ترجمہ و تفسیر — سورۃ سبأ (34) — آیت 1
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ وَ لَہُ الۡحَمۡدُ فِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ وَ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ ﴿۱﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
سب تعریف اس اللہ کے لیے ہے کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے اور آخرت میں بھی سب تعریف اسی کے لیے ہے اور وہی کمال حکمت والا، ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
سب تعریف خدا ہی کو (سزاوار) ہے (جو سب چیزوں کا مالک ہے یعنی) وہ کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور آخرت میں بھی اسی کی تعریف ہے۔ اور وہ حکمت والا خبردار ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس کی ملکیت میں وه سب کچھ ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے آخرت میں بھی تعریف اسی کے لئے ہے، وه (بڑی) حکمتوں واﻻ اور (پورا) خبردار ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 1) ➊ {اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ …:} حمد کا معنی کسی کی خوبی کی وجہ سے تعریف ہے۔ یہ سورت ان پانچ سورتوں میں سے ایک ہے جن کی ابتدا { اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ } سے ہوتی ہے اور وہ ہیں سورۂ فاتحہ، انعام، کہف، سبا اور فاطر۔ پانچوں میں سب تعریف اللہ کے لیے ہونے کی الگ الگ دلیل بیان کی گئی ہے، اگرچہ ان سب کا ایک دوسری کے ساتھ بھی تعلق ہے۔ { اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ } کہنے میں صرف یہی بات نہیں آتی کہ ساری تعریف اللہ کے لیے ہے، بلکہ یہ بات بھی آتی ہے کہ تمام خوبیوں کا مالک بھی وہی ہے، کیونکہ خوبی نہ ہو تو تعریف کیسی؟ اور سب تعریف اور تمام خوبیاں اللہ کے لیے ہونے کی دلیل یہ ہے کہ آسمانوں میں جو کچھ ہے، یا زمین میں جو کچھ ہے، مراد پوری کائنات میں جو بھی چیز ہے اس کا مالک وہی ہے۔ اسی نے سب کچھ پیدا کیا، وہی انھیں قائم رکھے ہوئے ہے اور وہی ان کی تدبیر فرما رہا ہے۔ کسی بھی چیز میں اگر کوئی خوبی ہے تو اس کی عطا کردہ، پھر ہر خوبی اور ہر تعریف کا مالک اس کے سوا کون ہو سکتا ہے؟
➋ اس آیت کی تفسیر دو طرح ہے، ایک یہ کہ پہلے جملے { اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ } سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں سب تعریف اللہ کے لیے ہے، کیونکہ دوسرے جملے { وَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْاٰخِرَةِ } میں آخرت میں سب تعریف اس کے لیے ہونے کا ذکر ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ پہلے جملے { اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ } سے مراد یہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں میں حمد اللہ کے لیے ہے۔ پھر آخرت میں حمد کا اللہ ہی کے لیے ہونا خاص طور پر دوبارہ ذکر فرمایا، کیونکہ دنیا میں تو بظاہر کسی اور کی بھی تعریف ہو جاتی ہے، مگر آخرت میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کی حمد ہو گی اور ہر ایک کی زبان پر { اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ } کا کلمہ جاری ہو گا۔ دیکھیے سورۂ زمر (۷۴)، اعراف (۴۳) اور فاطر (۳۴، ۳۵) یہ ایسے ہی جیسے سورۂ بقرہ کی آیت (۹۸): «‏‏‏‏مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّلّٰهِ وَ مَلٰٓىِٕكَتِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ جِبْرِيْلَ وَ مِيْكٰىلَ فَاِنَّ اللّٰهَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَ» ‏‏‏‏ میں لفظ{ مَلٰٓىِٕكَتِهٖ } میں سب فرشتے شامل ہونے کے باوجود جبریل و میکال کا الگ ذکر بھی فرمایا۔ {اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ } کے مزید فوائد کے لیے سورۂ فاتحہ کے فوائد ملاحظہ فرمائیں۔
➌ { وَ هُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ:} یعنی صرف وہ ایک ہے جس کا ہر کام محکم و مضبوط ہے اور جسے کائنات کے ذرّے ذرّے کی پوری خبر ہے، اس لیے اس کے کسی کام میں کوئی نقص ہے نہ عیب، جبکہ کوئی اور نہ پوری خبر رکھتا ہے نہ حکمت، اس لیے اس کے پاس عجز و فقر کے سوا کچھ نہیں، پھر حمد کس بات پر؟

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس کی ملکیت میں وہ سب کچھ ہے جو آسمان اور زمین میں ہے (1) آخرت میں بھی تعریف اسی کے لئے ہے (2) وہ (بڑی) حکمتوں والا اور پورا خبردار ہے

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

اوصاف الٰہی ٭٭
چونکہ دنیا اور آخرت کی سب نعمتیں رحمتیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں۔ ساری حکومتوں کا حاکم وہی ایک ہے۔ اس لیے ہر قسم کی تعریف و ثناء کا مستحق بھی وہی ہے۔ وہی معبود ہے جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ اسی کے لئے دنیا اور آخرت کی حمد و ثناء سزاوار ہے۔ اسی کی حکومت ہے اور اسی کی طرف سب کے سب لوٹائے جاتے ہیں۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اس کے ماتحت ہے۔ جتنے بھی ہیں سب اس کے غلام ہیں۔ اس کے قبضے میں ہیں سب پر تصرف اسی کا ہے۔
جیسے اور آیت میں ہے «‏‏‏‏وَإِنَّ لَنَا لَلْآخِرَةَ وَالْأُولَىٰ» ‏‏‏‏ ‏‏‏‏۱؎ [92-الليل:13]‏‏‏‏ آخرت میں اسی کی تعریفیں ہوں گی۔ وہ اپنے اقوال، افعال، تقدیر، شریعت سب پر حکومت والا ہے اور ایسا خبردار ہے جس پر کوئی چیز مخفی نہیں۔ جس سے کوئی ذرہ پوشیدہ نہیں۔
جو اپنے احکام میں حکیم جو اپنی مخلوق سے باخبر جتنے قطرے بارش کے زمین میں جاتے ہیں جتنے دانے اس میں بوئے جاتے ہیں اس کے علم سے باہر نہیں۔ جو زمین سے نکلتا ہے اگتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اس کے محیط، وسیع اور بےپایاں علم سے کوئی چیز دور نہیں۔ ہر چیز کی گنتی کیفیت اور صفت اسے معلوم ہے۔ آسمان سے جو بارش برستی ہے اس کے قطروں کی گنتی بھی اس کے علم میں محفوظ ہے جو رزق وہاں سے اترتا ہے اس کے علم سے نیک اعمال وغیرہ جو آسمان پر چڑھتے ہیں وہ بھی اس کے علم میں ہیں۔
وہ اپنے بندوں پر خود ان سے بھی زیادہ مہربان ہے۔ اسی وجہ سے ان کے گناہوں پر اطلاع رکھتے ہوئے انہیں جلدی سے سزا نہیں دیتا بلکہ مہلت دیتا ہے کہ وہ توبہ کر لیں۔ برائیاں چھوڑ دیں رب کی طرف رجوع کریں۔
پھر غفور ہے۔ ادھر بندہ جھکا رویا پیٹا ادھر اس نے بخش دیا یا معاف فرما دیا درگزر کر لیا۔ توبہ کرنے والا دھتکارا نہیں جاتا۔ توکل کرنے والا نقصان نہیں اٹھاتا۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل