مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ رِجَالٌ صَدَقُوۡا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیۡہِ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ وَ مَا بَدَّلُوۡا تَبۡدِیۡلًا ﴿ۙ۲۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
مومنوں میں سے کچھ مرد ایسے ہیں جنھوں نے وہ بات سچ کہی جس پر انھوں نے اللہ سے عہد کیا، پھر ان میں سے کوئی تو وہ ہے جو اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وہ ہے جو انتظار کر رہا ہے اور انھوں نے نہیں بدلا، کچھ بھی بدلنا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
مومنوں میں کتنے ہی ایسے شخص ہیں کہ جو اقرار اُنہوں نے خدا سے کیا تھا اس کو سچ کر دکھایا۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جو اپنی نذر سے فارغ ہوگئے اور بعض ایسے ہیں کہ انتظار کر رہے ہیں اور اُنہوں نے (اپنے قول کو) ذرا بھی نہیں بدلا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
مومنوں میں (ایسے) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انہیں سچا کر دکھایا، بعض نے تو اپنا عہد پورا کر دیا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 23) ➊ { مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ:} پچھلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کا دعویٰ کرنے والے کچھ لوگوں کا ذکر فرمایا، جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا معاہدہ توڑ دیا اور بزدلی اور نامردی سے میدان سے بھاگ گئے، جیسا کہ فرمایا: «{ وَ لَقَدْ كَانُوْا عَاهَدُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَلُّوْنَ الْاَدْبَارَ وَ كَانَ عَهْدُ اللّٰهِ مَسْـُٔوْلًا }» [الأحزاب: ۱۵] ”حالانکہ بلاشبہ یقینا اس سے پہلے انھوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور اللہ کا عہد ہمیشہ پوچھا جانے والا ہے۔“ اب ان لوگوں پر چوٹ کے لیے ان ایمان والوں کا ذکر ہوتا ہے جو فی الواقع مرد تھے اور جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا معاہدہ پورا کر دیا۔ اس آیت میں ان تمام مخلص مسلمانوں کی تعریف ہے جو اپنی جان و مال کی پروا نہ کرتے ہوئے اتنے مشکل حالات اور اتنے کثیر دشمن کے مقابلے میں ثابت قدم رہے۔ ان میں سب سے آگے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں جو کسی جنگ اور کسی موقع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے نہیں رہے اور جنھوں نے اپنا جان و مال سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا تھا، پھرعمر، عثمان، علی اور درجہ بدرجہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں۔ اس معاہدے سے مراد وہ معاہدہ ہے جو ایمان لانے کے ساتھ ہی مومن کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خود بخود ہو جاتا ہے، اس کا ذکر اس آیت میں ہے: «{ اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَ يُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِيْلِ وَ الْقُرْاٰنِ وَ مَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَبْشِرُوْا۠ بِبَيْعِكُمُ الَّذِيْ بَايَعْتُمْ بِهٖ وَ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ }» [التوبۃ: ۱۱۱] ”بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لیے ہیں، اس کے بدلے کہ ان کے لیے جنت ہے، وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، پس قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں، یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں اس کے ذمے پکا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ اپنا وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟ تو اپنے اس سودے پر خوب خوش ہو جاؤ جو تم نے اس سے کیا ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔“
➋ {فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ …: ”نَحْبٌ“} کا معنی عہد، نذر اور موت ہے، یہاں {”نَحْبٌ“} سے مراد ایسا عہد ہے جو نذر کی طرح موت تک کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جنھوں نے شہادت پا کر وہ نذر پوری کر دی کہ مرتے دم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے اور کچھ اس انتظار میں ہیں اور انھوں نے اپنے عہد میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی۔ اس آیت کی تفسیر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جنگ خندق سے پہلے جنگ بدر اور اُحد میں شہید ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اس آیت کا مصداق قرار دیا ہے، مثلاً حمزہ، مصعب بن عمیر، عبداللہ بن جحش، سعد بن ربیع اور انس بن نضر رضی اللہ عنھم وغیرہ۔
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ”میرے چچا (انس بن نضر رضی اللہ عنہ) جن کے نام پر میرا نام رکھا گیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے تو یہ بات ان پر شاق گزری۔ انھوں نے کہا: ”پہلی لڑائی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریک ہوئے، میں اس سے غائب رہا، اب اگر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جنگ میں شریک ہونے کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔“ اس کے سوا وہ کچھ کہنے سے ڈرے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احد کی لڑائی میں شریک ہوئے تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ان کے سامنے آئے۔ انس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ”ابو عمرو! کہاں جا رہے ہو؟“ پھر کہنے لگے: ”واہ واہ! مجھے تو احد کی طرف سے جنت کی خوشبو آ رہی ہے۔“ پھر وہ لڑے یہاں تک کہ قتل ہو گئے۔ (لڑائی کے بعد دیکھا گیا) تو ان کے بدن پر اسی (۸۰) سے زائد تلوار، نیزے اور تیر کے زخم تھے۔ ان کی بہن اور میری پھوپھی رُبیع بنت نضر رضی اللہ عنھا نے کہا: ”میں نے اپنے بھائی کو نہیں پہچانا مگر ان کی انگلیوں کی پوریں دیکھ کر۔“ اور یہ آیت نازل ہوئی: «{ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا}» [الأحزاب: ۲۳] انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ”صحابہ رضی اللہ عنھم سمجھتے تھے کہ یہ آیت ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔“ [مسلم، الإمارۃ، باب ثبوت الجنۃ للشہید: ۱۹۰۳] معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: [طَلْحَةُ مِمَّنْ قَضَی نَحْبَهُ] [ترمذي، التفسیر، باب و من سورۃ الأحزاب: ۳۲۰۲] ”طلحہ(رضی اللہ عنہ) ان لوگوں میں سے ہے جو اپنی نذر پوری کر چکے۔“ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی ہی میں انھیں شہید قرار دے دیا۔ قیس بن حازم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے طلحہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ دیکھا کہ وہ شل تھا، جس کے ساتھ انھوں نے احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا تھا۔ [بخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، باب ذکر طلحۃ بن عبید اللہ: ۳۷۲۴]
➌ { وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ:} اس سے مراد وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں جو منتظر تھے کہ کب کوئی موقع ملتا ہے جس میں وہ جان کی قربانی پیش کر کے اللہ تعالیٰ سے اپنا کیا ہوا عہد پورا کریں۔ ان کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرمایا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ عہد کے سچے صرف وہی ہیں جو شہید ہو چکے، بلکہ {”إِحْدَي الْحُسْنَيَيْنِ“} (فتح یا شہادت) کا ہر طالب اس کا مصداق ہے۔
➍ { وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا:} منافقین نے تو اپنا عہد بدل ڈالا، لیکن یہ سچے مومن اپنے عہد پر پوری طرح قائم رہے۔
