ترجمہ و تفسیر — سورۃ الأحزاب (33) — آیت 12
وَ اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اِلَّا غُرُوۡرًا ﴿۱۲﴾
ترجمہ عبدالسلام بن محمد بھٹوی
اور جب منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں کچھ بیماری ہے، کہتے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا دینے کے لیے وعدہ کیا تھا۔
ترجمہ فتح محمد جالندھری
اور جب منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے کہنے لگے کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکے کا وعدہ کیا تھا
ترجمہ محمد جوناگڑھی
اور اس وقت منافق اور وه لوگ جن کے دلوں میں (شک کا) روگ تھا کہنے لگے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ہم سے محض دھوکا فریب کا ہی وعده کیا تھا

تفسیر القرآن کریم از عبدالسلام بن محمد

(آیت 12) ➊ {وَ اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِيْنَ …: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا } سے لے کر آیت (۲۷) تک کی آیات غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنو قریظہ کے بعد نازل ہوئیں۔ ان میں دونوں جنگوں کا تذکرہ ہوا ہے۔ پچھلی آیت تک ایمان والوں کے خوف، آزمائش اور سخت جھنجوڑے جانے کا ذکر ہوا ہے، جس کے دوران ان کے دلوں میں طرح طرح کے گمان بھی آتے رہے، مگر ان کی زبان پر کفر یا مایوسی کا کوئی لفظ نہیں آیا۔ اب اس دوران منافقین کے رویے اور ان کی منافقانہ باتوں کا ذکر ہوتا ہے، جن سے ان کا نفاق کھل کر سب کے سامنے آگیا۔
➋ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ساتھ ان لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جن کے دلوں میں بیماری ہے۔ سوال یہ ہے کہ منافقین کے دلوں میں بھی تو بیماری ہے، جیسا کہ سورۂ بقرہ میں فرمایا: «{ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ [البقرۃ: ۱۰] ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے۔ تو یہاں منافقین کے بعد { الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ } سے کون لوگ مراد ہیں؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں منافقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو پکے منافق تھے، جیسے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی۔ ان کے متعلق جو سورۂ بقرہ میں { فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ } فرمایا ہے، وہاں { مَرَضٌ } کی تنوین تعظیم و تہویل کے لیے ہے، اس لیے وہاں مراد یہ ہے کہ ان کے دلوں میں ایک بھاری بیماری ہے۔ اس آیت میں { الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ } سے مراد وہ لوگ ہیں جو ابھی نفاق میں پختہ نہیں ہوئے تھے، بلکہ ان کے دلوں میں شک و شبہ اور نفاق کی کچھ بیماری تھی۔ گویا یہاں { مَرَضٌ } میں تنوین تنکیر و تبعیض کے لیے ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے: «{ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ [الحج: ۱۱] اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کی عبادت ایک کنارے پر کرتا ہے۔ غرض اس موقع پر صرف پکے ایمان والے ثابت قدم رہے۔ رہے منافقین یا ڈِھلمل یقین والے، تو ان سب کا نفاق کھل کر سامنے آ گیا۔
➌ { مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اِلَّا غُرُوْرًا:} جنگ خندق کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو کئی بشارتیں دی تھیں۔ خندق کھودنے کے دوران ایک چٹان جو کھدائی میں رکاوٹ بن گئی تھی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدال ماری تو وہ تین ضربوں میں تین ٹکڑے ہو گئی اور ہر ضرب پر اس سے ایک چمک نکلی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلی ضرب کے ساتھ مجھے کسریٰ کے شہر اور ان کے اردگرد کے شہر اور بہت سے شہر دکھائے گئے، جنھیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہاں موجود صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ! دعا کیجیے اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر فتح عطا فرمائے، ان کے گھر ہمیں بطور غنیمت عطا کرے اور ان کے شہر ہمارے ہاتھوں برباد کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کر دی اور فرمایا: پھر میں نے دوسری ضرب لگائی تو قیصر کے شہر اور ان کے اردگرد کی بستیاں میرے سامنے لائی گئیں، یہاں تک کہ میں نے انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ ہمیں ان پر فتح عطا فرمائے، ان کے گھر ہمیں بطور غنیمت عطا فرمائے اور ان کے شہر ہمارے ہاتھوں برباد کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کر دی اور فرمایا: پھر میں نے تیسری ضرب ماری تو حبشہ کے شہر اور ان کے اردگرد کی بستیاں میرے سامنے لائی گئیں، حتیٰ کہ میں نے انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حبشیوں کو اپنے حال پر رہنے دو جب تک وہ تمھیں تمھارے حال پر رہنے دیں اور ترکوں کو کچھ نہ کہو جب تک وہ تمھیں کچھ نہ کہیں۔ [نسائي، الجہاد، باب غزوۃ الترک والحبشۃ: ۳۱۷۸، و قال الألباني حسن]
جب مدینہ کو کفار نے ہر طرف سے گھیر لیا اور یہودیوں کی عہدشکنی کی وجہ سے مدینہ کے اندر سے بھی ہر وقت حملے کا خطرہ پیدا ہو گیا، تو اس وقت مسلمانوں کے لیے مزید پریشانی کا باعث یہ بات ہوئی کہ منافقین اور کچے ایمان والے لوگوں نے ایسی باتیں کہنا شروع کر دیں جن سے لوگوں کے حوصلے ٹوٹ جائیں اور بددلی پھیل جائے، مثلاً یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو ہمیں قیصرو کسریٰ کے شہر فتح ہونے کی بشارتیں سناتے تھے، جبکہ اب ہماری یہ حالت ہے کہ ہم قضائے حاجت کے لیے بھی باہر نہیں جا سکتے۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدے کیے تھے سب دھوکا تھے۔ دراصل منافقین کا خیال یہ تھا کہ بس ایمان کا دعویٰ کرنے کی دیر ہے، آسمان سے فرشتے اتریں گے اور انھیں فتح حاصل ہو جائے گی، انھیں انگلی تک نہیں ہلانا پڑے گی، حالانکہ ایمان کے بعد آزمائش تو اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، تاکہ کھرے کھوٹے الگ الگ ہو جائیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: بعض منافق کہنے لگے، پیغمبر کہتاہے کہ میرا دین پہنچے گا مشرق مغرب، یہاں جائے ضرور (قضائے حاجت) کو نہیں نکل سکتے۔ مسلمان کو چاہیے اب بھی نا امیدی کے وقت بے ایمانی کی باتیں نہ بولے۔

تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف

12-1یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کا وعدہ ایک فریب تھا۔ یہ تقریباً ستر منافقین تھے جن کی زبانوں پر وہ بات آگئی جو دلوں میں تھی۔

تيسير القرآن از مولانا عبدالرحمن کیلانی

اس آیت کے لیے تفسیر کیلانی دستیاب نہیں۔

تفسیر ابن کثیر مع تخریج و تحکیم

منافقوں کا فرار ٭٭
اس گھبراہٹ اور پریشانی کا حال بیان ہو رہا ہے جو جنگ احزاب کے موقعہ پر مسلمانوں کی تھی کہ باہر سے دشمن اپنی پوری قوت اور کافی لشکر سے گھیرا ڈالے کھڑا ہے۔ اندرون شہر میں بغاوت کی آگ بھڑکی ہوئی ہے یہودیوں نے دفعۃً صلح توڑ کر بے چینی کی باتیں بنا رہے ہیں کہہ رہے ہیں کہ بس اللہ کے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدے دیکھ لیے۔ کچھ لوگ ہیں جو ایک دوسرے کے کان میں صور پھونک رہے ہیں کہ میاں پاگل ہوئے ہو؟ دیکھ نہیں رہے دو گھڑی میں نقشہ پلٹنے والا ہے۔ بھاگ چلو لوٹو لوٹو واپس چلو۔
یثرب سے مراد مدینہ ہے۔ جیسے صحیح حدیث میں ہے کہ { مجھے خواب میں تمہاری ہجرت کی جگہ دکھائی گئی ہے۔ جو دو سنگلاخ میدانوں کے درمیان ہے پہلے تو میرا خیال ہوا تھا کہ یہ ہجر ہے لیکن نہیں وہ جگہ یثرب ہے }۔ ۱؎ [صحیح بخاری:3622]‏‏‏‏ اور روایت میں ہے کہ { وہ جگہ مدینہ ہے }۔
البتہ یہ خیال رہے کہ ایک ضعیف حدیث میں ہے { جو مدینے کو یثرب کہے وہ استغفار کر لے۔ مدینہ تو طابہ ہے، وہ طابہ ہے }۔ ۱؎ [مسند احمد:285/4:ضعیف]‏‏‏‏ یہ حدیث صرف مسند احمد میں ہے اور اس کی اسناد میں ضعف ہے۔
کہا گیا ہے کہ عمالیق میں سے جو شخص یہاں آ کر ٹھہرا تھا چونکہ اس کا نام یثرب بن عبید بن مہلا بیل بن عوص بن عملاق بن لاد بن آدم بن سام بن نوح تھا اس لیے اس شہر کو بھی اسی کے نام سے مشہور کیا گیا۔ یہ بھی قول ہے کہ تورات شریف میں اس کے گیارہ نام آئے ہیں۔ مدینہ، طابہ، جلیلہ، جابرہ، محبہ، محبوبہ، قاصمہ، مجبورہ، عدراد، مرحومہ۔
کعب احبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم تورات میں یہ عبادت پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ شریف سے فرمایا اے طیبہ اور اے طابہ اور اے مسکینہ خزانوں میں مبتلا نہ ہو تمام بستیوں پر تیرا درجہ بلند ہوگا۔
کچھ لوگ تو اس موقعۂ خندق پر کہنے لگے یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ٹھہرنے کی جگہ نہیں اپنے گھروں کو لوٹ چلو۔ بنو حارثہ کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھروں میں چوری ہونے کا خطرہ ہے وہ خالی پڑے ہیں ہمیں واپس جانے کی اجازت ملنی چاہیئے۔ اوس بن قینطی نے بھی یہی کہا تھا کہ ہمارے گھروں میں دشمن کے گھس جانے کا اندیشہ ہے ہمیں جانے کی اجازت دیجئیے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی بات بتلادی کہ ’ یہ تو ڈھونگ رچایا ہے حقیقت میں عذر کچھ بھی نہیں نامردی سے بھگوڑا پن دکھاتے ہیں۔ لڑائی سے جی چرا کر سرکنا چاہتے ہیں ‘۔

یہ صفحہ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل