یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا فَتَعَالَیۡنَ اُمَتِّعۡکُنَّ وَ اُسَرِّحۡکُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا ﴿۲۸﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دے اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتی ہو تو آئو میں تمھیں کچھ سامان دے دوں اورتمھیں رخصت کردوں، اچھے طریقے سے رخصت کرنا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اے پیغمبر اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت وآرائش کی خواستگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح سے رخصت کردوں
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دﻻ دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 28) ➊ {يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ …:} نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے اور مال غنیمت میں سے خمس کا اختیار رکھنے کے باوجود سب کچھ ضرورت مندوں پر خرچ کر دیتے۔ نتیجہ اس کا گھر میں تنگی و ترشی کے ساتھ گزارا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: [مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِيْنَةَ مِنْ طَعَامِ بُرٍّ ثَلَاثَ لَيَالٍ تِبَاعًا حَتّٰی قُبِضَ] [بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي صلی اللہ علیہ وسلم و أصحابہ…: ۶۴۵۴] ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے، جب سے آپ مدینہ میں آئے، تین دن پے در پے گندم کا کھانا سیر ہو کر نہیں کھایا، یہاں تک کہ آپ فوت ہو گئے۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا ہی نے بیان فرمایا: [مَا أَكَلَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ أَكْلَتَيْنِ فِيْ يَوْمٍ إِلَّا إِحْدَاهُمَا تَمْرٌ] [بخاري، الرقاق، کیف کان عیش النبي صلی اللہ علیہ وسلم …: ۶۴۵۵] ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے کسی دن دو دفعہ کھانا نہیں کھایا، مگر ان میں سے ایک دفعہ صرف کھجور ہوتی تھی۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا نے اپنے بھانجے عروہ سے فرمایا: [ابْنَ أُخْتِيْ! إِنْ كُنَّا لَنَنْظُرُ إِلَی الْهِلاَلِ ثَلاَثَةَ أَهِلَّةٍ فِيْ شَهْرَيْنِ، وَمَا أُوْقِدَتْ فِيْ أَبْيَاتِ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ نَارٌ فَقُلْتُ مَا كَانَ يُعِيْشُكُمْ؟ قَالَتِ الْأَسْوَدَانِ التَّمْرُ وَ الْمَاءَ إِلاَّ أَنَّهُ قَدْ كَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ جِيْرَانٌ مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ لَهُمْ مَنَائِحُ، وَكَانُوْا يَمْنَحُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ مِنْ أَبْيَاتِهِمْ، فَيَسْقِيْنَاهُ] [بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي صلی اللہ علیہ وسلم …: ۶۴۵۹] ”بھانجے! ہم چاند دیکھتے تھے، دو مہینوں میں تین چاند، اس حال میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں آگ نہیں جلی ہوتی تھی۔“ میں نے کہا: ”پھر تمھیں کیا چیز زندہ رکھتی تھی؟“ کہا: ”دو سیاہ چیزیں، کھجور اور پانی، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار میں سے کچھ پڑوسی تھے جن کے پا س دودھ والے جانور تھے اور وہ اپنے گھروں سے (کچھ دودھ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور تحفہ دے دیا کرتے تھے اور آپ ہمیں وہ پلا دیتے۔“
ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں: [كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَبِيْتُ اللَّيَالِيَ الْمُتَتَابِعَةَ طَاوِيًا وَ أَهْلُهُ لَا يَجِدُوْنَ عَشَاءً] [ترمذي، الزھد، باب ما جاء في معیشۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم و أھلہ: ۲۳۶۰، وقال الألبانی حسن] ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی راتیں خالی پیٹ گزار دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کو شام کا کھانا نہیں ملتا تھا۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر کے متعلق بتایا: [كَانَ فِرَاشُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ مِنْ أَدَمٍ، وَحَشْوُهُ مِنْ لِيْفٍ] [بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي صلی اللہ علیہ وسلم …: ۶۴۵۶] ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر چمڑے کا تھا، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔“ لطف یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حال پر خوش تھے اور آپ نے اسے اللہ تعالیٰ سے مانگ کر لیا تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا] [مسلم، الزکاۃ، باب في الکفاف و القناعۃ: ۱۰۵۵] ”اے اللہ! آل محمد کا رزق گزارے کے برابر کر دے۔“ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [اَللّٰهُمَّ أَحْيِنِيْ مِسْكِيْنًا وَ أَمِتْنِيْ مِسْكِيْنًا وَاحْشُرْنِيْ فِيْ زُمْرَةِ الْمَسَاكِيْنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ لِمَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ قَالَ إِنَّهُمْ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِأَرْبَعِيْنَ خَرِيْفًا] [ترمذي، الزھد، باب ما جاء أن فقراء المھاجرین…: ۲۳۵۲] ”اے اللہ! مجھے مسکین ہونے کی حالت میں زندہ رکھنا، مسکین ہونے کی حالت میں موت دے اور مسکینوں کی جماعت سے اٹھا۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا نے پوچھا: ”یا رسول اللہ! یہ کیوں؟“ آپ نے فرمایا: ”وہ جنت میں اپنے اغنیاء سے چالیس (۴۰) سال پہلے جائیں گے۔“ ظاہر ہے زندگی کا یہ معیار نہایت صبر آزما اور مشکل ہے، اس معیار زندگی میں آپ کے ساتھ ازواج مطہرات بھی شریک تھیں۔
➋ { قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ:} بنوقریظہ کے اموال اور دوسری فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت کچھ بہتر ہو گئی تو انصار و مہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے بھی نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی صورت اپنی زہد و قناعت کی زندگی ترک کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بیویوں کے اصرار پر آپ کو سخت رنج اور صدمہ ہوا اور آپ نے قسم کھا لی کہ میں ایک ماہ تک تمھارے پاس نہیں آؤں گا۔ اسے ”ایلاء“ کہتے ہیں۔ (دیکھیے بقرہ: ۲۲۶، ۲۲۷) پھر آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کی اجازت لینے کے لیے آئے تو دیکھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر بیٹھے ہیں، ان میں سے کسی کو اجازت نہیں ملی۔ خیر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اجازت مل گئی، وہ اندر آ گئے، پھر عمر رضی اللہ عنہ اجازت کے لیے آئے، انھیں بھی اجازت مل گئی۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہیں اور آپ کے گرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں، آپ غمگین اور خاموش ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: ”میں ضرور کوئی ایسی بات کروں گا جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنساؤں گا۔“ چنانچہ وہ کہنے لگے: ”یا رسول اللہ! کبھی آپ خارجہ کی بیٹی (میری بیوی) کو دیکھتے، اس نے مجھ سے خرچہ مانگا تو میں نے اٹھ کر اس کی گردن دبا دی۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمانے لگے: ”یہ سب میرے اردگرد بیٹھی ہیں، جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، یہ مجھ سے خرچہ مانگتی ہیں۔“ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی گردن دبانے کے لیے کھڑے ہو گئے اور عمر رضی اللہ عنہ حفصہ رضی اللہ عنھا کی گردن دبانے کے لیے اٹھے۔ دونوں کہہ رہے تھے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ وہ دونوں کہنے لگیں: ”اللہ کی قسم! ہم کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چیز نہیں مانگیں گی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ ہو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ایک ماہ یا انتیس دن علیحدہ رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی: «{ يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا }» [الأحزاب: ۲۸] [مسلم، الطلاق، باب بیان أن تخییرہ امرأتہ…: ۱۴۷۵]
➌ { اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا:} صحیح بخاری میں عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ بیویوں سے ایک ماہ تک علیحدہ رہنے کی قسم کا ایک باعث حفصہ رضی اللہ عنھا کا عائشہ رضی اللہ عنھا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز بتانا بھی تھا، جس کا ذکر سورۂ تحریم میں ہے۔ اسی حدیث میں ہے کہ جب انتیس دن گزر گئے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس تشریف لائے۔ انھوں نے آپ سے کہا: ”آپ نے تو ہمارے ہاں ایک ماہ تک نہ آنے کی قسم کھائی تھی اور ابھی انتیس راتیں گزری ہیں، میں انھیں اچھی طرح گنتی رہی ہوں۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مہینا انتیس دنوں کا ہے۔“ اور وہ مہینا تھا بھی انتیس دنوں کا۔ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا: ”پھر اللہ تعالیٰ نے اختیار دینے کی آیت نازل فرمائی تو سب بیویوں سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا، فرمایا: ”میں تم سے ایک بات کہنے لگا ہوں، کوئی حرج نہیں کہ اس کے جواب میں جلدی نہ کرو اور اپنے ماں باپ سے مشورہ کر لو۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا: ”میں خوب جانتی تھی کہ میرے ماں باپ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہونے کی رائے کبھی نہیں دیں گے۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «{ يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ … اَجْرًا عَظِيْمًا }» [الأحزاب: ۲۸، ۲۹] میں نے کہا: ”کیا میں اس کے متعلق اپنے ماں باپ سے مشورہ کروں گی؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہوں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی باقی بیویوں کو بھی اختیار دیا، انھوں نے بھی وہی بات کہی جو عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہی تھی۔ [بخاري، المظالم، باب الغرفۃ و العلیۃ …: ۲۴۶۸]
➍ ابن کثیر نے عکرمہ کا قول نقل فرمایا ہے کہ اس وقت آپ کے نکاح میں نو (۹) بیویاں تھیں، پانچ قریش سے تھیں: عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنھن اور بنو نضیر سے صفیہ بنت حیی، بنو ہلال سے میمونہ بنت حارث، بنو اسد سے زینب بنت جحش اور بنو المصطلق سے جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنھن۔
➎ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: ”ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا، ہم نے اللہ اور اس کے رسول کو پسند کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہم پر کچھ شمار نہیں کیا۔“ [بخاري، الطلاق، باب من خیّر أزواجہ…: ۵۲۶۲] اس سے معلوم ہوا اختیار دینے کے بعد بیوی خاوند کے پاس رہنا پسند کرے تو اس سے کسی قسم کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
➏ { فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ: ”تَعَالَيْنَ“} (آؤ) {”عَلَا يَعْلُوْ“ } سے باب تفاعل میں سے جمع مؤنث امر حاضر کا صیغہ ہے۔ اصل اس کا یہ ہے کہ کوئی شخص اونچی جگہ کھڑا ہو کر کسی سے کہے اوپر آؤ، پھر کسی کو بھی بلانے کے لیے {”تَعَالَ“} (آؤ) استعمال ہونے لگا۔
➐ { اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا:} آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے لیے دو چیزوں میں سے ایک چیز پسند کر لو، پہلی یہ کہ اگر تم دنیا کی زندگی، اس کی زیب و زینت اور آرائش کو پسند کرتی ہو تو میرے ساتھ تمھارے رہنے کی کوئی صورت نہیں، پھر آؤ میں تمھیں کچھ سامان دے دیتا ہوں (جس کا طلاق دیتے وقت اپنی حیثیت کے مطابق دینے کا حکم ہے، جسے {”متعه طلاق“} کہتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ بقرہ: ۲۳۶ تا ۲۴۱) اور تمھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دیتا ہوں، یعنی کوئی طعن و تشنیع کیے یا کوئی تکلیف دیے بغیر طلاق دے کر آزاد کر دیتا ہوں۔ دوسری چیز کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں: [كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَبِيْتُ اللَّيَالِيَ الْمُتَتَابِعَةَ طَاوِيًا وَ أَهْلُهُ لَا يَجِدُوْنَ عَشَاءً] [ترمذي، الزھد، باب ما جاء في معیشۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم و أھلہ: ۲۳۶۰، وقال الألبانی حسن] ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی راتیں خالی پیٹ گزار دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کو شام کا کھانا نہیں ملتا تھا۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر کے متعلق بتایا: [كَانَ فِرَاشُ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ مِنْ أَدَمٍ، وَحَشْوُهُ مِنْ لِيْفٍ] [بخاري، الرقاق، باب کیف کان عیش النبي صلی اللہ علیہ وسلم …: ۶۴۵۶] ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر چمڑے کا تھا، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔“ لطف یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حال پر خوش تھے اور آپ نے اسے اللہ تعالیٰ سے مانگ کر لیا تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا] [مسلم، الزکاۃ، باب في الکفاف و القناعۃ: ۱۰۵۵] ”اے اللہ! آل محمد کا رزق گزارے کے برابر کر دے۔“ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [اَللّٰهُمَّ أَحْيِنِيْ مِسْكِيْنًا وَ أَمِتْنِيْ مِسْكِيْنًا وَاحْشُرْنِيْ فِيْ زُمْرَةِ الْمَسَاكِيْنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ لِمَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ قَالَ إِنَّهُمْ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِأَرْبَعِيْنَ خَرِيْفًا] [ترمذي، الزھد، باب ما جاء أن فقراء المھاجرین…: ۲۳۵۲] ”اے اللہ! مجھے مسکین ہونے کی حالت میں زندہ رکھنا، مسکین ہونے کی حالت میں موت دے اور مسکینوں کی جماعت سے اٹھا۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا نے پوچھا: ”یا رسول اللہ! یہ کیوں؟“ آپ نے فرمایا: ”وہ جنت میں اپنے اغنیاء سے چالیس (۴۰) سال پہلے جائیں گے۔“ ظاہر ہے زندگی کا یہ معیار نہایت صبر آزما اور مشکل ہے، اس معیار زندگی میں آپ کے ساتھ ازواج مطہرات بھی شریک تھیں۔
