وَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡکُنَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۲۹﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخری گھر کا ارادہ رکھتی ہو تو بے شک اللہ نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور اگر تم خدا اور اس کے پیغمبر اور عاقبت کے گھر (یعنی بہشت) کی طلبگار ہو تو تم میں جو نیکوکاری کرنے والی ہیں اُن کے لئے خدا نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے تو (یقین مانو کہ) تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت زبردست اجر رکھ چھوڑے ہیں

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 29) ➊ { وَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ …:} اور دوسری یہ کہ اگر تم اللہ کی رضا اور اس کے رسول کی رضا اور آخرت کے گھر کی طلب گار ہو اور اس کے لیے تنگی ترشی کی زندگی پر صبر کر سکتی ہو تو تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔
➋ {لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ:} شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں: یہ جو فرمایا { لِلْمُحْسِنٰتِ } (جو نیکی پر رہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج سب نیک ہی رہیں، مگر حق تعالیٰ صاف خوش خبری کسی کو نہیں دیتا، تاکہ نڈر نہ ہو جائے، خاتمہ کا ڈر لگا رہے۔
➌ { اَجْرًا عَظِيْمًا:} مفسر آلوسی نے فرمایا: جب ازواج مطہرات کو اختیار دیا گیا اور انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کو اور دار آخرت کو پسند کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی تعریف فرمائی اور فرمایا: «{ لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْۢ بَعْدُ وَ لَاۤ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ [الأحزاب: ۵۲] تیرے لیے اس کے بعد عورتیں حلال نہیں اور نہ یہ کہ تو ان کے بدلے کوئی اور بیویاں کر لے، اگرچہ ان کا حسن تجھے اچھا لگے۔ (روح المعانی) ان بیویوں سے مراد وہ نو بیویاں ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا۔ اس سے بڑا اجر کیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری اور عمل صالح کی صورت میں دوہرے اجر کی بشارت دی، پھر اس کے صلے میں انھیں زندگی بھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا شرف حاصل رہا اور جنت میں بھی وہ آپ کے ساتھ ہوں گی۔ [رَضِيَ اللّٰہُ عَنْھُنَّ وَ أَرْضَاھُنَّ]

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

29-1فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوگئی تو انصار اور مہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان نَفَقَہ میں اضافے کا مطالبہ کردیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ نہایت سادگی پسند تھے، اس لئے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئے اور بیویوں سے علیحدگی اختیار کرلی جو ایک مہینہ جاری رہی بالآخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی۔ اس کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضرت عائشہ کو یہ آیت سنا کر انھیں اختیار دیا تاہم انھیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی بجائے اپنے والدین سے مشورے کے بعد کوئی اقدام کرنا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں؟ بلکہ میں اللہ اور رسول کو پسند کرتی ہوں یہی بات دیگر ازواج مطہرات ؓ نے بھی کہی اور کسی نے بھی آپ کو چھوڑ کر دنیا کے عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی۔ اس وقت رسول اللہ کے حبالہ عقد میں-9بیویاں تھیں، پانچ قریش میں سے تھیں۔ حضرت عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ اور ام سلمہ ؓ اور چار ان کے علاوہ، یعنی حضرت صفیہ، زینب اور جویریہ تھیں۔ بعض لوگ مرد کی طرف سے اختیار علیحدگی کو طلاق قرار دیتے ہیں، لیکن یہ بات صحیح نہیں، صحیح بات یہ ہے کہ اختیار علیحدگی کے بعد اگر عورت علیحدگی کو پسند کرلے، پھر تو یقینا طلاق ہوجائے گی (اور یہ طلاق بھی رجعی ہوگی نہ کہ بائنہ، جیسا کہ بعض علماء کا مسلک ہے) تاہم اگر عورت علیحدگی نہیں کرتی تو پھر طلاق نہیں ہوگی، جیسے ازواج مطہرات ؓ نے علیحدگی کی بجائے حرم رسول میں ہی رہنا پسند کیا تو اس اختیار کو طلاق شمار نہیں کیا گیا (صحیح بخاری)

