وَ اِذۡ قَالَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ یٰۤاَہۡلَ یَثۡرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمۡ فَارۡجِعُوۡا ۚ وَ یَسۡتَاۡذِنُ فَرِیۡقٌ مِّنۡہُمُ النَّبِیَّ یَقُوۡلُوۡنَ اِنَّ بُیُوۡتَنَا عَوۡرَۃٌ ؕۛ وَ مَا ہِیَ بِعَوۡرَۃٍ ۚۛ اِنۡ یُّرِیۡدُوۡنَ اِلَّا فِرَارًا ﴿۱۳﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا اے یثرب والو! تمھارے لیے ٹھہرنے کی کوئی صورت نہیں، پس لوٹ چلو، اور ان میں سے ایک گروہ نبی سے اجازت مانگتا تھا، کہتے تھے ہمارے گھر تو غیر محفوظ ہیں، حالانکہ وہ کسی طرح غیر محفوظ نہیں، وہ بھاگنے کے سوا کچھ چاہتے ہی نہیں۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور جب اُن میں سے ایک جماعت کہتی تھی کہ اے اہل مدینہ (یہاں) تمہارے ٹھہرنے کا مقام نہیں تو لوٹ چلو۔ اور ایک گروہ ان میں سے پیغمبر سے اجازت مانگنے اور کہنے لگا کہ ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے۔ وہ تو صرف بھاگنا چاہتے تھے
ترجمہ محمد جوناگڑھی
ان ہی کی ایک جماعت نے ہانک لگائی کہ اے مدینہ والو! تمہارے لئے ٹھکانہ نہیں چلو لوٹ چلو، اور ان کی ایک اور جماعت یہ کہہ کر نبی ﴿صلی اللہ علیہ وسلم﴾ سے اجازت مانگنے لگی کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں، حاﻻنکہ وه (کھلے ہوئے اور) غیر محفوظ نہ تھے (لیکن) ان کا پختہ اراده بھاگ کھڑے ہونے کا تھا
تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد
(آیت 13) ➊ { وَ اِذْ قَالَتْ طَّآىِٕفَةٌ مِّنْهُمْ يٰۤاَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ:} ”یثرب“ مدینے کا پرانا نام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد اس کا نام ”مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم “ پڑ گیا، جو اختصار کے ساتھ مدینہ مشہور ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ أَنِّيْ أُهَاجِرُ مِنْ مَكَّةَ إِلٰی أَرْضٍ بِهَا نَخْلٌ، فَذَهَبَ وَهَلِيْ إِلٰی أَنَّهَا الْيَمَامَةُ أَوْ هَجَرُ، فَإِذَا هِيَ الْمَدِيْنَةُ يَثْرِبُ] [بخاري، المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام: ۳۶۲۲] ”میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مکہ سے ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں جو کھجوروں والی ہے، تو مجھے گمان ہوا کہ وہ جگہ یمامہ یا ہجر ہے، لیکن وہ یثرب یعنی مدینہ منورہ ہے۔“ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ الْقُرٰی يَقُوْلُوْنَ يَثْرِبُ وَهِيَ الْمَدِيْنَةُ، تَنْفِی النَّاسَ كَمَا يَنْفِی الْكِيْرُ خَبَثَ الْحَدِيْدِ] [بخاري، فضائل المدینۃ، باب فضل المدینۃ…: ۱۸۷۱] ”مجھے ایک بستی کے متعلق حکم دیا گیا ہے جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی، لوگ اسے یثرب کہتے ہیں، حالانکہ وہ ”المدینہ“ ہے۔ وہ (منافق) لوگوں کو اس طرح دور کرے گی جس طرح بھٹی لوہے کی میل کو دور کر دیتی ہے۔“
➋ { فَارْجِعُوْا:} منافقین کے ایک گروہ نے مسلمانوں کی ہمتیں پست کرنے کے لیے یہ کہنا شروع کر دیا کہ سلع پہاڑی اور خندق کے درمیان (جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معسکر تھا) اب رہنے کی کوئی صورت نہیں، اس لیے واپس لوٹ جاؤ۔ اس واپس لوٹ جاؤ کا مطلب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ مدینہ واپس چلو اور یہ بھی کہ دوبارہ پہلے دین پر واپس ہو جاؤ اور مشرکین کے ساتھ مل جاؤ، تاکہ وہ تمھیں نقصان نہ پہنچائیں۔ یعنی وہ مسلمانوں کو ارتداد کی ترغیب دیتے، مگر ایسے الفاظ میں کہ اگر کوئی بازپرس کرے تو کہیں کہ ہمارا مطلب تو مدینہ واپس چلنا تھا۔
➌ {وَ يَسْتَاْذِنُ فَرِيْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ:} ان میں سے کچھ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہہ کر اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت مانگی کہ ہمارے گھر بالکل غیر محفوظ ہیں اور ڈر ہے کہ کہیں بنو قریظہ حملہ کر کے ہمارے بچوں اور عورتوں کو ہلاک نہ کر دیں، یا چور لوٹ مار نہ کریں۔
➍ { وَ مَا هِيَ بِعَوْرَةٍ:} حالانکہ وہ کسی طرح غیر محفوظ نہیں تھے، کیونکہ مسلمانوں نے تمام عورتوں اور بچوں کو شہر کی مضبوط حویلیوں میں رکھ کر اور ناکے لگا کر محفوظ کر دیا تھا۔
➎ { اِنْ يُّرِيْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا:} یعنی ان کی اجازت مانگنے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے، بلکہ وہ کسی طرح میدانِ جنگ سے بھاگنا چاہتے ہیں۔
➋ { فَارْجِعُوْا:} منافقین کے ایک گروہ نے مسلمانوں کی ہمتیں پست کرنے کے لیے یہ کہنا شروع کر دیا کہ سلع پہاڑی اور خندق کے درمیان (جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معسکر تھا) اب رہنے کی کوئی صورت نہیں، اس لیے واپس لوٹ جاؤ۔ اس واپس لوٹ جاؤ کا مطلب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ مدینہ واپس چلو اور یہ بھی کہ دوبارہ پہلے دین پر واپس ہو جاؤ اور مشرکین کے ساتھ مل جاؤ، تاکہ وہ تمھیں نقصان نہ پہنچائیں۔ یعنی وہ مسلمانوں کو ارتداد کی ترغیب دیتے، مگر ایسے الفاظ میں کہ اگر کوئی بازپرس کرے تو کہیں کہ ہمارا مطلب تو مدینہ واپس چلنا تھا۔
➌ {وَ يَسْتَاْذِنُ فَرِيْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ:} ان میں سے کچھ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہہ کر اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت مانگی کہ ہمارے گھر بالکل غیر محفوظ ہیں اور ڈر ہے کہ کہیں بنو قریظہ حملہ کر کے ہمارے بچوں اور عورتوں کو ہلاک نہ کر دیں، یا چور لوٹ مار نہ کریں۔
➍ { وَ مَا هِيَ بِعَوْرَةٍ:} حالانکہ وہ کسی طرح غیر محفوظ نہیں تھے، کیونکہ مسلمانوں نے تمام عورتوں اور بچوں کو شہر کی مضبوط حویلیوں میں رکھ کر اور ناکے لگا کر محفوظ کر دیا تھا۔
➎ { اِنْ يُّرِيْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا:} یعنی ان کی اجازت مانگنے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے، بلکہ وہ کسی طرح میدانِ جنگ سے بھاگنا چاہتے ہیں۔
تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف
13-1یثرب اس پورے علاقے کا نام تھا، مدینہ اسی کا ایک حصہ تھا، جسے یہاں یثرب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا نام یثرب اس لیے پڑا کہ کسی زمانے میں عمالقہ میں سے کسی نے یہاں پڑاؤ کیا تھا جس کا نام یثرب بن عمیل تھا۔ 13-2یعنی مسلمانوں کے لشکر میں رہنا سخت خطرناک ہے، اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاؤ۔ 13-3یعنی بنو قریظہ کی طرف سے حملے کا خطرہ ہے یوں اہل خانہ کی جان مال اور آبرو کا خطرے میں ہے۔ 13-3یعنی جو خطرہ وہ ظاہر کر رہے ہیں، نہیں ہے وہ اس بہانے سے راہ فرار چاہتے ہیں۔
تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی
اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔
تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم
اس آیت کی تفسیر اگلی آیات کیساتھ ملاحظہ کریں۔