➋ { قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ:} بنوقریظہ کے اموال اور دوسری فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت کچھ بہتر ہو گئی تو انصار و مہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے بھی نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی صورت اپنی زہد و قناعت کی زندگی ترک کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بیویوں کے اصرار پر آپ کو سخت رنج اور صدمہ ہوا اور آپ نے قسم کھا لی کہ میں ایک ماہ تک تمھارے پاس نہیں آؤں گا۔ اسے ”ایلاء“ کہتے ہیں۔ (دیکھیے بقرہ: ۲۲۶، ۲۲۷) پھر آپ پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے کی اجازت لینے کے لیے آئے تو دیکھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر بیٹھے ہیں، ان میں سے کسی کو اجازت نہیں ملی۔ خیر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اجازت مل گئی، وہ اندر آ گئے، پھر عمر رضی اللہ عنہ اجازت کے لیے آئے، انھیں بھی اجازت مل گئی۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہیں اور آپ کے گرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں، آپ غمگین اور خاموش ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: ”میں ضرور کوئی ایسی بات کروں گا جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنساؤں گا۔“ چنانچہ وہ کہنے لگے: ”یا رسول اللہ! کبھی آپ خارجہ کی بیٹی (میری بیوی) کو دیکھتے، اس نے مجھ سے خرچہ مانگا تو میں نے اٹھ کر اس کی گردن دبا دی۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمانے لگے: ”یہ سب میرے اردگرد بیٹھی ہیں، جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، یہ مجھ سے خرچہ مانگتی ہیں۔“ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی گردن دبانے کے لیے کھڑے ہو گئے اور عمر رضی اللہ عنہ حفصہ رضی اللہ عنھا کی گردن دبانے کے لیے اٹھے۔ دونوں کہہ رہے تھے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ہے۔ وہ دونوں کہنے لگیں: ”اللہ کی قسم! ہم کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چیز نہیں مانگیں گی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ ہو۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ایک ماہ یا انتیس دن علیحدہ رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی: «{ يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا }» [الأحزاب: ۲۸] [مسلم، الطلاق، باب بیان أن تخییرہ امرأتہ…: ۱۴۷۵]
➌ { اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا:} صحیح بخاری میں عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ بیویوں سے ایک ماہ تک علیحدہ رہنے کی قسم کا ایک باعث حفصہ رضی اللہ عنھا کا عائشہ رضی اللہ عنھا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز بتانا بھی تھا، جس کا ذکر سورۂ تحریم میں ہے۔ اسی حدیث میں ہے کہ جب انتیس دن گزر گئے تو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنھا کے پاس تشریف لائے۔ انھوں نے آپ سے کہا: ”آپ نے تو ہمارے ہاں ایک ماہ تک نہ آنے کی قسم کھائی تھی اور ابھی انتیس راتیں گزری ہیں، میں انھیں اچھی طرح گنتی رہی ہوں۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مہینا انتیس دنوں کا ہے۔“ اور وہ مہینا تھا بھی انتیس دنوں کا۔ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا: ”پھر اللہ تعالیٰ نے اختیار دینے کی آیت نازل فرمائی تو سب بیویوں سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا، فرمایا: ”میں تم سے ایک بات کہنے لگا ہوں، کوئی حرج نہیں کہ اس کے جواب میں جلدی نہ کرو اور اپنے ماں باپ سے مشورہ کر لو۔“ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا: ”میں خوب جانتی تھی کہ میرے ماں باپ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہونے کی رائے کبھی نہیں دیں گے۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «{ يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ … اَجْرًا عَظِيْمًا }» [الأحزاب: ۲۸، ۲۹] میں نے کہا: ”کیا میں اس کے متعلق اپنے ماں باپ سے مشورہ کروں گی؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول کو اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہوں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی باقی بیویوں کو بھی اختیار دیا، انھوں نے بھی وہی بات کہی جو عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہی تھی۔ [بخاري، المظالم، باب الغرفۃ و العلیۃ …: ۲۴۶۸]
