وَ رَدَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِغَیۡظِہِمۡ لَمۡ یَنَالُوۡا خَیۡرًا ؕ وَ کَفَی اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الۡقِتَالَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ قَوِیًّا عَزِیۡزًا ﴿ۚ۲۵﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور اللہ نے ان لوگوں کو جنھوں نے کفر کیا، ان کے غصے سمیت لوٹا دیا، انھوں نے کوئی بھلائی حاصل نہ کی اور اللہ مومنوں کو لڑائی سے کافی ہوگیا اور اللہ ہمیشہ سے بے حد قوت والا، سب پر غالب ہے۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور جو کافر تھے اُن کو خدا نے پھیر دیا وہ اپنے غصے میں (بھرے ہوئے تھے) کچھ بھلائی حاصل نہ کر سکے۔ اور خدا مومنوں کو لڑائی کے بارے میں کافی ہوا۔ اور خدا طاقتور (اور) زبردست ہے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور اللہ تعالیٰ نےکافروں کو غصے بھرے ہوئے ہی (نامراد) لوٹا دیا انہوں نے کوئی فائده نہیں پایا، اور اس جنگ میں اللہ تعالیٰ خود ہی مومنوں کو کافی ہوگیا اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں واﻻ اور غالب ہے
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 25) ➊ { وَ رَدَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوْا خَيْرًا:} ان آیات میں غزوۂ احزاب کا انجام بیان فرمایا کہ کفار اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹا دینے کے جس ارادے سے آئے تھے اس میں انھیں کوئی کامیابی نہ ہوئی، نہ مسلمانوں کو مٹا سکے، نہ مدینہ فتح ہوا اور نہ مال غنیمت یا اسیر حاصل کر سکے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دل کی جلن اور غصے سے بھرے ہونے کی حالت میں کوئی بھی فائدہ حاصل کیے بغیر واپس لوٹا دیا۔
➋ { وَ كَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ الْقِتَالَ:} یعنی مسلمانوں کو لڑنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ اللہ تعالیٰ نے لڑائی اپنے ذمے لے لی اور آندھی اور فرشتوں کے لشکروں کے ساتھ کفار کے لشکروں کو مار بھگایا۔ اس کی تفصیل اسی سورت کی آیت (۹) کی تفسیر میں ملاحظہ کریں۔
➌ {وَ كَانَ اللّٰهُ قَوِيًّا عَزِيْزًا:} چونکہ اتنی تعداد اور تیاری کے باوجود کفار کا بھاگ جانا عقل سے بعید اور نہایت حیران کن واقعہ تھا، اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے بے حد قوت والا، سب پر غالب ہے، اس کے لیے یہ کچھ مشکل نہیں۔
➋ { وَ كَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ الْقِتَالَ:} یعنی مسلمانوں کو لڑنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ اللہ تعالیٰ نے لڑائی اپنے ذمے لے لی اور آندھی اور فرشتوں کے لشکروں کے ساتھ کفار کے لشکروں کو مار بھگایا۔ اس کی تفصیل اسی سورت کی آیت (۹) کی تفسیر میں ملاحظہ کریں۔
➌ {وَ كَانَ اللّٰهُ قَوِيًّا عَزِيْزًا:} چونکہ اتنی تعداد اور تیاری کے باوجود کفار کا بھاگ جانا عقل سے بعید اور نہایت حیران کن واقعہ تھا، اس لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے بے حد قوت والا، سب پر غالب ہے، اس کے لیے یہ کچھ مشکل نہیں۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
25-1یعنی مشرک جو مختلف طرفوں سے جمع ہو کر آئے تھے تاکہ مسلمانوں کا نشان مٹا دیں۔ اللہ نے انھیں اپنے غیظ و غضب سمیت واپس لوٹا دیا۔ نہ دنیا کا مال متاع ان کے ہاتھ لگا اور نہ آخرت میں ہی اجر وثواب کے مستحق ہوں گے، کسی بھی قسم کی خیر انھیں حاصل نہیں ہوئی۔ 25-2یعنی مسلمانوں کو ان سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہوا اور فرشتوں کے ذریعے سے اپنے مومن بندوں کی مدد کا سامان بہم پہنچا دیا۔ اسلئے نبی نے فرمایا (لَا اِلَہَ اَلَّا للّٰہُ وَحْدَہُ، صَدَقَ وَعْدَۃُ، نَصَرَ عَبْدَہُ، وَ اَعَزَّ جُنْدَہُ، وَحَزَمَ الاَّحْزَابَ وَحْدَہَ، فَلَا شَیْءٍ بَعْدَ ہُ) (صحیح بخاری) ' ' ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اپنے لشکر کو سرخرو کیا، اور تمام گروہوں کو اکیلے اس نے ہی شکست دے دی، اس کے بعد کوئی شئ نہیں ' یہ دعا حج عمرہ، جہاد اور سفر سے واپسی پر پڑھنی چاہئے۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اللہ عزوجل کفار سے خود نپٹے ٭٭
اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ ’ اس نے طوفان باد و باراں بھیج کر اور اپنے نہ نظر آنے والے لشکر اتار کر کافروں کی کمر توڑی دی اور انہیں سخت مایوسی اور نامرادی کے ساتھ محاصرہ ہٹانا پڑا۔ بلکہ اگر رحمۃ اللعالمین کی امت میں یہ نہ ہوتے تو یہ ہوائیں ان کے ساتھ وہی کرتیں جو عادیوں کے ساتھ اس بے برکت ہوا نے کیا تھا ‘۔
چونکہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ «وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا» ۱؎ [8-الأنفال:33] ’ تو جب تک ان میں ہے اللہ انہیں عام عذاب نہیں کرے گا لہٰذا انہیں صرف ان کی شرارت کا مزہ چکھا دیا۔ ان کے مجمع کو منتشر کر کے ان پر سے اپنا عذاب ہٹالیا ‘۔
چونکہ ان کا یہ اجتماع محض ہوائے نفسانی تھا اس لیے ہوا نے ہی انہیں پراگندہ کر دیا جو سوچ سمجھ کر آئے تھے سب خاک میں مل گیا کہاں کی غنیمت؟ کہاں کی فتح؟ جان کے لالے پڑے گئے اور ہاتھ ملتے دانت پیستے پیچ و تاب کھاتے ذلت ورسوائی کے ساتھ نامرادی اور ناکامی سے واپس ہوئے۔ دنیا کا خسارہ الگ ہوا اور آخرت کا وبال الگ۔ کیونکہ جو کوئی شخص کسی کام کا قصد کرتا ہے اور وہ اپنے کام کو عملی صورت بھی دیدے پھر وہ اس میں کامیاب نہ ہو تو گنہگار تو وہ ہو ہی گیا۔
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو فنا کرنے کی آرزو پھر اہتمام پھر اقدام سب کچھ انہوں نے کر لیا۔ لیکن قدرت نے دونوں جہان کا بوجھ ان پر لادھ کر انہیں جلے دل سے واپس کیا اللہ تعالیٰ نے خود ہی مومنوں کی طرف سے ان کا مقابلہ کیا۔ نہ مسلمان ان سے لڑے نہ انہیں ہٹایا۔ بلکہ مسلمان اپنی جگہ رہے اور وہ بھاگتے رہے۔ اللہ نے اپنے لشکر کی لاج رکھ لی اور اپنے بندے کی مدد کی اور خود ہی کافی ہو گیا۔
{ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے { اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس نے اپنے وعدے کو سچا کیا اپنے بندے کی مدد کی اپنے لشکر کی عزت کی تمام دشمنوں سے آپ ہی نمٹ لیا اور سب کو شکست دے دی۔ اس کے بعد اور کوئی بھی نہیں }۔ [صحیح بخاری:4114]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب کے موقعہ پر جناب باری تعالیٰ سے جو دعا کی تھی وہ بھی بخاری مسلم میں مروی ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ، سَرِيعَ الْحِسَابِ، اهْزِمِ الْأَحْزَابَ . اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ» اے اللہ اے کتاب کے اتارنے والے جلد حساب لینے والے ان لشکروں کو شکست دے اور انہیں ہلا ڈال } }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4115]
اس فرمان «وَكَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ الْقِتَالَ وَكَان اللّٰهُ قَوِيًّا عَزِيْزًا» ۱؎ [33-الأحزاب:25] یعنی ’ اللہ نے مومنوں کی کفایت جنگ سے کر دی ‘۔ اس میں نہایت لطیف بات یہ ہے کہ نہ صرف اس جنگ سے ہی مسلمان چھوٹ گئے بلکہ آئندہ ہمیشہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اس سے بچ گئے کہ مشرکین ان پر چڑھ دوڑیں۔ چنانچہ آپ تاریخ دیکھ لیں جنگ خندق کے بعد کافروں کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ مدینے پر یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی جگہ خود چڑھائی کرتے۔ ان کے منحوس قدموں سے اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسکن و آرام گاہ کو محفوظ کر لیا «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ۔
چونکہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ «وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا» ۱؎ [8-الأنفال:33] ’ تو جب تک ان میں ہے اللہ انہیں عام عذاب نہیں کرے گا لہٰذا انہیں صرف ان کی شرارت کا مزہ چکھا دیا۔ ان کے مجمع کو منتشر کر کے ان پر سے اپنا عذاب ہٹالیا ‘۔