➋ {فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ …: ”نَحْبٌ“} کا معنی عہد، نذر اور موت ہے، یہاں {”نَحْبٌ“} سے مراد ایسا عہد ہے جو نذر کی طرح موت تک کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جنھوں نے شہادت پا کر وہ نذر پوری کر دی کہ مرتے دم تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے اور کچھ اس انتظار میں ہیں اور انھوں نے اپنے عہد میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی۔ اس آیت کی تفسیر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جنگ خندق سے پہلے جنگ بدر اور اُحد میں شہید ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اس آیت کا مصداق قرار دیا ہے، مثلاً حمزہ، مصعب بن عمیر، عبداللہ بن جحش، سعد بن ربیع اور انس بن نضر رضی اللہ عنھم وغیرہ۔
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ”میرے چچا (انس بن نضر رضی اللہ عنہ) جن کے نام پر میرا نام رکھا گیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے تو یہ بات ان پر شاق گزری۔ انھوں نے کہا: ”پہلی لڑائی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریک ہوئے، میں اس سے غائب رہا، اب اگر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جنگ میں شریک ہونے کا موقع دیا تو اللہ تعالیٰ دیکھے گا کہ میں کیا کرتا ہوں۔“ اس کے سوا وہ کچھ کہنے سے ڈرے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احد کی لڑائی میں شریک ہوئے تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ان کے سامنے آئے۔ انس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ”ابو عمرو! کہاں جا رہے ہو؟“ پھر کہنے لگے: ”واہ واہ! مجھے تو احد کی طرف سے جنت کی خوشبو آ رہی ہے۔“ پھر وہ لڑے یہاں تک کہ قتل ہو گئے۔ (لڑائی کے بعد دیکھا گیا) تو ان کے بدن پر اسی (۸۰) سے زائد تلوار، نیزے اور تیر کے زخم تھے۔ ان کی بہن اور میری پھوپھی رُبیع بنت نضر رضی اللہ عنھا نے کہا: ”میں نے اپنے بھائی کو نہیں پہچانا مگر ان کی انگلیوں کی پوریں دیکھ کر۔“ اور یہ آیت نازل ہوئی: «{ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَهٗ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا}» [الأحزاب: ۲۳] انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ”صحابہ رضی اللہ عنھم سمجھتے تھے کہ یہ آیت ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔“ [مسلم، الإمارۃ، باب ثبوت الجنۃ للشہید: ۱۹۰۳] معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: [طَلْحَةُ مِمَّنْ قَضَی نَحْبَهُ] [ترمذي، التفسیر، باب و من سورۃ الأحزاب: ۳۲۰۲] ”طلحہ(رضی اللہ عنہ) ان لوگوں میں سے ہے جو اپنی نذر پوری کر چکے۔“ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی ہی میں انھیں شہید قرار دے دیا۔ قیس بن حازم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے طلحہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ دیکھا کہ وہ شل تھا، جس کے ساتھ انھوں نے احد کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا تھا۔ [بخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، باب ذکر طلحۃ بن عبید اللہ: ۳۷۲۴]
➌ { وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ:} اس سے مراد وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں جو منتظر تھے کہ کب کوئی موقع ملتا ہے جس میں وہ جان کی قربانی پیش کر کے اللہ تعالیٰ سے اپنا کیا ہوا عہد پورا کریں۔ ان کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرمایا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ عہد کے سچے صرف وہی ہیں جو شہید ہو چکے، بلکہ {”إِحْدَي الْحُسْنَيَيْنِ“} (فتح یا شہادت) کا ہر طالب اس کا مصداق ہے۔
➍ { وَ مَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا:} منافقین نے تو اپنا عہد بدل ڈالا، لیکن یہ سچے مومن اپنے عہد پر پوری طرح قائم رہے۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