➍ ابن کثیر نے عکرمہ کا قول نقل فرمایا ہے کہ اس وقت آپ کے نکاح میں نو (۹) بیویاں تھیں، پانچ قریش سے تھیں: عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنھن اور بنو نضیر سے صفیہ بنت حیی، بنو ہلال سے میمونہ بنت حارث، بنو اسد سے زینب بنت جحش اور بنو المصطلق سے جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنھن۔
➎ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: ”ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا، ہم نے اللہ اور اس کے رسول کو پسند کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہم پر کچھ شمار نہیں کیا۔“ [بخاري، الطلاق، باب من خیّر أزواجہ…: ۵۲۶۲] اس سے معلوم ہوا اختیار دینے کے بعد بیوی خاوند کے پاس رہنا پسند کرے تو اس سے کسی قسم کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
➏ { فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ: ”تَعَالَيْنَ“} (آؤ) {”عَلَا يَعْلُوْ“ } سے باب تفاعل میں سے جمع مؤنث امر حاضر کا صیغہ ہے۔ اصل اس کا یہ ہے کہ کوئی شخص اونچی جگہ کھڑا ہو کر کسی سے کہے اوپر آؤ، پھر کسی کو بھی بلانے کے لیے {”تَعَالَ“} (آؤ) استعمال ہونے لگا۔
➐ { اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا:} آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے لیے دو چیزوں میں سے ایک چیز پسند کر لو، پہلی یہ کہ اگر تم دنیا کی زندگی، اس کی زیب و زینت اور آرائش کو پسند کرتی ہو تو میرے ساتھ تمھارے رہنے کی کوئی صورت نہیں، پھر آؤ میں تمھیں کچھ سامان دے دیتا ہوں (جس کا طلاق دیتے وقت اپنی حیثیت کے مطابق دینے کا حکم ہے، جسے {”متعه طلاق“} کہتے ہیں۔ دیکھیے سورۂ بقرہ: ۲۳۶ تا ۲۴۱) اور تمھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دیتا ہوں، یعنی کوئی طعن و تشنیع کیے یا کوئی تکلیف دیے بغیر طلاق دے کر آزاد کر دیتا ہوں۔ دوسری چیز کا ذکر اگلی آیت میں ہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
اس آیت کی تفسیر پچھلی آیت کے ساتھ کی گئی ہے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
امہات المومنین سے پرسش! دین یا دنیا؟ ٭٭
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ’ اپنی بیویوں کو دو باتوں میں سے ایک کی قبولیت کا اختیار دیں۔ اگر تم دنیا پر اور اس کی رونق پر مائل ہوئی ہو تو آؤ میں تمہیں اپنے نکاح سے الگ کر دیتا ہوں اور اگر تم تنگی ترشی پر یہاں صبر کر کے اللہ کی خوشی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی چاہتی ہو اور آخرت کی رونق پسند ہے تو صبر و سہار سے میرے ساتھ زندگی گزارو۔ اللہ تمہیں وہاں کی نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا ‘۔
اللہ آپ کی تمام بیویوں سے جو ہماری مائیں ہیں خوش رہے۔ سب نے اللہ کو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور دار آخرت کو ہی پسند فرمایا جس پر رب راضی ہو اور پھر آخرت کے ساتھ ہی دنیا کی مسرتیں بھی عطا فرمائیں۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ { اس آیت کے اترتے ہی اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور مجھ سے فرمانے لگے کہ { میں ایک بات کا تم سے ذکر کرنے والا ہوں تم جواب میں جلدی نہ کرنا اپنے ماں باپ سے مشورہ کر کے جواب دینا }۔ یہ تو آپ جانتے ہی تھے کہ ناممکن ہے کہ میرے والدین مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی کرنے کا مشورہ دیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ میں نے فوراً جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ماں باپ سے مشورہ کرنے کی کون سی بات ہے۔ مجھے اللہ پسند ہے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند ہیں اور آخرت کا گھر پسند ہے }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4785]
{ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور تمام بیویوں نے بھی وہی کیا جو میں نے کیا تھا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4786]
اور روایت میں ہے کہ { تین دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ { دیکھو بغیر اپنے ماں باپ سے مشورہ کئے کوئی فیصلہ نہ کر لینا }، پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا جواب سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوگئے اور ہنس دیئے }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:28464:]
{ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری ازواج مطہرات کے حجروں میں تشریف لے گئے ان سے پہلے ہی فرما دیتے تھے کہ { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تو یہ جواب دیا ہے } وہ کہتی تھیں یہی جواب ہمارا بھی ہے }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:28465:]
فرماتی ہیں کہ { اس اختیار کے بعد جب ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کیا تو اختیار طلاق میں شمار نہیں ہوا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:5262]
مسند احمد میں ہے کہ { سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف فرما تھے اجازت ملی نہیں۔ اتنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے اجازت چاہی لیکن انہیں بھی اجازت نہ ملی تھوڑی دیر میں دونوں کو یاد فرمایا گیا۔ گئے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا دیکھو میں اللہ کے پیغمبر کو ہنسا دیتا ہوں۔
اللہ آپ کی تمام بیویوں سے جو ہماری مائیں ہیں خوش رہے۔ سب نے اللہ کو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور دار آخرت کو ہی پسند فرمایا جس پر رب راضی ہو اور پھر آخرت کے ساتھ ہی دنیا کی مسرتیں بھی عطا فرمائیں۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ { اس آیت کے اترتے ہی اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور مجھ سے فرمانے لگے کہ { میں ایک بات کا تم سے ذکر کرنے والا ہوں تم جواب میں جلدی نہ کرنا اپنے ماں باپ سے مشورہ کر کے جواب دینا }۔ یہ تو آپ جانتے ہی تھے کہ ناممکن ہے کہ میرے والدین مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدائی کرنے کا مشورہ دیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ میں نے فوراً جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ماں باپ سے مشورہ کرنے کی کون سی بات ہے۔ مجھے اللہ پسند ہے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند ہیں اور آخرت کا گھر پسند ہے }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4785]
{ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور تمام بیویوں نے بھی وہی کیا جو میں نے کیا تھا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4786]
اور روایت میں ہے کہ { تین دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ { دیکھو بغیر اپنے ماں باپ سے مشورہ کئے کوئی فیصلہ نہ کر لینا }، پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا جواب سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوگئے اور ہنس دیئے }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:28464:]
{ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری ازواج مطہرات کے حجروں میں تشریف لے گئے ان سے پہلے ہی فرما دیتے تھے کہ { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تو یہ جواب دیا ہے } وہ کہتی تھیں یہی جواب ہمارا بھی ہے }۔ ۱؎ [تفسیر ابن جریر الطبری:28465:]
فرماتی ہیں کہ { اس اختیار کے بعد جب ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کیا تو اختیار طلاق میں شمار نہیں ہوا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:5262]
مسند احمد میں ہے کہ { سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف فرما تھے اجازت ملی نہیں۔ اتنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے اجازت چاہی لیکن انہیں بھی اجازت نہ ملی تھوڑی دیر میں دونوں کو یاد فرمایا گیا۔ گئے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا دیکھو میں اللہ کے پیغمبر کو ہنسا دیتا ہوں۔
{ پھر کہنے لگے ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے میری بیوی نے آج مجھ سے روپیہ پیسہ مانگا میرے پاس تھا نہیں جب زیادہ ضد کرنے لگیں تو میں نے اٹھ کر گردن ناپی۔“
یہ سنتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمانے لگے { یہاں بھی یہی قصہ ہے دیکھو یہ سب بیٹھی ہوئی مجھ سے مال طلب کر رہی ہیں؟ } سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ، سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف لپکے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف اور فرمانے لگے ”افسوس تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مانگتی ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں۔“
وہ تو کہئے خیر گزری جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک لیا ورنہ عجب نہیں دونوں بزرگ اپنی اپنی صاحبزادیوں کو مارتے۔ اب تو سب بیویاں کہنے لگیں کہ اچھا قصور ہوا اب سے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز اس طرح تنگ نہ کریں گی۔