چونکہ ان کا یہ اجتماع محض ہوائے نفسانی تھا اس لیے ہوا نے ہی انہیں پراگندہ کر دیا جو سوچ سمجھ کر آئے تھے سب خاک میں مل گیا کہاں کی غنیمت؟ کہاں کی فتح؟ جان کے لالے پڑے گئے اور ہاتھ ملتے دانت پیستے پیچ و تاب کھاتے ذلت ورسوائی کے ساتھ نامرادی اور ناکامی سے واپس ہوئے۔ دنیا کا خسارہ الگ ہوا اور آخرت کا وبال الگ۔ کیونکہ جو کوئی شخص کسی کام کا قصد کرتا ہے اور وہ اپنے کام کو عملی صورت بھی دیدے پھر وہ اس میں کامیاب نہ ہو تو گنہگار تو وہ ہو ہی گیا۔
پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو فنا کرنے کی آرزو پھر اہتمام پھر اقدام سب کچھ انہوں نے کر لیا۔ لیکن قدرت نے دونوں جہان کا بوجھ ان پر لادھ کر انہیں جلے دل سے واپس کیا اللہ تعالیٰ نے خود ہی مومنوں کی طرف سے ان کا مقابلہ کیا۔ نہ مسلمان ان سے لڑے نہ انہیں ہٹایا۔ بلکہ مسلمان اپنی جگہ رہے اور وہ بھاگتے رہے۔ اللہ نے اپنے لشکر کی لاج رکھ لی اور اپنے بندے کی مدد کی اور خود ہی کافی ہو گیا۔
{ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے { اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس نے اپنے وعدے کو سچا کیا اپنے بندے کی مدد کی اپنے لشکر کی عزت کی تمام دشمنوں سے آپ ہی نمٹ لیا اور سب کو شکست دے دی۔ اس کے بعد اور کوئی بھی نہیں }۔ [صحیح بخاری:4114]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب کے موقعہ پر جناب باری تعالیٰ سے جو دعا کی تھی وہ بھی بخاری مسلم میں مروی ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ، سَرِيعَ الْحِسَابِ، اهْزِمِ الْأَحْزَابَ . اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ» اے اللہ اے کتاب کے اتارنے والے جلد حساب لینے والے ان لشکروں کو شکست دے اور انہیں ہلا ڈال } }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4115]
اس فرمان «وَكَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِيْنَ الْقِتَالَ وَكَان اللّٰهُ قَوِيًّا عَزِيْزًا» ۱؎ [33-الأحزاب:25] یعنی ’ اللہ نے مومنوں کی کفایت جنگ سے کر دی ‘۔ اس میں نہایت لطیف بات یہ ہے کہ نہ صرف اس جنگ سے ہی مسلمان چھوٹ گئے بلکہ آئندہ ہمیشہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم اس سے بچ گئے کہ مشرکین ان پر چڑھ دوڑیں۔ چنانچہ آپ تاریخ دیکھ لیں جنگ خندق کے بعد کافروں کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ مدینے پر یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی جگہ خود چڑھائی کرتے۔ ان کے منحوس قدموں سے اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسکن و آرام گاہ کو محفوظ کر لیا «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ۔
بلکہ برخلاف اس کے مسلمان ان پر چڑھ چڑھ گئے یہاں تک کہ عرب کی سر زمین سے اللہ نے شرک و کفر ختم کر دیا۔ جب اس جنگ سے کافر لوٹے اسی وقت رسول اکرم صلی اللہ علہ وسلم نے بطور پیشن گوئی فرما دیا تھا کہ { اس سال کے بعد قریش تم سے جنگ نہیں کریں گے بلکہ تم ان سے جنگ کرو گے }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4110]
چنانچہ یہی ہوا، یہاں تک کہ مکہ فتح ہو گیا۔ اللہ کی قوت کا مقابلہ بندے کے بس کا نہیں۔ اللہ کو کوئی مغلوب نہیں کرسکتا۔ اسی نے اپنی مدد وقوت سے ان بپھرے ہوئے اور بکھرے ہوئے لشکروں کو پسپا کیا۔ انہیں برائے نام بھی کوئی نفع نہ پہنچا۔ اس نے اسلام اور اہل اسلام کو غالب کیا اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور اپنے عبد و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ۔
چنانچہ یہی ہوا، یہاں تک کہ مکہ فتح ہو گیا۔ اللہ کی قوت کا مقابلہ بندے کے بس کا نہیں۔ اللہ کو کوئی مغلوب نہیں کرسکتا۔ اسی نے اپنی مدد وقوت سے ان بپھرے ہوئے اور بکھرے ہوئے لشکروں کو پسپا کیا۔ انہیں برائے نام بھی کوئی نفع نہ پہنچا۔ اس نے اسلام اور اہل اسلام کو غالب کیا اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور اپنے عبد و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ۔