے، جن کے پاس اتنی عظیم قوتیں تھیں۔
➌ سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ جنّات غیب جانتے ہیں، جیسا کہ آج کل بھی اکثر لوگوں کا یہی حال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنّوں کے علم غیب کی حقیقت واضح کرنے کے لیے ایک عجیب طریقہ اختیار فرمایا، وہ یہ کہ سلیمان علیہ السلام کی وفات اس حال میں ہوئی کہ وہ اپنی لاٹھی پر ٹیک لگا کر کھڑے تھے۔ جنّات ان کاموں میں مصروف تھے جن کا حکم انھیں سلیمان علیہ السلام نے دے رکھا تھا، انھیں معلوم نہیں ہو سکا کہ سلیمان علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور وہ بدستور کام میں جتے رہے۔ دیمک ان کی لاٹھی کو اندر سے کھاتی رہی، جب لاٹھی اندر سے کھوکھلی ہو گئی اور سلیمان علیہ السلام کا بوجھ برداشت نہ کر سکی تو وہ گر پڑے۔ تب جا کر لوگوں اور جنّوں کو ان کی وفات کا پتا چلا۔ اس واقعہ سے تمام لوگوں کے سامنے جنّوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔
➍ اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ سلیمان علیہ السلام کے تابع جنّوں اور شیاطین سے سرکش انسانی قبائل مراد نہیں، کیونکہ ان کے متعلق کوئی بھی علم غیب کا قائل نہیں، نہ خود انھیں اس کا دعویٰ ہو سکتا ہے، بلکہ یہ حقیقی جنّ و شیاطین تھے۔
➎ اکثر تفاسیر میں لکھا ہے کہ سلیمان علیہ السلام وفات کے بعد لاٹھی کے سہارے ایک سال تک کھڑے رہے۔ بعض حضرات نے یہ بیان کیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے جنّوں کو حکم دے کر شیشے کا ایک مکان بنوایا اور اس میں لاٹھی کے سہارے کھڑے ہو گئے۔ اسی حالت میں ان کی وفات ہو گئی۔ جنّات ان کو ایک سال تک لاٹھی کے سہارے کھڑے دیکھتے رہے اور انھیں زندہ سمجھ کر ان کی ہیبت کی وجہ سے ان کی بتائی ہوئی تعمیرات اور دوسرے کام کرتے رہے۔ مگر ایک سال تک اس طرح کھڑے رہنے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے پورا سال نہ کچھ کھایا، نہ پیا، نہ لباس بدلا، نہ نماز پڑھی یا جماعت کروائی، نہ کسی خدمت گار کے دل میں کوئی فکر پیدا ہوئی، جو ہر روز ان کے لیے ان کاموں کا اہتمام کرتے تھے، نہ امور سلطنت کے متعلق کسی نے ان سے پوچھنے کی ضرورت محسوس کی۔ آیا یہ ممکن بھی ہے؟ میں نے بہت سی تفسیروں کا مطالعہ کیا، مگر انھوں نے اس سوال کی طرف توجہ نہیں فرمائی۔ بعض مفسرین نے اسے استعارہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ لاٹھی کو دیمک کے کھانے کا مطلب ان کی سلطنت کا اندرونی طور پر آہستہ آہستہ کمزور ہونا ہے وغیرہ، مگر آیت کے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دیتے۔
علامہ مراغی نے اس کا اچھا حل بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: {” وَالْكِتَابُ الْكَرِيْمُ لَمْ يُحَدِّدِ الْمُدَّةَ الَّتِيْ قَضَاهَا سُلَيْمَانُ وَهُوَ مُتَوَكِّئٌ عَلٰي عَصَاهُ حَتّٰي عَلِمَ الْجِنُّ بِمَوْتِهِ، وَقَدْ رَوَي الْقَصَّاصُوْنَ أَنَّهَا كَانَتْ سَنَةً، وَ مِثْلُ هٰذَا لَا يَنْبَغِي الرُّكُوْنُ إِلَيْهِ، فَلَيْسَ مِنَ الْجَائِزِ أَنَّ خَدَمَ سُلَيْمَانَ لَا يَتَنَبَّهُوْنَ إِلَي الْقِيَامِ بِوَاجِبَاتِهِ الْمَعِيْشِيَّةِ مِنْ مَأْكَلٍ وَ مَشْرَبٍ وَ مَلْبَسٍ وَ نَحْوِهَا يَوْمًا كَامِلًا دُوْنَ أَنْ يُّحَادِثُوْهُ فِيْ ذٰلِكَ وَ يَطَّلِبُوْا إِلَيْهِ الْقِيَامَ بِخِدْمَتِهِ، فَالْمَعْقُوْلُ أَنَّ الْأَرْضَةَ بَدَأَتِ الْعَصَا وَ سُلَيْمَانُ لَمْ يَتَنَبَّهْ لِذٰلِكَ، وَ بَيْنَمَا هُوَ مُتَوَكِّئٌ عَلَيْهَا حَانَتْ مَنِيَّتُهُ، وَكَانَتِ الْأَرَضَةُ قَدْ فَعَلَتْ فِعْلَهَا فِي الْعَصَا فَانْكَسَرَتْ فَخَرَّ عَلَي الْأَرْضِ فَعَلِمَتِ الْجِنُّ كِذْبَهَا، إِذْ كَانَتْ تَدَّعِيْ أَنَّهَا تَعْلَمُ الْغَيْبَ، إِذْ لَوْ عَلِمَتْهُ مَا لَبِثَتْ تُرْهِقُ نَفْسَهَا فِيْ شَاقِّ الْأَعْمَالِ الَّتِيْ كُلِّفَتْ بِهَا “} ”قرآن کریم نے اس مدت کی تعیین نہیں فرمائی جو سلیمان علیہ السلام نے جنوّں کو ان کی موت کا علم ہونے تک لاٹھی پر ٹیک لگانے کی حالت میں گزاری۔ قصہ گو حضرات نے بیان کیا ہے کہ وہ ایک سال تھی مگر ایسی بات قابل توجہ نہیں ہے، کیونکہ یہ نہیں ہو سکتا کہ سلیمان علیہ السلام کی خدمت کرنے والوں کا پورا ایک دن ان کی معاشی ضروریات یعنی کھانے پینے اور لباس وغیرہ کی طرف خیال ہی نہ جائے، نہ وہ ان سے اس کے بارے میں بات کریں، نہ ان کی خدمت سرانجام دینے کا تقاضا کریں (سال تو بہت دور کی بات ہے)۔ اس لیے معقول بات یہ ہے کہ دیمک پہلے ہی لاٹھی میں لگ چکی تھی، سلیمان علیہ السلام کو اس کی خبر نہیں ہوئی۔ وہ اس پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ ان کی موت کا وقت آ گیا، جب کہ دیمک لاٹھی کے اندر اپنا کام کر چکی تھی۔ چنانچہ وہ ٹوٹ گئی اور سلیمان علیہ السلام زمین پر گر گئے تو جنوّں کو اپنا جھوٹ معلوم ہو گیا، کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ غیب جانتے ہیں، اس لیے کہ اگر وہ اسے جانتے ہوتے تو ان مشقت والے کاموں میں اپنی جان نہ مارتے رہتے جن کی انھیں تکلیف دی گئی تھی۔ “
مراغی کی رائے اس لیے بھی مضبوط ہے کہ ایک سال کی مدت کی کوئی روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، محض اسرائیلی روایات ہیں، جن کا یہ درجہ بھی نہیں کہ انھیں {”لَا نُصَدِّقُ وَلَا نُكَذِّبُ“} کہا جا سکے، بلکہ سب صریح عقل کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ایک سال مدت بیان کرنے کے باوجود ان روایات کو اسرائیلیات قرار دیا ہے اور مرفوع روایت کو غریب اور {”فِيْ صِحَّتِهِ نَظْرٌ“} فرمایا ہے اور فی الواقع وہ روایت غیر ثابت ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
14۔ 1 حضرت سلیمان ؑ کے زمانے میں جنات کے بارے میں مشہور ہوگیا تھا کہ یہ غائب کی باتیں جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان ؑ کی موت کے ذریعے سے اس عقیدے کے فساد کو واضح کردیا۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
سلیمان علیہ السلام کی وفات ٭٭
سلیمان علیہ السلام کی موت کی کیفیت بیان ہو رہی ہے اور یہ بھی کہ جو جنات ان کے فرمان کے تحت کام کاج میں مصروف تھے ان پر ان کی موت کیسے نامعلوم رہی؟ وہ انتقال کے بعد بھی لکڑی کے ٹیکے پر کھڑے ہی رہے اور یہ انہیں زندہ سمجھتے ہوئے سر جھکائے اپنے سخت سخت کاموں میں مشغول رہے۔
مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہی تقریباً سال بھر اسی طرح گزر گیا۔ جس لکڑی کے سہارے آپ کھڑے تھے جب اسے دیمک چاٹ گئی اور وہ کھوکھلی ہو گئی تو آپ گر پڑے۔ اب جنات اور انسانوں کو آپ کی موت کا پتہ چلا۔ تب تو نہ صرف انسانوں کو بلکہ خود جنات کو بھی یقین ہو گیا کہ ان میں سے کوئی بھی غیب داں نہیں۔