23-1یہ آیت ان بعض صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جنہوں نے اس موقع پر جاں نثاری کے عجیب و غریب جوہر دکھائے تھے اور انھیں میں وہ صحابہ بھی شامل ہیں جو جنگ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے لیکن انہوں نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ اب آئندہ کوئی معرکہ پیش آیا تو جہاد میں بھرپور حصہ لیں گے۔ جیسے نضر بن انس وغیرہ جو بالآخر لڑتے ہوئے جنگ احد میں شہید ہوئے ان کے جسم پر تلوار نیزے اور تیروں کے اسی سے کچھ اوپر زخم تھے، شہادت کے بعد ان کی ہمشیرہ نے انھیں ان کی انگلی کے پور سے پہچانا۔ 23-2نَحْبہ، نحب کے معنی ہیں عہد، نذر اور موت کے کئے گئے ہیں۔ مطلب ہے کہ ان صادقین میں کچھ نے اپنا وعدہ اور نذر پوری کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا ہے۔ 23-3اور دوسرے وہ ہیں جو ابھی تک عروس شہادت سے ہمکنار نہیں ہوئے ہیں تاہم اس کے شوق میں شریک جہاد ہوتے ہیں اور شہادت کی سعادت کے آرزو مند ہیں اپنی اس نذر یا عہد میں انہوں نے تبدیلی نہیں کی۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اس دن مومنوں اور کفار میں فرق واضح ہو گیا ٭٭
منافقوں کا ذکر اوپر گزر چکا ہے کہ وقت سے پہلے تو جاں نثاری کے لمبے چوڑے دعوے کرتے تھے لیکن وقت آنے پر پورے بزدل اور نامرد ثابت ہوئے، سارے دعوے اور وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے اور بجائے ثابت قدمی کے پیٹھ موڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
یہاں مومنوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ’ انہوں نے اپنے وعدے پورے کر دکھائے ‘۔ بعض نے جام شہادت نوش فرمایا اور بعض اس کے نظارے میں بے چین ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے { ثابت رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ جب ہم نے قرآن لکھنا شروع کیا تو ایک آیت مجھے نہیں ملتی تھی حالانکہ سورۃ الاحزاب میں وہ آیت میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنی تھی۔ آخر خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس یہ آیت ملی یہ وہ صحابی رضی اللہ عنہ ہیں جن کی اکیلے کی گواہی کو رسول اللہ «عَلَيْهِ أَفْضَل الصَّلَاة وَالتَّسْلِيم» نے دو گواہوں کے برابر کر دیا تھا۔ وہ آیت «مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا» [33- الأحزاب: 23]، ہے }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:2807]
یہاں مومنوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ’ انہوں نے اپنے وعدے پورے کر دکھائے ‘۔ بعض نے جام شہادت نوش فرمایا اور بعض اس کے نظارے میں بے چین ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے { ثابت رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کہ جب ہم نے قرآن لکھنا شروع کیا تو ایک آیت مجھے نہیں ملتی تھی حالانکہ سورۃ الاحزاب میں وہ آیت میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنی تھی۔ آخر خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس یہ آیت ملی یہ وہ صحابی رضی اللہ عنہ ہیں جن کی اکیلے کی گواہی کو رسول اللہ «عَلَيْهِ أَفْضَل الصَّلَاة وَالتَّسْلِيم» نے دو گواہوں کے برابر کر دیا تھا۔ وہ آیت «مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا» [33- الأحزاب: 23]، ہے }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:2807]
یہ آیت انس بن نضیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ۱؎ [صحیح بخاری:4783] واقعہ یہ ہے کہ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے جس کا انہیں سخت افسوس تھا کہ { سب سے پہلی جنگ میں جس میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس شریک تھے میں شامل نہ ہو سکا اب جو جہاد کا موقعہ آئے گا میں اللہ تعالیٰ کو اپنی سچائی دکھا دونگا اور یہ بھی کہ میں کیا کرتا ہوں؟ اس سے زیادہ کہتے ہوئے خوف کھایا۔ اب جنگ احد کا موقعہ آیا تو انہوں نے دیکھا کہ سامنے سے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ واپس آ رہے ہیں انہیں دیکھ کر تعجب سے فرمایا کہ ابوعمرو! (رضی اللہ عنہ) کہاں جا رہے ہو؟ واللہ مجھے احد پہاڑ کے اس طرف سے جنت کی خوشبوئیں آ رہی ہیں۔ یہ کہتے ہی آپ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور مشرکوں میں خوب تلوار چلائی۔ چونکہ مسلمان لوٹ گئے تھے یہ تنہا تھے ان کے بے پناہ حملوں نے کفار کے دانت کھٹے کر دئیے تھے اور کفار لڑتے لڑتے ان کی طرف بڑھے اور چاروں طرف سے گھیر لیا اور شہید کر دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کو (۸۰) اسی سے اوپر اپر زخم آئے تھے کوئی نیزے کا کوئی تلوار کا کوئی تیر کا۔ شہادت کے بعد کوئی آپ رضی اللہ عنہ کو پہچان نہ سکا یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو پہچانا اور وہ بھی ہاتھوں کی انگلیوں کی پوریں دیکھ کر۔ انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور یہی ایسے تھے جنہوں نے جو کہا تھا کر دکھایا۔ رضی اللہ عنہم اجمعین }۔ ۱؎ [صحیح مسلم:1903]
اور روایت میں ہے کہ { جب مسلمان بھاگے تو آپ نے فرمایا اے اللہ انہوں نے جو کیا میں اس سے اپنی معذوری ظاہر کرتا ہوں۔ اور مشرکوں نے جو کیا میں اس سے بیزار ہوں۔ اس میں یہ بھی ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا میں آپ کے ساتھ ہوں۔ ساتھ چلے بھی لیکن فرماتے ہیں جو وہ کر رہے تھے وہ میری طاقت سے باہر تھا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:2805]
طلحہ رضی اللہ عنہ کا بیان ابی ابن حاتم میں ہے کہ { جنگ احد سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینے آئے تو منبر پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور مسلمانوں سے ہمدردی ظاہر کی جو جو شہید ہو گئے تھے ان کے درجوں کی خبر دی۔ پھر اسی آیت کی تلاوت کی۔ ایک مسلمان نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں کا اس آیت میں ذکر ہے وہ کون ہیں؟ اس وقت میں سامنے آ رہا تھا اور حضرمی سبز رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف اشارہ کرکے فرمایا: { اے پوچھنے والے یہ بھی ان ہی میں سے ہیں } }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:3203، قال الشيخ الألباني:حسن صحیح]
ان کے صاحبزادے موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ، معاویہ رضی اللہ عنہ کے دربار میں گئے جب وہاں سے واپس آنے لگے دروازے سے باہر نکلے ہی تھے جو جناب معاویہ رضی اللہ عنہا نے واپس بلایا اور فرمایا آؤ مجھ سے ایک حدیث سنتے جاؤ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تمہارے والد طلحہ رضی اللہ عنہ ان میں سے ہے جن کا بیان اس آیت میں ہے کہ انہوں نے اپنا عہد اور نذر پوری کر دی }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:3720،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
اور روایت میں ہے کہ { جب مسلمان بھاگے تو آپ نے فرمایا اے اللہ انہوں نے جو کیا میں اس سے اپنی معذوری ظاہر کرتا ہوں۔ اور مشرکوں نے جو کیا میں اس سے بیزار ہوں۔ اس میں یہ بھی ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا میں آپ کے ساتھ ہوں۔ ساتھ چلے بھی لیکن فرماتے ہیں جو وہ کر رہے تھے وہ میری طاقت سے باہر تھا }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:2805]
طلحہ رضی اللہ عنہ کا بیان ابی ابن حاتم میں ہے کہ { جنگ احد سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینے آئے تو منبر پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور مسلمانوں سے ہمدردی ظاہر کی جو جو شہید ہو گئے تھے ان کے درجوں کی خبر دی۔ پھر اسی آیت کی تلاوت کی۔ ایک مسلمان نے کھڑے ہو کر پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں کا اس آیت میں ذکر ہے وہ کون ہیں؟ اس وقت میں سامنے آ رہا تھا اور حضرمی سبز رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف اشارہ کرکے فرمایا: { اے پوچھنے والے یہ بھی ان ہی میں سے ہیں } }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:3203، قال الشيخ الألباني:حسن صحیح]