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

امہات المومنین سے پرسش! دین یا دنیا؟ ٭٭
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ’ اپنی بیویوں کو دو باتوں میں سے ایک کی قبولیت کا اختیار دیں۔ اگر تم دنیا پر اور اس کی رونق پر مائل ہوئی ہو تو آؤ میں تمہیں اپنے نکاح سے الگ کر دیتا ہوں اور اگر تم تنگی ترشی پر یہاں صبر کر کے اللہ کی خوشی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی چاہتی ہو اور آخرت کی رونق پسند ہے تو صبر و سہار سے میرے ساتھ زندگی گزارو۔ اللہ تمہیں وہاں کی نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا ‘۔
اللہ آپ کی تمام بیویوں سے جو ہماری مائیں ہیں خوش رہے۔ سب نے اللہ کو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور دار آخرت کو ہی پسند فرمایا جس پر رب راضی ہو اور پھر آخرت کے ساتھ ہی دنیا کی مسرتیں بھی عطا فرمائیں۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ { اس آیت کے اترتے ہی اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور مجھ سے فرمانے لگے کہ { میں ایک بات کا تم سے ذکر کرنے والا ہوں تم جواب میں جلدی نہ کرنا اپنے ماں باپ سے مشورہ کر کے جواب دینا }۔ یہ تو آپ جانتے ہی تھے کہ ناممکن ہے کہ میرے والدین مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی کرنے کا مشورہ دیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ میں نے فوراً جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ماں باپ سے مشورہ کرنے کی کون سی بات ہے۔ مجھے اللہ پسند ہے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند ہیں اور آخرت کا گھر پسند ہے }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4785]‏‏‏‏
{ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور تمام بیویوں نے بھی وہی کیا جو میں نے کیا تھا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4786]‏‏‏‏
اور روایت میں ہے کہ { تین دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ { دیکھو بغیر اپنے ماں باپ سے مشورہ کئے کوئی فیصلہ نہ کر لینا }، پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا جواب سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوگئے اور ہنس دیئے }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:28464:]‏‏‏‏
{ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری ازواج مطہرات کے حجروں میں تشریف لے گئے ان سے پہلے ہی فرما دیتے تھے کہ { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تو یہ جواب دیا ہے } وہ کہتی تھیں یہی جواب ہمارا بھی ہے }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:28465:]‏‏‏‏
فرماتی ہیں کہ { اس اختیار کے بعد جب ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کیا تو اختیار طلاق میں شمار نہیں ہوا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:5262]‏‏‏‏
مسند احمد میں ہے کہ { سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف فرما تھے اجازت ملی نہیں۔ اتنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے اجازت چاہی لیکن انہیں بھی اجازت نہ ملی تھوڑی دیر میں دونوں کو یاد فرمایا گیا۔ گئے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا دیکھو میں اللہ کے پیغمبر کو ہنسا دیتا ہوں۔
{ پھر کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے میری بیوی نے آج مجھ سے روپیہ پیسہ مانگا میرے پاس تھا نہیں جب زیادہ ضد کرنے لگیں تو میں نے اٹھ کر گردن ناپی۔‏‏‏‏
یہ سنتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمانے لگے { یہاں بھی یہی قصہ ہے دیکھو یہ سب بیٹھی ہوئی مجھ سے مال طلب کر رہی ہیں؟ } سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ، سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف لپکے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف اور فرمانے لگے افسوس تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مانگتی ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں۔‏‏‏‏
وہ تو کہئے خیر گزری جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک لیا ورنہ عجب نہیں دونوں بزرگ اپنی اپنی صاحبزادیوں کو مارتے۔ اب تو سب بیویاں کہنے لگیں کہ اچھا قصور ہوا اب سے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز اس طرح تنگ نہ کریں گی۔
اب یہ آیتیں اتریں اور دنیا اور آخرت کی پسندیدگی میں اختیار دیا گیا۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے انہوں نے آخرت کو پسند کیا جیسے کہ تفصیل وار بیان گزر چکا۔ ساتھ ہی درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی سے یہ نہ فرمائیے گا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کیا۔‏‏‏‏
{ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ { اللہ نے مجھے چھپانے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ میں سکھانے والا آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھ سے تو جو دریافت کرے گی میں صاف صاف بتا دوں گا } }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:1478]‏‏‏‏
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ { طلاق کا اختیار نہیں دیا گیا تھا بلکہ دنیا یا آخرت کی ترجیح کا اختیار دیا تھا } ۱؎ [مسند احمد:78/1:ضعیف]‏‏‏‏
لیکن اس کی سند میں بھی انقطاع ہے اور یہ آیت کے ظاہری لفظوں کے بھی خلاف ہے کیونکہ پہلی آیت کے آخر میں صاف موجود ہے کہ ’ آؤ میں تمہارے حقوق ادا کر دوں اور تمہیں رہائی دے دوں ‘۔ اس میں علماء کرام کا گو اختلاف ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلاق دے دیں تو پھر کسی کو ان سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ جائز ہے تاکہ اس طلاق سے وہ نتیجہ ملے یعنی دنیا طلبی اور دنیا کی زینت و رونق وہ انہیں حاصل ہو سکے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
جب یہ آیت اتری اور جب اس کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات امہات المؤمنین رضوان اللہ علیہن کو سنایا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں۔ پانچ تو قریش سے تعلق رکھتی تھیں عائشہ، حفصہ، سودہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہن اور صفیہ بنت جی قبیلہ نضر سے تھیں، میمونہ بنت حارث ہلالیہ تھیں، زینب بنت حجش اسدیہ تھیں اور جویریہ بنت حارث جو مصطلقیہ تھیں «رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُنَّ وَأَرْضَاهُنَّ اَجْمَعِیْنَ» ۔