اب یہ آیتیں اتریں اور دنیا اور آخرت کی پسندیدگی میں اختیار دیا گیا۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے انہوں نے آخرت کو پسند کیا جیسے کہ تفصیل وار بیان گزر چکا۔ ساتھ ہی درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی سے یہ نہ فرمائیے گا کہ ”میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کیا۔“
یہ سنتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمانے لگے { یہاں بھی یہی قصہ ہے دیکھو یہ سب بیٹھی ہوئی مجھ سے مال طلب کر رہی ہیں؟ } سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ، سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف لپکے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف اور فرمانے لگے ”افسوس تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مانگتی ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں۔“
وہ تو کہئے خیر گزری جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک لیا ورنہ عجب نہیں دونوں بزرگ اپنی اپنی صاحبزادیوں کو مارتے۔ اب تو سب بیویاں کہنے لگیں کہ اچھا قصور ہوا اب سے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز اس طرح تنگ نہ کریں گی۔
اب یہ آیتیں اتریں اور دنیا اور آخرت کی پسندیدگی میں اختیار دیا گیا۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے انہوں نے آخرت کو پسند کیا جیسے کہ تفصیل وار بیان گزر چکا۔ ساتھ ہی درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی بیوی سے یہ نہ فرمائیے گا کہ ”میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کیا۔“
{ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ { اللہ نے مجھے چھپانے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ میں سکھانے والا آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھ سے تو جو دریافت کرے گی میں صاف صاف بتا دوں گا } }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:1478]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ { طلاق کا اختیار نہیں دیا گیا تھا بلکہ دنیا یا آخرت کی ترجیح کا اختیار دیا تھا } ۱؎ [مسند احمد:78/1:ضعیف]
لیکن اس کی سند میں بھی انقطاع ہے اور یہ آیت کے ظاہری لفظوں کے بھی خلاف ہے کیونکہ پہلی آیت کے آخر میں صاف موجود ہے کہ ’ آؤ میں تمہارے حقوق ادا کر دوں اور تمہیں رہائی دے دوں ‘۔ اس میں علماء کرام کا گو اختلاف ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلاق دے دیں تو پھر کسی کو ان سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ جائز ہے تاکہ اس طلاق سے وہ نتیجہ ملے یعنی دنیا طلبی اور دنیا کی زینت و رونق وہ انہیں حاصل ہو سکے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
جب یہ آیت اتری اور جب اس کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات امہات المؤمنین رضوان اللہ علیہن کو سنایا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں۔ پانچ تو قریش سے تعلق رکھتی تھیں عائشہ، حفصہ، سودہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہن اور صفیہ بنت جی قبیلہ نضر سے تھیں، میمونہ بنت حارث ہلالیہ تھیں، زینب بنت حجش اسدیہ تھیں اور جویریہ بنت حارث جو مصطلقیہ تھیں «رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُنَّ وَأَرْضَاهُنَّ اَجْمَعِیْنَ» ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ { طلاق کا اختیار نہیں دیا گیا تھا بلکہ دنیا یا آخرت کی ترجیح کا اختیار دیا تھا } ۱؎ [مسند احمد:78/1:ضعیف]
لیکن اس کی سند میں بھی انقطاع ہے اور یہ آیت کے ظاہری لفظوں کے بھی خلاف ہے کیونکہ پہلی آیت کے آخر میں صاف موجود ہے کہ ’ آؤ میں تمہارے حقوق ادا کر دوں اور تمہیں رہائی دے دوں ‘۔ اس میں علماء کرام کا گو اختلاف ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلاق دے دیں تو پھر کسی کو ان سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ جائز ہے تاکہ اس طلاق سے وہ نتیجہ ملے یعنی دنیا طلبی اور دنیا کی زینت و رونق وہ انہیں حاصل ہو سکے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔
جب یہ آیت اتری اور جب اس کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات امہات المؤمنین رضوان اللہ علیہن کو سنایا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو بیویاں تھیں۔ پانچ تو قریش سے تعلق رکھتی تھیں عائشہ، حفصہ، سودہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہن اور صفیہ بنت جی قبیلہ نضر سے تھیں، میمونہ بنت حارث ہلالیہ تھیں، زینب بنت حجش اسدیہ تھیں اور جویریہ بنت حارث جو مصطلقیہ تھیں «رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُنَّ وَأَرْضَاهُنَّ اَجْمَعِیْنَ» ۔