ان کے صاحبزادے موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ، معاویہ رضی اللہ عنہ کے دربار میں گئے جب وہاں سے واپس آنے لگے دروازے سے باہر نکلے ہی تھے جو جناب معاویہ رضی اللہ عنہا نے واپس بلایا اور فرمایا آؤ مجھ سے ایک حدیث سنتے جاؤ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ تمہارے والد طلحہ رضی اللہ عنہ ان میں سے ہے جن کا بیان اس آیت میں ہے کہ انہوں نے اپنا عہد اور نذر پوری کر دی }۔ ۱؎ [سنن ترمذي:3720،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
رب العلمین ان کا بیان فرما کر فرماتا ہے کہ ’ بعض اس دن کے منتظر ہیں کہ پھر لڑائی ہو اور وہ اپنی کار گزاری اللہ کو دکھائیں اور جام شہادت نوش فرمائیں ‘۔ پس بعض نے تو سچائی اور وفاداری ثابت کر دی اور بعض موقعہ کے منتظر ہیں انہوں نے نہ عہد بدلا نہ نذر پوری کرنے کا کبھی انہیں خیال گزرا بلکہ وہ اپنے وعدے پر قائم ہیں وہ منافقوں کی طرح بہانے بنانے والے نہیں۔
یہ خوف اور زلزلہ محض اس واسطے تھا کہ خبیث و طیب کی تمیز ہو جائے اور برے بھلے کا حال ہر ایک پر کھل جائے۔ کیونکہ اللہ تو عالم الغیب ہے اس کے نزدیک تو ظاہر و باطن برابر ہے جو نہیں ہوا اسے بھی وہ تو اسی طرح جانتا ہے جس طرح اسے جو ہو چکا۔ لیکن اس کی عادت ہے کہ جب تک مخلوق عمل نہ کر لے انہیں صرف اپنے علم کی بنا پر جزا سزا نہیں دیتا۔
جیسے اس کا فرمان ہے آیت «وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ» ۱؎ [47-محمد:31]، ’ ہم تمہیں خوب پرکھ کر مجاہدین صابرین کو تم میں سے ممتاز کردینگے ‘۔
پس وجود سے پہلے کا علم پھر وجود کے بعد کا علم دونوں اللہ کو ہیں اور اس کے بعد جزا سزا۔ جیسے فرمایا آیت «مَا كَان اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ» ۱؎ [3-آل عمران:179]، ’ اللہ تعالیٰ جس حال پر تم ہو اسی پر مومنوں کو چھوڑ دے ایسا نہیں جب تک کہ وہ بھلے برے کی تمیز نہ کر لے نہ اللہ ایسا ہے کہ تمہیں غیب پر مطلع کر دے ‘۔
پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ’ یہ اس لیے کہ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے اور عہد شکن منافقوں کو سزادے۔ یا انہیں توفیق توبہ دے کہ یہ اپنی روش بدل دیں اور سچے دل سے اللہ کی طرف جھک جائیں تو اللہ بھی ان پر مہربان ہو جائے اور ان کو معاف فرما دے۔ اس لیے کہ وہ اپنی مخلوق کی خطائیں معاف فرمانے والا اور ان پر مہربانی کرنے والا ہے۔ اس کی رافت و رحمت غضب و غصے سے بڑھی ہوئی ہے ‘۔
یہ خوف اور زلزلہ محض اس واسطے تھا کہ خبیث و طیب کی تمیز ہو جائے اور برے بھلے کا حال ہر ایک پر کھل جائے۔ کیونکہ اللہ تو عالم الغیب ہے اس کے نزدیک تو ظاہر و باطن برابر ہے جو نہیں ہوا اسے بھی وہ تو اسی طرح جانتا ہے جس طرح اسے جو ہو چکا۔ لیکن اس کی عادت ہے کہ جب تک مخلوق عمل نہ کر لے انہیں صرف اپنے علم کی بنا پر جزا سزا نہیں دیتا۔
جیسے اس کا فرمان ہے آیت «وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتّٰى نَعْلَمَ الْمُجٰهِدِيْنَ مِنْكُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَكُمْ» ۱؎ [47-محمد:31]، ’ ہم تمہیں خوب پرکھ کر مجاہدین صابرین کو تم میں سے ممتاز کردینگے ‘۔
پس وجود سے پہلے کا علم پھر وجود کے بعد کا علم دونوں اللہ کو ہیں اور اس کے بعد جزا سزا۔ جیسے فرمایا آیت «مَا كَان اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰي مَآ اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ» ۱؎ [3-آل عمران:179]، ’ اللہ تعالیٰ جس حال پر تم ہو اسی پر مومنوں کو چھوڑ دے ایسا نہیں جب تک کہ وہ بھلے برے کی تمیز نہ کر لے نہ اللہ ایسا ہے کہ تمہیں غیب پر مطلع کر دے ‘۔
پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ ’ یہ اس لیے کہ سچوں کو ان کی سچائی کا بدلہ دے اور عہد شکن منافقوں کو سزادے۔ یا انہیں توفیق توبہ دے کہ یہ اپنی روش بدل دیں اور سچے دل سے اللہ کی طرف جھک جائیں تو اللہ بھی ان پر مہربان ہو جائے اور ان کو معاف فرما دے۔ اس لیے کہ وہ اپنی مخلوق کی خطائیں معاف فرمانے والا اور ان پر مہربانی کرنے والا ہے۔ اس کی رافت و رحمت غضب و غصے سے بڑھی ہوئی ہے ‘۔