یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنۡ یَّاۡتِ مِنۡکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُّضٰعَفۡ لَہَا الۡعَذَابُ ضِعۡفَیۡنِ ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا ﴿۳۰﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کھلی بے حیائی (عمل میں) لائے گی اس کے لیے عذاب دوگنا بڑھایا جائے گا اور یہ بات اللہ پر ہمیشہ سے آسان ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اے پیغمبر کی بیویو تم میں سے جو کوئی صریح ناشائستہ (الفاظ کہہ کر رسول الله کو ایذا دینے کی) حرکت کرے گی۔ اس کو دونی سزا دی جائے گی۔ اور یہ (بات) خدا کو آسان ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو بھی کھلی بے حیائی (کا ارتکاب) کرے گی اسے دوہرا دوہرا عذاب دیا جائے گا، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت ہی سہل (سی بات) ہے

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 30) ➊ {يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ …:} قاموس میں ہے: {اَلْفَاحِشَةُ الزِّنَا وَمَا يَشْتَدُّ قَبْحُهُ مِنَ الذُّنُوْبِ وَ كُلُّ مَا نَهَي اللّٰهُ عَنْهُ } یعنی فاحشہ کا معنی ہے زنا اور وہ گناہ جو سخت قبیح ہوں اور ہر وہ چیز جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں{ اَلْفَاحِشَةُ} (خاص بے حیائی، معرف باللام) کا لفظ زنا کے لیے آیا ہے، جیسا کہ فرمایا: «{ وَ الّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآىِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْاش عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ [النساء: ۱۵] اور تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کریں، ان پر اپنے میں سے چار مرد گواہ طلب کرو۔ جبکہ {فَاحِشَةٌ} (نکرہ) سے مراد کوئی بھی گناہ ہوتا ہے اور {فَاحِشَةٌ مُّبَيِّنَةٌ} سے مراد فحش کلامی، بد خلقی، ایذا رسانی یا کوئی بھی علانیہ گناہ لیا گیا ہے، جس میں زنا بھی شامل ہے۔ دیکھیے سورۂ نساء (۱۹) یہاں سے امہات المومنین کو ادب سکھانے کے لیے چند نصیحتیں کی گئیں ہیں، کیونکہ وہ امت کے لیے نمونہ ہیں۔ فرمایا، اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کھلی بے حیائی عمل میں لائے گی اس کا عذاب دگنا بڑھایا جائے گا، یعنی تم میں سے جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدخلقی یا فحش کلامی یا ایذا رسانی کا معاملہ کرے گی اسے دگنا عذاب دیا جائے گا، کیونکہ جس کا مقام جتنا بلند ہوتا ہے نافرمانی کی صورت میں اسے سزا بھی اتنی سخت ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی طرف مائل ہونے کی صورت میں فرمایا: «{ اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَيٰوةِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ [بني إسرائیل: ۷۵] اس وقت ہم ضرور تجھے زندگی کے دگنے اور موت کے دگنے (عذاب)کا مزہ چکھاتے۔
الوسیط (للطنطاو ی) میں لکھا ہے: کسی نے حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے علی زین العابدین سے کہا، تم اہلِ بیت تو بخشے بخشائے ہو۔ تو وہ غصے میں آ گئے اور کہنے لگے کہ ہم پر تو وہ قانون زیادہ لاگو ہونا چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں پر لاگو کیا کہ ہمارے برائی کرنے والے کو دگنا عذاب ہو اور ہمارے نیکی کرنے والے کو دگنا ثواب ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے گناہ کے ارتکاب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی حرف آتا تھا اور یہ آپ کے لیے سخت تکلیف کا باعث ہوتا، جو عام مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے سے بڑا گناہ اور اللہ تعالیٰ کی لعنت کا باعث ہے، فرمایا: «{ اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا [الأحزاب: ۵۷] بے شک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کیا۔
➋ { بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ } کا لفظ نکرہ ہونے کی وجہ سے عام ہے، اس لیے اس سے بد خلقی، فحش کلامی کے علاوہ زنا بھی مراد ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں سوال اٹھتا ہے کہ معاذ اللہ، کیا ازواج مطہرات سے برائی کا اندیشہ تھا؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ جملہ شرطیہ ہے، واقع میں ایسا ہونا ضروری نہیں، مقصود صرف ازواج مطہرات کے مرتبے کے پیش نظر ان کو گناہ کے ارتکاب کی صورت میں دگنے عذاب سے خبردار کرنا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے بھی بڑے، بلکہ تمام گناہوں سے بڑے گناہ کے انجام سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا: «{ وَ لَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَ اِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَ لَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ [الزمر: ۶۵] اور بلاشبہ یقینا تیری طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو تجھ سے پہلے تھے کہ بلاشبہ اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقینا تیرا عمل ضرور ضائع ہو جائے گا اور تو ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہو جائے گا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا پہلے انبیاء سے شرک کے ارتکاب کا اندیشہ تھا۔
➌ { وَ كَانَ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيْرًا:} یعنی تمھیں غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ تم نبی کی بیویاں ہو اور تم پر کوئی گرفت نہ ہو گی۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

30-1قرآن میں الفَاحِشَۃُ (مُعَرَّف بلام) کو زنا کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے لیکن فاحِشَۃ (نکرہ) کو برائی کے لئے، جیسے یہاں ہے۔ یہاں اس کے معنی بد اخلاقی اور نامناسب رویے کے ہیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بد اخلاقی اور نامناسب رویہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہنچانا ہے جس کا ارتکاب کفر ہے۔ علاوہ ازیں ازواج مطہرات ؓ خود بھی مقام بلند کی حامل تھیں اور بلند مرتبہ لوگوں کی معمولی غلطیاں بڑی شمار ہوتی ہیں، اس لئے انھیں دوگنے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

امہات المومنین سب سے معزز قرار دے دی گئیں ٭٭
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے یعنی مومنوں کی ماؤں نے جب اللہ کو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آخرت کے پہلے گھر کو پسند کر لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں وہ ہمیشہ کے لیے مقرر ہو چکیں، تو اب جناب باری عز اسمہ اس آیت میں انہیں وعظ فرما رہا ہے اور بتلا دیا ہے کہ ’ تمہارا معاملہ عام عورتوں جیسا نہیں ہے۔ اگر بالفرض تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری سے سرتابی اور بدخلقی سرزد ہوئی تو تمہیں دنیا اور آخرت میں عتاب ہوگا چونکہ تمہارے بڑے رتبے ہیں تمہیں گناہوں سے بالکل دور رہنا چاہیئے۔ ورنہ رتبے کے مطابق مشکل بھی بڑھ جائے گی ‘۔
اللہ پر سب باتیں سہل اور آسان ہیں، یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ فرمان بطور شرط کے ہے اور شرط کا ہونا ضروری نہیں ہوتا جیسے فرمان ہے آیت «لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ» ۱؎ [39-الزمر:65]‏‏‏‏، ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر تم شرک کرو گے تو تمہارے اعمال اکارت ہو جائیں گے ‘۔
نبیوں کا ذکر کرکے فرمایا آیت «وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ» ۱؎ [6-الأنعام:88]‏‏‏‏ ’ اگر یہ شرک کریں تو ان کی نیکیاں بیکار ہو جائیں ‘۔
اور آیت میں ہے «قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَـٰنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَ» ۱؎ [43-الزخرف:81]‏‏‏‏ ’ اگر رحمان کے اولاد ہو تو میں تو سب سے پہلے عابد ہوں ‘۔
اور آیت میں ارشاد ہو رہا ہے «لَوْ اَرَاد اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ سُبْحٰنَهٗ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ» ۱؎ [39-الزمر:4]‏‏‏‏، یعنی ’ اگر اللہ کو اولاد منظور ہوتی تو وہ اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا پسند فرما لیتا وہ پاک ہے وہ یکتا اور ایک ہے وہ غالب اور سب پر حکمران ہے ‘۔
پس ان پانچوں آیتوں میں شرط کے ساتھ بیان ہے لیکن ایسا ہوا نہیں۔ نہ نبیوں سے شرک ہونا ممکن نہ سردار رسولاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ممکن۔ نہ اللہ کی اولاد۔
اسی طرح امہات المؤمنین کی نسبت بھی جو فرمایا کہ ’ اگر تم میں سے کوئی کھلی لغو حرکت کرے تو اسے دگنی سزا ہو گی ‘ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ واقعی ان میں سے کسی نے کوئی ایسی نافرمانی اور بدخلقی کی ہو۔ نعوذ باللہ