ایک مرفوع منکر اور غریب حدیث میں ہے لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں فرماتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام جب نماز پڑھتے تو ایک درخت اپنے سامنے دیکھتے اس سے پوچھتے کہ تو کیسا درخت ہے تیرا نام کیا ہے؟۔ وہ بتا دیتا آپ اسے اسی استعمال میں لاتے۔ ایک مرتبہ جب نماز کو کھڑے ہوئے اور اسی طرح ایک درخت دیکھا تو پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا ضروب۔ پوچھا تو کس لیے ہے؟ کہا اس گھر کو اجاڑنے کے لئے تب آپ نے دعا مانگی کہ اللہ میری موت کی خبر جنات پر ظاہر نہ ہونے دے تاکہ انسان کو یقین ہو جائے کہ جن غیب نہیں جانتے۔ اب آپ ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور جنات کو مشکل مشکل کام سونپ دیئے آپ کا انتقال ہو گیا لیکن لکڑی کے سہارے آپ ویسے ہی کھڑے رہے جنات دیکھتے رہے اور سمجھتے رہے کہ آپ زندہ ہیں اپنے اپنے کام میں مشغول رہے ایک سال کامل ہو گیا۔ چونکہ دیمک آپ کی لکڑی کو چاٹ رہی تھی سال بھر گزرنے پر وہ اسے کھا گئی اور اب سلیمان علیہ السلام گر پڑے اور انسانوں نے جان لیا کہ جنات غیب نہیں جانتے ورنہ سال بھر تک اس مصیبت میں نہ رہتے۔ لیکن اس کے ایک راوی عطا بن مسلم خراسانی کی بعض احادیث میں نکارت ہوتی ہے۔
ایک مرفوع منکر اور غریب حدیث میں ہے لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں فرماتے ہیں کہ سلیمان علیہ السلام جب نماز پڑھتے تو ایک درخت اپنے سامنے دیکھتے اس سے پوچھتے کہ تو کیسا درخت ہے تیرا نام کیا ہے؟۔ وہ بتا دیتا آپ اسے اسی استعمال میں لاتے۔ ایک مرتبہ جب نماز کو کھڑے ہوئے اور اسی طرح ایک درخت دیکھا تو پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا ضروب۔ پوچھا تو کس لیے ہے؟ کہا اس گھر کو اجاڑنے کے لئے تب آپ نے دعا مانگی کہ اللہ میری موت کی خبر جنات پر ظاہر نہ ہونے دے تاکہ انسان کو یقین ہو جائے کہ جن غیب نہیں جانتے۔ اب آپ ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور جنات کو مشکل مشکل کام سونپ دیئے آپ کا انتقال ہو گیا لیکن لکڑی کے سہارے آپ ویسے ہی کھڑے رہے جنات دیکھتے رہے اور سمجھتے رہے کہ آپ زندہ ہیں اپنے اپنے کام میں مشغول رہے ایک سال کامل ہو گیا۔ چونکہ دیمک آپ کی لکڑی کو چاٹ رہی تھی سال بھر گزرنے پر وہ اسے کھا گئی اور اب سلیمان علیہ السلام گر پڑے اور انسانوں نے جان لیا کہ جنات غیب نہیں جانتے ورنہ سال بھر تک اس مصیبت میں نہ رہتے۔ لیکن اس کے ایک راوی عطا بن مسلم خراسانی کی بعض احادیث میں نکارت ہوتی ہے۔
بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ سلیمان علیہ السلام کی عادت تھی آپ سال سال دو دو سال یا کم و بیش مدت کے لئے مسجد قدس میں اعتکاف میں بیٹھ جاتے آخری مرتبہ انتقال کے وقت بھی آپ مسجد بیت المقدس میں تھے ہر صبح ایک درخت آپ کے سامنے نمودار ہوتا۔ آپ اس سے نام پوچھتے فائدہ پوچھتے وہ بتاتا آپ اسی کام میں اسے لاتے بالآخر ایک درخت ظاہر ہوا جس نے اپنا نام ضروبہ بتایا کہا تو کس مطلب کا ہے کہا اس مسجد کے اجاڑنے کے لئے۔ سلیمان علیہ السلام سمجھ گئے فرمانے لگے میری زندگی میں تو یہ مسجد ویران ہو گی نہیں البتہ تو میری موت اور اس شہر کی ویرانی کے لئے ہے۔ چنانچہ آپ نے اسے اپنے باغ میں لگا دیا مسجد کی بیچ کی جگہ میں کھڑے ہو کر ایک لکڑی کے سہارے نماز شروع کر دی۔ وہیں انتقال ہو گیا لیکن کسی کو اس کا علم نہ ہوا۔ شیاطین سب کے سب اپنی اپنی نوکری بجا لاتے رہے کہ ایسا نہ ہو ہم ڈھیل کریں اور اللہ کے رسول علیہ السلام آ جائیں تو ہمیں سزا دیں۔ یہ محراب کے آگے پیچھے آئے ان میں جو بڑا پاجی شیطان تھا اس نے کہا دیکھو جی اس میں آگے اور پیچھے سوراخ ہیں اگر میں یہاں سے جا کر وہاں سے نکل آؤں تو میری طاقت مانو گے یا نہیں؟
چنانچہ وہ گیا اور نکل آیا لیکن اسے سلیمان علیہ السلام کی آواز نہ آئی۔ دیکھ تو سکتے نہ تھے کیونکہ سلیمان علیہ السلام کی طرف نگاہ بھر کر دیکھتے ہی وہ مر جاتے تھے لیکن اس کے دل میں کچھ خیال سا گزرا اس نے پھر اور جرأت کی اور مسجد میں چلا گیا دیکھا کہ وہاں جانے کے بعد وہ نہ جلا تو اس کی ہمت اور بڑھ گئی اور اس نے نگاہ بھر کر آپ کو دیکھا تو دیکھا کہ وہ گرے پڑے ہیں اور انتقال فرما چکے ہیں اب آ کر سب کو خبر کی لوگ آئے محراب کو کھولا تو واقعی اللہ کے رسول علیہ السلام کو زندہ نہ پایا۔ آپ کو مسجد سے نکال لائے۔ مدت انتقال کا علم حاصل کرنے کے لئے انہوں نے لکڑی کو دیمک کے سامنے ڈال دیا ایک دن رات تک جس قدر دیمک نے اسے کھایا اسے دیکھ کر اندازہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ کے انتقال کو پورا سال گزر چکا۔ تمام لوگوں کو اس وقت کامل یقین ہو گیا کہ جنات جو بنتے تھے کہ ہم غیب کی خبریں جانتے ہیں یہ محض ان کی دھونس تھی۔ ورنہ سال بھر تک کیوں مصیبت جھیلتے رہتے۔ اس وقت سے جنات گھن کے کیڑے کو مٹی اور پانی لا دیا کرتے ہیں گویا اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ کہا یہ بھی تھا کہ اگر تو کچھ کھاتا پیتا ہوتا تو بہتر سے بہتر غذا ہم تجھے پہنچاتے۔
لیکن یہ سب بنی اسرائیل کے علماء کی روایتیں ہیں ان میں جو مطابق حق ہوں قبول۔ خلاف حق ہوں مردود دونوں سے الگ ہوں وہ نہ تصدیق کے قابل نہ تکذیب کے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
لیکن یہ سب بنی اسرائیل کے علماء کی روایتیں ہیں ان میں جو مطابق حق ہوں قبول۔ خلاف حق ہوں مردود دونوں سے الگ ہوں وہ نہ تصدیق کے قابل نہ تکذیب کے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
زید بن اسلم رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے ملک الموت سے کہہ رکھا تھا کہ میری موت کا وقت مجھے کچھ پہلے بتا دینا ملک الموت نے یہی کیا تو آپ نے جنات کو بغیر دروازے کے ایک شیشے کا مکان بنانے کا حکم دیا اور اس میں ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر نماز شروع کی یہ موت کے ڈر کی وجہ سے نہ تھا۔ ملک الموت اپنے وقت پر آئے اور روح قبض کر کے چلے گئے۔ پھر لکڑی کے سہارے آپ سال بھر تک اسی طرح کھڑے رہے جنات ادھر ادھر سے دیکھ کر آپ کو زندہ سمجھ کر اپنے کاموں میں آپ کی ہیبت کی وجہ سے مشغول رہے لیکن جو کیڑا آپ کی لکڑی کو کھا رہا تھا جب وہ آدھی کھا چکا تو اب لکڑی بوجھ نہ اٹھا سکی اور آپ گر پڑے جنات کو آپ کی موت کا یقین ہو گیا اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ اور بھی بہت سے اقوال سلف سے یہ مروی ہے۔